0
Thursday 24 Apr 2014 20:07
ملت جعفریہ کو یکجا ہوکر اپنے حقوق کی جنگ لڑنا ہوگی

تکفیری افراد سیاسی جماعتوں کے سائے میں شیعہ نسل کشی میں ملوث ہیں، علامہ عباس کمیلی

مفتی تقی عثمانی اس دور کے سب سے بڑے ابوجہل ہیں
تکفیری افراد سیاسی جماعتوں کے سائے میں شیعہ نسل کشی میں ملوث ہیں، علامہ عباس کمیلی
علامہ عباس کمیلی کا شمار پاکستان کی ملت تشیع کے چند نامی گرامی رہنماؤں میں ہوتا ہے، کراچی میں ڈاکٹرز، وکیل، انجینئرز اور مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے شیعہ افراد کی ٹارگٹ کلنگ کیخلاف جو جیل بھرو تحریک بنام تحریک لبیک یا حسین (ع) چلی تھی آپ اس کے سربراہ کے طور پر عوام کے سامنے تھے جسے پاکستان کی عوام جعفریہ الائنس پاکستان کے نام سے جانتے ہیں، آپ پاکستان کی سینیٹ کے ممبر بھی رہے ہیں، اعلیٰ ایوانوں میں آپ کی حق کی حمایت میں کی گئیں تقریریں آج بھی ریکارڈ پر موجود ہیں۔ اسلام ٹائمز نے علامہ عباس کمیلی سے کراچی میں جاری ٹارگٹ کلنگ کے حوالے ایک انٹرویو کیا، جو قارئین کے لئے پیش خدمت ہے۔

اسلام ٹائمز: کراچی میں گزشتہ دنوں شیعہ نسل کشی میں کافی اضافہ ہوا ہے، آپ کیا سمجھتے ہیں کہ کون سے عوامل ان واقعات کے پیچھے کار فرما ہیں؟
علامہ عباس کمیلی: بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔۔۔ کراچی میں ٹارگٹ کلنگ ایک طویل مدت سے جاری ہے اور اس میں کمی بیشی ہوتی رہتی ہے لیکن مکمل انسداد نہیں ہوسکا ہے، اگرچہ اس عرصے میں کئی حکومتیں تبدیل ہوئی ہیں اور اب گزشتہ کچھ عرصے میں شیعہ ٹارگٹ کلنگ میں بے انتہا اضافہ ہوگیا ہے، میں سمجھتا ہوں کہ وہی عناصر ملوث ہیں جو پہلے بھی ملوث رہے ہیں، حکومت کی اس وقت ساری توجہ فاٹا کی طرف ہے، وہاں پر مذاکرات کی طرف توجہ ہے اور کراچی سے توجہ ہٹی ہوئی ہے، کہنے کو توکراچی میں آپریشن بھی ہورہا ہے، لیکن میں سمجھتا ہوں کہ دہشت گردوں کو اب بھی کچھ مواقع مل رہے ہیں، چونکہ شہر بہت بڑا ہے اور یہ عناصر بھی بہت زیادہ ہیں، کالعدم تکفیری گروہ بہت زیادہ ہیں اور وہ بھی اپنی کارکردگی بھرپور طریقے سے دکھانا چاہتے ہیں اور دکھا رہے ہیں، حکومت کو چاہیئے کہ اس طرف سنجیدگی کا مظاہرہ کرے اور شیعہ ٹارگٹ کلنگ کو عام دہشت گردی کے واقعات کے تناظر میں نہ دیکھیں بلکہ یہ امر واقعی تشویشناک ہے کہ ایک مخصوص فرقہ کے افراد کی ٹارگٹ کلنگ کیوں ہو رہی ہے اور اس کا انسداد کیوں نہیں ہورہا۔

اسلام ٹائمز: بعض سیکورٹی ادارے کراچی میں ٹارگٹ کلنگ کو سیاسی جماعتوں کی جنگ کا نتیجہ قرار دیتے ہیں، اس بارے میں آپ کیا کہتے ہیں؟
علامہ عباس کمیلی: میں اس سے اتفاق نہیں کروں گا، سیاسی جماعتوں میں چپقلش تو ہمیشہ سے رہتی ہے، ہمیشہ رہی ہے، میں نہیں سمجھتا ہوں کہ سیاسی جماعتوں کو اس سلسلے میں کوئی کردار ہے لیکن ٹارگٹ کلنگ دن بدن بڑھتی جا رہی ہے یا تھمنے کو نہیں آرہی، اس سلسلے میں حکومت کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ سنجیدگی کے ساتھ اس شیعہ ٹارگٹ کلنگ کے مسئلے کو یکھے کہ آخر اس میں اضافہ کیوں ہورہا ہے، اور شیعہ ہی کیوں ٹارگٹ ہورہے ہیں، اگرچہ افراد بھی ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بن رہے ہیں لیکن فرقہ اور مکتب فکر کی بنیاد پر اہل تشیع افراد کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔

اسلام ٹائمز: بعض سیکورٹی اداروں کی رپورٹس ہیں کہ تکفیری جماعتوں کے افراد سیاسی جماعتوں کے سائے میں شیعہ نسل کشی میں ملوث ہیں، آپ کی کیا رائے ہے؟
علامہ عباس کمیلی: میں تو ایک مدت سے کہتا چلا آرہا ہوں کہ اکثر سیاسی جماعتوں میں بھی متعصب اور فرقہ پرست عناصر سرائیت کرچکے ہیں، لبرل جماعتوں میں بھی ایسے عناصر موجود ہیں جن کو وہ لوگ اپنی پالیسی پر چلانے کی کوشش کررہے ہیں، ان جماعتوں کی چھتری تلے وہ اپنی کاروائیاں کرتے ہوں تو بعید نہیں ہے، اس ہی لئے وہ گرفت میں نہیں آرہے اور اگر آ بھی جائیں تو چھوٹ جاتے ہیں، یہ عین ممکن ہے جو آپ نے سوال کیا، میں اس سے انکار نہیں کرسکتا، بلکہ کچھ ایسے شواہد سامنے آئے ہیں کہ جس سے اس بات کی تصدیق ہوتی ہے۔ میں اس وقت گہری سوچ میں پڑ گیا ہوں کہ فیصل رضا عابدی سے آخر استعفیٰ کیوں طلب کیا گیا یہ سوال مجھے خاصہ پریشان کررہا ہے کیونکہ ان کا تعلق تو ایک لبرل جماعت سے تھا اور وہ پیپلز پارٹی اور اس کی قیادت کے وفادار رہے ہیں، اس کے باوجود ان سے استعفیٰ طلب کیا جانا کس بات کی غمازی کررہا ہے یہ سوچنے کی بات ہے۔

اسلام ٹائمز: نواز حکومت کو دی گئی ڈیڑھ ارب ڈالر کی سعودی امداد کو ملکی سالمیت کیلئے کس نظر سے دیکھتے ہیں؟
علامہ عباس کمیلی: اس ڈیڑھ ارب کی سعودی امداد کے بارے میں بہت سارے چینلز پر اور بہت سارے فورمز پر اظہار خیال کرچکا ہوں کہ آخر اس وقت سعودی عرب سے یہ ڈیڑھ ارب ڈالر کس خوشی میں آئے ہیں، ان کا کیا مقصد ہے اور شام میں جو جنگ ہورہی ہے اور جس کا فیصلہ بھی ہونے کو قریب ہے، ایسے موقع پر یہ ڈیڑھ ارب ڈالر اس ہی لئے آئے ہیں شاید کہ وہاں اس بجھتی ہوئی آگ کو مزید ایندھن فراہم کیا جائے اور جنگ کے شعلوں کو بھڑکایا جائے، یہ کیسی امت مسلمہ ہے کہ جہاں ایک ملک دوسرے ملک کو توڑنا چاہتا ہے اور وہاں خانہ جنگی کروا رہا ہے، دہشت گردوں کو مختلف ممالک سے وہاں بھیج رہا ہے اور ہتھیار بھی فراہم کررہا ہے، تو یہ ملت اسلامیہ کیلئے لمحہ فکریہ ہے، ملت کو سوچنا چاہیئے کہ اس کا اصل دشمن کون ہے، کون اس سے دشمنی کررہا ہے، جو پالیسی شام میں ہے وہ بحرین میں کیوں نہیں ہے، جو بحرین میں ہے وہ شام میں کیوں نہیں، یہ متضاد پالیسیاں کیوں ہیں۔ میں نہیں سمجھتا ہوں کہ اس کھیل میں پاکستان کو شریک ہونا چاہیئے اور اپنی خارجہ پالیسی کو تبدیل کرنا چاہیئے، اپنے دوست اور دشمن کو پہچاننا چاہیئے کہ کون سا ملک ہے کہ جو اس کے ساتھ ہر مشکل میں کھڑا رہا ہے اور کون سا ملک ہے کہ جو بحران کے وقت میں ہمیشہ منفی کردار ادا کرتا رہا ہے۔

اسلام ٹائمز: ملی یکجہتی کونسل کے تحت دوسری عالمی اتحاد امت کانفرنس میں مفتی تقی عثمانی نے اہل تشیع کو قرآن میں تحریک کرنے والا قرار دیا، آپ اس حوالے سے کیا کہنا چاہیں گے؟
علامہ عباس کمیلی: جس کسی نے ایسا کہا ہے میں سمجھتا ہوں اس سے بڑا اس دور کا ابوجہل کوئی اور نہیں ہے، یہ الزام تو کبھی بھی مکتب جعفریہ پر ثابت نہیں ہوسکا۔ اہل تشیع کی جانب سے چھپنے والے قرآن کو کسی بھی ملک میں دیکھا جاسکتا ہے، یہ الزام گھسا پٹا اور پرانا ہے اور اس کے جوابات بھی تحریری اور تقاریر میں دیئے جاچکے ہیں بلکہ میں تو یہ کہوں گا کہ مفتی تقی عثمانی خود اپنے گریبان میں جھانک کر دیکھیں کہ تحریف کی روایتیں خود ان کے پاس کس قدر ہیں، اپنی معتبر کتابیں دیکھیں گے تو انہیں پتہ چلے گا کہ تحریک کے کون قائل ہیں۔

اسلام ٹائمز: شیعہ نسل کشی کیخلاف جعفریہ الائنس کی کیا پالیسی ہے اور کیا آئندہ اس نسل کشی کے خلاف کوئی اقدام اٹھانے کا ارادہ رکھتے ہیں؟
علامہ عباس کمیلی: ہم اس سلسلے میں بہت کچھ سوچ رہے ہیں، ہم ہی کیا ہر محب وطن لوگ جو شیعہ مسلک سے تعلق رکھتے ہیں، علماء، خطباء، تنظیمیں سب ہی کو سوچنا چاہیئے ہر ایک کا فرض ہے، پوری ملت کو اعتماد میں یکجا کرکے اتفاق کے ساتھ قوم کو لے کر آگے بڑھا جائے اور کوئی ٹھوس اقدام کیا جائے، اس لئے کہ حالات سنبھلتے نظر نہیں آرہے ہیں، ملک اس وقت اپنے وجود کے بہت ہی خطرناک موڑ سے گزر رہا ہے، ہم نے اب تک ایسا کوئی اقدام نہیں اٹھایا کہ جو کسی بھی لحاظ سے منفی ہو، ہم نے ہمیشہ مثبت رویہ اختیار کیا ہے، لیکن اب حالات بہت ہی ناقابل برداشت ہوتے چلے جارہے ہیں، پوری ملت کو بیدار ہونا چاہیئے اور اپنے حقوق کو پہچاننا چاہیئے، اب یہ وقت نہیں ہے کہ ہم فقط نعرے بازی سے کام لیں، فقط سطحی اقدامات کریں، یا ایک دوسرے کے خلاف محاذ آرائی کریں، یا ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے کے لئے عارضی اقدامات کریں، اسوقت ملت جعفریہ کو یکجا ہوکر اپنے حقوق کی جنگ لڑنا ہوگی، اگر ملت جعفریہ یکجا ہوجائے تو اس سے بڑھ کر اس ملک میں کوئی مؤثر قوت نہیں ہے۔ بشرطیکہ ملت جعفریہ کھرے اور کھوٹے میں فرق کرے، صرف نعروں میں نہ بہے، بلکہ یہ دیکھے کہ اخلاص عمل کہاں ہے، مثبت سوچ کہاں ہے، اب تمام علمائے کرام، خطباء اور دانشمندان ملت کو بیدار ہونا چاہیئے، یکجا ہونا چاہیے اور مثبت سوچ اختیار کرنی چاہیئے تاکہ ملت جعفریہ کو تحفظ فراہم کرنے کیلئے اقدامات اٹھائے جاسکیں۔

اسلام ٹائمز: ملت کے نام کوئی پیغام دینا چاہیں گے؟
علامہ عباس کمیلی: پیغام یہی ہے کہ ہر شخص کو اپنا فریضہ ادا کرنا ہوگا، ہر شخص کو اپنی صلاحیتوں کو ملت کے اعلیٰ مفاد میں استعمال کرنا ہوگا، میں سمجھتا ہوں کہ یہ وقت پوری دنیا میں تشیع کے لئے Revival کا دور ہے، تشیع کا پرچم دن بہ دن بلند سے بلند تر ہوتا جارہا ہے، اس ہی لئے تشیع کو مٹانے کی بھرپور سازشیں اور کوششیں ہورہی ہیں، کہ انہیں ابھرنے نہ دیا جائے، ہمیں پاکستان کی سرزمین پر اپنی بقاء کی جنگ لڑنی ہے، یہ ضروری نہیں کہ یہ جنگ اسلحہ کے ذریعہ ہو اور ہر شخص اسلحہ اٹھا لے، ہمیں اپنی زبان سے، قلم سے، اپنے مال سے اور جس طرح سے ممکن ہو یہ جنگ جاری رکھنی ہے، ہر شخص کو چاہیئے کہ اپنی ملت کی بقاء کے جہاد میں شریک ہو۔ ہمیں میدان خالی نہیں چھوڑنا ہے، تاریخ میں کئی ایسے موڑ آئے ہیں اور آکر گزر گئے ہیں لیکن یہ وقت فیصلہ کن وقت ہے، اگر ہم نے استقامت دکھائی تو یقیناً فیصلہ ہمارے ہی حق میں ہوگا اور حق کا بول بالا ہوکر رہے گا۔ انشاء اللہ
خبر کا کوڈ : 376033
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش