0
Monday 16 Jun 2014 16:36
ریاستی اداروں کی سرپرستی میں شیعہ ہزارہ قوم کو نشانہ بنایا جا رہا ہے

امریکی غلامی سے نکلنے تک پاکستان کے مسائل حل نہیں ہوسکتے، پروفیسر ساجد میر

امریکی غلامی سے نکلنے تک پاکستان کے مسائل حل نہیں ہوسکتے، پروفیسر ساجد میر

پروفیسر ساجد میر جمعیت اہلحدیث پاکستان کے سربراہ ہے۔ آپ 1994ء کو پاکستان مسلم لیگ (ن) کے ٹکٹ پر سینیٹ کے رکن منتخب ہوئے۔ اسکے علاوہ مارچ 2009ء کو سینیٹ کی نشست پر دوبارہ منتخب ہوئے۔ آپ کا آبائی تعلق میاں پورہ سیالکوٹ سے ہے۔ کوئٹہ میں منعقدہ آل پارٹیز امن کانفرنس میں شرکت کے موقع پر پاکستان میں فرقہ وارانہ ہم آہنگی، مسئلہ بلوچستان کے حل اور طالبان کیساتھ مذاکرات کے حوالے سے ’’اسلام ٹائمز‘‘ نے ان سے ایک مختصر انٹرویو کیا، جو قارئین کے لئے پیش ہے۔ (ادارہ)

اسلام ٹائمز: بلوچستان سمیت ملک بھر میں امن و امان کی صورتحال کو بہتر بنانے میں آپکی جماعت کیا کردار ادا کر رہی ہے۔؟
پروفیسر ساجد میر: ملک بھر میں جس طرح پاکستانی عوام کو اداروں نے نام نہاد دہشتگردی کی آگ میں دھکیلا، اسکی وجہ سے آج سارا ملک جل رہا ہے۔ پورے ملک اور خصوصاً بلوچستان میں امن و امان کی حالت انتہائی خراب ہے۔ کوئٹہ سمیت پورے ملک میں آل پارٹیز امن کانفرنس کے انعقاد کا مقصد بھی روایتی بھائی چارے کو فروغ دینے کیلئے ہے۔ خاص طور پر فرقہ وارانہ ہم آہنگی کیلئے اس طرح کے اجتماعات کی اشد ضرورت ہیں۔ اسی لئے ہماری جماعت پاکستان بھر میں ملکی بقاء کو مدنظر رکھتے ہوئے اتحاد بین المسلمین کی کوششوں میں مصروف ہے اور اسی سلسلے کو آگے بڑھاتے ہوئے ہم نے کوئٹہ میں بھی تمام مکاتب فکر کے معززین کو دعوت دیکر مسائل کے حل کیلئے مشترکہ گفتگو کی۔

اسلام ٹائمز: بلوچستان میں جاری فرقہ واریت کے خاتمے کیلئے کیا اقدامات کئے جاسکتے ہیں۔؟
پروفیسر ساجد میر: نہ صرف بلوچستان بلکہ ملک بھر میں فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے فروغ کیلئے ہم سب کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔ پاکستان میں گذشتہ کئی سالوں سے فرقہ کے نام پر قتل و غارت گری جاری ہے۔ لہذا اسی لئے میں سمجھتا ہوں کہ فرقہ واریت کے فروغ کیلئے سب سے پہلے تو ریاست کو اپنا بھرپور کردار ادا کرنا ہوگا اور شاید ریاست بھی کسی حد تک یہ سمجھ چکی ہیں کہ فرقہ واریت ہی اس ملک کی بقاء کیلئے خطرہ ثابت ہوسکتی ہے۔ اسکے علاوہ ملک میں آباد تمام مکاتب فکر کے علماء کو عوام میں اتحاد و یکجہتی کی سوچ کو پھیلانے کیلئے مختلف پروگرامز منعقد کرنا ہونگے، ایک دوسرے کے مذاہب و عقائد کیلئے برداشت انتہائی ضروری ہے۔

اسلام ٹائمز: بلوچستان کے مسائل کو کس طرح حل کیا جاسکتا ہے۔؟
پروفیسر ساجد میر: مسئلہ بلوچستان ہر گزرتے دن کے ساتھ گھمبیر صورتحال اختیار کرتا جا رہا ہے۔ یہ مسئلہ گذشتہ کئی سالوں سے جاری ہے۔ ہر اس خطے میں عوامی محرومیاں جنم لیتی ہیں، جہاں ریاست انکے حقوق غصب کرنے کے درپے ہوتی ہے۔ اگر ہمیں اس ملک میں انسرجنسی کی بجائے محب وطنی چاہیئے، تو تمام اقوام کو برابر حقوق دینے ہونگے۔ ریاست کو نہ صرف بلوچستان بلکہ تمام صوبوں میں آباد اقوام کے حقوق دینا ہونگے۔ بلوچستان میں خصوصاً بلوچ بھائیوں کیساتھ انتہائی ظلم ہوا ہے، جسکی ہماری جماعت نے ہمیشہ سے مذمت کی ہے۔ ملک اس طرح سے نہیں‌ چلائے جاتے۔ اگر پاکستان کو بچانا ہے تو یہاں پر آباد تمام اقوام کو ایک ساتھ لیکر بچایا جاسکتا ہے۔ لیکن اسکے برعکس جس طرح نواب بگٹی کو شہید کیا گیا، اس سے یہاں کے حالات مزید خراب ہوگئے۔ لہذا معاملات کو طاقت کی بجائے بات چیت کے ذریعے حل کرنا ہوگا۔

اسلام ٹائمز: کیا ایک بلوچ مڈل کلاس ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ کے آنے سے صوبے کے مسائل حل ہوسکتے ہیں۔؟
پروفیسر ساجد میر: کسی مڈل کلاس یا سردار کے آنے سے مسائل حل نہیں ہونگے۔ جب تک یہاں کی قیادت کو مرکزی قیادت کی جانب سے مکمل اختیارات نہیں ملتے، تب تک ڈاکٹر مالک صاحب بھی مسائل حل کرنے میں کامیاب نہیں ہونگے۔ اگر وفاق سنجیدگی سے بلوچستان کے مسائل کو حل کرنا چاہتا ہے، تو اسے یہاں کے رہنماؤں کو اختیارات دینے ہونگے۔

اسلام ٹائمز: لیکن اے پی سی میں ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ کو تو مکمل اختیارات دے دیئے گئے۔؟
پروفیسر ساجد میر: بالکل انہیں مذاکرات کیلئے اختیارات دیئے گئے ہیں۔ لیکن بقول انکے اب تک صوبے میں لاپتہ افراد کے معاملے پر خفیہ ادارے انکی بات نہیں مان رہے۔ جب تک آپ عملی طور پر عوام کی شکایات کا ازالہ نہیں کرینگے، تب تک ناراض بلوچوں کو مذاکرات کی میز پر کیسے لایا جاسکتا ہے۔ لہذا مسخ شدہ لاشوں اور لاپتہ افراد کے معاملے کو بند کرنا ہوگا۔

اسلام ٹائمز: کوئٹہ میں شیعہ ہزارہ قوم پر جاری مظالم کے پس پردہ محرکات کیا ہوسکتے ہیں۔؟
پروفیسر ساجد میر: شیعہ ہزارہ قوم کو کئی سالوں سے کوئٹہ میں نشانہ بنایا جا رہا ہے، جسکی ہم نے ہمیشہ بھرپور مذمت کی ہے۔ خصوصاً بلوچستان میں تو مذہبی انتہا پسندی وجود ہی نہیں رکھتی تھی، لیکن آج ریاستی اداروں کی سرپرستی میں شیعہ ہزارہ قوم کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ یہاں کے اقوام ہمیشہ ایک دوسرے کیلئے قبائلی عزت و احترام کے قائل تھے۔ لیکن آج خصوصاً بلوچوں‌ میں سازش کے تحت مذہبی انتہا پسندی پھیلائی جا رہی ہے۔ وفاقی حکومت کو چاہیئے کہ وہ ریاستی اداروں کے اس عمل کو روکے۔

اسلام ٹائمز: طالبان کیساتھ مذاکرات کو آپ کس طرح دیکھتے ہیں۔؟
پروفیسر ساجد میر: میرا تو شروع دن سے یہی موقف ہے کہ پاکستان کے تمام مسائل کو سجنیدگی کیساتھ مذاکرات کے ذریعے حل کرنا چاہیئے۔ لیکن ریاست اس بات پر سنجیدہ نہیں لگتی۔ ہر چند کہ نواز حکومت کی جانب سے مذاکرات شروع ہیں، لیکن جب تک فوج اور وفاقی ادارے ان مذاکرات کیلئے سنجیدہ نہیں ہوتے، تب تک مسائل کا حل ممکن نہیں۔

اسلام ٹائمز: پروفیسر صاحب پاکستان کے ان تمام مسائل کا حل کیسے ممکن ہے۔؟
پروفیسر ساجد میر: میں پانچ تجویزیں پیش کرنا چاہتا ہوں۔ سب سے پہلے ہم مسلمان ہیں اور اسلام کے نام پر ہمارا ملک بنا ہے۔ اللہ تعالٰی کا ارشاد ہے کہ جو میری یاد سے غافل رہے، اس پر معیشت تنگ کر دی جاتی ہے۔ لہذا سب سے پہلا حل تو یہ ہے کہ ہم سب سے پہلے قرآن و سنت کی رسی کو مضبوطی سے تھامیں۔ دوسرا یہ کہ ملکی وسائل کا صحیح طریقے سے استعمال کیا جائے اور اسکے لئے حکمرانوں میں پولیٹیکل ول موجود ہو۔ تیسرا یہ کہ ہمیں اوپر سے لیکر نیچے تک کرپشن کو ختم کرنا ہوگا۔ جب اہل اقتدار اپنا مال بنانے میں لگے ہوئے ہوں، تو یہ مال اور کھال کا یہ سلسلہ بند ہوجائے تو کافی حد تک کرپشن ختم ہوسکتی ہے۔ اسی طرح غیر ضروری اخراجات اور درآمدات میں کمی لانا ضروری ہے۔ چوتھا ہمیں‌ ٹیکس نظام کی اصلاح‌ کرنی ہوگی۔ اس وقت اسی فیصد بلواسطہ ٹیکس جمع کیا جاتا ہے۔ اسکے ساتھ ساتھ زرعی ٹیکس لگنا چاہیئے۔ بڑے زمینداروں اور وڈیروں پر ٹیکس لگانا چاہیئے۔ جو لوگ اسٹاک مارکیٹس میں کاروبار کرتے ہیں، انکی کمائی اربوں میں ہوتی ہے۔ لہذا انکے لئے ٹیکس کا نظام ہونا چاہیئے۔ سب سے اہم بات یہ کہ ہمیں امریکی غلامی سے نکلنا ہوگا۔ جب تک امریکی غلامی میں رہینگے، تب تک ہمارے مسائل میں اضافہ ہوتا رہیگا۔

خبر کا کوڈ : 392470
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

متعلقہ خبر
ہماری پیشکش