0
Wednesday 7 May 2014 18:46
انسان مشکلات میں مالک حقیقی کو یاد رکھتا ہے

مجلس وحدت مسلمین اور آئی ایس او میں کسی مسئلہ پر کوئی فرق نہیں ہے، اطہر عمران

مجلس وحدت مسلمین اور آئی ایس او میں کسی مسئلہ پر کوئی فرق نہیں ہے، اطہر عمران
امامیہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن پاکستان کے مرکزی صدر اطہر عمران طاہر کا تعلق جنوبی پنجاب کے ضلع لیہ سے ہے۔ اس وقت آپ پریسٹن یونیورسٹی لاہور میں ایم بی اے کے طالب علم ہیں۔ باقاعدہ تنظیمی سفر کا آغاز زرعی یونیورسٹی فیصل آباد سے کیا۔ تنظیم میں یونٹ ڈپٹی جنرل سیکرٹری، یونٹ نائب صدر، یونٹ صدر زرعی یونیورسٹی، مرکزی ڈپٹی جنرل سیکرٹری، مرکزی سیکرٹری تعلیم کی ذمہ داریاں ادا کیں اور آج مرکزی مسئولیت کے دوسرے دور میں خدمات انجام دے رہے ہیں۔ "اسلام ٹائمز" نے اپنے قارئین کے لیے اطہر عمران طاہر سے آئی ایس او کے یوم تاسیس کے حوالے سے ایک انٹرویو کا اہتمام کیا ہے، جو پیش خدمت ہے۔

اسلام ٹائمز: نہایت خوش آئند ہے کہ امامیہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن اپنے سفر کے 42 سال مکمل کر رہی ہے، آپ کے خیال میں تنظیم کے کن شعبہ جات میں کام کرنے کی زیادہ ضرورت ہے۔؟
اطہر عمران: آپ کا شکریہ کہ اس موقعہ پر جب تنظیم اپنا 42واں سال مکمل کر رہی ہے، آپ نے موقف اور خیالات کو قارئین تک پہنچانے کا اہتمام کیا۔ میں سب سے پہلے اس موقع پر تمام ملت بالخصوص شہید قائد کے افکار کے امین برادران و خواہران کو ہدیہ تبریک پیش کرتا ہوں۔ جہاں تک آپ کے سوال کا تعلق ہے تو قوموں کی زندگی میں حالات کبھی ایک جیسے نہیں رہتے، اسی طرح تنظیم کے ادارے کبھی بہت زیادہ فعال ہوتے ہیں اور کبھی قدرے سستی نظر آتی ہے۔ اس وقت آئی ایس او کے زیراہتمام کئی سیٹ اپ اور ادارے کام کر رہے ہیں، آج صورتحال پہلے سے بہتر ہے، اس وقت جو چیلنجز ہیں وہ مغربی کلچر کا فروغ ہے، نوجوانوں کی تربیت ایک بڑا چیلنج ہے۔ یہ کاروان امامیہ اس حوالے سے اپنا کام بخوبی کر رہا ہے اور متوجہ ہے۔ شعبہ جات کے حوالے سے آج مختلف اداروں کے وجود میں آنے کے بعد کام کی رفتار اور مقدار میں اضافہ ہوچکا ہے۔ مثال کے طور پر المہدی ادارہ تربیت، العارف پبلیکشنز، باڈی آف لٹریسی ڈیویلپمنٹ (BOLD) اسی طرح میڈیا کے عنوان سے العارف، میڈیا سیل، سابقین کے تعاون سے مختلف ادارے وجود میں لائے گئے، جو مستقل طور پر کام کر رہے ہیں۔ اب کام ایک ہدف اور تسلسل کے ساتھ انتہائی تیزی سے آگے بڑھ رہا ہے۔

اسلام ٹائمز: بعض لوگ کہتے ہیں کہ تنظیم جمود کا شکار ہے، بعض کہتے ہیں کہ کام آگے بڑھ رہا ہے، کچھ کہتے ہیں تنزلی کا شکار ہے، آپ کا کیا خیال ہے۔؟
اطہر عمران: تنظیموں اور قوموں کے اندر تحرک اور کارکردگی کا گراف ہمیشہ ایک سمت میں آگے نہیں بڑھتا، بلکہ یہ گراف کبھی اوپر کبھی نیچے جاتا رہتا ہے، یہ اس کے وجود کی بقاء، اس کی ترقی، اس کی زندگی کی علامت ہوا کرتا ہے، جو چیز صرف عمودی صورت میں اوپر جاتی ہے وہ جب نیچے آتی ہے تو وہ اتنی تنزلی کا شکار ہوجاتی ہے کہ اس کا وجود ختم ہوجاتا ہے۔ آئی ایس او کا سفر عموی یا افقی نہیں ہے، اس میں کبھی اوپر کبھی نیچے، کبھی ٹھہراؤ آتا رہا، اس کی مثال میں یوں دوں گا کہ ایک وقت تھا کہ قومیات کا بوجھ اُٹھانے کے لیے کوئی تیار نہ تھا، تو اس کاروان الٰہی نے یہ فریضہ سرانجام دیا۔ اسی پلیٹ فارم سے قومی ایشوز پر فعالیت ہوئی، مگر آج جب مجلس وحدت مسلمین کی صورت میں قوم کو ایک اُمید نظر آئی ہے تو آئی ایس او اپنے بنیادی کام تعلیم و تربیت میں مشغول ہوگئی ہے۔ الحمدللہ آئی ایس او تعلیم و تربیت کے کام میں زیادہ توجہ سے کام کر رہی ہے۔ قومی کاموں کا بوجھ جس طرف ضرورت تھی ادھر منتقل کر دیا گیا ہے، وہاں ایک حد تک ہمارا حضور ضرور ہے۔ پہلے جتنے کام بھی ہو رہے تھے آئی ایس او ان میں فرنٹ پر کام کر رہی ہے، شائد لوگ ان کاموں کو دیکھ نہ پاتے ہوں، جو بنیادی نوعیت کے ہیں، اس وجہ سے جمود کی بات کرتے ہوں۔

اسلام ٹائمز: آپ کی اس بات سے یہ کہا جاسکتا ہے کہ چونکہ قومی کاموں سے آئی ایس او پیچھے ہٹ گئی ہے اور تعلیم و تربیت پر زیادہ توجہ دے رہی ہے تو اس کے نتیجہ میں آئی ایس او تعلیمی اداروں میں زیادہ فعال ہوگئی ہے، کیا یہ بات کہی جاسکتی ہے؟
اطہر عمران: کسی بھی کام کے نتائج فوری حاصل نہیں ہوتے ہیں، یہ کہنے میں حق بجانب ہوں کہ آئی ایس او پاکستان کے ڈویژنز کی تعداد بڑھی، جموں ڈویژن، آرگنائزنگ کمیٹی، پاراچنار ڈویژن، اسی طرح تعلیمی اداروں میں روابط مضبوط ہوئے ہیں۔ البتہ بات وہی ہے کہ نتیجہ فوری حاصل نہیں ہوتا، یہ نہیں ہوسکتا کہ آپ ایک پودا لگائیں اور فوری پھل کھانا شروع کر دیں۔ کچھ وقت لگتا ہے نتائج حاصل کرنے میں۔

اسلام ٹائمز: آئی ایس او طلباء تنظیموں کے اتحاد اور محاذ میں فعال کردار ادا کرتی رہی ہے، آج کل طلباء تنظیموں میں عدم فعالیت یا طلباء سیاست کی روایتی گرمی دکھائی نہیں دیتی کیا وجوہات ہیں۔؟
اطہر عمران: طلباء یونینز کا سلسلہ اس حوالے سے بہت اچھا تھا کہ طلباء کے مسائل حل کروانے میں مددگار ثابت ہوتے ہیں۔ طلباء ہی ان کے نمائندے ہوتے تھے اور طلباء کی قیادت کرنے والے ملک میں عملی زندگی میں تربیت یافتہ سیاسی کارکن کے طور پر سامنے آتے تھے۔ جب سے اسٹوڈنٹ یونینز پر پابندی لگی ہے، سیاسی نمو اور نئی لیڈر شپ آنے کا سلسلہ تھم گیا ہے۔ دراصل تعلیم سخت محنت طلب ہوگئی ہے، طالبعلم مسلسل مصروف ہوگیا ہے، ہم متحدہ طلباء محاذ کے اب بھی سیکرٹری جنرل کے طور پر اس پلیٹ فارم پر موجود ہیں، اس کا ایک اجلاس بھی ہمارے آفس میں منعقد ہوا ہے۔ طلباء تنظیمیں ماضی میں کئی اہم ملکی ایشوز پر اجتماعی کردار کے ساتھ قوم کو نظر آتی ہیں۔ اب بھی بہت سے ایشوز پر ملک کے یہ باشعور نوجوان پاکستان کی خدمت کرسکتے ہیں اور ملک جن بحرانوں سے دوچار ہے ان کو حل کرنے میں اپنا حصہ ڈال سکتے ہیں۔

اسلام ٹائمز: آپ کی ذمہ داری کا دوسرا سیشن چل رہا ہے، اس میں کتنے ادارے قائم ہوئے، ان کی کیا صورتحال ہے۔؟
اطہر عمران: ادارے قائم کرنا آسان کام نہیں، یہ دنوں کا کام نہیں، اس میں بہت محنت درکار ہوتی ہے، وقت لگتا ہے، ہم نے جو ادارے قائم کئے ان کے پیچھے بھی آٹھ دس سال کی محنت موجود ہے۔ ادارہ المہدی ؑ کو ہی لے لیجئے یہ دس سال کی محنت کے بعد اس نتیجہ پر پہنچا ہے۔ سابقین کا شعبہ قائم ہوا ہے تو اس کے لیے بھی بہت کوششیں ہوئیں۔ ڈاکٹر شہید کی آرزو بھی تھی کہ آئی ایس او کا بکھرا ہو اثاثہ جمع ہو۔ الحمدللہ ہم اس میں کامیاب ہوئے ہیں اور سابقین کو باقاعدہ مجلس عاملہ سے منظور کروایا ہے۔ اسی طرح العارف میڈیا سیل بھی اپنے ابتدائی مراحل میں ہے، اس میں لاہور ڈویژن کے سابقین مدد کر رہے ہیں اور دیگر شعبے بھی ادارہ جاتی کام کر رہے ہیں۔ 

اسلام ٹائمز: جس وقت آپ کو مرکزی مسؤلیت ملی تو آپ نے جو اہداف مقرر کئے اس میں کس حد تک کامیابی ملی۔؟
اطہر عمران: جس دوست کو ذمہ داری سونپی جاتی ہے اسے علم ہی نہیں ہوتا کہ وہ اتنی بڑی الٰہی ذمہ داری کے لیے منتخب ہو رہا ہے۔ لہٰذا پہلے سے اہداف مقرر کرنا تو ممکن نہیں ہوتا، جب ذمہ داری ملتی ہے تو یقیناً آدمی یہ سوچتا ہے کہ ان شعبوں میں کام کو آگے بڑھاؤں گا۔ ایسے ہی خیالات تھے کہ ادارہ جاتی کاموں کو آگے بڑھاؤں گا۔ اس کے علاوہ دوستان کی نظریاتی، فکری، دینی و اخلاقی تربیت کے بارے میں مجھے بہت زیادہ فکر رہتی تھی، ہم نے اس حوالے سے بہرحال کوششیں کیں اور کر رہے ہیں۔ باقی یہ کہوں گا کہ یہ تسلسل عمل کا نام ہے، تنظیم کا کام تسلسل سے چلتا رہتا ہے، کچھ چیزوں کا آغاز ہوتا ہے، کچھ چیزوں کی بنیادیں پڑ جاتی ہیں، کچھ کام مکمل ہوتے ہیں اور کچھ کام آئندہ آنے والے برادران کے کاندھوں کے لئے رہ جاتے ہیں۔ کچھ مسائل کو آپ حل کرکے جاتے ہیں، کچھ مسائل آئندہ آنے والوں کے حصہ میں آتے ہیں۔ یہ سلسلہ چلتا رہتا ہے، چل رہا ہے، انشاءاللہ تاظہور حضرت حجت یہ سلسلہ قائم رہے گا۔
ہم ہوں نہ ہوں اس بزم میں
قائم عزاداری رہے
یہ سلسلہ جاری رہے

سابقین کے شعبے کا قیام میرے ذہن میں تھا، اس کو دستوری شکل ملی ہے۔ تلخ حقائق اور چیلنجز کا مقابلہ کرنا الحمدللہ اس حوالے سے کام کیا، کچھ ریکارڈ کو منظم کرنا، اس حوالے سے بھی کام جاری ہے۔ جو خدا کی توفیق ہوگی، اسے عملی کریں گے۔ کچھ باتیں اداروں میں زیر بحث ہیں۔ 10 روزہ اجلاس عاملہ ماہ مبارک رمضان میں رکھا گیا ہے، تاکہ بہتر پلاننگ کی جاسکے۔

اسلام ٹائمز: ڈاکٹر شہید کی برسی پر بہت سی شخصیات نظر نہیں آئیں، آیا دعوت کے مسائل تھے یا بزرگان نے آنے کی زحمت نہیں کی۔؟ اطہر عمران: الحمدللہ ہم نے کوشش کی کہ ہر ایک رفیق شخصیت تک برسی کا پیغام اور دعوت پہنچائی جائے۔ ممکن ہے کوئی رہ گیا ہو، مگر اصل میں جس کسی تک بھی شہید کی برسی کا پیغام یا اطلاع کسی ذریعہ سے پہنچی ہے اور اس کو شہید سے محبت ہے، قربت ہے تو اسے چاہیے کہ وہ پہنچے، دعوت کا انتظار نہ کرے بلکہ وہاں بطور میزبان آجائے۔

اسلام ٹائمز: آئی ایس او ماضی میں قومیات اور قومی تنظیموں کے ساتھ مل کر فعال کردار ادا کرتی رہی ہے، اس وقت کیا صورتحال ہے۔؟ جب قومی افق پر مجلس وحدت مسلمین فعال ہے اور آئی ایس او کا مرکزی صدر مجلس وحدت کی مرکزی شوریٰ کا ممبر بھی ہے، یہ روابط کس سطح پر ہیں۔؟
اطہر عمران: جو زمانہ شہید قائد کا تھا، وہ مراسم و مناظر تو شاید دوبارہ نظر نہ آئیں، اس لیے کہ شہید قائد کی اپنی ایک شخصیت تھی، ان کی جاذبیت تھی اور ان کا فرزند امام خمینیؒ و نمائندہ ولی فقیہ ہونا نوجوانوں کے لیے کشش کا باعث تھا، اس لیے کہ وہ مناظر تو نظر نہیں آئیں گے۔ میں سمجھتا ہوں کہ اس وقت مجلس وحدت مسلمین ملت کے دردوں کا درماں کرنے کیلئے فعالیت سے کردار ادا کر رہی ہے۔ ان کا عزم واقعاً متاثرکن ہے، اگر کوئی طاقت یا شخصیت ملت کی تقویت کو کمزور کر رہی ہو یا ضعف کا باعث بن رہی ہو تو ہمارا اس سے کوئی تعلق نہیں۔ مجلس وحدت مسلمین تو ملت کو مضبوط اور توانا کر رہی ہے۔ ملت کی اُمد بن کر سامنے آئی ہے، رہبر کی آرزو ہے کہ پاکستان میں مکتب تشیع مضبوط، مستحکم اور فعال رہے، ممکن ہے کہ کسی صوبہ، ضلع، ڈویژن یا یونٹ میں دوست اس طرح ہم آہنگ نہ ہوں جیسا ہونا چاہیے، یہ چیز وقت کے ساتھ ساتھ ختم ہوجائے گی۔ میں نہیں سمجھتا کہ کسی مسئلہ میں مجلس وحدت مسلمین اور آئی ایس او میں کوئی فرق نہیں ہے۔

اسلام ٹائمز: آئی ایس او جن کا ساتھ دیتی ہے وہ وسائل سے لیس ہوتے ہیں، آئی ایس او مسائل سے لیس رہتی ہے۔؟
اطہر عمران: آئی ایس او پاکستان اپنی آزادی کے ساتھ اپنے ایجنڈے اور پروگراموں کو توکلت الی اللہ چلاتی رہتی ہے۔ بقول علامہ اقبالؒ:
مرا طریق امیری نہیں غریبی ہے
خودی نہ بیچ غریبی میں نام پیدا کر


اسلام ٹائمز: بعض افراد کا خیال ہے آئی ایس او کے جوان چونکہ ابھی تعلیمی مراحل میں ہوتے ہیں، اس لیے انہیں معاملات کا تجربہ نہیں ہوتا اور ایجنڈا کہیں اور ترتیب پاتا ہے۔؟
اطہر عمران: قرآن بہرحال متوجہ کرتا ہے کہ ظن نہ کرو، بدگمانی نہ کرو، بہت سے گمان بڑے بڑے گناہوں تک لے جاتے ہیں۔ حقیقت کی عینک پہن کر دیکھیں گے تو ایسا کچھ نظر نہیں آئے گا۔ ہمارے کارکنان مفادات کے حصول کے لیے تنظیم میں کام نہیں کرتے، نہ مفادات لیتے ہیں اور نہ ہی مفادات کے حصول کا ذریعہ بنتے ہیں۔ ایسی کسی بات کا وجود نہیں۔ مرکزی سطح پر ہمارے ادارے بے حد بااختیار ہیں اور اداروں میں کھل کر ہر ایک مسئلہ پر اپنی آراء کا اظہار اور اختلاف نظر کیا جاتا ہے۔ آئی ایس او کسی کو بھی اپنے اوپر ایجنڈا نافذ کرنے کی اجازت نہیں دیتی۔ اپنے فیصلے خود کرنا آئی ایس او کا ہی طرۂ امتیاز رہا ہے۔ یہ روایات لوگوں نے ہم سے سیکھیں ہیں۔ پاکستان میں جتنی بھی شیعہ تنظیمیں کام کر رہی ہیں ان میں کہیں نہ کہیں آئی ایس او کے اثرات و عوام حتٰی شخصیات نظر آتی ہیں۔ یہ ہماری فکر کی بالیدگی اور نظم کی پابندی کی بہترین علامت ہے۔

اسلام ٹائمز: تنظیم کو مالی، اجتماعی یا قومی حوالے سے کسی قسم کی مشکلات سے واسطہ ہے، کون سی مشکلات سے دوچار رہتے ہیں۔؟
اطہر عمران: افراد سازی سب سے مشکل کام ہے، تنظیم اپنے کارکنان کی تربیت نہ کرے تو وقت کے ساتھ ساتھ ختم ہوجاتی ہے۔ آئی ایس او پاکستان شہداء کی امانت ہے، یہاں شہداء کے خون کی تاثیر نظر آئے گی۔ امام زمانہ ؑ کے لطف و تائید و مدد سے بہت سے بحرانوں سے ہم نکلے ہیں۔ افراد سازی کا کام بہرحال مشکل کام ہے۔ مالی مشکلات ہمیشہ رہی ہے۔ ہم اپنے ان کارکنان جو صرف 10 روپے دے سکتے ہیں ان سے لے کر بڑے ڈونرز تک سب سے مربوط رہنا چاہتے ہیں۔ ہم چند محدود افراد تک محدود نہیں رہنا چاہتے، جو مشکلات مالی طور پر رہتی ہیں، وہ ایک طلباء تنظیم کو رہنی بھی چاہیں۔ جب انسان آسودہ اور خوش حال ہو تو خدا کی طرف متوجہ نہیں ہوتا، مشکلات میں مالک حقیقی کو یاد رکھتا ہے۔ لہٰذا مالی مشکلات سے گھبرانا نہیں چاہیے، خدا کی طرف رجوع کرنا چاہیے۔
خبر کا کوڈ : 380110
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش