0
Sunday 27 Apr 2014 20:04

طالبان سے مذاکرات ہونے چاہئیں, تاہم آئین پاکستان مخالف عناصر کو کچل دینا چاہیے، پیر محفوظ مشہدی

طالبان سے مذاکرات ہونے چاہئیں, تاہم آئین پاکستان مخالف عناصر کو کچل دینا چاہیے، پیر محفوظ مشہدی
پیر سید محفوظ مشہدی علامہ شاہ احمد نورانی کے قریبی رفقاء میں سے ہیں۔ آپ بھکی شریف منڈی بہاءالدین سے تعلق رکھتے ہیں اور 2013ء کے انتخابات میں پی پی 120 سے مسلم لیگ (ن) کے ٹکٹ پر صوبائی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے۔ جمعیت علمائے پاکستان میں مختلف دھڑوں کی تشکیل کے بعد آپ نے جمعیت علمائے پاکستان سواد اعظم کے نام سے ایک گروہ کی بنیاد رکھی۔ جمعیت علمائے پاکستان (سواد اعظم) ملک کی مذہبی جماعتوں کے اتحاد ملی یکجہتی کونسل کا ابتداء سے حصہ رہی۔ پیر محفوظ مشہدی اور آپ کے رفقاء نے جناب قاضی حسین احمد مرحوم کے ساتھ مل کر کونسل کے احیاء اور اسے فعال بنانے میں اہم کردار ادا کیا۔ پیر محفوظ مشہدی کونسل کے نائب صدر جبکہ جمعیت علمائے پاکستان (سواد اعظم) کے سیکرٹری جنرل سردار احمد خان لغاری کونسل کے سیکرٹری اطلاعات منتخب ہوئے۔ جمعیت علمائے پاکستان کے مختلف دھڑوں کے اتحاد کے بعد پیر محفوظ مشہدی کی جماعت جمعیت علمائے پاکستان (سواد اعظم ) بھی جمعیت علمائے پاکستان میں ضم ہوگئی اور پیر محفوظ مشہدی صاحب کو جمعیت علمائے پاکستان کا سیکرٹری جنرل منتخب کیا گیا۔

اسلام ٹائمز: حالیہ ہونیوالی اتحاد امت کانفرنس میں آپ بھی شریک تھے، یہ بتایئے گا کہ مرحوم قاضی حسین احمد کے دور میں ہونیوالی اور اس کانفرنس میں کیا فرق تھا۔؟
پیر محفوظ مشہدی: دیکھیں یہ کانفرنس پاکستان کے اندر مختلف مکاتب فکر کو اکٹھا کرنے کی کوشش تھی، اس کے اثرات پوری دنیائے اسلام پر مرتب ہونگے، کیونکہ پوری دنیا دنیائے اسلام کی تحریکیں پاکستان میں ہونے والی سرگرمیاں کی طرف متوجہ رہتی ہیں، خاص طور پر یہ کہوں گا کہ جس طرح عالمی قوتیں مسلمانوں میں انتشار پیدا کر رہی ہیں، جس طرح سعودی عرب اور ایران کے درمیان موجود کشیدگی ہے، اس چیز نے عالم اسلام کو فرقہ واریت میں مبتلا کر رکھا ہے، ہم حکومت پاکستان کو بھی اس طرف متوجہ کرتے ہیں کہ وہ دونوں اسلامی ممالک کو قریب کرنے میں کردار ادا کرے، تاکہ ہمارے ملک میں فرقہ واریت کے وہ اسباب جو ان برادر اسلامی ممالک کی باہمی خلش کی وجہ سے پیدا ہوتے ہیں، وہ ختم کیے جاسکیں، یہ مسائل ان ممالک کی کشیدگی کی وجہ سے پیدا ہوتے ہیں۔

اسلام ٹائمز: کیا آپ سمجھتے ہیں کہ ان ممالک کی کشیدگی کے اثرات پاکستان پر مرتب ہوتے ہیں۔؟
پیر محفوظ مشہدی: جی ہاں ایسا ہوتا ہے، جب بھی ان ممالک کے درمیان تلخی پائی جاتی ہے تو اس کے اثرات پاکستان پر بھی مرتب ہوتے ہیں۔ ان اثرات کی وجہ سے ہمیں بہت تکلیف ہوتی ہے، ان دونوں ممالک کی کشیدگی کی وجہ سے عالم اسلام پر اس چیز کے اثرات مرتب ہوتے ہیں، حکومت پاکستان سے پھر کہوں گا کہ وہ اس حوالے سے اہم کردار ادا کرے۔ پاکستان کی مخلص کوششیں اس حوالے سے اہم اور کارگر ثابت ہوسکتیں ہیں۔ ایسی کمیٹی بننی چاہیئے جو دونوں اسلامی ممالک کے درمیان مصالحت کا کردار کرے اور انکے درمیان ہم آہنگی پیدا کرنے کی کوشش کرے۔ اگر یہ کام ہوجائے تو اس کے اچھے اثرات دیکھیں گے۔

اسلام ٹائمز: قاضی حسین احمد نے بھی اتحاد امت کانفرنس کرائی اور اب حالیہ دنوں میں بھی ہوئی، دونوں کانفرنس میں آپ موجود تھے، دونوں کانفرنسوں میں آپکو کیا فرق نظر آیا۔؟

پیر محفوظ مشہدی: جی دیکھیں! اس کانفرنس اور موجودہ کانفرنس میں کوئی فرق نہیں تھا، یہ کانفرنس مرحوم قاضی حسین احمد کی کوششوں کی تائید تھی۔ ایجنڈا وہی تھا، پروگرام وہی تھا اور لائحہ عمل وہی تھا، غرض سب کچھ وہی ہے، ہم سمجھتے ہیں کہ ہر دور میں ان کاوشوں کی ضرورت رہی ہے، اس لئے کہہ رہا ہوں کہ اس میں اور اس کانفرنس میں اس لحاظ سے کوئی فرق نہیں ہے۔ ملی یکجہتی کونسل کے پلیٹ فارم سے ہونے والی ابتک کی کاوشیں سب ایک ہی مقصد کے تحت عمل میں لائی گئیں، مولانا شاہ احمد نورانی مرحوم نے اس کاوش کا آغاز کیا اور قاضی حسین احمد مرحوم اس کو لیکر آگے چلے، اب ان کے وصال کے بعد ابوالخیر زبیر کی قیادت میں اس چیز کو لیکر آگے چل رہے ہیں، جس کا عالم اسلام پر مثبت اثر ہے۔ اس پلیٹ فورم پر موجود تمام دینی جماعتوں کی کاوشیں اتحاد امت کے لئے وقف ہیں۔

اسلام ٹائمز: ایسے کیا اقدامات اٹھانے کی فوری ضرورت ہے، جس سے فرقہ وارنہ ہم آہنگی کو فروغ ملے۔؟
پیرمحفوظ مشہدی: ہم یہ اپیل کر رہے ہیں ایسے گروہوں سے جو ایک دوسرے فرقے کیخلاف اشتعال انگیز تقریریں کرتے ہیں، ہم انہیں مل بیٹھ کر قائل کرنا چاہتے ہیں، اصحاب کرام و اہلبیت اطہار علیہ السلام کے حوالے سے اگر شرح صدر پیدا کرتے ہوئے انکے احترام کو فروغ دیں تو میرا خیال ہے کہ فرقہ وارنہ ہم آہنگی کو فروغ دینے میں یہ چیزیں کافی مددگار ثابت ہوسکتی ہیں۔ اس سے فاصلے سمٹ سکتے ہیں، دوریاں ختم ہوسکتی ہیں، ایک دوسرے کو سمجھنے میں بہتری آسکتی ہے۔

اسلام ٹائمز: آپ کے نزدیگ طالبان سے ہونیوالے مذاکرات کی دینی و شرعی حیثیت کیا ہے۔؟

پیر محفوظ مشہدی: طالبان سے مذاکرات کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے، اگر نیک نیتی کے ساتھ گفتگو کی جائے اور کوشش کی جائے کہ جو گروہ پاکستان کے آئین کو تسلیم کرنے کیلئے تیار ہیں، ان سے ہر قیمت پر مذاکرات کیے جائیں، جو عناصر تہتر کے آئین کو تسلیم نہیں کرتے، ان سے سختی سے نمٹا جائے اور انہیں کچل دیا جائے۔ موجودہ حکومت کو افواج پاکستان کے حمایت کرتے ہوئے انکی مکمل تائید کرنی چاہیئے۔ پوری قوم دہشتگردی پر کنٹرول کرنے کیلئے فوج اور حکومت کے ساتھ ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ جو ملک کے آئین کو تسلیم کرلیتا ہے، اس پر ہاتھ نہ اٹھایا جائے۔ ہم سمجھتے ہیں جو توبہ تائب ہو رہا ہے تو اسے موقع دینا چاہیئے، اس میں کوئی حرج نہیں، اس طرح ایسے عناصر کو معاشرہ کا مفید رکن بنایا جاسکتا ہے۔ آخر میں وہی کہوں گا کہ جو آئین پاکستان اور اداروں کو تسلیم نہیں کرتا پھر اسے کچل دیا جائے۔

اسلام ٹائمز: موجودہ حکومت کی مشرق وسطٰی کی پالیسی پر کیا کہیں گے، ایسا تاثر مل رہا ہے کہ سعودی ایماء پر پاکستان کی بیلنس پالیسی کو تبدیل کیا گیا ہے۔؟
پیر محفوظ مشہدی: میں یہ سمجھتا ہوں، شام کے اندر بیرونی مداخلت ختم ہونی چاہیئے، امریکی مداخلت کو فی الفور ختم ہونا چاہیئے، کسی ملک کو یہ حق نہیں کہ وہ کسی دوسرے ملک کے معاملات کے اندر مداخلت کرے۔ اسی طرح سعودی عرب اور ایران ہیں، انہیں جو کردار شام کے اندر ادا کرنا چاہیئے تھا وہ نظر نہیں آرہا۔ اب آتا ہوں آپ کے سوال کی طرف، میں سمجھتا ہوں کہ پاکستان کو اپنی خارجہ پالیسی پر نظرثانی کرنی چاہیئے، پاکستان کو اپنا مصالحانہ کردار ادا کرنا چاہیئے، ایسی کاوششیں کرنی چاہیں جن سے شام میں امن قائم ہوسکے۔ دینی جماعتیں بھی اس حوالے سے اپنا کردار کریں۔
خبر کا کوڈ : 376863
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

متعلقہ خبر
ہماری پیشکش