0
Tuesday 10 Jun 2014 14:00
تکفیری و سیاسی عناصر شیعہ ٹارگٹ کلنگ میں ملوث ہیں

ہماری فعالیت اسلام و ملت تشیع کی سربلندی کیلئے ہے، علی حسین نقوی

ہمیں ملت تشیع کے مفادات عزیز ہیں نہ کہ تنظیمی نمود و نمائش
ہماری فعالیت اسلام و ملت تشیع کی سربلندی کیلئے ہے، علی حسین نقوی
سید علی حسین نقوی اس وقت مجلس وحدت مسلمین کراچی ڈویژن کے سیکریٹری سیاسیات کے فرائض انجام دے رہے ہیں۔ زمانہ طالب علمی میں آپ پشاور یونیورسٹی میں پیپلز اسٹوڈنٹس فیڈریشن کے پلیٹ فارم پر طلباء سیاست میں فعال تھے اور آپ پی ایس ایف پشاور یونیورسٹی یونٹ کے جنرل سیکریٹری اور یونٹ صدر بھی رہے۔ مجلس وحدت مسلمین کے قیام اور اس کی فعالیت سے متاثر ہو کر آپ نے ایک کارکن کی حیثیت سے ایم ڈبلیو ایم میں شمولیت اختیار کی۔ گذشتہ عام انتخابات میں آپ نے ایم ڈبلیو ایم کے ٹکٹ پر کراچی سے قومی اسمبلی کے حلقہ NA250 سے حصہ لیا مگر اس حلقے میں دھاندلی اور صورتحال کے پیش نظر جہاں دیگر سیاسی جماعتوں نے اس انتخابات کا بائیکاٹ کیا، وہاں ایم ڈبلیو ایم نے بھی بائیکاٹ کا اعلان کر دیا تھا۔ اس وقت آپ کی سیاسی فعالیت کو دیکھتے ہوئے آپ کو ایم ڈبلیو ایم کراچی کے سیکریٹری سیاسیات کے عہدے پر فائز کیا گیا۔ اسلام ٹائمز نے کراچی سمیت سندھ بھر میں ہونے والی شیعہ نسل کشی و ٹارگٹ کلنگ کے حوالے سے سندھ حکومت کیخلاف یکم جون کو ہونے والے ایم ڈبلیو ایم کے لبیک یاحسین مارچ اور اس کے نتیجے میں سندھ حکومت کی جانب سے ملت تشیع کے مطالبات کو تسلیم کئے جانے کے تناظر میں سید علی حسین نقوی کے ساتھ جو کہ ایم ڈبلیو ایم کی مذاکراتی ٹیم کے سربراہ بھی تھے، انکے دفتر میں ایک خصوصی نشست کی، اس حوالے سے آپ سے کیا گیا خصوصی انٹرویو قارئین کیلئے پیش ہے۔ ادارہ

اسلام ٹائمز: لبیک یاحسین مارچ جن مقاصد کے تحت کیا گیا، کیا آپ سمجھتے ہیں کہ مجلس وحدت مسلمین ان مقاصد کے حصول میں کامیابی رہی۔؟
سید علی حسین نقوی: بسم اللہ الرحمٰن الرحیم ۔۔۔۔۔ لبیک یاحسین مارچ کے جو بنیادی مقاصد تھے وہ سپریم کورٹ کراچی رجسٹری پہنچنے تک ہی حاصل ہوچکے تھے، کراچی میں شیعہ نسل کشی و ٹارگٹ کلنگ پر سندھ حکومت جس بے حسی و مجرمانہ خاموشی کا مظاہرہ کر رہی تھی، ہم نے کوشش کی کہ حکمرانوں کی توجہ اس جانب مبذول کرائی جائے، جو تکفیری و سیاسی عناصر شیعہ ٹارگٹ کلنگ میں ملوث ہیں، حکومت ان کے خلاف کارروائی کرے، ان دہشتگرد عناصر اور انکے سرپرستوں کو عوام کے سامنے لایا جائے، بے نقاب کیا جائے، تاکہ عوام جان سکے کہ کونسی نام نہاد مذہبی و سیاسی جماعتیں شیعہ نسل کشی و ٹارگٹ کلنگ میں مصروف ہیں۔ پھر یہ کہ ہمارے شہداء کے ورثاء کو کسی قسم کی امداد نہیں کی جا رہی ہے جو کہ حکومت کا فریضہ ہے، ہم نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ شہداء کے ورثاء کی ہر قسم کی امداد کی جائے، اس حوالے سے ایک کمیٹی تشکیل دی جاچکی ہے جس میں کمشنر کراچی، وزیراعلٰی کے معاون خصوصی وقار مہدی، آئی جی سندھ، ایڈیشنل آئی جی کراچی بھی شامل ہیں، اس کی ایک میٹنگ بھی ہوچکی ہے۔

تیسرا یہ کہ ٹارگٹ کلنگ یا دیگر دہشتگردی کے واقعات میں جو افراد زخمی ہوتے ہیں، حکومت ان کے سرکاری خرچ پر علاج معالجہ کا تو اعلان کر دیتی تھی مگر دو تین دنوں کے بعد وہ اعلان دھرے کے دھرے رہ جاتے تھے، دو تین دن حکومت دیکھتی تھی اور اس کے بعد زخمیوں کے خانوادے لمبے چوڑے بل لے کر دھکے کھا رہے ہوتے ہیں، پریشان ہو رہے ہوتے ہیں، اس حوالے سے ہم نے حکومت کو مجبور کیا کہ جب تک زخمی مکمل صحتیاب ہو کر گھر نہیں چلا جاتا، حکومت تمام تر اخراجات برداشت کریگی، اس کے علاوہ شہداء کے ورثا میں کم از کم ایک فرد کو سرکاری نوکری دینے کا ہم نے مطالبہ کیا، جسے تسلیم کیا گیا، جو کمیٹی تشکیل دی گئی ہے وہ اس معاملہ کو دیکھ رہی ہے، ہم فہرستیں مرتب کر رہے ہیں، اس کے بعد پیشہ ورانہ مہارت skill کے مطابق ان کو نوکریاں دی جائیں گی۔ پھر ہم نے پروفیشنل شخصیات کیلئے اسلحہ لائسنز کا مطالبہ کیا جو کہ 144 کے پرمٹ کے ساتھ ہو یا اسے 144 سے استثنٰی حاصل ہو، یہ مطالبہ بھی تسلیم کیا گیا، اس حوالے سے کمشنر کراچی کو اختیار دیا گیا ہے، کمیٹی نام دیگی، کمشنر کراچی اسلحہ لائسنز کا اجراء کرینگے۔

مجلس وحدت مسلمین پاکستان کی جانب سے یکم جون کو وزیراعلٰی ہاوس سندھ کی جانب احتجاجی مارچ کے مندرجہ ذیل مجوزہ مطالبات تھے۔
٭ کراچی اور سندھ بھر میں ہونے والی شیعہ نسل کشی کا اعتراف کرتے ہوئے دہشت گردوں کیخلاف فی الفور کریک ڈاون کیا جائے اور انہیں منظرعام پر لایا جائے اور ملت جعفریہ (مجلس وحدت مسلمین) کو بھی کراچی آپریشن میں اعتماد میں لیا جائے اور فیصلہ جات میں شامل کیا جائے۔
٭ ملت جعفریہ کے قتل میں ملوث دہشت گردوں کی سیاسی و مذہبی وابستگی بھی عوام کے سامنے لائی جائیں۔
٭ کراچی شہر میں کالعدم تکفیری جماعتوں کی بڑھتی ہوئی سرگرمیوں کو فی الفور بند کیا جائے، شہر بھر سے ان کے جھنڈے اتارے جائیں، ان کے دفاتر کو سیل کیا جائے، شہر بھر سے مذہبی منافرت پر مبنی وال چاکنگ کو مٹایا جائے، کچھ سرکاری اداروں کی جانب سے ان کی سرپرستی کو بھی ختم کیا جائے۔
٭ لاوڈ اسپیکر ایکٹ پر عملدرآمد کو یقینی بنایا جائے اور مساجد سے مذہبی منافرت پر مبنی تقاریر کرنے والوں کیخلاف ایف آئی آر درج کی جائے۔

٭ ٹارگٹ کلنگ میں شہید ہونے والے شہداء کے خانوادوں کی مالی معاونت کی جائے۔
٭ دہشت گردی کے واقعات میں زخمی افراد کے علاج و معالجہ کی ذمہ داری حکومت اپنے ذمہ لے۔
٭ شہداء کے خانوادوں میں سے کم از کم ایک فرد کو سرکاری ملازمت فراہم کی جائے۔
٭ کمیونٹی پولیس CPLC میں ملت جعفریہ کے افراد کو نمائندگی دی جائے۔
٭ اندرون سندھ میں اہل بیت اطہار (ع) کی شان میں گستاخی، علم حضرت عباس (ع) کی بے حرمتی اور درگاہوں پر حملے میں ملوث دہشت گردوں کو فی الفور کو فی الفور گرفتار کیا جائے اور سندھ بھر میں دہشت گردوں کیخلاف فی الفور کریک ڈاون کیا جائے، تاکہ اولیاء کی سرزمین کو دہشت گردی سے نجات دلائی جاسکے۔
٭ شیعہ عمائدین، پروفیشنلز اور کاروباری حضرات کو فی الفور اسلحہ لائسنس دیئے جائیں، تاکہ وہ اپنی حفاظت کا خود انتظام کرسکیں، جس کا حق ان کو آئین پاکستان بھی دیتا ہے۔
٭ جس علاقے میں شیعہ فرد کا قتل ہو، اس علاقے کے ایس ایچ او کو فی الفور معطل کیا جائے۔

باقی جہاں تک بعض عناصر کی طرف سے کہا جا رہا ہے کہ وزیراعلٰی ہاؤس کیوں نہیں گئے، تو میں اپنے ان محترم دوستوں سے عرض کرنا چاہتا ہوں کہ ہمارے کسی بھی قسم کے احتجاج کا مقصد ملت کو انصاف دلانا، انکے حقوق کی بازیابی اور مطالبات کو تسلیم کروانا ہوتا ہے نہ کہ کسی ایک خاص مقام تک پہنچنا۔ ہمارا قطعاً یہ مقصد نہیں تھا کہ ہم کسی ایک خاص مخصوص مقام پر جا کر دھرنا دیکر بیٹھ جائیں، میں آپ کے ذریعے حقائق ان تمام دستوں تک پہنچانا چاہتا ہوں، جنہیں ان تمام معاملات کا علم نہیں کہ حقیقت یہ ہے کہ جب ہم سپریم کورٹ کراچی رجسٹری پہنچے تو حکومت نے ہمیں پیغام دیا کہ وہ مذاکرات کرنا چاہتی ہے، مطالبات کو تسلیم کرنا چاہتی ہے، جسے ہم نے ویلکم کیا، مذاکرات شروع ہوئے اور ایک موقع پر، شہداء کی امداد، سرکاری نوکریاں، اسلحہ لائسنز پر جب حکومت نے حیل و حجت سے کام لیا تو ہم نے مذاکراتی عمل کو مسترد کیا اور اپنی قوم اور خانوادہ شہداء کے درمیان واپس آئے، انکے سامنے تمام معاملات رکھے۔ اس دوران حکومت نے ہم سے گزارش کی کہ آپ مذاکرات جاری رکھیں، ہم کوئی راہ نکالتے ہیں، ہم نے یہ بات شہداء کے خانوادہ اور قوم کے سامنے رکھی، تو انہوں نے ہمیں مینڈیٹ دیا کہ آپ بات جاری رکھیں، اگر یہ مذاکرات تسلیم کریں تو ٹھیک ورنہ ہم دوسرے لائحہ عمل کا اعلان کرینگے، شہداء کے خانوادے اس لبیک یاحسین مارچ کا ہراول دستہ تھے، انہیں کسی بھی مطالبہ کو تسلیم کرنے یا مسترد کرنے کا اختیار حاصل تھا، جب خانوادہ شہداء نے ہمیں مینڈیت دیا تو ہم نے حکومتی خواہش پر دوبارہ مذاکراتی عمل کو شروع کیا اور حکومت کو مطالبات تسلیم کرنے پر مجبور کیا۔ حکومت ملت تشیع کے پریشر اور عوامی طاقت کے سامنے مجبور ہوئی کہ وہ تمام نکات کو تسلیم کرے، یہ ملت اور خانوادہ شہداء کی فتح تھی، ہم یہ بات باور کر دیں کہ ملت تشیع جب اپنے حقوق کیلئے سڑکوں پر آتی ہے تو پھر وہ کبھی بھی اپنے حقوق سے دستبردار نہیں ہوتی۔

اسلام ٹائمز: مختلف حلقوں کا کہنا تھا کہ پہلے وزیراعلٰی ہاؤس جاتے پھر وہاں حکومتی افراد آکر مطالبات کو تسلیم کرنے کا اعلان کرتے، کیا کہیں گے اس حوالے سے۔؟
سید علی حسین نقوی: میں پھر یہ بات واضح طور پر باور کرا دوں کہ ہمارے لئے مطالبات کو تسلیم کروانا اہم تھا نہ کہ کسی ایک مخصوص مقام تک پہنچنا، ہمارا شروع سے ہی کسی ایک جگہ پہنچنا ہدف نہیں تھا بلکہ مطالبات کو تسلیم کروانا ہمارا بنیادی ہدف تھا۔ ہاں اگر ہمارے مطالبات تسلیم نہیں کئے جاتے تو ہم وزیراعلٰی ہاؤس کا گھیراؤ بھی کرتے، دھرنا دیتے، جب تک ہمارے مطالبات تسلیم نہیں کئے جاتے، جب حکومت نے ہمارے مطالبات تسلیم کر لئے تو پھر مزید آگے جانا، شرکاء کو، خواتین، کمسن بچوں، بزرگوں کو بلاوجہ تکلیف دینا مناسب نہیں تھا۔ کچھ لوگ کہہ رہے ہیں کہ وزیراعلٰی ہاؤس جانا تھا، بالکل صحیح ہے، مگر وہاں کیوں جانا تھا، آیا مطالبات کو تسلیم کروانا مقصود تھا یا کچھ اور کرنے کیلئے۔ اگر مطالبات تسلیم کروانے جانا تھا تو وزیراعلٰی ہاؤس جانے سے پہلے ہی جب آپ کے مطالبات منظور ہوگئے تو پھر آگے جانے کا جواز ہی نہیں بنتا۔ ہاں اگر ہمارے مطالبات تسلیم نہیں کئے جاتے، تو پھر ہم وزیراعلٰی ہاؤس جا کر اسکا گھیراؤ کرتے، ناصرف وزیراعلٰی ہاوس کا گھیراو کیا جاتا بلکہ ایک گھنٹے کے نوٹس پر وزیراعلٰی ہاوس خیرپور، نوڈیرو ہاوس، بلاول ہاؤس کا بھی گھیراؤ کیا جاتا۔ ایم ڈبلیو ایم نے تمام آپشنز کی تیاری کر رکھی تھی کہ اگر ہمارے احتجاج کو زور زبردستی یا تشدد کے ذریعے سے روکنے ک کوشش کی جاتی تو حکومت کو بھرپور طاقت سے جواب دیا جاتا، لیکن ملت تشیع کے عظیم الشان لبیک یاحسین مارچ کے سامنے حکومت بے بس ہوگئی اور اس نے آپ کے وزیراعلٰی ہاؤس پہنچنے سے پہلے ہی مطالبات کو تسلیم کر لیا، تو پھر یہ بات کہوں گا کہ ہمارا بنیادی ہدف مطالبات کو تسلیم کروانا تھا نہ کہ صرف وزیراعلٰی ہاؤس جا کر اس کا دیدار کرنا۔

اسلام ٹائمز: حکومتی نمائندگان نے آکر مطالبات کو تسلیم کرنے کا اعلان تو کر دیا، اس پر عمل درآمد ہونیکے حوالے سے کیا کہیں گے۔؟
سید علی حسین نقوی: میں کچھ مثالیں دوں کہ ماضی میں بھی کچھ دھرنے ہوئے، لوگوں نے وزیراعلٰی ہاؤس جا کر مذاکرات کئے اور وہاں سے فقط ایک اعلامیہ جاری ہوگیا کہ یہ مطالبات منظور ہوگئے۔ ہم نے بھی مذاکرات کئے، مذاکرات کے بعد ہم نے بند کمرے میں بیٹھ کر صرف ایک اعلامیہ جاری نہیں کیا، ہم ان حکومتی آفیشلز، حکومتی نمائندگان کو اپنی ملت کے درمیان لائے اور ان سے کہا کہ آپ تمام تسلیم شدہ مطالبات کو خود اپنی زبان سے ملت اور میڈیا کے سامنے پڑھ کر سنائیں، تاکہ ہماری ملت کے سامنے بھی ریکارڈ پر رہے اور میڈیا کے پاس بھی ایک ثبوت موجود رہے کہ حکومتی نمائندگان نے بذبان خود یہ تمام اعلانات پڑھ کر سنائے ہیں، یہ آپ کی ایک بہت بڑی فتح تھی کہ آپ نے حکومت کو اس بات پر مجبور کیا، وگرنہ اس سے پہلے صرف بند کمرے سے ایک کاغذ کے ٹکڑے پر اعلامیہ جاری کرنے پر اکتفا کر لیا جاتا تھا۔

اسلام ٹائمز: عوام اور میڈیا کے سامنے آکر مطالبات تسلیم کئے جانے کے بعد بھی اگر حکومت سستی و کاہلی کا مظاہرہ کرتی ہے تو اگلا لائحہ عمل کیا ہوگا۔؟
سید علی حسین نقوی: جب حکومتی نمائندگان نے عوام اور میڈیا کے سامنے مطالبات کو تسلیم کیا تو اسی وقت علامہ سید حسن ظفر نقوی صاحب نے واشگاف الفاظ میں یہ اعلان کیا تھا کہ اب بھی اگر حکومت نے کسی حیل و حجت سے کام لیا تو پھر ایسا لانگ مارچ کیا جائے گا جو حکمرانوں اور نام نہاد جمہوریت کا بستر گول کر دے گا، پھر لانگ مارچ کراچی سے شروع ہو کر پارلیمنٹ پاؤس اسلام آباد جائے گا، ملک بھر میں پیپلز پارٹی کے تمام دفاتر کا گھیراؤ کیا جائے گا، انہیں مجبور کریں گے کہ وہ مطالبات پر من و عن عمل درآمد کریں۔

اسلام ٹائمز: جن علاقوں میں تسلسل کے ساتھ دہشتگردانہ کارروائیاں ہو رہی ہیں، اس حوالے سے کیا بات ہوئی ہے؟ نیز سٹیزن پولیس لائزن کمیٹی (CPLC) میں بھی ملت کی نمائندگی کے حوالے جو پیشرفت ہوئی ہے اس سے بھی آگاہ کر دیں۔؟
سید علی حسین نقوی: اس حوالے سے باقاعدہ ایک کمیٹی بنائی جا چکی ہے، اس کمیٹی کی سفارشات کی روشنی میں جیسا کہ ہمارے مطالبات میں ایک مطالبہ یہ بھی شامل تھا کہ جس علاقے میں دہشتگردی کا واقعہ ہو، اس علاقے میں تحقیقات کرکے ذمہ دار ایس ایچ او کو فی الفور معطل کیا جائے، اس لبیک یاحسین مارچ کے فوری بعد رضویہ اور لیاقت آباد کے علاقے میں ٹارگٹ کلنگ کے واقعات ہوئے، جس پر دونوں علاقوں کے ایس ایچ اوز کے خلاف انکوائری شروع کی جا چکی ہے، اگر ان کی کوتاہی اور غفلت ثابت ہوجائے گی تو ان کو فوری طور پر معطل کر دیا جائے گا، ہم بھی اس تمام عمل کو مانیٹر کر رہے ہیں، اس حوالے کسی قسم کا سمجھوتہ نہیں کیا جائے گا۔ آپ نے CPLC میں نمائندگی کے حوالے سے ذکر کیا، اس لبیک یاحسین مارچ کے حوالے سے ایک اور جو بڑی کامیابی ملی کہ CPLC میں ملت تشیع کو نمائندگی دی جائے گی، جیسا کہ مطالبہ تھا CPLC میں ملت تشیع کو نمائندگی دی جائے، تو حکومت نے آپ کا یہ مطالبہ بھی تسلیم کیا ہے اور اس کیلئے اس وقت علماء کرام کی جانب ہم نے رجوع کیا ہے کہ آپ ایک ایسے شخص کا نام دیں جو ملت کی نمائندگی کیلئے اہلیت رکھتا ہوں، جو ملت تشیع کے ساتھ مخلص ترین اور وفادار ہو، جو ملت کے حقوق کا تحفظ کرسکے، تاکہ اس کو CPLC میں شامل کیا جائے، اس کیلئے ضروری نہیں ہے کہ اس کا تعلق مجلس وحدت مسلمین سے ہو۔ ہم ملت تشیع کی بات کرتے ہیں، ہم کسی مخصوص انجمن، گروہ، تنظیم یا جماعت کی بات نہیں کرتے، لہٰذا جب ہمارے پیش نظر ملت کے حقوق کا تحفظ ہے تو اس کیلئے ضروری نہیں اس شخص کا تعلق مجلس وحدت مسلمین سے ہو۔

اسلام ٹائمز: ایک بہت بڑے حلقے کا کہنا ہے کہ ایم ڈبلیو ایم کے وزیراعلٰی ہاؤس نہ جانے سے اسکی ساکھ پر منفی اثرات پڑے ہیں، اسے اپنی ساکھ کو بچاتے ہوئے پہلے وزیراعلٰی ہاؤس جانا چاہئیے تھا اور وہاں جاکر بھی مطالبات کو تسلیم کئے جانے کا اعلان کیا جاسکتا تھا، جس سے ایم ڈبلیو ایم کی تنظیمی ساکھ پر بہت مثبت اثرات مرتب ہوتے، کیا آپ اس نکتہ نظر سے اتفاق کرینگے۔؟
سید علی حسین نقوی: جب ہم یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ہماری تمام تر فعالیت فقط اور فقط رضائے الٰہی اور خوشنودی حضرت محمد (ص) و آل محمد علیہم السلام کے حصول کیلئے ہے، ہماری فعالیت اسلام و ملت تشیع کی سربلندی کیلئے ہے تو پھر ہم تنظیمی ساکھ کی پرواہ نہیں کرتے، اسی تناظر میں ہمارے نزدیک ملت تشیع کے مطالبات کو تسلیم کروانا مقصود تھا نہ کہ تنظیمی ساکھ کو بچانا یا بڑھانا، ہمارے لئے ملت تشیع کے مفادات عزیز ہیں نہ کہ تنظیمی نمود و نمائش، خدا نہ کرے کہ ہم کبھی بھی تنظیم کی خاطر ملت تشیع کے مفادات کو داؤ پر لگائیں، انشاءاللہ ہم کبھی بھی نہیں چاہیں گے کہ اپنی ذاتی یا تنظیمی مفادات کی خاطر ملت کو استعمال کریں، بلکہ ہم تو ملت کی سربلندی کی خاطر قربان ہونے کیلئے میدانِ عمل میں وارد ہوئے ہیں۔ ہمارے لئے مقدم تھا کہ ملت کے مطالبات تسلیم ہوں، خانوادہ شہداء کو انصاف ملے، لہٰذا ہم اپنے ان دوستوں کی خدمت میں عرض کرتے ہیں جب وزیراعلٰی ہاؤس جانے سے پہلے مطالبات تسلیم کئے جا رہے ہیں تو پھر وہاں جانے کا کوئی جواز نہیں تھا، ہم صرف اپنی تنظیمی ساکھ کی خاطر، اپنی انا کی خاطر کہ وزیراعلٰی ہاؤس جانا ہے، اپنی ملت کی بہادر ماؤں بہنوں، کمسن بچوں، بزرگوں، باوفا اور مخلص جوانوں کو بغیر کسی شرعی جواز یا وجہ کے زحمت دینے کے سزاوار نہیں تھے، لہٰذا ہم نے کسی بھی ایسے عمل سے گریز کیا۔
خبر کا کوڈ : 389922
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش