0
Sunday 23 Mar 2014 17:24
ڈرون حملے ہمارے احتجاج کیوجہ سے بند ہوئے

حکومت واضح کرے کہ سعودی عرب نے امداد کیوں دی ہے، جاوید ہاشمی

جو طالبان امن کا موقع ضائع کریں، حکومت انہیں ضائع کر دے
حکومت واضح کرے کہ سعودی عرب نے امداد کیوں دی ہے، جاوید ہاشمی
مخدوم جاوید ہاشمی یکم جنوری 1948ء کو پیدا ہوئے۔ سینئر سیاست دان اور پاکستان تحریک انصاف کے مرکزی صدر ہیں۔ انہیں پی ٹی آئی کے الیکٹورل کالج نے مارچ 2013ء میں مرکزی صدر منتخب کیا۔ جاوید ہاشمی نے ایک طویل عرصہ مسلم لیگ نون میں گزارا، دو مرتبہ وفاقی کابینہ میں رہے، پہلی بار وفاقی وزیر صحت کا قلمدان ملا جبکہ دوسری بار وفاقی وزیر امور نوجوانان بنائے گئے۔ پرویز مشرف کی جانب سے شب خون مارے جانے کے بعد نواز شریف کو جلا وطن کر دیا گیا تو جاوید ہاشمی مسلم لیگ کے مرکزی صدر بن گئے۔ 1999ء سے 2002ء پارٹی کی قیادت سنبھالے رکھی۔ فوج کے خلاف متنازع بیان دینے پر انہیں گرفتار کرکے سنٹرل جیل راولپنڈی میں ڈال دیا گیا اور 4 اگست 2007ء میں رہا ہوئے۔ 2008ء کے الیکشن میں جاوید ہاشمی نے ریکارڈ 3 نشستوں پر کامیابی حاصل کی۔ ملتان میں شاہ محمود قریشی کو شکست دی۔ جاوید ہاشمی نے لاہور، ملتان اور راولپنڈی سے تینوں نشستیں جیتیں، راولپنڈی میں معروف سیاست دان شیخ رشید کو ناک آؤٹ کیا۔ 20 جولائی 2010ء میں برین ہیمرج ہوا اور ہسپتال داخل کرا دیئے گئے۔ صحت یاب ہونے پر اسٹینڈنگ کمیٹی برائے امور خارجہ کے چیئرمین بنا دیئے گئے۔ سیاسی ایشوز پر نواز شریف کیساتھ اختلافات ہونے پر انہوں نے اس عہدے سے استعفٰی دیدیا۔ بعدازاں پاکستان تحریک انصاف جوائن کر لی، آج کل مرکزی صدر ہیں۔ سینئر سیاست دان اور ملکی و غیر ملکی حالات پر گہری نظر رکھتے ہیں۔ اسلام ٹائمز کی ان کیساتھ ایک نشست ہوئی، جس کا احوال قارئین کیلئے پیش کیا جا رہا ہے۔ (ادارہ)
                                                                       

اسلام ٹائمز: حکومت نے طالبان کے ساتھ جو مذاکراتی فلم چلا رکھی ہے، آپ کیا سمجھتے ہیں اسکا انجام کیا ہوگا۔؟
جاوید ہاشمی: میاں نواز شریف نے عمران خان کو اعتماد میں لے کر یہ قدم اٹھایا ہے۔ گذشتہ دس برس کے دوران کئی آپریشن ہوچکے ہیں، جن کے مثبت نتائج برآمد نہیں ہوسکے۔ ہماری پارٹی کا موقف واضح کہ جو طالبان مذاکرات پر آمادہ ہیں، ان کے ساتھ بات چیت ضرور کی جائے۔ اس لئے کہ امن کو موقع ضرور ملنا چاہیئے۔ یہ صرف مذاکرات سے ہی ممکن ہے۔ مذاکرات دشمنوں سے کئے جاتے ہیں جبکہ اپنوں سے بات چیت کی جاتی ہے۔ دوستانہ انداز
میں گفتگو سے بہتر نتائج نکلتے ہیں۔ پہلے صرف حکومت معاہدے کرتی تھی، اب پہلی دفعہ مذاکرات کی بات کی جا رہی ہے۔ ہماری پارٹی خیبر پختونخوا میں مذاکرات کیلئے طالبان کو دفتر فراہم کرنے کے لئے تیار ہے۔ عمران خان سمجھتے ہیں کہ جو طالبان مذاکرات کے حق میں ہیں، انہیں بات چیت کا موقع دیا جائے۔ اس طرح کرنے سے فرق واضح ہوجائے گا کہ کون بات چیت کرنا چاہتا ہے اور کون بندوق کے زور پر اپنے مطالبات منوانا چاہتا ہے۔ آپریشن کسی مسئلے کا حل نہیں، اس سے تو ہم تمام مخالفین کو ایک کارنر پر جمع کر دیں گے۔ جب اچھے برے کی پہچان کئے بغیر آپریشن کیا جائے گا تو پھر وہ بندوق اٹھا لیں گے، اس سے پہلے مذاکرات کرکے دیکھ لیا جائے کہ کون مذاکرات کے حق میں ہے۔ جو طالبان امن کا موقع ضائع کریں، حکومت انہیں ضائع کر دے۔

اسلام ٹائمز: طالبان کے مطالبات ہیں کیا۔؟

جاوید ہاشمی: ابھی تو باقاعدہ مذاکرات شروع بھی نہیں ہوئے، مطالبات کہاں سے آگئے، مذاکرات سے پہلے ہی ٹی وی پر مطالبات کے حق اور مخالفت میں گفتگو میں شروع کر دی گئی، جس سے مذاکرات کا عمل متاثر ہوا اور اس طرح شکوک و شبہات نے جنم لیا۔ اصل میں امریکہ نواز عناصر مذاکرات کے حق میں نہیں۔ آپ نے دیکھا جب بھی مذاکرات شروع ہونے کی بات کی گئی یا جب بھی حکومت نے کوئی معاہدہ کیا، امریکی ڈرون حملے نے سب کچھ ملیا میٹ کرکے رکھ دیا۔ اب ہماری تحریک کے نتیجہ میں ڈرون حملے بند ہوگئے ہیں، البتہ مذاکرات کو سبوتاژ کرنے کی کوششیں ہو رہی ہیں۔ اصل میں جو جماعتیں این آر او کے ذریعے اقتدار میں آئی ہیں، انہوں نے امریکی خواہش کے مطابق یہ مسئلہ حل نہیں ہونے دیا۔ امریکی جنگ میں حصہ لینے پر ان میں بعض جماعتوں نے ڈالرز وصول کئے اور کچھ رعایتیں لیں۔ ایک پارٹی کے لوگ تو اپنے قائد پر 35 ملین ڈالر لینے کا الزام لگا رہے ہیں۔ ایک پارٹی کے قائد 20 برس سے برطانوی شہریت لئے بیٹھے ہیں۔ یہ سب تو آپریشن کی ضرورت کی پر زور دے رہے ہیں۔ ہم سب صرف مذاکرات کے حامی طالبان گروپوں سے بات چیت کے حق میں ہیں، جو گروپ مذاکرات نہیں کرنا چاہتے ہیں، ہم ان کے خلاف ایکشن لینے کے حق میں ہیں، اس میں کوئی شک نہیں کہ پاک فوج کی بے پناہ قربانیوں ہیں، اس لئے ہم فوج کو مضبوط اور مستحکم دیکھنا چاہتے ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ فوج کو اندرونی خلفشار میں نہ الجھایا جائے، بلکہ اسے مکمل طور پر ملکی سرحدوں کی حفاظت پر مامور کر دیا جائے۔ جو لوگ بھی فوج پر حملے کرتے ہیں وہ ملک کے خیر
خواہ نہیں ہوسکتے، اس لئے ہم ملک میں قیام امن کے لئے مذاکرات کی ضرورت پر زور دیتے ہیں۔

اسلام ٹائمز: کچھ حلقوں کا کہنا ہے جماعت اسلامی نے پی ٹی آئی کو یرغمال بنا رکھا ہے، میاں محمود الرشید، چوہدری اعجاز اور آپ جماعت اسلامی سے ہی وابستگی رکھتے ہیں۔؟

جاوید ہاشمی: (ہنستے ہوئے) میں اسلامی جمعیت طلبہ میں رہا ہوں۔ جہاں تک میاں محمود الرشید اور اعجاز چوہدری کی بات ہے تو وہ کسی زمانے میں جماعت اسلامی میں رہے ہیں، لیکن اب چونکہ وہ پی ٹی آئی جوائن کرچکے ہیں اور ہم تینوں کو خود عمران خان نے پی ٹی آئی میں آنے کی دعوت دی تھی، آپ کی یہ بات تب سچ ثابت ہوتی جب ہم تینوں لوگ خود پی ٹی آئی میں آتے کہ جی ہمیں بھی شامل کر لیں، ہم میں سے کوئی بھی خود چل کر نہیں آیا بلکہ عمران خان صاحب کی دعوت پر ہم لوگ پارٹی میں آئے ہیں، اور جو بندہ جس پارٹی میں ہو، اسی کا ہی ہونا چاہیے، یہ ایجنٹی زیادہ دیر چھپ نہیں سکتی اور کسی نہ کسی موقع پر آشکار ہوجاتی ہے۔ اگر ہم جماعت اسلامی کے ٹاسک پر آئے ہوتے تو اب تک ایکسپوز ہوچکے ہوتے۔ یہ الزام بے بنیاد ہے۔

اسلام ٹائمز: تھر میں سندھ حکومت کی نااہلی سے جو قحط پڑا اور ہلاکتیں ہوئیں، آپکی پارٹی کا کیا موقف ہے، بھوک سے تنگ لوگ نقل مکانی پر مجبور ہو رہے ہیں۔؟

جاوید ہاشمی: صرف تھر کا مسئلہ نہیں، کامیاب ہونے والے امیدواروں نے پورے سندھ میں مسائل پر توجہ نہیں دی۔ خشک سالی کا شکار یہ علاقہ حکمرانوں کی توجہ کا ہمیشہ سے منتظر رہا ہے۔ مگر سندھ کے وڈیروں نے ان غریب لوگوں کی حالت زار پر کبھی توجہ نہیں دی، ایک طرف پانی کی کمی کا مسئلہ شروع سے انہیں درپیش ہے، اس پر بھوک نے انہیں مار دیا۔ رہی سہی کسر وبائی امراض نے پوری کر دی ہے۔ حکمرانوں کے گوداموں پر پڑی گندم گل سڑ رہی ہے، مگر انہیں مستحق افراد تک نہیں پہنچایا گیا۔ اگر انہیں کھانے کے لئے روٹی میسر آجاتی تو یہ لوگ بیماری کا مقابلہ بھی کرسکتے تھے۔ ہم نے اس مسئلے کو سیاسی ایشو نہیں بنانا اور نہ ہی سستی شہرت حاصل کرنے کیلئے فوٹو سیشن کرانے تھر جانا ہے بلکہ عملی طور پر تھر کے مستحق افراد کی مدد کرنا چاہتے ہیں۔ ان کی صحت کے لئے ادویات، کھانے پینے کی اشیاء اور دوسرا سامان بھجوایا جا ر ہا ہے۔ ہماری پارٹی اور ہمارے کارکن ٹھوس بنیادوں پر کام کر رہے ہیں، تاکہ مستقل بنیادوں پر مسائل حل ہوسکیں، غفلت برتنے پر سندھ کے وزیروں کو ہی نہیں وزیراعلٰی کو بھی مستعفی ہوجانا چاہیئے۔ جنہوں نے سندھ فیسٹیول
پر تو کروڑوں روپے لگا دیئے مگر تھر کے عوام پر توجہ نہیں دی۔

اسلام ٹائمز: آخر ملکی مسائل کا ذمہ دار کون ہے، 66 سال میں بھی ایسی قیادت پاکسان کو میسر نہیں آئی، جو اسے مسائل کے گرداب سے نکال سکے۔؟

جاوید ہاشمی: اس ملک کی بدقسمتی کہہ لیں کہ قائداعظم محمد علی جناح کی رحلت کے بعد اس ملک میں ایسی مخلص قیادت نہیں آئی، جو اس کا درد سمجھتی ہو۔ سب نے اپنا حصہ بقدر جثہ وصول کیا اور اپنی اپنی راہ لی۔ میں نے ایک طالب علم کی حیثیت سے 45 برس قبل اپنے سیاسی سفر کا آغاز کیا تھا، اس وقت سے عملی سیاست سے منسلک ہوں۔ اس لئے اپنے تجربے کی بنیاد پر کہہ سکتا ہوں کہ اس ملک پر کئی سیاستدانوں کی حکمرانی رہی، جن میں پی پی کے بانی ذوالفقار علی بھٹو جو منشور لے کر آئے، انہوں نے ہی اسے نظرانداز کر دیا۔ یہاں جس نے جو پارٹی بنائی اپنے ہاتھوں سے اسے ختم کر دیا۔ اسی طرح جیسے آج مسلم لیگ کا حال ہے، قیادت کے فقدان کے سبب یہ مختلف حصوں میں بٹ چکی ہے، ضیاءالحق کا آمرانہ دور تھا، مگر جونیجو کی حکومت بہتر تھی، ضیاء نے جونیجو حکومت بنائی، پھر اپنے ہی ہاتھوں سے ختم کر دی، ہمارے ہاں سیاسی جماعتوں میں بھی آمریت قائم ہے۔ پاکستانی سیاست پر شوگر مافیا کا قبضہ ہے۔ جو جب چاہتا ہے چینی مہنگی کر دیتا ہے۔ آج عوام ملک لوٹنے والوں کے رحم و کرم پر ہیں، اب تو یہ حال ہے کہ اپوزیشن بھی جعلی بنتی ہے، حکمران بندر بانٹ کی طرح اپوزیشن کے ساتھ معاملات طے کر لیتے ہیں۔ یہاں تک کہ اقتدار کے لئے بھی باریاں بانٹ رکھی ہیں۔ جس سے ملک کو نقصان پہنچ رہا ہے، حقیقی اپوزیشن ہی حکمرانوں کو سیدھے راستے پر چلنے کے لئے مجبور کرتی ہے، ہمارے ہاں فرینڈلی اپوزیشن کا نظام قائم ہوچکا ہے۔

اسلام ٹائمز: ہمارے ہاں غداری کا ٹائٹل بہت سستا ہے، جسکو مرضی غدار کہہ دیا جاتا ہے، ملک میں وراثتی سیاست نے ملک کو کمزور کر دیا ہے۔؟

جاوید ہاشمی: بدقسمتی سے یہ فیشن بن چکا ہے کہ ہم سیاسی جماعتوں پر غداری کا الزام لگا دیتے ہیں۔ حقیقت میں جماعت اسلامی کے حوالے سے ایک موقع بھی نہیں آیا کہ وہ امریکہ کی حامی رہی ہو، لیکن جماعت اسلامی نے پاکسان کی سیاست کی بات نہیں کی بلکہ اسلامی ممالک کی بات کی۔ اسی طرح اے این پی کو کانگریس کا دوسرا حصہ کہا جاتا رہا، لیکن آہستہ آہستہ اے این پی حقائق کی طرف آرہی ہے کہ پاکستان سے محبت ہی ان کی سیاست ہے۔ ان پر غداری کا الزام پہلے بھی غلط تھا اور آج بھی۔ جس طرح دہشت گردی کے خلاف اے این پی نے قربانیاں
دی ہیں، انہیں کوئی نہیں جھٹلا سکتا۔ اے این پی کے رہنما بشیر بلور میرے ہیرو ہیں، جنہوں نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں شہادت پائی، اسی طرح میاں افتخار جسیا کون لیڈر ہوگا، جنہوں نے قربانیاں دیں۔ جب پاکستان بن گیا تو غفار خان نے پاکستان جھنڈے کو سلیوٹ کیا اور قائد اعظم کو دعوت دی، دراصل ہم جس آدمی کو گرانا چاہتے ہیں، اسکو غدار وطن کہہ دیتے ہیں۔

ولی خان، شیخ مجیب کے پاس گئے تھے اور کہا تھا کہ پاکستان ایک رہنا چاہیئے تو شیخ مجیب الرحمان نے کہا تھا کہ ولی خان مجھے بتا رہے ہو، جو سے ڈھاکہ سے دہلی تک سائیکل پر سفر کیا ہے، مجھے پاکستان سے محبت سکھاؤ گے۔ انہوں نے ولی خان کو کہا تھا کہ جو طاقتیں ملک توڑ رہی ہیں ان کو روکو، آج شیخ مجیب الرحمان کو کون کہے گا کہ وہ محب وطن تھا، اور اصل میں ملک توڑنے والی طاقتیں کوئی اور تھیں، اور الزام کسی اور پر لگا دیا گیا۔ اسی طرح مشرقی پاکستان الگ ہوا تو سردار عطاءاللہ مینگل نے کہا تھا کہ بلوچستان کا نام پاکستان رکھیں۔ جو سیاست میں آگے نہیں بڑھ سکتے، انہوں نے غداروں کی فیکٹریاں لگا رکھی ہیں، جو محب وطنوں پر غداری کے الزامات لگا دیتے ہیں۔ مینگل نے کہا تھا کہ کہ ضیاءالحق نے جونیجو کی حکومت قائم کی، تو مجھے بلایا اور کہا کہ میں نے مسلم لیگ بنائی ہے، جس کے جونیجو وزیراعظم ہوں گے اور میں چاہتا ہوں تم پہلی کابینہ میں سپیکر بن جاؤ، تو میں نے ضیاءالحق کو کہا کہ میں آپ کا احترام کرتا ہوں اور مشورہ دیتا ہوں کہ آپ نے اسمبلی بنا دی ہے، اب آپ الگ ہوجائیں تو آپ کا کردار جمہوریت کی بحال کرنے والا ہوگا، ہم اپوزیشن بناتے ہیں، ایسا اقدام تاریخ میں آپ کا نام ہمیشہ کیلئے روشن کر دے گا اور اگر آپ کو اقتدار کا شوق ہے تو یہ اقتدار چلے گا نہیں۔ بھٹو دس سال ایوب خان کیساتھ رہے، انہیں کوئی اعتراض نہیں تھا، بھٹو دراصل عوام کی طاقت کو سمجھتے تھے، لیکن وہ دو چیزوں کو تحفظ کرنے والے تھے، فیوڈل ازم کے محافظ تھے، اب صورت حال اور ہے، اب وراثتی سیاست کا دور ہے۔ سیاست دان اپنے بچوں کو آگے لا رہے ہیں۔

اسلام ٹائمز: نواز لیگ بجلی کی لوڈشیڈنگ کے حاتمہ کا نعرہ لگا کر اقتدار میں آئی، لیکن تاحال بجلی بحران قابو نہیں ہوسکا۔؟

جاوید ہاشمی: بجلی کی لوڈشیڈنگ نے عوام کو پریشان کر رکھا ہے، دوسری جانب بجلی کے بلوں میں بھی بے تحاشا اضافہ ہوگیا ہے۔ مسلم لیگ نون عوام سے کئے گئے سب وعدے فراموش کر بیٹھی ہے۔ انہوں نے لوڈشیڈنگ کے خاتمہ کا فریب دے
کر ووٹ بٹورے تھے، لیکن اب ان کے ووٹر پچھتا رہے ہیں۔ عوام کو جھوٹی تسلیاں دی جا رہی ہیں۔ حکمران خود بیرونی دوروں پر کشکول اٹھائے پھر رہے ہیں، شہباز شریف وفاق کے معاملات چلا رہے ہیں، حمزہ شہباز کو وزیراعلٰی پنجاب بنا رکھا ہے، اس طرح تو مسائل حل نہیں ہوتے۔

اسلام ٹائمز: پاک ایران گیس منصوبہ بھی تو ہمارے اس مسئلے کے حل میں کردار ادا کرسکتا تھا۔؟

جاوید ہاشمی: وہ منصوبہ تو اچھا تھا، اگر اس پر عمل ہو جاتا تو، ہم کافی حد تک اس بحران سے نکل آتے، لیکن ایران پر چونکہ اقتصادی پابندیاں ہیں، اس لئے حکومت کے لئے اس منصوبے پر عمل کرنا مشکل ہے، یہ پیپلز پارٹی کی حکومت نواز لیگ کے لئے ایک عذاب تیار کرکے گئی تھی، انہیں بھی پتہ تھا کہ یہ قابل عمل منصوبہ نہیں، لیکن انہوں نے عجلت میں اسے سائن کر دیا اور صرف اس لئے سائن کیا گیا کہ ہماری حکومت تو ختم ہو رہی ہے، آنے والا دور نواز لیگ کا ہوگا تو نواز لیگ پریشان رہے گی۔ امریکی دباؤ بھی ہوگا اور عوامی دباؤ بھی، عوام کہیں گے منصوبہ مکمل کرو، امریکہ کہے گا نہ کرو، تو حکومت تذبذب کا شکار رہے گی، یہ زرداری صاحب نے ایک چال چلی تھی اور اس میں کافی حد تک کامیاب بھی رہے۔

اسلام ٹائمز: سعودی عرب نے جو رقم دی ہے اور ڈالر نیچے آیا ہے، نواز لیگ تو بغلیں بجا رہی ہے، آپ کیا کہیں گے۔؟

جاوید ہاشمی: اسحق ڈار کے پاس جادو کی چھڑی تو ہے نہیں کہ وہ راتوں رات معیشت کو ترقی دے دیں گے، لیکن جہاں تک بیرونی امداد کا تعلق ہے تو حکومت کو واضح کرنا ہوگا کہ یہ کس مد میں دی گئی ہے، کچھ حلقے کہہ رہے ہیں کہ شام میں مداخلت کے لئے یہ عوضانہ ملا ہے، لیکن اگر حکومت عرب ملکوں کے اندرونی معاملات میں مداخلت کرتی ہے تو اس کے نتائج انتہائی بھیانک ہوں گے، ہمارے اپنے ملک کے اندر حالات خراب ہوجائیں گے، اگر اب طالبان کیساتھ مذاکرات سے امن قائم ہو رہا ہے تو امن ہونے دیا جائے، حکومت نے عربوں کے ممالک میں مداخلت کی تو حالات خراب ہوجائیں گے، کیونکہ عرب ملکوں میں برسوں سے قائم بادشاہتیں اب ختم ہو رہی ہیں، عوام کا شعور بیدار ہو رہا ہے، خود سعودی عرب کا تخت بھی ہل رہا ہے، تو اس حوالے سے حکومت صرف پیسوں کے لالچ میں مداخلت نہ کرے، ہم امریکی جنگ سے نکل کر عربی جنگ میں نہ پھنس جائیں اور آسمان سے گرا کھجور میں اٹکا والی صورت حال نہ ہو جائے۔ اس کے علاوہ حکومت واضح کرے کہ سعودی عرب نے یہ امداد کیوں دی ہے، اس کے عوض ہماری کیا خدمات لی جائیں گی۔
خبر کا کوڈ : 364936
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش