1
0
Sunday 16 Mar 2014 23:25
آجتک ہماری جماعت نے جو کہا، اسپر عمل بھی کرکے دکھایا ہے

جی بی کے سیاسی منظرنامے میں ایم ڈبلیو ایم کا کردار انتہائی اہمیت کا حامل ہے، سعید الحسنین

جی بی کے سیاسی منظرنامے میں ایم ڈبلیو ایم کا کردار انتہائی اہمیت کا حامل ہے، سعید الحسنین
سعید الحسنین کا تعلق گلگت شہر کے علاقے ہسپتال کالونی سے ہے۔ آپ نے اپنے تنظیمی سفر کا آغاز آئی ایس او سے کیا اور گلگت ڈویژن کے صدرات کے علاوہ مرکزی نائب صدر کی حیثیت سے بھی اپنی خدمات سرانجام دیں۔ اپنے سیاسی سفر کا آغاز بلدیاتی انتخابات میں حصہ لیکر کیا اور اپنے علاقے سے بلدیہ گلگت کے ممبر منتخب ہوئے۔ آپکا شمار گلگت بلتستان کی نمایاں اور سینئر تنظیمی شخصیات میں ہوتا ہے۔ آپ اس وقت مجلس وحدت مسلمین گلگت ڈویژن کے ترجمان کی حیثیت سے فعالیت کر رہے ہیں۔ اسلام ٹائمز نے گلگت بلتستان کی سیاسی و مجموعی صورتحال کے حوالے سے ان سے ایک انٹریو کیا ہے، جو قارئین کیلئے پیش خدمت ہے۔

اسلام ٹائمز: مجلس وحدت مسلمین کی گلگت بلتستان میں تنظیمی فعالیت اور ابتک کارکردگی کے حوالے سے ہمارے قارئین کو آگاہ کریں؟

سعید الحسنین: مجلس وحدت مسلمین پاکستان گلگت بلتستان کا تنظیمی سفر گو اتنا طویل نہیں، جتنا کہ دوسری سیاسی و مذہبی جماعتوں کا ہے تاہم انتہائی قلیل عرصے میں اس تنظیم نے نمایاں کامیابیاں حاصل کیں اور روز بروز اس کی مقبولیت میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ مجلس وحدت مسلمین کی مقبولیت میں اضافے کی بنیادی وجہ وہ عوامی مسائل ہیں جنہیں آج تک کسی سیاسی و مذہبی جماعت نے ایڈریس نہیں کیا ہے اور ان عوامی مسائل کے حل کی خاطر گلگت بلتستان کے عوام کے سامنے کوئی قابل عمل فارمولا پیش نہیں کیا ہے۔ مجلس وحدت مسلمین وہ واحد جماعت ہے، جس نے اس علاقے میں بسنے والے عوام کے بنیادی انسانی حقوق کی خاطر آواز بلند کی ہے۔ یہی وہ جماعت ہے جس نے مسلک و فرقے سے بالاتر ہوکر پسماندہ اور استحصال زدہ عوام کے حقوق کی بات کی ہے۔ مجلس وحدت مسلمین پر عوام کے اعتماد کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ آج تک اس تنظیم نے جو کہا ہے اس پر عمل بھی کرکے دکھایا ہے۔
اسلام ٹائمز: گلگت میں منعقد ہونے والے دفاع وطن کنونشن میں علامہ راجہ ناصر عباس جعفری نے جی بی میں بھرپور سیاسی کردار ادا کرنے کا اعلان کیا ہے، اس حوالے سے ایم ڈبلیو ایم کی تیاریاں اور آنے والے انتخابات میں کس حد تک کامیابی کے امکانات دیکھ رہے ہیں؟
سعید الحسنین: یوم آزادی گلگت بلتستان کے موقع پر مجلس وحدت مسلمین کی قومی قیادت کی جانب سے علاقے میں بھرپور سیاسی کردار ادا کرنے کے اعلان نے ایک ہلچل مچا دی ہے اور گلگت بلتستان کی بیشتر سیاسی و مذہبی جماعتیں ہمیں اپنا حریف تصور کرنے لگی ہیں اور ہر سیاسی جماعت آنے والے الیکشن میں وحدت مسلمین کے امیدواروں سے مقابلے کی تیاری میں لگے ہوئے ہیں۔ آنے والے الیکشن میں اپنے امیدواروں کو میدان میں اتارنے اور فیصلہ کن نتائج حاصل کرنے کے سلسلے میں وحدت مسلمین پاکستان زیادہ فکر مند نہیں ہے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ الیکشن میں کامیابی یا ناکامی کا وحدت مسلمین کی صحت پر کوئی اثرات مرتب نہیں کرسکتا ہے۔ الیکشن میں جیت جائیں تو بھی کامیاب ہیں اور کہیں ہار جائیں تو بھی ہماری کامیابی ہے۔ یہ ایک نظریاتی جماعت ہے اور اس کے اہداف متعین اور واضح ہیں اور علاقے کے سیاسی منظرنامے میں ہماری جماعت کا کردار انتہائی اہمیت کا حامل ہے، جس کیلئے جماعت نے ہوم ورک مکمل کیا ہے۔ مجلس وحدت مسلمین عام سیاسی روایات سے ہٹ کر الیکشن مہم کا آغاز کرے گی اور آزمائے ہوئے مہروں کو دوبارہ میدان میں اتارنے سے گریز کرتے ہوئے نوجوان قیادت کو سامنے لانے کی کوشش کی جائے گی جس کے بہتر نتائج سامنے آئیں گے۔

اسلام ٹائمز: اسلامی تحریک پاکستان اور ایم ڈبلیو ایم کے ایک ساتھ انتخابات میں وارد ہونے سے گلگت بلتستان کا شیعہ مذہبی ووٹ بنک کیا تقسیم نہیں ہوگا اور کیا اسکا فائدہ براہ راست دیگر سیاسی جماعتوں کو نہیں پہنچے گا؟ کیا دونوں جماعتوں کا انتخابی اتحاد ممکن ہے؟

سعید الحسنین: مجلس وحدت مسلمین پاکستان کا فی الحال کسی سیاسی و مذہبی پارٹی سے اتحاد کا کوئی فیصلہ نہیں ہوا البتہ وحدت مسلمین پاکستان سے فکری طور پر ہم آہنگ جماعتوں سے اتحاد خارج از امکان نہیں ہے۔ تحریک اسلامی اور وحدت مسلمین کے علیحدہ الیکشن لڑنے سے شیعہ ووٹ تو ضرور تقسیم ہوگا لیکن نظریاتی ووٹ کے تقسیم ہونے کا احتمال بہت کم ہے۔ جہاں تک دونوں جماعتوں کے ایک ساتھ انتخابات میں وارد ہونے سے دوسری جماعتوں کو فائدہ یا نقصان پہنچنے کا تعلق ہے اس سلسلے میں عرض ہے کہ ہم کسی جماعت کو فائدہ یا نقصان پہنچانے کی غرض سے الیکشن میں وارد نہیں ہو رہے ہیں بلکہ ہمارے اپنے اہداف ہیں جن تک پہنچنے کیلئے جماعت بھرپور کوشش کرے گی۔ تحریک اسلامی کے ساتھ اتحاد کے سلسلے میں قومی قیادت اور علاقائی قیادت جو فیصلہ کرے گی اس پر عمل کیا جائیگا۔

اسلام ٹائمز:  آغا سید راحت حسین الحسینی کی واضح حمایت اور سرپرستی کے بغیر کیا کوئی بھی شیعہ مذہبی سیاسی جماعت گلگت ڈویژن میں موثر سیاسی کردار ادا کر سکے گی؟
سعید الحسنین: سید راحت حسین الحسینی علاقے کو ایک مدبرانہ قیادت فراہم کر رہے ہیں جو سب کیلئے محترم ہیں۔ یقیناً ان کی سرپرستی کسی بھی جماعت کو انتخابات میں فائدہ پہنچا سکتی ہے۔ مجلس وحدت مسلمین آغائے محترم کو گلگت بلتستان کی انتخابی سیاست میں دھکیل کر انکی کی شخصیت کو متنازعہ بنانے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتی ہے وہ اپنا شرعی فریضہ خوب پہچانتے ہیں اور اس پر عمل بھی کرتے ہیں۔

اسلام ٹائمز: گلگت بلتستان کے آئینی حقوق کے حوالے سے ایم ڈبلیو ایم کی کیا ترجیحات ہیں اور پیپلز پارٹی کے پانچ سالہ دور اقتدار کو آپ کس نگاہ سے دیکھتے ہیں؟

سعید الحسنین: گلگت بلتستان ہمارے آباء و اجداد نے ڈوگرہ راج سے آزاد کرایا ہے اور کچھ ہی دنوں بعد یہ آزاد علاقہ حکومت پاکستان کی تحویل میں چلا گیا اور مقبوضہ کشمیر کے مظلوم عوام کی خاطر اس علاقے کو بھی متنازعہ بنادیا گیا۔ تب سے گلگت بلتستان ایک متنازعہ خطہ کے طور پر دنیا میں متعارف ہے جہاں کے عوام اپنے بنیادی انسانی حقوق سے محروم چلے آرہے ہیں۔ پاکستان پیپلز پارٹی نے سپریم کورٹ پاکستان کے آرڈر 1999ء کی روشنی میں اس علاقے کی محرومیت کو ایک غیرآئینی پیکیج کے ذریعے کم کرنے کی ایک کوشش کی ہے، جو اس علاقے کے عوام کی تمام تر محرومیوں کا ازالہ نہیں کرسکتا ہے البتہ چونکہ یہ خطہ ۶۷ سالوں سے بنیادی آئینی حقوق سے محروم رہا ہے اور مملکت خداداد پاکستان کے ناعاقبت اندیش حکمرانوں کی عدم توجہی کی وجہ سے متنازعہ بنا ہوا ہے اس لیے بین الاقوامی معاہدوں کی روشنی میں اور علاقے کے عوام کے بہتر مفاد میں آئینی صوبہ یا کشمیر طرز کے سیٹ اپ کو اپنے منشور کا حصہ بنائینگے۔ اس سلسلے میں تنظیمی اداروں میں مباحثوں کا آغاز ہو چکا ہے اور حتمی فیصلہ دیگر جماعتوں کے قائدین، وکلاء، سیاستدانوں اور علماء سے بات چیت کے بعد کرینگے۔ رہی بات پانچ سالہ دور حکومت سے ہم بالکل مطمئن نہیں ہیں کیونکہ اس دور میں رشوت، اقرباء پروی اور میرٹ کی دھجیاں اڑائی گئی ہیں۔ انہوں نے عوام کے حقوق پر ڈاکہ ڈال کر اپنی حکومت کرلی ہے۔
خبر کا کوڈ : 362493
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

كاميابی اور ناكامی دونوں صورتوں ميں كوئی فرق نہیں كيا مطلب؟؟
ہماری پیشکش