0
Wednesday 30 Apr 2014 21:55
تخریبی کارروائیوں میں ملوث طالبان ملک دشمن ہیں

امریکہ پاکستان کو دہشتگردی کے اندھیروں میں دھکیلنا چاہتا ہے، شاہ محمود قریشی

پاک ایران گیس منصوبے پر اتنا امریکی دباؤ تھا نہیں جتنا حکمرانوں نے محسوس کرلیا
امریکہ پاکستان کو دہشتگردی کے اندھیروں میں دھکیلنا چاہتا ہے، شاہ محمود قریشی
شاہ محمود قریشی 22 جون 1956ء کو پیدا ہوئے۔ شاہ محمود نے ابتدائی تعلیم ایچی سن کالج لاہور سے حاصل کی۔ ایف سی کالج لاہور سے گریجویشن کرنے کے بعد سیاسیات اور لا کی تعلیم کے لئے کیمرج یونیورسٹی میں داخلہ لے لیا۔ پیشہ کے اعتبار سے آپ زمیندار اور سیاست دان ہیں۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے دور میں وزیر خارجہ رہے ہیں، آج کل پاکستان تحریک انصاف سے وابستہ ہیں اور پارٹی کے وائس چیئرمین ہیں۔ 9 فروری 2011ء کو ریمنڈ ڈیوس کے معاملے میں انکے اس وقت کے صدر اور پیپلز پارٹی کے کو چیئرمین آصف علی زرداری کے ساتھ اختلافات ہوگئے اور انہیں وزارت خارجہ اور پارٹی کی سنٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کی رکنیت سے ہاتھ دھونے پڑے۔ شاہ محمود این اے ایک سو پچاس سے رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئے۔ آپ شاہ رکن عالم اور بہاؤالدین زکریا ملتانی کے دربار کے سجادہ نشین بھی ہیں۔ آپ نے  1985ء میں اپنے سیاسی کیئریر کا آغاز کیا۔ 1993ء اور 1998ء کے دوران آپ رکن پنجاب اسمبلی رہے۔ 2008ء میں انہیں وزیر خارجہ بنا دیا گیا۔ نومبر 2011ء میں شاہ محمود نے پیپلز پارٹی کو خیر باد کہہ دیا اور پاکستان تحریک انصاف میں عمران خان کی کشتی پر سوار ہوگئے، تاحال تحریک انصاف سے ہی وابستہ ہیں۔
                                                      
اسلام ٹائمز: طالبان کیساتھ مذاکرات کو کس نظر سے دیکھتے ہیں، کیا کامیابی کے کوئی آثار دکھائی دیتے ہیں۔؟
شاہ محمود قریشی: افغانستان میں ملک کی آزادی، سالمیت اور بقا کے لئے لڑنے والے طالبان اصل میں بیرونی قوتوں کے خلاف جہاد کر رہے ہیں۔ ان کو یہ حق حاصل کہ اپنے ملک کو طاغوتی قوتوں سے نجات دلانے کے لئے وہ کوئی بھی قدم اٹھائیں۔ مگر پاکستان کے اندر تخریبی کارروائیوں میں ملوث طالبان ملک دشمن ہیں۔ اصل میں طالبان کے اندر بھی کئی گروہ بن چکے ہیں، ان میں کچھ کو بیرونی مدد بھی حاصل ہے، اس لئے ان کیخلاف سخت کارروائی کی ضرورت ہے، بیرونی طاقتوں کے اشاروں پر ناچنے والے طالبان کو سبق سکھائے بغیر کوئی چارہ نہیں، جبکہ پاکستان کے ساتھ ہمددری رکھنے والے طالبان کو ان میں شامل نہ کیا جائے۔ اس لئے کوئی بھی کارروائی کرنے سے پہلے مخلص اور اچھے لوگوں کے ساتھ مذاکرات کئے جائیں۔ اگر ہم تمام گروپوں کیخلاف کارروائی کریں گے تو وہ سب اپنے اختلافات بھلا کر ایک جگہ جمع ہوجائیں گے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ طالبان کے وہ گروپ جو پاکستان کے آئین پر یقین رکھتے ہیں، انہیں ساتھ ملا لیا جائے اور فوجی کارروائی صرف گمراہ لوگوں کے خلاف کی جائے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ حکومت اور طالبان نے ابتدا میں جو مذاکراتی کمیٹیاں بنائی تھیں، انہوں نے سنجیدہ کوششیں نہیں کیں، پھر تب طالبان کے نمائند خود کمیٹیوں میں ہی نہیں آئے تھے، اب حکومت نے براہ راست مذاکرات شروع کر دیئے ہیں، اس لئے بہتر نتائج برآمد ہونے کی توقع ہے۔ جو لوگ مذاکرات میں ناکامی دیکھ رہے ہیں، وہ دشمنوں کے آلہ کار ہیں۔

اسلام ٹائمز: پاکستان اس وقت بے پناہ مسائل اور مشکلات کا شکار ہے، آپکی نظر میں ان کا حل کیا ہے۔؟

شاہ محمود قریشی: یہ سچ ہے کہ ہمارے ملک کو آج بیک وقت اندرونی و بیرونی طور پر بے پناہ مسائل کا سامنا ہے، ایک طرف بھارت اور دوسری طرف افغانستان، ہم دوطرفہ مسائل میں گھرے ہوئے ہیں۔ امریکہ افغانستان سے نکلنے کیلئے سامان باندھ رہا ہے، اس کے جانے کے بعد خطے میں منفی اثرات مرتب ہوں گے، اس لئے کہ امریکہ تناؤ کا شکار ہے، ان معاملات کو سلجھانے کے لئے انتہائی دانشمندی سے کام لینے کی ضرورت ہے، ایسے میں اپنے ملک میں امن و امان قائم رکھنے کے لئے ہمیں اے پی سی کی قراردادوں کی روشنی میں آگے بڑھنا ہوگا۔ ملک کی تمام سیاسی جماعتوں نے حکومت طالبان سے مذاکرات کا اختیار دے رکھا ہے، میں سالہا سال سے دیکھتا آ رہا ہوں کہ اے پی سی تو منعقد ہوتی ہے، اس میں متفقہ قرار دادیں بھی پاس کر لی جاتی ہیں، مگر عمل درآمد کے لئے راستے کا تعین نہیں کیا جاتا۔ اصل بات عمل درآمد کی ہے۔ ڈاکٹر علامہ محمد اقبال نے بھی فرمایا تھا کہ
عمل سے زندگی بنتی ہے جنت بھی جہنم بھی
یہ خاکی اپنی فطرت میں نوری ہے نہ ناری ہے

تو عمل ہی بنیاد ہے کامیابی کی، ہم نے خود حکومت کو طالبان کے ساتھ مذاکرات کا اختیار دے رکھا ہے، ہم کسی قسم کے آپریشن کے حق میں نہیں، آپریشن تو پہلے بھی کئی بار ہوچکے ہیں، اس لئے ہم اس کے حق میں نہیں، آپ نے دیکھا کہ جب بھی مذاکرات شروع کرنے کی بات کی گئی یا جب بھی حکومت نے کوئی معاہدہ کیا، امریکی ڈرون حملے نے سب کچھ ختم کرکے رکھ دیا، اب ہماری تحریک کے نتیجے میں ڈرون حملے تو بند ہوگئے ہیں، التبہ مذاکرات کو سبوتاژ کرنے کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔ اصل میں جو جماعتیں این آر او کے ذریعے اقتدار میں آئیں، انہوں نے امریکی خوشنودی اور خواہش کے مطابق کام کیا۔ امریکی جنگ میں حصہ لینے پر بعض جماعتوں نے ڈالر وصول کئے، اور کچھ نے رعائیتیں، ایک پارٹی کے اپنے گھر کے افراد نے اپنی جماعت کے قائد پر 35 ملین ڈالر لینے کا الزام لگا رکھا ہے، ایک لسانی جماعت کے قائد 20 سال سے برطانوی شہریت لئے بیٹھے ہیں۔ یہ سب ہی آپریشن کی ضرورت پر زور دے رہے ہیں، ہم صرف مذاکرات کے حامی طالبان کے ساتھ بات چیت کے حق میں ہیں اور جو طالبان مذاکرات نہیں کرنا چاہتے، ان کے خلاف ایکشن لینے کے حق میں ہیں۔ بلاشبہ ہماری فوج نے بے پناہ قربانیاں دی ہیں، اس لئے ہم فوج کو مضبوط اور مستحکم دیکھنا چاہتے ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ فوج کو اندرونی خلفشار میں نہ الجھایا جائے، بلکہ اسے مکمل طور پر ملکی سرحدوں کی حفاظت پر مامور کیا جائے۔

اسلام ٹائمز: اور جو لوگ فوج پر حملے کرتے ہیں۔؟

شاہ محمود قریشی: جو فوج پر حملے کرتے ہیں، وہ ملک کے خیر خواہ نہیں ہوسکتے، اس لئے ہم ملک میں امن و امان کے قیام کے لئے مذاکرات کی ضرورت پر زور دیتے ہیں، ہمارا اصل مقصد تو پاکستان سے دہشت گردی کا خاتمہ ہے، ہم سمجھتے ہیں کہ امریکہ کا ساتھ دے کر ہم نے اس جنگ میں اپنے پورے ملک کو ملوث کر لیا ہے۔ اسی وجہ سے ہمارے ہمارے ہاں دہشت گردی کا آغاز ہوا، اصل میں پاکستان بھی مذاکرات چاہتا ہے مگر کیا کیا جائے، ہمارے حکمرانوں کے ہاتھ بندھے ہوئے ہیں، امریکہ نہیں چاہتا کہ مذاکرات ہوں، اس لئے آپ دیکھ لیں کہ جب بھی مذاکرات ہونے لگتے ہیں امریکہ کوئی نہ کوئی حرکت کر دیتا ہے، اس سے اطراف میں مذاکرات کی کوششیں دم توڑ دیتی ہیں۔ امریکہ چونکہ 2014ء میں افغانستان سے نکل رہا ہے، اس لئے افغانستان میں اپنی شکست کا ذمہ دار پاکستان کو سمجھتا ہے، وہ جاتے جاتے پاکستان کو دہشت گردی اور لاقانونیت کی آگ میں دھکیلنا چاہتا ہے، وہ ہمارے ملک کو کمزور کرنا چاہتا ہے، ایسے میں اگر ہمارے ہاں کچھ پارٹیاں حکومت کو طالبان کیساتھ مذاکرات نہ کرنے کا مشورہ دے رہی ہیں تو وہ حکومت کی دشمن جماعتیں ہیں، جو ملک میں دہشت گردی اور افراتفری کی آڑ میں حکومت گرانا چاہتی ہیں۔ حکمرانوں کے ان کے عزائم سے بچنا ہوگا۔

اسلام ٹائمز: آپ کے خیال میں پرویز مشرف کا کیا انجام ہونے جا رہا ہے، انہیں باہر بھیج دیا جائے گا۔؟

شاہ محمود قریشی: پرویز مشرف کا کوئی ایک جرم نہیں کہ انہوں نے آئین توڑا، بلکہ انہوں نے ملک کو دہشت گردی کی جس دلدل میں دھکیلا ہے یہ اس سے بھی بڑا جرم ہے، اگر ہماری افواج کو امریکہ کی جنگ میں نہ جھونکتا تو آج ملک کی حالت یہ نہ ہوتی۔ اس نے امریکہ کو ڈرون حملے کرنے کی اجازت دی، اس دور میں امریکی جاسوس ملک کے اندر دندناتے پھرتے تھے، جن کے ہاتھوں مسلمان شہری شہید ہوتے رہے۔ آج بھی ملک میں دہشت گردی کے پیچھے غیر ملکی عناصر کا ہاتھ ہے۔ جو اس ملک کو ترقی کرتا نہیں دیکھنا چاہتے۔ اس لئے فوج کی ساکھ کو بھی نقصان پہنچایا جا رہا ہے۔ پرویز مشرف کو اگر مقدمات کا سامنا ہے تو یہ مکافات عمل ہے، جو انہوں نے بویا اسے کاٹنا تو پڑے گا۔ ماضی میں اس نے ایک جمہوری حکومت کو ختم کیا، وزیراعظم کو ہتھکڑیاں لگوائیں، آج وہ عدلیہ کا سامنا کرتے ہوئے گھبرا رہے ہیں۔ جب ملک میں منتخب وزرائے اعظم پیش ہوسکتے ہیں تو ایک ڈکٹیٹر کو کیوں استثنٰی دیا جائے؟ یہی ہم کہتے ہیں کہ انہیں آئین توڑنے کی سزا دی جائے۔ اگر اس نے یہ فیصلہ قوم کے مفاد میں کیا تھا تو اس میں شرمندگی کی کیا بات ہے۔ اب فرد جرم عائد ہوچکی ہے۔ مگر اب بھی چور دروازے سے فرار کرانے کے اشارے مل رہے ہیں۔ اب یہ حکومت کا کام ہے کہ اسے فرار نہ ہونے دے، اس لئے کہ اس سے بلوچستان کے عوام کا احساس محرومی بڑھے گا۔

اسلام ٹائمز: پاک ایران گیس پائب لائن منصوبہ بھی امریکی دباؤ کا شکار ہوگیا۔؟

شاہ محمود قریشی: میرے خیال میں اتنا امریکی دباؤ تھا نہیں جتنا خود ہمارے حکمرانوں نے محسوس کر لیا ہے، میرا پیپلز پارٹی سے اختلاف اپنی جگہ لیکن زرداری صاحب نے ہمت کا مظاہرہ کیا اور ایران کیساتھ معاہدہ کر لیا۔ دباؤ اس وقت تھا جب معاہدہ کیا جا رہا تھا۔ اب حکومت کے پاس بڑا معقول جواب ہے کہ یہ معاہدہ ہم نے نہیں کیا، بلکہ زرداری صاحب نے کیا ہے، اس لئے یہ معاہدہ پہلے سے ہوا ہوا ہے ہم تو مجبور ہیں اس پر عمل کرنے کے، یہ جواب امریکہ کے لئے کافی تھا، لیکن حکومت نے ہمت کا مظاہرہ نہیں کیا اور امریکہ دباؤ کا شکار ہوگئی۔

اسلام ٹائمز: ملک توانائی بحران کا شکار ہے، گرمی کی ابتدا میں ہی بجلی کی لوڈشیڈنگ میں اضافہ ہوگیا ہے، کہیں گرمیوں میں ہونیوالی لوڈشیڈنگ حکمرانوں کے تخت کی چولیں نہ ہلا دے۔؟
شاہ محمود قریشی: ممکن ہے، لیکن ہم سمجھتے ہیں کہ جمہوری حکومت کو اپنی مدت پوری کرنی چاہیے۔ شہباز شریف نے کہا تھا کہ تین ماہ میں لوڈشیڈنگ ختم نہ کی تو میرا نام بدل دیا جائے تو اب شہباز شریف کو اپنا نام خود ہی رکھ لینا چاہیے۔ ہم اگر تجویز کریں گے تو پھر ان کی چاہنے والے ناراض ہوجائیں گے۔ توانائی کی جو صورت حال دکھائی دے رہی ہے، اس حوالے سے حکومت باتیں تو بہت کر رہی ہے لیکن عمل دکھائی نہیں دے رہا۔ بس میڑو بس کے پیچھے پڑے ہوئے ہیں، لوگوں کے گھر اور دکانیں مسمار کرتے جا رہے ہیں اور بس ۔۔۔ عوام کے مسائل کچھ اور ہیں، ان پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ فیصل آباد گیس بحران کے حوالے سے گذشتہ روز جو مظاہرہ ہوا ہے، یہ ایک چھوٹا سا ٹریلر تھا، فلم تو آنے والے دنوں میں چلنے کے لئے تیار ہے، جب سخت گرمی میں لوگ بجلی کو ترسیں گے تو وہ انہیں گالیاں ہی دیں گے، پھولوں کے ہار تو نہیں پہنائیں گے۔
خبر کا کوڈ : 378067
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش