0
Sunday 6 Apr 2014 20:13
پاکستانی آئین قرآن و سنت کے مطابق ہے

مانگے تانگے کے پیسے سے معیشت نہیں سنبھلا کرتی، منور حسن

مانگے تانگے کے پیسے سے معیشت نہیں سنبھلا کرتی، منور حسن
جماعت اسلامی کے امیر سید منور حسن کے بارے میں بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ وہ کمیونسٹ نظریات کی حامل طلبہ تنظیم نیشنل اسٹوڈنٹس فیڈریشن سے وابستہ رہے اور 1959ء میں اس کے صدر بھی منتخب ہوئے۔ 5 اگست 1941ء کو بھارت کے شہر دہلی میں پیدا ہونیوالے سید منور حسن تقسیم پاک و ہند کے وقت 1947ء میں پاکستان ہجرت کر کے آئے اور ان کا خاندان کراچی میں ہی رہائش پذیر ہو گیا۔ سید منور حسن کی زندگی میں تبدیلی اس وقت آئی جب وہ 1959ء کے اواخر اور 1960ء کے اوائل میں اسلامی جمعیت طلباء پاکستان کے قریب ہوئے اور جماعت اسلامی کے بانی مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی کی تصنیفات سے استفادہ کیا۔ سید منور حسن نے 1963ء میں کراچی یونیورسٹی سے سوشیالوجی اور 1966ء میں اسی یونیورسٹی سے اسلامیات میں ماسٹر ڈگری حاصل کی۔ سید منور حسن 1964ء میں اسلامی جمعیت طلباء پاکستان کے مرکزی صدر بھی رہے۔ 1967ء میں جماعت اسلامی کے ممبر منتخب کیے گئے۔ وہ جماعت کے مختلف عہدوں کے علاوہ مرکزی شوریٰ اور ایگزیکٹو کونسل کے ممبر کے طور پر فرائض سرانجام دیتے رہے۔1977ء میں انہوں نے قومی اسمبلی کی نشست کیلئے انتخابات میں حصہ لیا اور ملک بھر میں سب سے زیادہ ووٹ حاصل کیے۔ 1993ء میں جماعت اسلامی کے سیکرٹری جنرل منتخب کیے گئے۔ وہ متعدد انٹرنیشنل کانفرنسز میں شرکت کی غرض سے اب تک امریکا، کینیڈا، برطانیہ ،وسطی ایشیا، مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقہ سمیت دیگر ممالک کے دورے کر چکے ہیں۔ سید منور حسن 2009ء میں چیمپئن اور کرکٹ و ٹیبل ٹینس کے اچھے کھلاڑی رہے۔ نسیم حجازی کے ناولوں اور اے آر خاتون کی تحریروں کے علاوہ سید منور حسن حبیب جالب، علامہ محمد اقبال اور فیض احمد فیض کے کلام کے مداح ہیں۔ جماعت اسلامی کی امارت سے چند روز میں الگ ہونے والے ہیں۔ اسلام ٹائمز نے لاہور میں ان کے ساتھ مختصر نشست کی جس کا احوال قارئین کے لئے پیش کیا جا رہا ہے۔ (ادارہ)
                                                   
                   
اسلام ٹائمز:طالبان کے ساتھ مذاکرات کا سلسلہ جاری ہے، آپ کی بھی خواہش تھی کہ مذاکرات ہونے چاہیئیں لیکن ہر بار کوئی واردات ہو جاتی ہے، آپ کیا سمجھتے ہیں اس بار مذاکراتی عمل کامیاب ہو جائے گا؟
سید منور حسن: نواز لیگ کے اقتدار میں آنے کے بعد یہ توقع کی جا رہی تھی کہ نواز شریف اپنے انتخابی وعدوں کے مطابق ملک کو امریکہ کی جنگ سے باہر لائیں گے اگرچہ ایک عرصے تک حکومت نے خاموشی اختیار کئے رکھی جب دباؤ بڑھا تو وزیراعظم نے آل پارٹیز کانفرنس بلائی جس میں تمام پارٹیوں نے دہشت گردی سے نجات کے لئے مذاکرات کو ہی لائحہ حل قرار دیا، جس پر حکومت نے طالبان کیساتھ مذاکرات کا سلسلہ شروع کیا۔ اس کے بعد وزیراعظم نے قومی اسمبلی میں امن کو آخری موقع دینے کے لئے مذاکرات کا اعلان کیا۔ چنانچہ حکومت اور طالبان کی طرف سے مذاکراتی ٹیمیں تشکیل دیدی گئیں اس دوران ٹیموں کے درمیان ملاقاتیں ہوئیں دونوں اطراف سے خیر سگالی کے جذبات کا اظہار بھی ہوا مگر بعد میں ناخوشگوار واقعات کی وجہ سے مذاکرات کا سلسلہ رک گیا اب حکومت نے قومی سلامتی پالیسی کا اعلان کیا ہے جس میں بیک وقت مذاکرات اور آپریشن کی بات کی گئی ہے ۔ ہم سمجھتے ہیں کہ دہشت گردی کا سدباب اس وقت تک ممکن نہیں جب تک دوسرا سرا ہاتھ نہ آئے جب تک امریکہ خطے میں موجود ہے اور ہم اس کی نام نہاد دہشت گردی کے خلاف جنگ سے علیحدگی اختیار نہیں کر لیتے صحیح معنوں میں پالیسی کارگر ثابت نہیں ہو گی۔ سنجیدہ حلقے حکومت اور ریاستی اداروں کو بارہا متوجہ کر چکے ہیں کہ پاکستان میں امن و امان کے قیام اور ترقی کے لئے ضروری ہے کہ ملک کی خارجہ پالیسی کو ازسرنو مرتب کیا جائے امریکی مفاد کو قومی مفاد قرار دینے کے دھوکے سے نکل کر صحیح معنوں میں ملکی مفاد کی پالیسی بنائی جائے، امریکی جنگ سے باہر نکل کر ہی دہشت گردی میں خاطر خواہ کمی ہو گی اس کے بعد اگر کوئی دہشت گردی کی کارروائی میں ملوث پایا جائے تو اس کے ساتھ آہنی ہاتھوں سے نمٹا جائے۔

بہرحال وزیر اعظم نے حالات کی سنگینی کا احساس کرتے ہوئے مذاکرات کا جو فیصلہ کیا ہے وہ دانشمندانہ ہے اس کے لئے ان کا عمران خان سے تعاون حاصل کرنے کے لئے ان کے گھر چل کر جانا بھی احسن اقدام ہے۔ اب انہیں چاہیئے کہ آگے بڑھیں اور طالبان کے ساتھ سنجیدگی کے ساتھ بات چیت کریں۔ حکومت اور طالبان کے نمائندوں نے مذاکرات کی راہ ہموار کر دی ہے اب چاہیں تو فوج کا نمائندہ بھی شامل کر لیا جائے اب تو امریکہ اور اس کے حلیف ممالک کی افواج کو بھی احساس ہو گیا ہے کہ وہ اپنی تمام تر قوت اور جدید سازوسامان کے ساتھ بھی 12برس میں افغانستان کو فتح نہیں کر سکے۔ اس کے بعد ہی وہ یہ راگ الاپنے پر مجبور ہوئے ہیں کہ امن مذاکرات سے ہی ممکن ہے۔ اس لئے اب ہمیں بھی اپنی اپنی ضد اور انا چھوڑ کر آگے بڑھنا ہو گا۔ ہم سمجھتے ہیں کہ جب بھی مذاکرات کا عمل شروع ہوتا ہے کوئی خفیہ ہاتھ مذاکرات کے حتمی نتیجے پر پہنچنے سے پہلے ہی اس عمل کو سبوتاژ کردیتا ہے حکومت کو اس حوالے سے اپنی آنکھیں کھلی رکھنا ہوں گی کہ کہیں کوئی شرارت ان کی محنت پر پانی نہ پھیر دے۔ کوئی قوت ایسی بھی ہے جو نہیں چاہتی کہ مذاکرات کامیاب ہوں وہ فوج اور طالبان کو لڑانا چاہتی ہے۔ ان کی خواہش ہے کہ ملک بھر میں خون ریزی کا بازار گرم رہے ہم نہیں سمجھتے کہ طالبان پاکستان کے آئین کو تسلیم نہیں کرتے پاکستان کا آئین قرآن و سنت کے مطابق ہے اسے ہمارے اکابرین نے پاس کیا تھا۔ اس لئے ضرورت اس امر کی ہے کہ اس آئین کو اس کی اصل روح کے مطابق نافذ کیا جائے پھر کسی کو اس آئین سے انحراف کرنے کی جرات نہیں ہو گی۔ ہماری بدقسمتی ہے کہ آئین تو اسلامی بنا دیا گیا لیکن اس کی کسی اسلامی شق پر عمل درآمد نہیں کیا جا رہا ۔ جاگیرداروں، وڈیروں اور سیکولر طبقے نے آئین شکنی کو فروغ دیا جس سے اس آئین کی مسلسل پامالی ہو رہی ہے اس لئے ہم سمجھتے ہیں کہ پاکستان اسلام کے نام پر بنا اور اسی کے نام پر قائم رہے گا ۔ اسلام سے متصادم رویوں کو ترک کرکے پاکستان کو اسلام کا قلعہ بنایا جا سکتا ہے۔

اسلام ٹائمز: سعودی عرب کی جانب سے ڈیڑھ ارب ڈالر کا جو تحفہ ملا ہے اس حوالے سے کیا کہیں گے؟

سید منور حسن: سعودی عرب ہمارا دوست ہے۔ اس نے ہمیشہ مشکل وقت میں ہمارا ساتھ دیا ہے، اب چونکہ پاکستان ایک مشکل دور سے گزر رہا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ سعودی حکمرانوں کے نواز شریف کے ساتھ اچھے تعلقات بھی ہیں تو انہوں نے پیپلزپارٹی کی بجائے انہیں مناسب سمجھا اور ان کے خیال میں نواز شریف بہتر ہیں تو انہوں نے یہ امداد میاں نواز شریف کو دیدی۔ اس کا مقصد پاکستان کی معیشت کو سہارا دے کر اپنے پاؤں پر کھڑا کرنا ہے، ہمارے خیال میں یہ اسحاق ڈار کی منصوبہ بندی ہے کہ سعودی عرب سے رقم لے کر اپنی معیشت مضبوط کی جائے اور اس کے بعد جب معاملات چل پڑیں تو وہ رقم واپس کر دی جائے اب واللہ العالم کیا ماجرہ ہے بظاہر تو یہی لگ رہا ہے کہ یہ سعودی عرب کی جانب سے تحفہ ہے۔ جہاں تک اس تحفے کے عوض خدمات لینے کی باتیں ہیں تو اگر ایسا کچھ ہے تو بہت جلد واضح ہو جائے گا۔

اسلام ٹائمز: اس امداد سے تاحال عوام کی زندگیوں پر کوئی مثبت اثر نہیں پڑا، پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں بھی ویسی ہی ہیں جبکہ مہنگائی کی شرح بھی بڑھی ہے کم نہیں ہوئی؟

سید منور حسن: حکمران ہمیشہ اپنی تجوریاں بھرنے کے لئے قرض لیتے ہیں۔ جس کے سبب آج قوم کا بچہ بچہ مقروض ہے۔ ان لوگوں نے تو ملک کو گروی رکھ چھوڑا ہے۔ یہ آئی ایم ایف اور دوسرے ملکوں سے حاصل ہونے قرضوں سے اپنے اللے تللے پورے کرتے ہیں جبکہ قوم ہر برس قرضوں کے بوجھ تلے دبتی چلی جاتی ہے، ان قرضوں کے سبب حکمران عالمی مالیاتی اداروں کے احکامات ماننے پر مجبور ہیں جس وجہ سے ہمارے ہاں مہنگائی میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ ہماری داخلہ و خارجہ پالیسیاں امریکی مفاد کو مدنظر رکھ کر بنائی جاتی ہیں۔ جب تک سودی معیشت اور صہیونی مالیاتی اداروں کے قرضوں سے چھٹکارہ حاصل نہیں کیا جائے گا ملک ترقی نہیں کر سکتا۔ تو قومی معیشت کو درست راستے پر گامزن کرنے کے لئے ان اداروں سے چھٹکارہ حاصل کرنا ہو گا۔ ملک سے کرپشن کا خاتمہ کیا جائے اور خود انحصاری کا راستہ اپنایا جائے تو عوام کو کچھ ریلیف ملے گا۔ ڈالر کے مہنگا یا سستا ہونے سے عام آدمی کو کوئی فائدہ نہیں۔ بدقسمتی سے ہماری اشرافیہ کے پاس اربوں ڈالر ہیں جس وجہ سے وہ ڈالر کی قدر میں جان بوجھ کر اضافہ کرواتے ہیں تاکہ ان کے خزانہ میں بیٹھے بیٹھے اضافہ ہوتا ہے اب بھی جب ڈالر کی قدر میں تھوڑی سی کمی ہوئی ہے ان کے منہ لٹک گئے ہیں یہ کبھی نہیں چاہیں گے کہ روپیہ مستحکم ہو، ڈالر کی قدر میں یہ کمی بھی وقتی ہے کچھ عرصے بعد ڈالر کی قدر پھر بڑھ جائے گی۔ کیوں کہ یہ کمی بھی ڈرامہ ہے۔ ڈالر کی قدر اگر صیح معنوں میں کم ہوئی ہے تو اس سے ٹرانسپورٹ کرائے کیوں کم نہیں ہوئے، پٹرول کیوں سستا نہیں ہوا۔ عام اشیاء کی قیمتوں میں کمی کیوں نہیں ہوئی؟ محض مانگے تانگے کے پیسوں سے ملک کے حالات ٹھیک نہیں ہوتے۔ غریبوں پر ٹیکس لگانے، بجلی مہنگی کرنے اور گیس کے بل بڑھا دینے سے معشیت مضبوط نہیں ہوتی اس کیلئے جامع منصوبہ بندی کرنا پڑتی ہے۔ ملک میں مہنگائی کی وجہ سے جرائم کی شرح بڑھ رہی ہے اگر مہنگائی کنٹرول ہو گئی تو معیشت بہتر ہو جائے گی۔

اسلام ٹائمز:ہمارے حکمران بھارت کے سامنے بچھے چلے جا رہے ہیں، اب غیر امتیازی مارکیٹ کے نام پر کہیں بھارت کو پسندیدہ ملک تو قرار نہیں دیا جا رہا؟
سید منور حسن: بھارت کے حوالے سے حکومت خود فریبی کا شکار ہے۔ یہ سب عوام تنقید سے بچنے کے لئے حکمرانوں نے بھارت کو پسندیدہ ملک قرار دینے کے بجائے اب ’’غیر امتیازی مارکیٹ‘‘ کا دلفریب لبادہ اوڑھا کر بھارت کو موسٹ فیورٹ نیشن قرار دینے جا رہے ہیں عوام دھوکے میں نہیں آئیں، لفظوں کا ہیر پھیر کرکے یہ لوگ کالے دھن کو سفید دھن میں تبدیل کرنے کا فن جانتے ہیں اور عوام پر یہ گر استعمال کرتے آئے ہیں۔ مگر بھارت کی حوالے سے ان کی یہ پالیسی نہیں چلے گی۔ زمینی حقائق کو نظر انداز کر کے عوام کو سبز باغ دکھائے جا رہے ہیں، قوم کو سبق پڑھایا جا رہا ہے کہ بھارتی عزائم بھول کر نئے سرے سے رشتے استوار کئے جائیں گے مگر عوام بھارتی عزائم جانتے ہیں ان کے ہتھکنڈوں کو پہچانتے ہیں۔ عوام کو پتہ ہے بھارت کشمیر میں مسلمانوں کے ساتھ کیا کر رہا ہے۔ بھارتی آبی جارحیت سے ہمارے دریا خشک ہو چکے ہیں۔ ہمارا ملک لوڈشیڈنگ کا عذاب جھیل رہا ہے اور ہم اسی بھارت کو فیورٹ نیشن قرار دینے جا رہے ہیں۔

اسلام ٹائمز: سراج الحق کو جماعت اسلامی کا نیا امیر منتخب کیا گیا ہے، آپ کا نام بھی زیرغور تھا آپ کو منتخب کیوں نہیں کیا گیا، جبکہ کہا یہ جا رہا ہے کہ آپ کو متنازع بیانات کی وجہ سے پہلے جیسی مقبولیت نہیں ملی؟
سید منور حسن: (ہنستے ہوئے) جماعت کی اپنی پالیسی ہے، اور ہمارے ہاں سیاسی جماعتوں کی طرح عہدوں کے لئے دوڑ دھوپ نہیں کی جاتی، یہ ذمہ داری ہے جو اللہ تعالیٰ جس کو اس کے قابل سمجھتے ہیں اسی کو عطا کر دیتے ہیں۔ جب تک میری قسمت میں تھا میں نے قوم اور ملک کی خدمت کی اب یہ ذمہ داری سراج الحق صاحب کے حصہ میں آئی ہے تو انہیں بھی موقع ملنا چاہیئے، باقی ہماری جماعت کے سیٹ میں اصل ذمہ داری امارت کے بعد ہوتی ہے۔ اب جبکہ میں امارت سے الگ ہو رہا ہوں تو میری ذمہ داری دگنی ہو گئی ہے ایک تو نئے امیر کو گائیڈ کرنا اور اس کیساتھ ساتھ جماعتی معاملات کی نظارت بھی سابق امیر پر ہوتی ہے۔ تو میں اور زیادہ مصروف ہو جاؤں گا۔ جہاں تک متنازع بیانات کی بات ہے تو میں نے کبھی متنازع بیانات نہیں دیئے۔ میں آج بھی اپنے موقف پر قائم ہوں اور وہ میرا ذاتی نہیں بلکہ جماعت کا موقف تھا۔

اسلام ٹائمز:آپ کیا سمجھتے ہیں کہ سراج الحق صاحب جماعت کو مقبول بنانے میں کامیاب ہو جائیں گے؟

سید منور حسن: جماعت پہلے ہی مقبول ہے، آپ یہ کہیں کہ سیاست میں مزید کامیابی دلانے کے لئے سراج الحق کامیاب ہو جائیں گے تو میں کہوں گا ضرور کامیاب ہو جائیں گے کیوں کہ ان کا سیاسی تجربہ ہے۔ وہ کافی ذہین ہیں اور ان میں قوت فیصلہ بھی لاجواب ہے۔ ان کی امارت میں جماعت اسلامی کامیابیاں سمیٹے اور سیاسی کے ساتھ ساتھ مذہبی حوالے سے بھی خاطر خواہ پروگرامز ہوں گے کیوں کی سراج الحق صاحب کا زیادہ فوکس تربیت پر ہے۔ وہ بہترین استاد ہیں اور ان کی گفتگو بھی پرتاثیر ہوتی ہے۔ وہ اپنے تجربات سے قوم کو مستفید کریں گے اور جماعت کامیاب ہو گی۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ سیاسی جماعتوں کے ساتھ بھی اچھے تعلقات کو فروغ دیں گے۔

اسلام ٹائمز: کیا آپ سمجھتے ہیں کہ آپ نے اپنے دور امارات میں اپنی ذمہ داری کے ساتھ انصاف کیا اور آپ اپنے دور سے مطمئن ہیں؟

سید منور حسن: میں اس قابل تو نہیں تھا کہ اتنی بڑی ذمہ داری سونپی جاتی لیکن چونکہ پہلے عرض کیا کہ یہ اللہ کی جانب سے ہوتا ہے۔ اللہ اپنے بندوں کو ذمہ داریاں دے کر آزماتے ہیں، تو میں سمجھتا ہوں کہ یہ میری آزمائش تھی جس پر میں نے حتی المقدور کوشش کی۔ جہاں ہو سکا میں نے اپنی ذمہ داری پوری کی اور اپنی جگہ پر تو میں مطمئن ہوں ہاں البتہ میں جماعت اور ملک کے لئے اور بھی بہت کچھ کرنا چاہتا تھا لیکن وقت کم ملا، اس کے باوجود ملک اور جماعت کی خدمت کرتا رہوں گا۔ ایسا نہیں ہو گا کہ جماعت کی ذمہ داری سے الگ ہوا ہوں تو الگ ہی ہو جائوں گا ایسا نہیں بلکہ جماعت کے ساتھ تاقیامت وابستگی رہے گی۔
خبر کا کوڈ : 369815
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش