2
0
Sunday 30 Mar 2014 20:49

مجرمین کیساتھ مذاکرات کرنے سے دنیا بھر کے ظالموں کو شہہ ملے گی، منیر آغا

حکومت طالبان سے پاراچنار سمیت ملک بھر کے ہزاروں بےگناہ قیدیوں کی بھی بات کرے
مجرمین کیساتھ مذاکرات کرنے سے دنیا بھر کے ظالموں کو شہہ ملے گی، منیر آغا
مولانا منیر حسین کا تعلق کرم ایجنسی کے سرحدی علاقے للمئے سے ہے، مدرسہ جعفریہ میں شہید عارف حسینی اور علامہ عابد حسینی سے کسب فیض کرنے کے بعد 1988ء میں اعلٰی تعلیم کے لئے قم چلے گئے، چند سال قم میں رہ کر اپنی تعلیم مکمل کرنے کے بعد اپنے علاقے میں دینی خدمات کی انجام دہی کی غرض سے واپس آ گئے، ابتداء ہی سے تحریک حسینی اور علامہ عابد حسینی کے ساتھ نظریاتی وابستگی رہی، جون 2012ء میں تحریک حسینی کے صدر بنے، موصوف ایک جاذب اور غیر متنازعہ قسم کی شخصیت کے مالک ہیں، سیاسی طور پر تمام فریق انہیں قبول کرتے ہیں۔ تحریک حسینی کی پالیسی اور کرم ایجنسی کی موجودہ صورتحال کے حوالے سے انکا انٹرویو قارئین کی خدمت میں پیش کیا جا رہا ہے۔

اسلام ٹائمز: مولانا صاحب یہ بتائیں کہ تحریک حسینی ایک علاقائی تنظیم ہے یا ایک قومی جماعت کی حیثیت سے اسکی شاخیں پاکستان بھر میں موجود ہیں؟

مولانا منیر حسین: یہ تو ایک طولانی تاریخ ہے، اصل میں یہ قومی سطح پر پہلے سے موجود تحریک جعفریہ کی ایک علاقائی برانچ تھی، لیکن دوسرے علاقوں سے ہٹ کر یہ مقامی سطح پر کافی مضبوط تھی، علاقائی مسائل کے لئے پہلے سے یہ فعال تھی، لیکن قائد شہید کی شہادت کے بعد جب تحریک جعفریہ ملکی سطح پر ماند پڑ گئی تو یہاں علاقائی سطح پر اسکو تحریک حسینی کے نام سے علامہ عابد حسینی کی سرپرستی میں کچھ مزید فعال کردیا گیا، چنانچہ اس وقت یہ ایک طرح سے علاقائی جماعت ہے۔ 

اسلام ٹائمز۔ تحریک حسینی کا نصب العین کیا ہے؟
مولانا منیر حسین: دین حق کی تبلیغ و ترویج، مذہبی اور قومی حقوق کا حصول، علاقائی ترقی کے لئے جدوجہد، قومی اتفاق و اتحاد کی کوشش کرنا، قومی اور علاقائی مسائل کے حل کی کوشش اور مقامی قومی اور مذہبی تنظیموں سے مل کر مسائل کے حل کی کوشش کرنا ہمارا نصب العین ہے۔ 

اسلام ٹائمز: کرم ایجنسی میں اہل تشیع کے مابین کافی اختلافات پائے جاتے ہیں، کیا آپ نے کبھی اپنے نصب العین کو مدنظر رکھ کر اتحاد کے لئے کوئی کوشش کی ہے؟َ
مولانا منیر حسین: بندہ کی صدارت کو دو سال پورے ہو رہے ہیں۔ میں نے ایک بار نہیں، بار بار بااثر ایک ایک فرد کے گھر جا کر کوشش کی ہے۔ جس کا وعدہ میں نے لوگوں سے عہدہ صدارت سنبھالتے ہی کیا تھا۔ ابتداء میں لوگوں نے اس حوالے سے یقین دہانی بھی کرائی تھی، تاہم وقت گزرنے کے ساتھ میری کوششیں پوری طرح بار آور ثابت نہ ہو سکیں، تاہم بندہ پھر بھی مایوس نہیں ہوں۔ اپنی کوششیں جاری رکھوں گا۔

اسلام ٹائمز: تحریک حسینی کے پلیٹ فارم سے آپ علاقے میں کیا کیا خدمات انجام دے رہے ہیں؟
مولانا منیرحسین: تحریک حسینی کے پلیٹ فارم سے ہمارے پراجیکٹس کی تعداد کافی طویل ہے، تفصیلات درکار ہوں تو ہر شعبے کے لئے ہمارا اپنا دفتر اور مسئول ہے، متعلقہ مسئول سے آپ تفصیلات معلوم کرسکتے ہیں۔ تاہم مختصرا عرض کردیتے ہیں کہ اس وقت ہم سینکڑوں کی تعداد میں شہداء کے بچوں اور یتیموں کی کفالت کر رہے ہیں۔ کرم ٹیکنیکل انسٹی ٹیوٹ کے نام سے ایک ٹیکنیکل ادارہ چلا رہے ہیں۔ حادثات میں زخمی ہونے والوں کا مکمل علاج ہمارا متعلقہ شعبہ ہی انجام دے رہا ہے۔ مکتبہ باقر العلوم کے نام سے کرم ایجنسی کا سب سے بڑا کتابخانہ بھی فعال ہے۔ جس میں لاکھوں روپے کی کتابیں پہلے سے موجود ہیں جبکہ پچاس لاکھ سے زیادہ لاگت کی مزید کتابیں رکھی جائیں گی۔ تحریک حسینی کا سیاسی سیل بھی باقاعدگی سے فعال ہے، جو لوگوں کے ساتھ کچہری کی سطح پر تعاون کر رہا ہے، جیل، جرمانہ اور حکومت کے ساتھ دیگر مسائل میں حکومت میں عوام کی نمائندگی کر رہی ہے۔ اسکے علاوہ قومی حقوق کے لئے تگ و دو کرنا تحریک کا ایک اہم ٹارگٹ ہے۔

اسلام ٹائمز: آپ نے بتایا کہ شہداء اور یتیموں کی مدد بھی کی جا رہی ہے، کیا تفصیل سے بتا سکیں گے کہ اس پلیٹ فارم سے آپ کتنے شہداء کے خانوادوں اور دیگر یتموں کی کفالت کر رہے ہیں؟
مولانا منیرحسین: الحمدللہ اس پلیٹ فارم سے 806 یتیم غریب بچوں کے ساتھ ماہوار تقریبا 1560 روپے جبکہ 200 شہداء کے بچوں کو فی شہید  4500 روہے ماہوار دیئے جا رہے ہیں۔ جسکی ماہوار کل مالیت 900000 روہے بنتی ہے۔ اسکے علاوہ 125 سیریس مجروحین جو کام کے قابل نہیں رہے ہیں۔ اس پلیٹ فارم سے فی کس 3500 روپے ماہوار کمک مل رہی ہے، مذکورہ بالا تمام افراد کے لئے علیحدہ علیحدہ فارم بنائے گئے ہیں اور یہ تمام تر حساب مولانا گلفام حسین کے پاس محفوظ ہے، کوئی تحقیق کرنا چاہے تو ایک ایک فرد کا مکمل ڈیٹا انکے پاس محفوظ ہے۔ تاہم یہ کمک ماہوار طریقے سے نہیں بلکہ تین یا کبھی چار، پانچ یا چھ ماہ بعد جیسے ہی ڈونیشن ہو جاتی ہے، مسئولین فوری طور پر مستحقین کو لیٹر کرتے ہیں اور رقم فوری طور پر تقسیم کر دیتے ہیں، میرے خیال میں مستحقین کو ماہوار تقریبا 22 لاکھ روپے کمک ملتی ہے۔ اور یہ کمک 2007ء سے شروع ہے۔ آج تک کُل 16 کروڑ کے لگ بھگ رقم مستحقین میں تقسیم ہو چکی ہے۔

اسلام ٹائمز: ماشاءاللہ آپ اتنی کم عمر میں اتنی بڑی خدمات انجام دے رہے ہیں؟ اس سلسلے میں کوئی شخصیت یا تنظیم آپ کے ساتھ سیاسی یا اخلاقی کمک کر رہی ہے؟
مولانا منیرحسین: معذرت چاہتا ہوں، بندہ اتنا بڑا نہیں ہوں۔ یہ سب کچھ اللہ تعالی کے فضل و کرم اور ہمارے استاد محترم علامہ سید عابد حسین الحسینی جو کہ تحریک حسینی کے سرپرست اعلٰی بھی ہیں، کی مہربانی اور کمک سے ہو رہا ہے۔ ہم تو فقط ایک ذریعہ بنے ہوئے ہیں۔ عوام میں ہم ڈائریکٹ وارد ہوکر گویا ایک طرح سے آغائے حسینی کی نمائندگی کر رہے ہیں۔ ہمارے جو ڈونرز ہیں ان سب کا ڈائریکٹ تعلق آغا صاحب کے ساتھ ہے جبکہ ہم آغا صاحب اور عوام کے درمیان واسطہ بنے ہوئے ہیں۔ میں سب سے پہلے اللہ تعالی تعالی شکر ادا کرتا ہوں کہ جس نے اس عظیم مقصد کے لئے بندہ کا انتخاب کیا ہے، نیز اپنے استاد بزرگوار کا بھی ممنون ہوں۔ جنہوں نے اس سلسلے میں ہم پر اعتماد کیا۔

اسلام ٹائمز: الیکشن کے بعد علاقے میں پیدا ہونے والے اختلافات کو ختم کرانے میں آپ نے اپنی طرف سے کوئی کوشش کی ہے؟ یا آپ خود بھی انکا حصہ رہے ہیں؟
مولانا منیرحسین: اپنے استاد بزرگوار کے مشورے اور حکم سے ہم نے الیکشن کی ابتداء ہی سے خود کو اس سیاست سے علیحدہ رکھا، جبکہ الیکشن کے بعد ہم نے اور آغا صاحب دونوں نے ملکر کوششیں  کیں، لیکن مسئلہ یہ تھا کہ قبائلی روایات کے مطابق فریقین کے مابین مصالحت یا فیصلہ کرانے کے لئے ضروری ہے کہ دونوں فریق ثالث کو اختیار کلی دیں جبکہ ہمیں اختیار کلی ملنا کافی مشکل تھا۔ اسکی بھی وجوہات ہیں جسے میں میڈیا پر لانا پسند نہیں کرتا۔ تاہم اب بھی اگر دونوں فریق اعتماد کریں، اور اختیار کلی دیں تو ہم بلا تردد یہ خدمت انجام دینے کو تیار ہیں۔ 

اسلام ٹائمز: ملکی سطح پر حکومت اور طالبان کے درمیان مذاکرات کے حوالے سے آپ کا اور آپ کی تنظیم کا کیا موقف ہے؟
مولانا منیر حسین: ہماری حکومت اس وقت جمہوری نہیں بلکہ ایک قسم کی مارشل لائی کردار ادا کر رہی ہے۔ اس نے نہ پارلیمنٹ کو اعتماد میں لیا ہے نہ کسی تنظیم کو۔ صرف طالبان نواز افراد کے کہنے پر یہ سب کچھ ہو رہا ہے۔ اس حوالے سے ہم سمیت پورے ملک میں موجود شیعوں کے تحفظات دور نہیں کئے گئے۔ بریلویوں اور دیگر اہم مسلکوں کے تحفظات کو دور نہیں کیا گیا۔ علاقائی سطح پر ایسے مذاکرات کو سراسر مسترد کرتے ہیں۔ 

اسلام ٹائمز: آپ کے خدشات، تحفظات اور مطالبات کیا ہیں؟
مولانا منیر حسین: دیکھیں ایک تو یہ کہ انسانیت کے اتنے بڑے مجرمین کے ساتھ مذاکرات کرنا ہی ایک طرح کا جرم ہے کیونکہ اس سے ان ظالموں کے علاوہ دنیا بھر میں مجرموں کو شہہ ملی گی کہ جرم کرو اور اتنا کرو کہ بالآخر سرکار گھٹنے ٹیک دے۔ دوم یہ کہ طالبان کے ساتھ جو مذاکرات ہو رہے ہیں حکومت خود اپنی خیر مانگ رہی ہے یا وہ ملک کے شہریوں کے تحفظ کی ضمانت بھی لے گی۔ ملک بھر میں کتنے لوگ طالبان کی خود ساختہ جیلوں میں ہیں۔ بعض کو تو پہلے ہی قتل کردیا گیا ہے تاہم جو زندہ ہیں ان پر انہوں نے لاکھوں بلکہ کروڑوں روپے کی ڈیمانڈ رکھی ہے۔ جس میں کرم ایجنسی کے بھی چار پانج افراد ہیں، جن میں سے دو معصوم بچے بھی ہیں۔ کیا حکومت کو انکا بھی کچھ خیال ہے۔ ہمارا مطالبہ ہے کہ حکومت مذاکرات کرتی ہے تو ان اور ان جیسے سینکڑوں قیدیوں کو بھی ظالمان کی قید سے رہا کرے۔
اسلام ٹائمز: اتفاق و اتحاد کے حوالے سے علاقے کے عوام کو کیا پیغام دینا پسند کریں گے؟
مولانا منیرحسین: یہاں کی عوام کی اکثریت الحمدللہ تعلیم یافتہ ہے، 4 نومبر کا معاہدہ خود پڑھیں، اس میں کوئی ایسی متنازعہ بات نہیں، بعض لوگ خواہ مخواہ اسے اچھال کر اختلافات پیدا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، ان سے ہماری گزارش ہے کہ معمولی مسئلے کےلئے اپنی عاقبت خراب نہ کریں۔ انجمن کی تشکیل اگر قومی سطح پر ہو جائے تو اس میں کیا قباحت ہے۔ بلکہ اس سے تو مرکز مزید مضبوط ہو جائے گا۔ فعال اور اچھے بندے آ کر قومی مسائل حل کرنے میں معاون ثابت ہونگے۔ تو ہم عوام خصوصاً تعلیم یافتہ طبقے سے گزارش کرتے ہیں کہ وہ مثبت سوچ لے کر اپنے علاقے میں لوگوں کی منفی سوچ کو تبدیل کریں۔
خبر کا کوڈ : 367208
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

Pakistan
ماشاءاللہ منیر آغا، ہمیں اور کسی کرمیوال کو تو آج تک یہ معلوم نہ تھا کہ تحریک حسینی اتنی بڑی کمک کر رہا ہے۔
بہت بہت شکریہ خدا مزید آپ لوگوں کو توفیق دے۔
nice. good.
ہماری پیشکش