0
Friday 20 Jun 2014 16:39
تشیع کے ابھرنے کیوجہ سے امریکی پٹھو سعودی عرب سازشیں کر رہا ہے

دشمن ایران کے مقابلہ میں نہیں آ سکتا، اسی وجہ سے شام اور عراق میں دہشتگردی کر رہا ہے، علامہ عابد الحسینی

دشمن ایران کے مقابلہ میں نہیں آ سکتا، اسی وجہ سے شام اور عراق میں دہشتگردی کر رہا ہے، علامہ عابد الحسینی
علامہ سید عابد حسین الحسینی ایک جانی پہچانی شخصیت ہیں، آپ تحریک جعفریہ پاکستان کے سینئر نائب صدر رہے ہیں جبکہ آئی ایس او کی مجلس نظارت کے رکن بھی تھے۔ 1997ء میں سینیٹر منتخب ہوئے اور پارا چنار میں تین مدارس دینیہ کے مہتمم ہیں۔ پارا چنار میں فعال شیعہ تنظیم تحریک حسینی کے سرپرست اعلیٰ کی حیثیت سے بھی ذمہ داریاں سرانجادم دے رہے ہیں۔ علامہ سید عابد الحسینی کا شیعہ قومیات میں اہم رول رہا، اور آپ شہید قائد ملت جعفریہ پاکستان علامہ سید عارف حسین الحسینی (رہ) کے رفیق خاص بھی شمار ہوتے ہیں، آپ نے ہمیشہ ملت کو متحد کرنے کی کوشش کی، اور ملت کے مفادات کے حوالے سے ایک انچ بھی پیچھے قدم نہیں ہٹایا، اس وقت آپ ایک بزرگ عالم دین کی حیثیت سے جانے جاتے ہیں اور تمام شیعہ حلقے آپ کو عزت و احترام کی نگاہ سے دیکھتے ہیں، ’’اسلام ٹائمز‘‘ کی ٹیم نے علامہ سید عابد حسین الحسینی کیساتھ پارا چنار سمیت ملکی اور بین الاقوامی حالات اور کچھ ماضی کے جھروکوں کے حوالے سے ایک انٹرویو کا اہتمام کیا، جو قارئین کے پیش خدمت ہے۔ (ادارہ)

اسلام ٹائمز: سب سے پہلے ہمارے قارئین کو پارا چنار کی مجموعی صورتحال سے آگاہ فرمائیے گا۔؟
علامہ سید عابد حسین الحسینی:
بسم اللہ الرحمان الرحیم۔ پارا چنار میں امن و امان کی صورتحال کے حوالے سے تو ہر ایک یہ نعرہ لگاتا ہے، تاہم عوام میں موجود حکومتی ایجنٹس اور کارندے یا خود حکومتی افسران یہی کہتے ہیں کہ ہم امن کو خراب نہیں ہونے دیں گے، لیکن ان کے مقاصد ہمارے لئے بہت مضر ہیں کیونکہ ان کا مقصد یہ ہے کہ غیر لوگوں کو ہماری زمینوں پر آباد کیا جائے۔ ٹھیک ہے کہ ان کی بھی کچھ زمینیں ہیں، ہمیں ان کے آباد ہونے پر اعتراض نہیں، ہم نے بار بار کہا ہے کہ اہلسنت کے حقوق کے لئے بھی ہم ان کے ساتھ ہیں لیکن مسئلہ یہ ہے کہ ہماری زمینوں پر آبادی کرنا کسی طور پر بھی درست نہیں۔ حکومت یہ کہتی ہے کہ وہ جو کچھ اقدامات کرے اس سے امن کو نقصان نہیں پہنچے گا، اس کے برعکس اگر ہم کسی بات پر اعتراض کریں تو اس سے امن خراب ہو جائے گا، یہ کہاں کا انصاف ہے۔؟ اگر ہماری بالش خیل کی 9 ہزار جرب اراضی پر کسی کا قبضہ ہے تو ہم اگر مطالبہ کریں کہ ان ظالموں سے ہماری زمینوں کو چھڑایا جائے تو پھر حکومت کہتی ہے کہ ہم امن و امان خراب کرنے کی اجازت نہیں دیں گے۔ ہم نے بار بار کہا ہے کہ ایسے امن و امان پر ہم لعنت بھیجتے ہیں، اور ایسے امن و امان کا نعرہ لگانے والوں پر بھی ہم لعنت بھیجتے ہیں۔ ہم ہرگز برادشت نہیں کریں گے کہ ہمارے حقوق پائمال کئے جائیں اور ان کے حقوق جو نہ بھی ہوں، انہیں ثابت کرایا جائے۔

اسلام ٹائمز: وجہ کیا ہے کہ سنی قبائل کو شیعہ علاقوں میں آباد کرایا جا رہا ہے اور انہیں مکمل حکومتی سپورٹ حاصل ہے، اور اس کے برعکس شیعہ قبائل کو ان کی اپنی زمینوں سے بھی محروم رکھا جا رہا ہے۔؟
علامہ سید عابد حسین الحسینی:
اصل وجہ تعصب ہے، کیونکہ ہر ایک یہ چاہتا ہے کہ میں اپنے ہم مسلک کو سپورٹ کروں۔ مثال کے طور پر اگر کسی کا مرغ ہو تو وہ یہ چاہے گا کہ میرا مرغ دوسرے مرغ کو شکست دے دے۔ تو کہنے کا مقصد یہ ہے کہ یہ ایک فطری عمل ہے۔ آپ دیکھیں کہ پورے پاکستان میں کیا ہو رہا ہے، دہشتگرد دہشتگردی کرتے ہیں، پھر مقدمہ کی پیروی کرنے والوں اور مخالف وکلاء کو بھی قتل کرتے ہیں، اور پھر پاکستان میں ججوں کو بھی خریدا جا سکتا ہے۔ پاکستان میں مولویوں کا یہ حال ہے کہ وہ چند ہزار روپے کی خاطر جہاد النکاح جیسا فتویٰ بھی دینے میں بھی تاخیر نہیں کرتے۔ یعنی پاکستان کا ماحول اتنا خراب اور غیر اسلامی ہے۔ پورے پاکستان میں بے دردی سے شیعوں کو قتل کیا جا رہا ہے، اور کسی کو آج تک پھانسی نہیں دی گئی۔ آج میں نے ایک قومی سطح کہ اخبار میں توفیق بٹ کا ایک تجزیہ پڑھا، جس میں انہوں نے تجزیہ کیا ہے کہ وزیراعظم کی کیا حیثیت ہے، ہمارے وگ لگانے والے وزیر داخلہ کیا کر رہے ہیں۔

کراچی ایئرپورٹ پر حملہ ہوا اور وزیراعظم نے کہا کہ بہت کامیاب آپریشن کرلیا گیا۔ میں یہ پوچھتا ہوں کہ یہ کیسا کامیاب آپریشن تھا۔ وہ دہشتگرد تو مرنے کیلئے آئے تھے اور مر گئے، انہوں نے تو اپنا کام کرلیا۔ جس طرح پورے پاکستان میں اہل تشیع کیساتھ ہو رہا ہے، ویسے ہی پارا چنار کی صورتحال ہے۔ صرف اور صرف تعصب کا مسئلہ ہے۔ انہوں نے ہمارے حقوق نیلام کئے جا رہے ہیں جبکہ ان کے حقوق کی مکمل حفاظت کی جا رہی ہے بلکہ ان کے حقوق سے بڑھ کر انہیں دیا جا رہا ہے۔ یہاں پر ہمارے لئے ایک نہیں لاتعداد مسائل ہیں، مثال کے طور پر اگر شیعہ علاقہ میں کوئی بم دھماکہ ہوتا ہے تو اسی علاقہ کے متاثرہ شیعہ افراد کو گرفتار کیا جاتا ہے۔ اس کے برعکس اگر کسی سنی علاقہ میں بم دھماکہ ہو جائے تو ان کی گرفتاری نہیں ہوتی بلکہ اس کے قریبی شیعہ علاقوں سے گرفتاریاں عمل میں لائی جاتی ہیں۔ لہذا کرم ایجنسی میں تعصب کے علاوہ کوئی دوسرا مسئلہ نہیں ہے۔

اسلام ٹائمز: علامہ صاحب کیا مری معاہدہ پر عملدآمد ہو رہا ہے۔؟
علامہ سید عابد حسین الحسینی:
مری معاہدہ تو برائے نام ہے، جب یہ معاہدہ ہوا تو ہم نے کہا کہ ٹھیک ہے یہ معاہدہ ہوگیا، تاہم یہ اس معاہدہ کو سبوتاژ کریں گے۔ اس کے علاوہ ہمارے طوری اور بنگش قبائل میں بھی بعض ایسے افراد ہیں جن کو صرف دو ہزار روپے میں بھی خریدا جا سکتا ہے۔ چند روز قبل بھی شلوزان اور لقمان خیل کے بعض لوگوں نے دستخط کئے، لیکن وہاں کے جوان اٹھ کھڑے ہوئے اور انہوں نے تحریک حسینی کی طرف رجوع کیا، میں نے وہاں کچھ لوگ بھیجے، جس کے بعد وہاں کچھ اتفاق رائے پیدا ہوا اور جن لوگوں نے دستخط کئے تھے عوام نے ان کے گھروں پر چڑھائی کی۔ ان سے پوچھا گیا کہ تم ہو کون جو ایسے معاہدوں پر دستخط کرتے ہو۔ لہذٰا مری معاہدہ طے پانے کے وقت ہم نے کہہ دیا تھا کہ ظاہراً یہ معاہدہ تو ہو گیا ہے لیکن بعد میں لوگوں کو بیوقوف بنایا جائے گا۔ یہاں پر حکومت جو کہتی اور چاہتی ہے وہی ہوتا ہے۔ یہ تو خدا کا فضل ہے کہ یہاں پر تحریک حسینی نے نوجوانوں کو بیدار کیا ہے، پہلے تو ایسے ہوتا تھا کہ پانچ، دس افراد دستخط کرتے تھے اور پھر چند سال بعد معلوم ہوتا تھا کہ یہ تو دستخط شدہ مسئلہ ہے۔

اسلام ٹائمز: ملک بھر میں امن و امان کی جو ابتر صورتحال ہے، جیسا کہ حالیہ دنوں میں تفتان اور کراچی کا سانحہ پیش آیا، لگتا ہے کہ سعودی امداد کے اثرات اب بھرپور طریقہ سے ظاہر ہونا شروع ہو گئے ہیں، آپ اس بارے میں کیا کہیں گے۔؟
علامہ سید عابد حسین الحسینی:
میں یہ سمجھتا ہوں کہ انقلاب اسلامی ایران کے بعد تشیع کو کچلنے کی کوشش کی جا رہی ہے کیونکہ تشیع دنیا بھر میں ابھر کے سامنے آ گیا ہے۔ پہلے تو یہ کہا جاتا تھا کہ مکتب تشیع میں ایسے افراد نہیں پائے جاتے جو قرآن مجید حفظ کرلیں، لیکن اب ثابت ہوگیا کہ جس طرح حافظ قرآن اہل تشیع میں پائے جاتے ہیں وہ ویسے پوری دنیا میں نہیں ملتے، جس طرح کے قاری قرآن شیعہ ہیں ویسے شائد ہی کسی اور مسلک میں ہوں۔ تشیع دنیا بھر میں بھرپور انداز میں ابھر پڑی، اس وجہ سے امریکی پٹھو سعودی عرب نے اپنی سازش شروع کردی۔ کل کی بات ہے کہ عبداللہ جو کہ ایک خائن اور نوکر شخص ہے، کہتا ہے کہ مصر اگر ہم سے کوئی مدد مانگے تو ہم کرنے کو تیار ہیں۔ اسرائیل کے مقابلہ میں فلسطین کی مدد کیلئے یہ لوگ تیار نہیں، لیکن ان کی مدد کیلئے تیار ہیں کیونکہ امریکہ کا اشارہ ہوتا ہے۔ لہذٰا میں سمجھتا ہوں کہ تشیع کو کچلنے کی کوشش کی جا رہی ہے، اور سعودی عرب جوکہ ان کا سب سے بڑا مزدور ہے وہ اس سلسلے میں پیش پیش ہے۔ آپ دیکھ لیجئے کہ پاکستان میں کیا ہو رہا ہے، کراچی میں کیا ہوا۔؟ تفتان میں کیا ہوا۔؟ دیگر مقامات پر کیا ہو رہا ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ یہاں حکومت نام کی کوئی چیز نہیں تو غلط نہ ہوگا۔

مجھے اچھی طرح سے یاد ہے کہ جب ہم سینیٹر تھے تو فاٹا کے سینیٹرز کی نواز شریف کے ساتھ میٹنگ تھی، نواز شریف نے ایک پانچ نکاتی ایجنڈا پیش کیا۔ ان میں سے ایک سینیٹر نے کہا بس نواز شریف صاحب ہمیں آپ کا ایجنڈا قبول ہے، دوسرے نے اٹھ کر کہا سب قبائل آپ کے ساتھ ہیں۔ جب سب چپ ہوگئے تو میں نے کہا میاں صاحب ہم آپ کے ایجنڈے کے بالکل مخالف ہیں۔ انہوں نے کہا کیوں علامہ صاحب۔؟ میں نے کہا کہ آپ کے ایجنڈے کے سرفہرست دہشتگردی کا مسئلہ ہونا چاہیئے تھا، کیونکہ یہ پاکستان کیلئے سب سے زیادہ مضر ہے، اس کو آپ نے اہمیت نہیں دی۔ یہاں کوئی سزاء و جزاء کا عمل ہے ہی نہیں، اگر کسی کو پھانسی ہو بھی جائے تو ان دہشتگردوں کو جیل سے فرار کرایا جاتا ہے۔ یہاں کوئی قانون ہے اور نہ ہی حکومت۔ یہ سب کچھ تشیع کو کچلنے کیلئے ہو رہا ہے، حکومتی ایجنسیاں بھی اس میں ملوث ہیں، نواز شریف کی تو حکومت ہی طالبان کی حکومت ہے۔ آپ دیکھ لیں کہ عمران خان کی جماعت کا کوئی رہنماء قتل نہیں ہوتا جبکہ اسفند یار ولی کی جماعت کے لوگوں کو قتل کیا جاتا ہے۔ پنجاب میں دہشتگردی کا کوئی واقعہ نہیں ہوتا کیونکہ وہاں رانا ثناءاللہ جیسے خبیث لوگ بیٹھے ہوئے ہیں جوکہ طالبان کا ساتھ دیتے ہیں اور ان کا ایجنڈا نافذ کرنا چاہتے ہیں۔

اسلام ٹائمز: ملک میں اہل تشیع کیخلاف جو محاذ کھولا گیا ہے، ایسے میں آپ شیعہ تنظیموں کی کارکردگی سے کس حد تک مطمئن ہیں، اور آپ سمیت علمائے کرام کی اس صورتحال میں کیا کوئی ذمہ داری بنتی ہے۔؟
علامہ سید عابد حسین الحسینی:
آپ کو شائد نہیں معلوم، اگر ہم تفصیل سے ذکر کریں تو یہ ایک بہت طویل سلسلہ ہوگا، ہم نے بہت کوششیں کیں، ہم آغا ساجد علی نقوی کیساتھ کئی بار بیٹھے، جب ایک مسئلہ سامنے آیا تو ہم نے انہیں بار بار راضی کرنے کی کوشش کی۔ جامعتہ المنتظر میں ایک پروگرام بھی منعقد کیا گیا، جس میں میں نے بھی تقریر کی، شیخ محسن نجفی صاحب، حافظ ریاض صاحب، ڈھکو صاحب، ساجد علی صاحب اور افتخار نقوی صاحب بھی موجود تھے۔ ہم نے بہت کوششیں کیں لیکن کوئی حل نہ نکل سکا۔ ایک مرتبہ ایسے بھی ہوا کہ میں جامعتہ المنتظر ایک علمی شخصیت سے ملاقات کیلئے گیا۔ میں نے کہا کہ آپ نے بھی کہا تھا کہ تحریک کو درست کیا جائے، آغا ساجد علی تحریک پر کچھ لطف فرمائیں، اور اگر اب بھی کچھ نہیں کیا جاتا تو تحریک کی فاتحہ پڑھ لی جائے۔ لہذا اب علماء کا فرض بنتا ہے کہ وہ سامنے آ جائیں، پاکستان کے حالات بہت خراب ہو چکے ہیں، تشیع کو کچلا جا رہا ہے اور کوئی سامنے نہیں آ رہا، آخر علماء کا کچھ وظیفہ ہوتا ہے۔ تو اس بزرگ شخصیت نے یہ فرمایا کہ حسینی صاحب ہم تو قومیات میں نہیں ہیں۔

میں نے کہا کہ ٹھیک ہے آپ قومیات میں نہیں ہیں، لیکن جب میں جامعتہ المنتظر میں داخل ہوتا ہوں تو کہیں لکھا ہوتا ہے کہ نذورات یہاں دیں، پکی پکائی دیگیں یہاں دیں، خمس یہاں دیں، صدقات یہاں دیں، قربانی کی کھالیں یہاں دیں۔ اور جب قومی مسئلہ ہو تو پھر اس کیلئے آئی ایس او والے ہوں، ہم نہیں ہیں۔ میں نے کہا کہ یہ ظلم ہے۔ قومی سطح پر ہم نے ایک کوشش کی اور شوریٰ وحدت اسلامی کا ایک سلسلہ شروع ہوا۔ لوگوں نے مجھے کہا کہ آپ سامنے آ جائیں، میں نے کہا کہ ہم نے شوریٰ اس لئے نہیں بنائی کہ میں سامنے آ جاوں۔ ہم فاضل موسوی کو سامنے لائے، میں نے اس وقت کہا تھا کہ شوریٰ وحدت اسلامی کا سربراہ ہم علی موسوی کو بناتے ہیں کیونکہ یہ ایک غیر متنازعہ شخصیت ہیں اور ان کی پاکستان میں ایک حیثیت بھی ہے۔ میں مخالف تھا تاہم باقی دوستوں کی خواہش تھی کہ فاضل موسوی کو سامنے لایا جائے۔ ان کو سامنے لایا گیا، پھر آپ نے دیکھا کہ اس نظام کا کیا حشر ہوا۔ اس کے بعد سے ہم خاموشی سے یہاں آ کر بیٹھ گئے، اور پھر ہر کسی کا ایک وظیفہ ہوتا ہے، اپنے علاقہ میں ہم سے جو کچھ ہوتا ہے، الحمداللہ ہم وہ کرتے ہیں، ملکی سطح پر دیکھیں تو مجلس وحدت مسلمین اور آغا ساجد علی موجود ہیں، یہ ان کا وظیفہ ہے۔

اسلام ٹائمز: آپ نے تحریک جعفریہ اور شوریٰ وحدت اسلامی کے حوالے سے گفتگو فرمائی، کیا چند سال قبل وجود میں آنے والی جماعت مجلس وحدت مسلمین کی کاوشوں سے آپ مطمئن ہیں۔؟
علامہ سید عابد حسین الحسینی:
ان کی ملکی سطح پر آج ایک حیثیت ہے، وہ کوششیں بھی کر رہے ہیں، ان کا نعرہ بلند بھی ہوتا ہے۔ جیسا کہ کوئٹہ کے سانحہ پر ہوا تھا، وہ اپنی طرف سے ماشاء اللہ کافی محنت کر رہے ہیں تاہم پاکستان میں مسائل بہت زیادہ ہے، میں یہ نہیں کہتا ہے کہ مکمل کامیابی مل گئی ہے، ان کی کوششیں جاری ہیں۔

اسلام ٹائمز: تکفیری دہشتگردوں کی عراق میں کارروائیاں کیا شام میں شکست کا بدلہ لینے کی کوشش ہے۔؟
علامہ سید عابد حسین الحسینی:
دیکھیں شام میں جو ہوتا ہے وہ یہی کڑی ہے، عراق میں جو ہوتا ہے وہ بھی یہی کڑی ہے، پاکستان میں اہل تشیع کیساتھ جو ہوتا ہے وہ بھی یہی کڑی ہے۔ افواج پاکستان پر حملے ہوتے ہیں، پولیس پر حملے ہوتے ہیں اس حوالے سے ہمیں معلوم نہیں، کیونکہ پاکستان میں طالبان کے کئی گروپس ہیں لیکن جو عراق اور شام میں ہو رہا ہے وہ ایک ہی کڑی ہے۔ چونکہ ان کا خیال ہے کہ ایران کا لبنان، شام اور عراق پر ہولڈ ہے، وہ الحمداللہ ایران کے مقابلہ میں تو نہیں آ سکتے اس وجہ سے عراق اور شام میں وہ کارروائیاں کر رہے ہیں۔ اس سے وہ ایران کو پریشان کرنا چاہتے ہیں کہ ان ممالک پر ایران کی گرفت کمزور ہو سکے۔
خبر کا کوڈ : 393715
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش