0
Sunday 25 May 2014 13:52
پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ دہشتگردی ہے

امریکہ، اسرائیل اور بھارت کی پاکستان دشمن پالیسیاں کسی سے ڈھکی چھپی نہیں، بریگیڈیئر (ر) محمد یوسف

فوجی چوکیوں پر حملے کرنیوالے طالبان کو منہ توڑ جواب دیا جانا چاہیئے
امریکہ، اسرائیل اور بھارت کی پاکستان دشمن پالیسیاں کسی سے ڈھکی چھپی نہیں، بریگیڈیئر (ر) محمد یوسف
محمد یوسف پاک فوج کے سینیئر افسر رہے ہیں، آج کل دفاعی تجزیہ نگار کے طور پر مختلف ٹی وی چینلز پر تبصرے کرتے بھی دکھائی دیتے ہیں۔ افغان جنگ میں نمایاں کردار ادا کیا۔ محمد یوسف کا کہنا ہے کہ سی آئی اے کی پالیسیوں سے اختلافات پر وہ اس مشن سے الگ ہوگئے تھے، تاہم ان حریفوں کا کہنا ہے کہ طالبان بنانے، انہیں ٹریننگ اور اسلحہ فراہم کرنے کی تمام تر ذمہ داری ان کی ہی تھی اور محمد یوسف پانچ سال آئی ایس آئی کے پلیٹ فارم سے افغانستان میں روس کے خلاف جنگ کے لئے امریکہ کے لئے ’’خدمات‘‘سرانجام دیتے رہے ہیں۔ محمد یوسف کی وجہ شہرت ان کی شہرہ آفاق کتاب ’’AFGHANISTAN: THE BEAR TRAP‘‘ بھی ہے۔ اسلام ٹائمز نے پاکستان کی موجودہ صورتحال کے حوالے سے ان کیساتھ ایک مختصر نشست کی، جس کا احوال قارئین کے لئے پیش کیا جا رہا ہے۔ (ادارہ) 

اسلام ٹائمز :وزیراعظم نواز شریف اکثر یہ کہتے سنائی دیتے ہیں کہ بعض عناصر طالبان کے ساتھ مذاکرات سے خوش نہیں، انکا اشارہ کن کی طرف ہے۔؟ 
بریگیڈیئر (ر) محمد یوسف: وزیراعظم جب کہتے ہیں کہ کچھ عناصر طالبان کے ساتھ جنگ بندی سے خوش نہیں تو پھر ان عناصر کا نام کیوں نہین بتاتے، وہ کوئی عام شہری نہیں، ملک کے وزیراعظم ہیں، اگر ان میں نام بتانے کی جرات نہیں تو پھر دوسرا کون بتائے گا، طالبان کوئی آج کا مسئلہ نہیں، زرداری حکومت نے پانچ سال پورے کئے مگر یہ مسئلہ حل نہ کیا۔ اب نواز شریف کہہ رہے ہیں کہ یہ مسئلہ اس لئے حل نہیں ہو رہا کہ کچھ عناصر اس سے خوش نہیں تو بھائی اگر آپ سے یہ مسئلہ حل نہیں ہو رہا تو پھر فوج کو اسے حل کرنا ہی ہے، جب فوج مسئلے کا حل کرتی ہے تو اس کا اپنا انداز ہوتا ہے، جب سیاستدان اور ملکی قیادت ہی مسائل کو حل کرنے میں ناکام ثابت ہوجائے تو پھر فوج کو ملک بچانے کے لئے اقدام اٹھانا ہی پڑتے ہیں۔ فوج کا اپنا انداز اور اپنا سٹائل ہوتا ہے۔ جو عناصر معاملات کو بگاڑنا چاہتے ہیں، وزیراعظم کو ان کے نام بھی بتانے چاہیں، انہیں کمزوری نہیں دکھانی چاہیے۔ وزیراعظم لوگوں کے پیچھے نہیں چلتے بلکہ وزیراعظم وہ ہوتا ہے جس کے اشارے لوگ سمجھ جائیں اور اس کے پیچھے چل پڑیں، جب اے پی سی میں تمام سیاسی جماعتوں نے حکومت کو طالبان کے ساتھ مذاکرات کا اختیار دے رکھا
ہے تو پھر حکمران کس الجھن میں مبتلا ہیں۔ انہیں چاہیے کہ کسی قسم کے شکوک و شبہات میں مبتلا ہونے کی بجائے طالبان کے جو گروپ بات چیت کرنا چاہتے ہیں، ان کے ساتھ مذاکرات کریں اور جو حکومتی رٹ کو تسلیم نہیں کر رہے، ان کا کام تمام کر دیا جائے۔ مذاکرات کی حامی بھرنے کے بعد جو لوگ دھماکے کر رہے ہیں، جو فوجی چوکیوں اور فوجی گاڑیوں کو نشانہ بنا رہے ہیں، سول املاک اور شہریوں کو نشانہ بنا رہے ہیں ان کو منہ توڑ جواب دیا جائے۔ 

اسلام ٹائمز: آپ کی نظر میں پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ کیا ہے۔؟ 
بریگیڈیئر (ر) محمد یوسف: آج ہمارا سب سے بڑا مسئلہ دہشت گردی ہے۔ اس سے نمٹنے کے لئے حکومت اور فوج کو ایک پیج پر آنا ہوگا۔ دونوں کے مشترکہ لائحہ عمل کے بغیر امن کا قیام ممکن نہیں۔ اس لئے حکمرانوں کو فوج کی نیت پر شک نہیں کرنا چاہیے۔ ملک میں دہشت گردی کا سب سے زیادہ نشانہ ہماری پاک فوج کے جوان اور افسران بنے ہیں، ان کی قربانیوں کو سامنے رکھا جائے۔ فوج ہر مشکل گھڑی میں دشمن کے سامنے سیسہ پلائی دیوار بن کر کھڑی ہوگی۔ اب بھی وہ ملک کے اندرونی اور بیرونی خطرات سے نبرد آزما ہے۔ ایسی صورت حال میں فوج کو عوام کی مکمل سپورٹ حاصل ہے۔ آپ نے حالیہ دنوں میں دیکھ لیا جب قومی ادارے کے خلاف الزامات عائد کئے گئے تو کس طرح لوگ باہر نکلے، لوگوں کا اس طرح باہر آنا اس بات کی واضح دلیل ہے کہ لوگوں کو فوج سے پیار ہے۔ حکمران ویسے بھی عوام کی نظروں میں بدنام ہیں، ماضی میں کرپشن اور بدعنوانی کے ایسے ایسے ریکارڈ قائم ہوئے ہیں کہ اب ہر سیاست دان کرپٹ دکھائی دیتا ہے، اس لئے صرف فوج ہی رہ جاتی ہے جس کو عوام احترام دیتے ہیں اور یہ احترام صرف اس لئے ہے کہ فوج وطن عزیز کے ساتھ مخلص ہے اور وطن کی خاطر جان قربان کرنے کے لئے آمادہ رہتی ہے۔ 

اسلام ٹائمز: کیا اندرونی مسائل حل کئے بغیر ہم بیرونی مداخلت ختم کرسکتے ہیں، کیا دہشتگردی ختم کرنے کیلئے نیشنل پالیسی بنانے کی ضرورت نہیں۔؟ 
بریگیڈیئر (ر) محمد یوسف: ہمیں بیرونی سے زیادہ اندرونی مسائل لاحق ہیں، اس لئے پہلے ہمیں ان پر قابو پانے کی ضرورت ہے، دہشت گردی ختم کرنے کے لئے جلد کوئی واضح پالیسی تشکیل دینا ہوگی۔ پولیس کے محکمے میں جہاں جہاں خامیاں ہیں، انہیں دور کیا جائے۔ شہروں
میں پولیس کی ازسرنو تشکیل کی جائے، انہیں جدید خطوط پر استوار کیا جائے۔ دہشت گردی کے خلاف نئے اسکواڈ بنائے جائیں، جن کی صحیح معنوں میں تربیت ہو، سری لنکا نے بھی اپنے ہاں دہشت گردی کا خاتمہ کیا، یہ ہماری کمزوری کے سبب ہی یہاں پر جیلیں توڑنے جیسے واقعات ہو رہے ہیں، ہمارے ہاں ہمیشہ اس حوالے سے ڈنگ ٹپاؤ پالیسیاں بنائی گئیں، جس کی وجہ سے دہشت گردی بڑھتی گئی۔ اس کے علاوہ کراچی اور بلوچستان کے حوالے سے بھی فوج اور ایف سی کو مل کر ایکشن کرنا چاہیے۔ نیم دلی کے ساتھ حکومتوں کو نہیں چلایا جاسکتا، اس کے لئے سٹیٹ کی طاقت استعمال کرنے کی ضرورت ہے۔ کوئی طاقت سٹیٹ کی طاقت کے سامنے زیادہ دیر نہیں ٹھہر سکتی۔ اس لئے سول حکومت فوج اور پولیس اور دیگر اداروں کو مل کر حکمت عملی اختیار کرنا ہوگی۔ 

اسلام ٹائمز: کیا ایسے ملک کو پسندیدہ قرار دیا جاسکتا ہے جس نے نہ صرف ہماری شہ رگ پر قبضہ کر رکھا ہے بلکہ ہمارا پانی روک کر وہ ہمارے ملک کو بنجر بنانے پر بھی تلا بیٹھا ہے۔؟ 
بریگیڈیئر (ر) محمد یوسف: ہم ایسے ملک کو پسندیدہ قرار دینے جا رہے ہیں جس نے ہمارے ملک کو دل سے تسلیم ہی نہیں کیا، پھر اس نے کشمیریوں کے حق خودارادیت کو تسلیم نہیں کیا، بلکہ اس کی آڑ میں دو بڑی جنگیں ہم پر مسلط کر چکا ہے، آج پھر اس نے کنٹرول لائن پر فائرنگ کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے۔ اسی بھارت نے کشمیر سے نکلنے والے دریاؤں پر 65 ڈیم بنا رکھے ہیں، تاکہ ہمارے ملک کا پانی روک کر اسے بنجر اور ویران کر دیا جائے، وہ تجارت کی آڑ میں ہماری معیشت تباہ کرنے پر تلا بیٹھا ہے۔ مظلوم کشمیری مسلمان 65 سال سے زائد عرصہ بھارتی غلامی کی چکی میں پس رہے ہیں، اس لئے کہ وہ پاکستان کے ساتھ الحاق چاہتے ہیں، کشمیری مسلمان پاکستان کو اپنا حقیقی دوست، بھائی اور اپنا وکیل سمجھتے ہیں، جو دنیا میں ان کی آواز بلند کرتا ہے۔ اس لئے ہم سمجھتے ہیں کہ مسئلہ کشمیر حل ہونے تک بھارت سے کسی قسم کی تجارت کی جائے نہ اسے پسندیدہ ملک قرار دیا جائے۔ امریکہ اور اس کے حواریوں کو بھی تحریک حریت اور دہشت گردی میں فرق سمجھنا چاہیے۔ مقبوضہ کشمیر کے عوام تو 66 سال سے اپنے حق خودارادیت کی جدوجہد کر رہے ہیں، اس حوالے سے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادیں سب کے سامنے ہیں۔ 

اسلام
ٹائمز
: بھارت کی انتخابی مہم میں پاکستان کیخلاف بڑی بیان بازی کی گئی، اسی بدولت آج مودی وزی اعظم ہے، بیان بازی کے جواب میں ہمارے آرمی چیف نے کشمیر ہماری شہ رگ ہے کہا تو انکی بولتی بند ہو گئی، کیا ہمیں اسی طرح بھارت کو منہ توڑ جواب نہیں دینا چاہیے۔؟ 

بریگیڈئر (ر) محمد یوسف: آپ نے دیکھا آرمی چیف نے مسئلہ کشمیر پر اپنے جن خیالات کا اظہار کیا اور کہا کہ کشمیر ہماری شہ رگ ہے تو اس پر پوری بھارتی حکومت گھوم گئی، بالخصوص نریندر مودی اور ان کے ہمنواؤں نے جس طرح سیخ پا ہو کر ایسے بیانات دیئے، جس سے ثابت ہوتا تھا کہ تیر نشانے پر لگا ہے، ہمیں ایک پاکستانی ہونے کے حیثیت سے اپنے موقف میں یکسانیت پیدا کرنی چاہیے، بھارتی قیادت پچھلے 66 سال سے ایک موقف پر قائم ہے جبکہ ہم نے کئی دفعہ اپنے موقف میں لچک پیدا کی ہے، ہم تو مسئلہ کشمیر پر بات کرتے ہوئے ڈرتے ہیں، جبکہ آرمی چیف نے مسئلہ کشمیر کے حوالے سے بیان دے کر عوام کے دل جیت لئے ہیں۔ اس مسئلے پر دو بڑی جنگیں ہوچکی ہیں۔ بھارت نے کشمیر میں اپنی چھ سات لاکھ فوج جمع کر رکھی ہے، مگر ہم چپ کا روزہ رکھے ہوئے ہیں۔ 

اسلام ٹائمز: یوں تو پھر بھارت کا پلڑا بھاری دکھائی دے رہا ہے کہ انکی قیادت مسئلہ کشمیر پر ہم آہنگ ہے اور ہم منتشر ہیں۔؟ 
بریگیڈیئر (ر) محمد یوسف: نہیں ایسا نہیں، دراصل جھوٹ کے پاؤں نہیں ہوتے، وہ جھوٹے ہیں اور طے شدہ منصوبے کے تحت مسلسل جھوٹ اس لئے بول رہے ہیں کہ سچ دکھائی دے، لیکن بھارتی قیادت اندر سے بوکھلاہٹ کا شکار ہے، ہماری پالیسی اگر بدلتی ہے تو وہ ہماری امن پسندی ہے، ہم چاہتے ہیں خطے میں امن ہو، ہماری پالیسی بدلتی ہے موقف نہیں، کشمیر ہمارا ہی ہے، بھارتی قیادت کی بوکھلاہٹ کا آپ اندازہ اس بات سے لگا سکتے ہیں کہ بھارت میں جب بھی کوئی واقعہ ہوتا ہے، اس کی ذمہ داری بغیر سوچے سمجھے آئی ایس آئی یا ہماری اسلامی جہادی تنظیموں پر عائد کر دیتے ہیں۔ میں واضح طور پر کہنا چاہتا ہوں کہ افغانستان کے مسئلہ پر آج پاکستان جس مقام پر کھڑا ہے، اس میں ہمیں ایک بار پھر خاص مقام حاصل ہو رہا ہے، اس سے بھارتی حکومت بوکھلاہٹ کا شکار ہے، جبکہ ہم نے ثابت قدمی کے ساتھ بیرونی جارحیت کا مقابلہ کیا ہے۔
آج وہ لوگ جو جارحیت کرتے یہاں تک آ پہنچے تھے، آج وہ
ناکام و نامراد ہو کر افغانستان سے واپس جا رہے ہیں۔ اس لئے خطے میں پاکستان کو دوبارہ وہ مقام مل رہا ہے جس کا وہ مستحق ہے۔ آپ دیکھ لیں کہ امریکہ کے افغانستان سے نکلنے کے بعد تحریک آزادی کشمیر کو ایک بار پھر وہ عروج ملے گا اور ان کا مطالبہ تسلیم کیا جائے گا۔ حریت کانفرنس کے رہنماوں اور دیگر زعماء کو مسئلہ کشمیر پر ہم نے پرعزم پایا ہے، کشمیری قیادت کا کہنا ہے کہ کشمیریوں کا جذبہ بہت بلند ہے، انہوں نے اس تحریک کے لئے بے پناہ قربانیاں دی ہیں۔ پاکستان کی طرف سے جو کمی آئی ہے امریکہ کے خطے سے نکل جانے کے بعد پھر سے پاکستان دباؤ سے نکل کر کھل کر کشمیریوں کے حق خودارادیت کے لئے میدان میں آجائے گا، جس سے کشمیر کی تحریک آزادی میں تیزی آئے گی۔ 

اسلام ٹائمز: بھارت عالمی طاقتوں کے ایما پر پاکستان میں دہشتگردی کا مرتکب ہو رہا ہے، آپ نہیں سمجھتے کہ ہمارے ہاں روز بروز بیرونی مداخلت بڑھ رہی ہے۔؟ 
بریگیڈیئر (ر) محمد یوسف: اصل میں امریکہ، اسرائیل اور بھارت کی پاکستان دشمن پالیسیاں کسی سے ڈھکی چھپی نہیں، ان تینوں کا ہدف ہمارا ایٹمی پروگرام ہے۔ جو ان تینوں کو پہلے دن سے ہی کھٹکتا ہے، وہ جنگ جو افغانستان میں لڑی جا رہی تھی، وہاں سے پاکستان منتقل کر دی گئی، دشمن کے کنٹینرز ہمارے راستے سے اپنا سامان لے کر جاتے ہیں، انہیں کی آڑ میں تخریب کاری کو فروغ مل رہا ہے اور بھارت کو شہہ مل رہی ہے۔ ان کے جاسوس یہاں پر دہشت گردی کی وارداتوں میں ملوث ہیں، ریمنڈ ڈیوس تو ایک شخص تھا، اس جیسے کتنے امریکی، اسرائیلی اور بھارتی جاسوس ہمارے ملک کو نقصان پہنچانے کی کوشش کر رہے ہیں، ان سے خبردار رہنے کی ضرورت ہے۔ انہی کی آڑ میں بھارت نے افغانستان میں اپنے قونصل خانے کھول رکھے ہیں، جہاں بھارت کے لیفٹیننٹ جنرل رینک کے فوجی افسر تربیتی کیمپ چلا رہے ہیں، جہاں سے تربیت یافتہ افراد پشاور اور کوئٹہ کے راستے پاکستان آکر کارروائیاں کرتے ہیں، بلوچستان اور خیبر پختونخوا میں ہونے والی تخریبی کارروائیوں میں یہ عناصر ملوث ہیں۔ بھارت اپنے آقاؤں کی شہ پر پاکستان پر دباؤ بڑھا کر اپنے مذموم مقاصد کی تکمیل کر رہا ہے۔ 

اسلام ٹائمز: ایک طرف آزاد صحافت کی بات ہوتی ہے، دوسری جانب صحافیوں پر حملے ہو رہے، پھر فوج پر
تنقید ہوتی ہے، حکومتی حلقوں میں یہ باتیں گردش کر رہی ہیں کہ جمہوریت کیخلاف سازشیں ہو رہی ہیں، آپ کیا کہیں گے۔؟ 

بریگیڈیئر (ر) محمد یوسف: یہاں ہر شخص عدلیہ اور میڈیا کی آزادی کے حق میں ہے۔ آزاد عدلیہ اور آزاد صحافت سے ملک کی بنیادیں مضبوط ہوتی ہیں، لیکن دیکھا یہ گیا کہ جیسے ہی ایک ٹی وی کے اینکر پر حملہ ہوا، اس کے جواب میں چینل پر فوری طور پر آئی ایس آئی کے سربراہ کو بدنام کرنے کی مہم شروع کر دیتا ہے۔ کیا اسے آزادی صحافت کہتے ہیں؟ کہ بلا تحقیق آپ کسی بھی ادارے کے سربراہ کو ملزم بنا دیں اور اس کی معطلی کا مطالبہ کر دیں۔ ملک کا کوئی شہری بھی حامد میر پر حملے کو پسند کی نظر سے نہیں دیکھتا، سب ان پر حملے کی مذمت کرتے ہیں، مگر جس طرح جیو نے آئی ایس آئی کے سربراہ اور اس ادارے کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی، اس کا ذمہ دار کون ہے، ایجنسیاں اور ادارے ملک کی سلامتی میں اہم کردار ادا کرتے ہیں اور اگر آپ منظم انداز میں ایجنیسوں اور اداروں کو بدنام کرنا شروع کر دیں تو کون اسے پسند کرے گا۔ یہ ہمارے اداروں کے جوان ہیں جو دن رات اپنی جانیں داؤ پر لگا کر ملک کی سلامتی کے لئے مصروف عمل ہیں، ان پر کسی کو بھی الزام تراشی کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔ 

اسلام ٹائمز: آئی ایس آئی کے خلاف الزامات کے حوالے سے کیا کہیں گے، یہ کوئی بیرونی سازش ہے۔؟ 
بریگیڈیئر (ر) محمد یوسف: جی بالکل، یہ بہت بڑی سازش ہے۔ ہمیں بتایا جائے کہ کس کے ایما پر آئی ایس آئی کے خلاف ٹی وی پر یہ تماشا لگایا گیا، یہ کس کے ایجنڈے پر پاک فوج کو بدنام کیا جا رہا تھا، ہم نواز شریف کے خلاف نہیں، فوج نے تو 5 سال تک زرداری کی حکومت کو گرنے نہیں دیا، وہ بھلا کس طرح جمہوریت کے لئے خطرہ بن سکتی ہے۔ اس حکومت کو بھی فوج سے نہیں عوام سے خطرہ ہے، ملک گھمبیر مسائل میں گھرا ہوا ہے، ملک میں غریبوں کے پاس کھانے کے لئے روٹی نہیں، پینے کو صاف پانی نہیں، بجلی اور گیس کے لئے عوام ترس رہے ہیں، اسی لئے وہ سڑکوں پر آنے پر مجبور ہو رہے ہیں، ایسے میں لوگوں کی نگاہیں فوج کی جانب ہی ہوں گی، حکمرانوں کو اس صورت حال کا جائزہ لینا ہوگا، انہیں عوام کے مسائل حل کرنا ہوں گے نہ نجکاری کرکے عوام کو بے روز گار کرکے انکے مسائل میں اضافہ کیا جائے۔
خبر کا کوڈ : 386071
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش