0
Monday 28 Apr 2014 19:36
شام کو اسرائیل مخالف تحریکوں کا ساتھ دینے کی سزا دی جا رہی ہے

سعودی عرب نے اپنے مفادات اسلام دشمن عالمی طاقتوں سے وابستہ کر رکھے ہیں، مولانا قاضی احمد نورانی

ملک و قوم کا تحفظ اسی میں ہے کہ کسی بھی انتہاء پسندانہ سوچ کو یہاں غالب نہ ہونے دیا جائے
سعودی عرب نے اپنے مفادات اسلام دشمن عالمی طاقتوں سے وابستہ کر رکھے ہیں، مولانا قاضی احمد نورانی
معروف اہلسنت عالم دین مولانا قاضی احمد نورانی صدیقی کا تعلق بنیادی طور پر پاکستان میں اہلسنت مسلمانوں کی نمائندہ سیاسی مذہبی جماعت جمعیت علمائے پاکستان سے ہے اور اس وقت جے یو پی کراچی کے صدر ہونے کے ساتھ ساتھ مرکزی مجلس شوریٰ کے رکن بھی ہیں۔ اس کے ساتھ آپ مرکزی جماعت اہلسنت پاکستان اور اسکی بعض ذیلی تنظیموں سے بھی وابستہ ہیں اور رابطے کے حوالے سے ذمہ داریاں انجام دے رہے ہیں۔ مولانا قاضی احمد نورانی صدیقی پاکستان میں مسئلہ فلسطین کیلئے آواز بلند کرنے والے ادارے فلسطین فاﺅنڈیشن پاکستان (PLF Pakistan) کے مرکزی ادارے "سرپرست کونسل" کے مرکزی رکن بھی ہیں۔ آپ ہمیشہ اتحاد امت و وحدت اسلامی اور مظلوم فلسطینیوں کیلئے آواز بلند کرتے رہتے ہیں اور ان حوالوں سے پاکستان بھر میں اور ایران، شام، لبنان سمیت دنیا کے کئی ممالک کے دورے بھی کرچکے ہیں۔ اسلام ٹائمز نے مولانا قاضی احمد نورانی صدیقی کے ساتھ مختلف ملکی و بین الاقوامی ایشوز کے حوالے سے انکی رہائش گاہ پر ایک مختصر نشست کی، اس موقع پر آپ سے ساتھ کیا گیا خصوصی انٹرویو قارئین کیلئے پیش ہے۔ ادارہ

اسلام ٹائمز: کراچی میں جاری دہشت گردی اور بڑھتی ہوئی ٹارگٹ کلنگ کے حوالے سے کیا کہیں گے۔؟
مولانا قاضی احمد نورانی صدیقی:
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم۔۔۔۔۔ شہر کراچی کا امن پورے پاکستان کی فلاح و بہبود کیلئے لازم ہے، کراچی میں فرقہ واریت پھیلانے کی سازشیں، سیاسی و لسانی قتل و غارت گری حکومت کی بدترین ناکامی ہے۔ کچھ وہ عناصر جنہیں حکومت میں شامل ہونے کا خبط ہے، وہ فرینڈلی اپوزیشن، مل جاﺅ، آجاﺅ، نکل جاﺅ کرتے رہتے ہیں، حکومت ان کے آگے بے بس نظر آتی ہے، پھر پیپلز پارٹی نے ایک ضعیف العمر شخص کو وزیراعلٰی سندھ مقرر کیا ہوا ہے، جو دورے بھی نہیں کرسکتا، جو اپنی کیبنٹ کی کمانڈ بھی نہیں کرسکتا، اس کے ساتھ نااہل وزراء کو تعینات کیا ہوا کہ جنہیں سندھ کا مفاد عزیز نہیں ہے۔ سکیورٹی فورسز سیاسی طور پر یرغمال بنی ہوئی ہیں، رینجرز بہت بڑی تعداد میں موجود ہے، پولیس پر سیاسی دباﺅ اتنا بڑھ جاتا ہے کہ وہ غیر جانبدارانہ کارروائی کا فیصلہ نہیں کرسکتے، اور پھر جہاں پولیس کے اعلٰی افسران دہشت گردی سے محفوظ نہ ہوں، ملکی مقتدر اداروں کے بیسز، انکی تنصیبات غیر محفوظ ہوں، وہاں عوام کی جان و مال کا تحفظ دور دور تک نظر نہیں آتا۔ وفاقی حکومت اور عدلیہ کی ذمہ داری ہے کہ بجائے اس کے کہ کوئی نادیدہ قوت کراچی کے حالات کو جواز بنا کر کوئی غیر جمہوری فیصلہ کرے، وفاقی حکومت اہم فیصلوں کی طرف جائے، دوستیاں نبھانے کے بجائے ملک و قوم کی فلاح کیلئے اہم فیصلے کرے۔

اسلام ٹائمز: کالعدم دہشتگرد گروہوں کی کھلے عام فعالیت کے باوجود کیوں حکومت انکے خلاف سنجیدہ کارروائی سے گریز کرتی نظر آتی ہے۔؟
مولانا قاضی احمد نورانی صدیقی:
حقیقت یہ ہے کہ مقتدر قوتیں اور بعض ادارے اپنی اپنی اجارہ داری قائم کرنے کیلئے مختلف گروہوں کی سرپرستی کرتے ہیں، بعض جگہوں پر انفرادی حیثیت سے بعض تعینات افسران بھی اپنی کمانڈ اینڈ کنٹرولنگ کو قائم کرنے کیلئے ایسے گروہوں کو آلہ کار بناتے ہیں، ایسے تمام گروہوں کے اپنے مفادات ہوتے ہیں اور یہ مذہبی، لسانی، سیاسی چھتریوں کا سایہ فراہم کرتے ہیں، ان دہشتگرد گروہوں نے شہر کراچی میں بہت سے علاقوں میں اپنی حکومتیں قائم کر رکھی ہیں، تھانے ان سے محفوظ نہیں، پولیس موبائلیں ان سے محفوظ نہیں، جدید ترین اسلحہ انکے پاس ہے، قتل و غارگری کے ساتھ ساتھ بینک ڈکیتیوں، اغواء برائے تاوان، چھینا جھپٹی سمیت ہر قسم کے جرائم میں ملوث ہیں، لیکن ان کے خلاف ایسا کریک ڈاؤن نہیں ہوتا کہ ان کی کمر ٹوٹ جائے۔
 
اسلام ٹائمز: اس بات میں کتنی صداقت ہے کہ کراچی میں لسانی سیاسی جماعتیں اور دہشتگرد مذہبی انتہاءپسند عناصر غیر ملکی ایماء پر ملکر بھی دہشتگردانہ کارروئیاں کرتے ہیں۔؟
مولانا قاضی احمد نورانی صدیقی:
1986ء کے بعد سے شہر کراچی میں ہونے والے حادثات کا جب تجزیہ کیا جائے تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ اسلام و پاکستان دشمنوں نے درندگی کے کھیل میں اپنی فتح کیلئے وہ تمام حربے استعمال کئے جو عالمی سطح پر انسانیت کے دشمن استعمال کرتے ہیں، کہیں لسانی جماعتوں کا سہارا لیا گیا، کہیں مذہبی لبادہ اوڑھ کر افراتفری پھیلائی گئی، ہوتا یہ ہے پہلے مذہبی لبادہ اوڑھ کر شہر بھر میں کارروائیاں کی جاتی ہیں اور اس کے فوراً بعد لسانی عناصر ان کارروائیوں کے بعد پروپیگنڈہ کرتے ہیں کہ اگر ہم شہر میں نہیں ہونگے تو اس طرح کی تخریب کاریاں ہوتی رہیں گی، اس طرح وہ اپنی موجودگی کا جواز بناتے ہیں، اور دونوں کا مقصد شہر کراچی کے وسائل پر قبضہ اور اپنی اجارہ داری قائم کرنا ہوتا ہے۔

اسلام ٹائمز: کیا ان عناصر کو غیر ملکی سرپرستی بھی حاصل ہے۔؟
مولانا قاضی احمد نورانی صدیقی:
بڑے بڑے واقعات ہوئے، ماضی قریب میں کراچی میں بندرگاہ میں سینکڑوں کنٹینرز اترے اور غائب ہوگئے، اس کے علاوہ شہر میں اسلحہ کی بڑی بڑی کھیپ پکڑی گئیں، ظاہر ہے کراچی میں بدامنی پھیلا کر پاکستان کو عدم استحکام سے دوچار کرنے کیلئے لسانی اور نام نہاد مذہبی عناصر مختلف ممالک کے پیرول پر کام کرتے ہیں اور ان ممالک کے تانے بانے جا کر امریکہ سے مل جاتے ہیں، اسرائیل کی آشیرباد بھی انہیں حاصل ہوتی ہے، دونوں عناصر کا مقصد اسلام و پاکستان کو بدنام کرنا ہے۔

اسلام ٹائمز: خارجی و تکفیری فتنہ کے خاتمہ کے حوالے سے کیا کہنا چاہیں گے۔؟
مولانا قاضی احمد نورانی صدیقی:
ملک و قوم کا تحفظ اسی میں ہے کہ کسی بھی انتہاء پسندانہ سوچ کو یہاں غالب نہ ہونے دیا جائے، دیکھیں نہ صرف پاکستان بلکہ لیبیا، مصر، شام اور دیگر ممالک میں ایک مخصوص فکر کو پروان چڑھایا جا رہا ہے، جو تکفیری و خارجی فکر ہے، وہی خوارج کا فتنہ ایک بار پھر سامنے لاکر مسلمانوں کو صفحہ ہستی سے مٹانے کی سازش ہو رہی ہے، عوام کو اس فتنہ کے بارے میں آگاہی دینا واجب ہے، آئمہ، خطباء، علماء سب کی ذمہ داری ہے کہ جذباتی نعروں کے بجائے وضاحت کے ساتھ تاریخ کے حوالوں کو بیان کرکے عوام کو بتائیں کہ یہ خارجی فتنہ اسلام کا نام لیکر اسلام کے روشن چہرے کو داغدار کرنے کی سازشیں کر رہا ہے، اس خارجی فتنے سے مسلمانوں کو بچنا چاہئیے۔

اسلام ٹائمز: اطلاعات کے مطابق مختلف ممالک میں القاعدہ اور اس جیسے دیگر انتہاء پسند دہشتگرد عناصر نے فیصلہ کیا ہے کہ مختلف ممالک میں کارروائیاں روک کر شام پہنچیں اور وہاں دہشت گرد باغیوں کی مدد کریں، دوسری جانب فاٹا سے آٹھ ہزار سے زائد دہشتگردوں کی افغانستان، ایران، ترکی کے راستے سے شام پہنچنے کی اطلاع ہے، پھر نواز حکومت کو ڈیڑھ ارب ڈالرز کی سعودی امداد اور اسکے بدلے پاکستان سے فوجیوں اور لوگوں کو شام، بحرین وغیرہ بھیجنے کی اطلاعات بھی ہیں، اس سارے منظر نامے کو آپ کس نظر سے دیکھتے ہیں۔؟
مولانا قاضی احمد نورانی صدیقی:
امریکہ اور اسرائیل چاہتے ہیں کہ انکے خلاف کوئی بھی طاقت منظم نہ ہوسکے، شام میں اسرائیل کے خلاف سب سے بڑی مزاحمتی تحریک حماس کے دفاتر موجود تھے، ہم شام کی حکومت سے دس قسم کے اختلافات کرسکتے ہیں، ہر حکومت سے اختلاف ہوسکتا ہے، ہمیں حافظ الاسد، بشار الاسد کی ذات سے اختلاف ہوسکتا ہے لیکن ان کا حماس پر یہ احسان تھا کہ ان کی موجودگی میں وہاں حماس کو مکمل طور پر لاجسٹک سپورٹ حاصل تھی اور حماس وہاں اپنے مراکز قائم کئے ہوئے تھی، اور اسرائیل کے خلاف عظیم جہاد کی وہ مدد کر رہے تھے، لہٰذا شام کو اسرائیل مخالف تحریکوں کا ساتھ دینے کی سزا دی جا رہی ہے، شام میں افغانستان و عراق جیسی صورتحال پیدا کرنے کیلئے دنیا بھر سے انتہاء پسند گروہوں کو وہاں پہنچایا جا رہا ہے، ہوسکتا ہے کہ یہ صورتحال اطراف کے ممالک میں بھی پھیلائی جائے، ان سب کا مقصد صرف اور صرف یہ ہے کہ اسرائیل سے ملنے والی کسی بھی سرحد کے اندر ایسی حکومت یا افراد نہ ہوں جو اسرائیل کیلئے کسی بھی قسم کا خطرہ ثابت ہوسکیں۔ مصر میں ہونے والی تمام تر ہنگامہ آرائی، جمہوریت کا قتل، شام کے اندر ہونے والی خانہ جنگی، اطراف کے ممالک میں حملے اور ان میں پیدا ہونے والی صورتحال سب اسی منظر نامے کا حصہ ہیں، جس کا اصل مقصد صرف اور صرف اسرائیل کو تحفظ فراہم کرنا ہے۔

اسلام ٹائمز: آپ نے شام میں خانہ جنگی اور مصر میں جمہوریت کے قتل کی بات کی، مگر ایک عرب ملک پر اس حوالے سے سب سے زیادہ تنقید کی جاتی ہے کہ اس نے مصر میں اخوان المسلمین کی منتخب حکومت کیخلاف امریکہ کا ساتھ دیا، اسی طرح شام میں بھی اس عرب ملک نے امریکہ کا ساتھ دیا، اس عرب ملک پر ایران کیخلاف اسرائیل کے ہم آواز ہونے پر بھی تنقید کی گئی، اب نواز حکومت کو ڈیڑھ ارب ڈالرز کی امداد اور اسکے بدلے افراد کو شام بھیجنے کے حوالے تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے، اس عرب ملک کے کردار کے حوالے سے آپکی کیا نگاہ ہے۔؟
مولانا قاضی احمد نورانی صدیقی:
سعودی عرب صرف اپنے مفادات کو محفوظ کرنا چاہتا ہے، وہ کوئی دردِ سر مول نہیں لینا چاہتا، اسلئے وہ عالمی مسائل کے اندر وہی کچھ کرتا ہے جو اسلام دشمن عالمی قوتیں چاہتی ہیں۔ یا تو سعودی حکمران اتنے نااہل ہوچکے ہیں کہ ان کے پاس اپنے ملکی معاملات و انتظامات چلانے کی صلاحیت نہیں ہے، اسلئے وہ ڈرتے ہیں کہ اگر کہیں بھی وہ اسلام دشمن عالمی طاقتوں کے خلاف فیصلہ کریں گے تو ان کیلئے مشکلات پیدا ہوجائیں گی، یوں کہہ لیجیے کہ سعودی عرب نے اپنے مفادات اسلام دشمن عالمی طاقتوں کے مفادات سے وابستہ کر رکھے ہیں، اسلئے وہ انکے آلہ کار بن جاتے ہیں بہرحال جو بھی صورتحال ہے وہ عالم اسلام کے حق میں نہیں ہے، سعودی عرب کو چاہئیے کہ وہ امت مسلمہ کا حق ادا کرے۔
خبر کا کوڈ : 377233
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش