1
0
Saturday 14 Jun 2014 23:55
سنی اتحاد کونسل کیساتھ ملکر حکومت کیخلاف حکمت عملی ترتیب دینگے

3 جون کے الیکشن میں شامی عوام نے منطق کی طاقت سے طاقت کی منطق کو شکست دی ہے، ناصر شیرازی

3 جون کے الیکشن میں شامی عوام نے منطق کی طاقت سے طاقت کی منطق کو شکست دی ہے، ناصر شیرازی
سید ناصر عباس شیرازی اس وقت مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے سیکرٹری سیاسیات ہیں، اس سے پہلے امامیہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن پاکستان کے مرکزی صدر رہ چکے ہیں، گذشتہ دنوں حکومت شام کی دعوت پر وہاں تین جون کو ہونے والے صدارتی الیکشن میں مبصر کی حیثیت سے شرکت کیلئے گئے ہوئے تھے، ایک ہفتے وہاں قیام کیا اور شام کے کئی علاقوں میں پولنگ اسٹیشنوں کا معائنہ کیا۔ اسلام ٹائمز نے ان سے شامی انتخابات، اس کے مستقبل میں اثرات اور مسلم لیگ قاف کی قیادت کی جانب سے ایم ڈبلیو ایم سے ہونے والی ملاقات اور مستقبل میں حکومت مخالف اتحاد سمیت دیگر ایشوز پر ایک اہم انٹرویو کیا ہے، جو پیش خدمت ہے۔ ادارہ

اسلام ٹائمز: آپ شام گئے وہاں انتخابات کو ابزرو کیا، ان صدارتی الیکشن کو کس نگاہ سے دیکھتے ہیں اور اسکے مستبقل میں کیا اثرات مرتب ہونگے۔؟
ناصر عباس شیرازی: سب پہلے تو اسلام ٹائمز کا شکریہ جنہوں نے مجھ سے شام میں بھی رابطہ قائم رکھا اور پل پل کی رپوٹنگ کرتے رہے اور اپنے قارئین تک سچ کو پہنچاتے رہے۔ اس پر ادارہ تحسین کا حقدار ہے۔ اب آتے ہیں آپ کے سوال کی طرف تو اتنا عرض کروں کہ شام میں الیکشن کے حوالے سے پوری دنیا سے چنی گئی این جی اووز، میڈیا اور حکومتی نمائندگان کو دعوت دی گئی تھی، پاکستان سے جناب لیاقت بلوچ، مسلم لیگ نون کے سید ظفر علی شاہ اور سینیٹر رحمان ملک سمیت میڈیا کے دوستوں کو مدعو کیا گیا تھا جبکہ مجلس وحدت مسلمین کی طرف سے بندہ حقیر کو دعوت دی گئی۔ دیگر کئی احباب فلائٹ نہ ملنے کی وجہ سے اور کچھ اپنے ٹائٹ شیڈول کی وجہ سے نہ جا سکے۔ پاکستانی وفد میں علامہ عباس کمیلی اور میڈیا کے دیگر احباب شامل تھے، وہاں پاکستانی وفد کی نمائندگی کرنے کی سعادت مجھے نصیب ہوئی، بین الاقوامی کانفرنس میں بھی میں نے نمائندگی کی۔ اس وزٹ کا بنیادی مقصد یہ تھا کہ شام جو حالت جنگ میں ہے، کیا وہ الیکشن کرا پائے گا، کیا وہ الیکشن صاف، شفاف اور غیر جانبدار ہوئے اور عوامی شرکت کا جوش و خروش کیا تھا۔ کون نیا حکومتی صدر بن کر آتا ہے، جو بھی صدر بنتا ہے اس کے بعد شام کا منظر نامہ کیا بنتا ہے۔ شام میں الیکشن کہاں کہاں ہوسکے گا، اس کا قانونی جواز کیا ہوگا، ہم نے ان تمام ایشوز پر غیر جانبدار مبصر کے طور پر اپنا کردار ادا کرنا تھا۔

اس الیکشن میں تقریباً دنیا سے پچاس سے زائد ممالک کے نمائندگان موجود تھے۔ ان ممالک میں لاطینی امریکہ، کوریا، عرب ممالک، ونزویلا اور روس کے نمائندگان شامل تھے۔ بعض ممالک کے حکومتی نمائندگان بھی شامل تھے جیسا کہ روس کے الیکشن کمیشن کے کئی نمائندگان موجود تھے۔ مجموعی طور پر اکثر ممالک اس میں شریک تھے۔ شامی حکومت نے ہمیں آپشنز دیئے کہ یہ ملک ہے، سوائے چند علاقوں کے جہاں تکفیریوں کی وجہ سے الیکشن نہیں ہو پا رہے تھے باقی پورا ملک ہمارا لئے کھول دیا گیا اور کہا گیا کہ جہاں جانا چاہیں جاسکتے ہیں، حلب سے لیکر حمص تک اور دمشق سے لیکر لاذقیہ اور قرطوس تک۔ ہماری ٹیم نے طے کیا کہ ہم دمشق کو بھی دیکھیں گے اور لاذقیہ کو بھی دیکھیں گے۔ ہم نے طے کیا کہ ہم زمینی راستے سے بھی الیکشن کا معائنہ کریں گے۔ ہم نے لاذقیہ سے لیکر قرطوس تک سو کلو میٹر کا فاصلہ بائی کار طے کیا، اس کے علاوہ لاذقیہ اور حمص کا فضائی دورہ کرسکے، دمشق اور اس کے اطرف کو ہم نے بہت اچھے طریقہ سے وزٹ کیا۔ جب الیکشن ہوا، اس دن بھی عوامی جوش و خرش دیکھا اور نتائج کے اعلان کے بعد لوگوں کا ولولہ بھی دیکھا۔

ہمارے گروپ کے بعض لوگ حلب گئے اور دیگر علاقوں کا بھی سفر کیا۔ اس لحاظ سے یہ ایک اچھوتا تجربہ تھا کہ ہمیں مکمل طور پر آزادی دی گئی تھی کہ ملک کے جس علاقے میں جانا چاہیں آزاد ہیں، اس لحاظ سے یہ ایک نادر موقع تھا، کیونکہ بنیادی طور پر یہ انتخابات نہیں بلکہ جنگ تھی جو لڑی جا رہی تھی، ایک طرف تکفیری قوتیں جن کی پشت پناہی عرب ریاستیں، نیٹو، امریکہ اور اسرائیل کر رہا تھا، دوسری جانب مقاومت کا گروہ تھا، جو اپنی سرزمین کی حفاظت کر رہا تھا، مقاومت کے گروہ نے طے کیا ہوا تھا کہ ہم نے اپنی سرزمین کی حفاظت بھی کرنی ہے اور انتخابات بھی کرا کر دکھانے ہیں، جو انہوں نے اتنے مشکل چیلنج کو باوجود کئی مشکلات کے کرکے دکھایا۔ ہم نے جو دیکھا کہ وہ یہ کہ شام کے اندر ایک نئی تاریخ رقم ہوئی ہے، نئی تاریخ لکھی گئی ہے، عوام نے دہشتگردی کو مسترد کیا ہے اور غیر ملکی مداخلت کو رد کیا ہے۔ انہوں نے عالمی تکفیرت، عرب بادشاہتوں، نیٹو، امریکہ اور دیگر ممالک کی مداخلت کو یکسر مسترد کیا ہے۔ انہوں نے بشارالاسد کیلئے ہاں اور جمہوریت پر اپنے یقین کا اظہار کیا ہے۔ ہم نے عملی طور پر دیکھا کہ ووٹروں کی لمبی قطاریں تھیں، ملک کے طول و عرض اور کیمپوں اور آئی ڈی پیز کیلئے بنائے گئے کیمپوں میں ووٹنگ کا ہونا اچھا شگون تھا، ہم نے غیر ملکی سفارتخانہ میں ہونے والے ووٹوں کا معائنہ بھی کیا۔

میں سمجھتا ہوں کہ شامی عوام نے جمہوریت کا انتخاب کرکے دہشتگردی کے تمام خطرات کے باوجود بھرپور انداز میں نکل کر ووٹنگ کے عمل میں شامل ہو کر تکفیریت اور عالمی سامراج کو شکست دی ہے۔ اس عمل سے شامی عوام نے اپنے ملک کی حفاظت کا فریضہ انجام دیا ہے۔ وہاں ہمارے چند بڑے ایونٹس ہوئے، جن میں ایک عالمی کانفرنس تھی، جس میں تمام مبصرین نے مشترکہ اعلامیہ پاس کیا۔ اس اعلامیہ میں اس الیکشن کو صاف، شفاف اور غیر جانبدار قرار دیا گیا۔ ہمارے لئے یہ بات بڑی اہم تھی کہ دمشق مکمل طور پر پرامن ہے یا نہیں، اس حوالے سے ہمیں قدیمی دمشق میں عشائیہ دیا گیا۔ یہ عشائیہ شامی پارلیمنٹ کے اسپیکر کی طرف سے اہتمام کیا گیا تھا، جس میں سینکڑوں مبصرین نے شرکت کی اور یہ اس بات کا غماز تھا کہ شامی حکومت کی رٹ قائم ہے۔ اس وزٹ کا جو سب بڑا فائد ہوا، وہ یہ کہ مزاحمت کے مرکز اور قلب مطہر پیامبر اسلام ﷺ جناب سید زینب سلام اللہ کے مزار اقدس کی زیارت کی۔ اس لحاظ یہ سفر کافی مفید اور باہدف ثابت ہوا۔

اسلام ٹائمز: مستقبل میں ان انتخابات کے کیا اثرات دیکھتے ہیں۔؟
ناصر عباس شیرازی: مجموعی طور پر تقریباً 78 فیصد لوگوں نے اپنے حق رائے دہی کا استعمال کیا ہے، یہ شرح بہت اچھی ہے، اس شرح کے حساب سے دیگر دو امیدواروں نے چار چار فی صد ووٹ حاصل کیے ہیں۔ تقریباً 92 فیصد ووٹ ڈاکٹر بشارالاسد نے حاصل کئے ہیں، جو اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ وہاں لوگ ان سے پیار اور ان پر اعتماد کرتے ہیں۔ اتنا بڑا ٹرن آوٹ نزدیکی کسی ملک میں نہیں ہے، حتٰی مصر میں بھی اتنا ٹرن آوٹ نہیں ملا۔ شامی عوام کا یہ فیصلہ یقیناً شام کو اس خطرے سے باہر نکالے گا اور اس کے خطے پر اچھے اثرات مرتب ہوں گے۔ اب دیگر عرب ممالک میں بھی جمہوریت کیلئے تحریکیں چلیں گی۔ شام کے عوام نے بتا دیا ہے کہ ہم جمہوریت چاہتے ہیں، ہم امن کے داعی ہیں، ہم تکفیرت کو رد کرتے ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ شامی عوام نے بشار الاسد کے اقدامات پر اپنے اعتماد کا اظہار کیا ہے۔ بہرحال بشارالاسد کے بعض اقدامات صحیح نہیں تھے جن کے ہم بھی ناقد تھے، تاہم وہ افراد جو مخالف تھے، انہوں نے بھی تکفیریوں کے عمل کو دیکھ کر بشار الاسد کی حمایت کی ہے، ان لوگوں نے جہاد النکاح کے نام پر بے غیریتی کو رواج دیتے ہوئے دیکھا ہے، ان لوگوں نے عصمتیں پامال ہوتے ہوئے دیکھیں ہیں، انہوں نے مہاجرین کیمپوں کی صورت حال، اردن اور ترکی کا رویہ دیکھا ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ عملی طور پر تین جون کا الیکشن ایک لینڈ مارک ایونٹ تھا۔ اس کے نتیجے میں شام میں ایک نئے دور کا آغاز ہوا ہے۔ جب صدارتی الیکشن کے نتائج کا اعلان کیا گیا تو لاکھوں لوگوں نے سڑکوں پر نکل پر اپنی لیڈر شپ سے اظہار محبت کیا۔ ہم نے جو  نتیجہ اخذ کیا ہے، وہ یہ کہ جہاں لیڈر شپ واضح ہو، عوام کو اعتماد ہو، وہ قوم اور ملک دہشتگردوں کے مقابلے میں اسٹینڈ کرسکتا ہے۔

اسلام ٹائمز: یہ تو سیاسی صورتحال ہوگئی، عسکری محاذ پر شام کس حد تک جنگ جیت چکا ہے۔؟

ناصر عباس شیرازی: ہم دیکھنا چاہتے تھے کہ شامی حکومت کی رٹ کس حد تک ہے، ہم نے شام میں حکومت کے تمام شعبوں کو اپنا کام کرتے ہوئے دیکھا ہے۔ ہم نے دیکھا ہے کہ یونیورسٹی اپنا کام کر رہی ہے، آب رسانی کا محکمہ اپنا کام انجام دے رہا ہے، ٹیلی فون کا محکمہ اپنا کام کر رہا ہے، بس اتنا کہوں کہ جتنے بھی محکمے ایک حکومت کے ہوتے ہیں، وہ سب کام کر رہے تھے۔ حتٰی ٹریفک پولیس کا محکمہ بھرپور انداز میں کام کر رہا تھا۔ یہ چیز واضح کرتی ہے کہ حکومت موجود ہے، جو اپنا کام بھرپور انداز میں انجام دے رہی ہے۔ دوسرا جس انداز میں ملک کے طول و عرض میں ووٹنگ ہوئی، حتٰی حلب کے اندر ووٹنگ کا ہونا ثابت کرتا ہے کہ حکومتی رٹ قائم ہے۔ دہشتگرد اُن علاقوں میں ہیں جہاں سے لوگ نکل چکے ہیں، جہاں جہاں شامی عوام آباد تھے انہوں نے بھرپور الیکشن میں حصہ لیا۔ حتٰی لبنان کے باڈر پر قائم کیے گئے کیمپوں پر وقت کو بڑھا کر اڑتالیس گھنٹے کر دیا گیا، کیونکہ وہاں عوام کی بڑی تعداد ووٹنگ کیلئے آئی تھی۔ یہ ساری چیزیں بتاتی ہیں کہ شامی عوام طاقتور ہیں اور انہوں نے عالمی طاقتوں کو شکست دیدی ہے۔ جہاں تک آپ نے عسکری محاذ کی بات کی ہے تو اسکا تعلق نفسیاتی جنگ سے ہے، جو دہشتگرد ہار چکے ہیں، عوام نے انہیں مسترد کر دیا ہے۔ لٰہذا عسکری محاذ پر اس وقت تک آپ کامیاب نہیں ہوسکتے، جب تک عوام میں محبوبیت نہ ہو۔ اگر زمینی حقائق کی بات کریں تو 80 فی صد علاقے شامی فورسز کے کنٹرول میں ہیں، جبکہ بیس فی صد حصہ پر دہشتگرد موجود ہیں، یہ وہ علاقے ہیں جن کی سرحدیں اردن اور ترکی سے ملتی ہیں، ظاہر ہے یہ ممالک ان دہشتگردوں کو مکمل سپورٹ کر رہے ہیں اور اپنی سرحدیں ان کیلئے کھلی رکھی ہوئی ہیں۔ یہ وہ بیس فی صد علاقے ہیں جو صحرائی ہیں اور یہاں آبادی بھی کم ہے۔

اسلام ٹائمز: ایران اور روس کیجانب سے اس الیکشن کا خیر مقدم کیا گیا ہے جبکہ دوسرے ممالک نے اسکا خیرمقدم نہیں کیا۔ اس پر کیا کہیں گے۔؟
ناصر عباس شیرازی: ایران اور روس کا خیر مقدم کرنا بتنا ہے، باقی جہاں تک عرب ممالک کی بات ہے، وہ کیسے خیر مقدم کرسکتے ہیں، جہاں عورت کو ڈرائیونگ کرنے کی اجازت نہیں۔ ظاہر ہے انہیں یہ سوٹ نہیں کرتا۔ جہاں تک مغربی ممالک کی بات ہے تو انہوں نے تو بنیاد ہی یہی قرار دی تھی کہ ہم اس ملک میں جمہوریت کو لانا چاہتے ہیں، لیکن کیونکہ وہ اپنی طرز کی جمہویرت لانا چاہتے ہیں تو جب انہوں نے یہ الیکشن دیکھا تو ان کی زبانیں گنگ ہوگئیں۔ لٰہذا وہ بھی مبارکباد دینے کی پوزیشن میں نہیں تھے۔ شامی عوام نے منطق کی طاقت سے طاقت کی منطق کو شکست دیدی ہے۔ شامی عوام کو ان کے ویلکیم کی ضرورت نہیں ہے۔ البتہ بتاوں کہ مغربی میڈیا نے بڑا منافقانہ رول ادا کیا ہے۔ میں نے خود بی بی سی کو سنا، اس وقت میں شام میں موجود تھا، لاکھوں لوگوں کو سڑکوں پر دیکھ رہا تھا، ان کا جوش دیدینی تھا، لیکن جب بی بی سی نے رپورٹ کیا تو انہوں نے ہوائی فائرنگ کی بات کی۔ ان کی رپورٹ کی مکمل میں نے فوٹیج دیکھی ہے جس میں انہوں نے ایک بھی فرد کو نہیں دیکھایا، حتٰی ایک پولنگ بوتھ کو نہیں دیکھایا۔ عرب میڈیا جو پرو امریکہ ہے، اس نے مکمل طور پر بائیکاٹ کیا ہے۔ تاہم اس کے باوجود کسی نہ کسی شکل میں اسے دیکھایا ضرور گیا ہے اور اسے قبول کیا گیا ہے۔

اسلام ٹائمز: دہشتگرد اب عراق میں داخل ہو رہے ہیں، اور اب تک کی اطلاعات کے مطابق تین علاقوں پر بھی قابض ہوچکے ہیں۔ اسکو کیسے دیکھ رہے ہیں۔؟

ناصر عباس شیرازی: دیکھیں، یہی وہ صوبہ الانبار ہے، جو سعودی عرب اور شام کے درمیان عراق کا علاقہ ہے، یہی دہشتگردوں کے اسلحہ کا روٹ بھی ہے، یہی وہ روٹ ہے جس سے دہشتگردوں کو کمک کی جاتی ہے۔ جو شکست انہیں شام کے اندر ہوئی ہے، اس خفت کو مٹانے کیلئے یہ اقدام کیا گیا ہے۔ بعض معلومات کے مطابق، وہاں جنگ نہیں ہوئی بلکہ حکومتی افراد نے ساز باز کی ہے۔ اس میں سعودی عرب کی مداخلت کے واضح ثبوت موجود ہیں۔ دوسرا جب سامراء کے اندر جنگ ہوئی تو عراقی فورسز نے فوری پر وہ علاقہ ان سے خالی کرا لیا، جبکہ یہاں ایسا نہیں ہوا۔ سعودی عرب، اسرائیل اور امریکہ اس علاقے میں ان دہشتگردوں کی مکمل سپورٹ کر رہے ہیں، کیونکہ یہی وہی علاقہ ہے جہاں سے دہشتگردوں کو شام بھیجا جاتا ہے اور اسلحہ کی سپلائی کی جاتی ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ عراقی عوام انہیں کبھی کامیاب نہیں ہونے دیں گے۔ البتہ اگر عراق میں ایسا کچھ ہوگیا تو اس کے بعد کوئی بھی ملک اپنے آپ کو محفوظ نہیں رکھ سکے گا، حتٰی ترکی اور سعودی عرب بھی اپنے آپ کو محفوظ نہیں رکھ سکیں گے۔ یہ جو آگ سے کھیل رہے ہیں، یہ آگ ان کے گھروں کو بھی جلائی گی، پھر پورا خطہ اس کی لیپٹ میں آئیگا۔

اسلام ٹائمز: مسلم لیگ قاف کی قیادت کا آپ لوگوں سے ملاقات کرنا، کیا کرنے جا رہے ہیں۔، اس ملاقات کی تفصیلات شئیر کریں۔؟
ناصر عباس شیرازی: آپ جانتے ہیں کہ مجلس وحدت مسلمین نے اصولوں کی سیاسیات کی ہے۔ ہم نے پہلے دن سے کہا تھا کہ تاریخ کے بدترین الیکشن ہوئے ہیں، جس میں دھاندلی کی دستانیں رقم کی گئیں۔ ہم نے اس حوالے سے الیکشن کے اگلے روز ہی وائٹ پیپر شائع کیا تھا۔ اس وقت ہم تنہاہ تھے، لیکن آج دیگر جماعتیں بھی ہمارے موقف سے ہم آہنگ ہوکر آگے آگئی ہیں۔ ہمارا کل بھی وہی موقف تھا اور آج بھی یہی موقف ہے۔ اسی طریقہ سے دہشتگردوں اور مذاکرات کے حوالے سے ہمارا موقف بڑا واضح تھا۔ ہم نے ان مذاکرات کی مخالفت کی تھی، اب کئی سیاسی جماعتوں نے اپنے اس ابتدائی فیصلے پر نظرثانی کی اور اب وہ بھی مخالفت کر رہے ہیں۔ ایسی تمام سیاسی جماعتیں جو ہمارے موقف کے قریب ہیں، ان سے رابطے تھے اور ہیں، کیونکہ مجلس وحدت مسلمین تیزی سے مقبول مذہبی سیاسی جماعت کے طور پر سامنے آئی ہے۔ ایسی تمام جماعتیں جو پاکستان میں سیاسی منظرنامے میں کوئی اہم کردار ادا کرنا چاہتی ہیں، وہ مجلس کی طرف دیکھتی ہیں۔ آپ جانتے ہیں ان چند ہفتوں میں کئی سیاسی جماعتوں کی لیڈرشپ نے ہم سے رابطے کئے ہیں اور ملاقاتیں کی ہیں، اسی سلسلہ میں مسلم لیگ قاف کی قیادت نے علامہ ناصر عباس جعفری اور ان کی ٹیم سے ملاقات کی ہے، جس میں انہوں نے دس نکاتی ایجنڈا جو انہوں نے لندن میں ڈاکٹر طاہرالقادری کے ساتھ ملکر ترتیب دیا ہے، وہ پیش کیا ہے۔ ساتھ یہ بھی کہا ہے کہ یہ ایجنڈا حتمی نہیں ہے، اس میں آپ کے نکات بھی شامل کئے جاسکتے ہیں۔ ظاہر ہے وہ ہمارے پاس آئے، ہمارے مہمان تھے، دوسرا یہ وہ چیزیں تھیں جن پر ہم اسٹینڈ لے چکے ہیں۔ اس اسٹنڈ کو آگے بڑھانا بھی بنتا تھا۔

دوسرا میاں صاحب کی حکومت نے پرو سعودی عرب ہونے اور دہشتگردوں کی سرپرستی کرنے کا ثبوت دیا ہے۔ ان کی حکومت نے حقیقی محب وطنوں کو دیوار سے لگا دیا ہے۔ انڈیا سے ان کے تعلقات بہتر ہوئے ہیں اور پاکستان کے بنیاد اسٹینڈ پر سمجھوتہ کرلیا گیا ہے۔ کشمیر اور پاکستان کے پانی پر سمجھوتہ کر لیا گیا ہے۔ اس موقع پر ایسی حکومت کے خلاف کوئی مضبوط محاذ بنانے کی ضرورت ہے، یہ ہمارا بھی اسٹینڈ ہے۔ حکومت کے خلاف کیا اسٹینڈ ہو، کیسے ہو، کیا ہو، اس بارے کچھ کہنا قبل ازوقت ہے۔ مسلم لیگ قاف کی قیادت مجلس وحدت مسلمین کے پاکستان میں نفوز کو تسلیم کرتے ہوئے ہمارے پاس تشریف لائی اور اپنے دس نکات سامنے رکھے۔ انہوں نے کہا کہ ہم چاہتے ہیں کہ مجلس وحدت ان نکات کو دیکھے اور اپنے نکات بھی پیش کرے۔ اس پر مجلس کی مرکزی کابینہ کا اجلاس بلا رہے ہیں، جس میں یہ تمام صورتحال ڈسکس ہوگی، کابینہ کی منظوری کے بعد علامہ ناصر عباس جعفری فیصلے کی توثیق کریں گے، جس کے بعد ہم اپنی اتحادی جماعت سنی اتحاد کونسل سے اس معاملے پر ڈسکس کریں گے اور مشترکہ لائحہ عمل ترتیب دیں گے۔
خبر کا کوڈ : 392070
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

Pakistan
Nice
ہماری پیشکش