0
Friday 20 Jun 2014 19:13

بشار الاسد کی کامیابی، استعماری بلاک کی شکست اور مزاحمتی بلاک کی فتح ہے، صابر کربلائی

بشار الاسد کی کامیابی، استعماری بلاک کی شکست اور مزاحمتی بلاک کی فتح ہے، صابر کربلائی
صابر کربلائی کا تعلق پاکستان کے شہر کراچی سے ہے، آپ فلسطین فاؤنڈیشن پاکستان کے مرکزی ترجمان ہیں، پاکستان میں مسئلہ فلسطین کو اجاگر کرنے کے لئے ہمیشہ سر گرم عمل رہتے ہیں، ماضی میں امامیہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن پاکستان کے مختلف عہدوں پر فائز رہے اور فعالیت انجام دیتے رہے، اس کے علاوہ صابر کربلائی مقالہ نویسی بھی کرتے ہیں اور آپ کے مقالات پاکستان کے معروف اخبار ’’روزنامہ ایکسپریس ‘‘ میں شائع ہوتے رہتے ہیں۔ حال ہی میں بین الاقوامی مبصرین کے وفد کے ساتھ شامی انتخابات کے دوران شام کا دورہ کیا ہے اور ایک مبصر کی حیثیت سے شامی انتخابات کا مشاہدہ کیا ہے۔ اس ہی مناسبت سے اسلام ٹائمز نے صابر کربلائی سے ایک مختصر انٹرویو کیا ہے۔ جو قارئین کی خدمت میں پیش ہے۔

اسلام ٹائمز: آپ شام سے تشریف لائے ہیں، قارئین کو بھی آگاہ کریں کہ شام کی موجودہ صورتحال کیا ہے؟
صابر کربلائی: شروع اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان اور نہایت رحم کرنے والا ہے، الحمد للہ ! شام کی صورتحال بہت حد تک بہتر ہو چکی ہے، اگر اس طرح کہا جائے کہ نوے فیصد معاملات پر شامی حکومت نے مکمل کنٹرول سنبھال لیا ہے تو یہ بات بے جا نہ ہوگی، آپ نے پاکستان میں دیکھا ہوگا اور یقیناً ذرائع ابلاغ اور سوشل میڈیا پر بھی کچھ ایسے مشاہدے کئے ہوں گے کہ جس میں مغربی ذرائع ابلاغ نے شام کے حوالے سے ایک واویلا مچا رکھا تھا کہ جس میں دنیا کے عوام کو یقین دلوانے کی کوشش کی جا رہی تھی کہ شام بالکل تباہ و برباد ہو گیا ہے اور دہشت گرد جنہیں جہادی گروہ بتایا جا رہا تھا انہوں نے قبضہ کر لیا ہے لیکن یہ سب باتیں ہواؤں میں ہیں ان باتوں کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں، جی ہاں، شام میں تباہی اور بربادی ضرور ہوئی ہے لیکن اس تباہی اور بربادی کو جس طریقے سے مغربی ذرائع ابلاغ نے بتایا ہے وہ درست نہیں ہے۔ خلاصہ یہ ہے کہ شام کی صورتحال بہت زیادہ بہتر ہو چکی ہے، دہشتگرد جو پہلے متعدد علاقوں میں موجود تھے اب پسپا ہوکر بھاگ چکے ہیں یا پھر کسی ایک یا دو مقامات پر پناہ لینے پر مجبور ہو چکے ہیں، بہرحال ہر حال میں شام کے عوام فاتح قرار پائے ہیں اور اس کی ایک واضح اور زندہ مثال شام کے موجودہ انتخابات بھی ہیں کہ جو خود اس بات کا واضح ثبوت ہیں کہ شام میں اب حالات کس نوعیت کے ہیں۔

اسلام ٹائمز: آپ نے شام کے انتخابات کا تذکرہ کیا اور آپ اس موقع پر وہاں موجود بھی تھے، آپ نے کیا محسوس کیا؟ کچھ انتخابات کے بارے میں بتائیں۔
صابر کربلائی: جی ہاں! ہم شام میں عین اس وقت موجود تھے جب شام میں صدارتی انتخابات کا عمل جاری تھا، صرف میں ہی نہیں بلکہ پوری دنیا سے یورپ، امریکہ، لاطینی امریکہ، افریقا سمیت ایشیائی ممالک کے مندوبین موجود تھے ان میں سرکاری اور غیر سرکاری ہر قسم کے افراد موجود تھے، پاکستان سے بھی نصف درجن افراد کا کاروان اس موقع پر شام میں موجود تھا۔ تین جون کو ہونے والے شام کے انتخابات میں ہم نے مشاہدہ کیا کہ شام کے عوام جوق در جوق صبح سے ہی پولنگ اسٹیشنز کی طرف رواں دواں تھے اور ان افراد میں نوجوان، بزرگ اور شعبہ زندگی سے تعلق رکھنے والے ہر قسم کے لوگ موجود تھے جو شام کے انتخابات میں اپنا حق رائے دہی استعمال کرکے شام کی ایک نئی تقدیر لکھنے جا رہے تھے، مجھ سمیت دیگر ساتھیوں کا یہ اندازہ بھی ہے اور شاید شام کے سرکاری ذرائع بھی یہی اندازہ لگا رہے تھے کہ شام کے 80 فیصد سے زائد عوام نے شام کے انتخابات میں حصہ لیا اور اپنا حق رائے دہی استعمال کیا۔

انتخابات کے دوران ایک بات نہایت اہمیت کی حامل تھی کہ جن علاقوں کے بارے میں ہم نے اپنے ممالک میں یہ باتیں سن رکھی تھیں کہ شام کے چند علاقے ابھی بھی ایسے ہیں کہ جہاں شامی حکومت کا کنٹرول نہیں ہے اور وہاں انتخابات نہیں ہوں گے لیکن جب ہم شام کی سر زمین پہنچے تو حیران رہ گئے کہ حلب جیسے مقام پر بھی انتخابات کا عمل اسی طرح جاری و ساری تھا جس طرح شام کے دل دمشق میں جاری تھا۔ میں یہ سمجھتا ہوں کہ تین جون کو شام میں ہونے والے انتخابات نے شام کی نئی قسمت تحریر کردی ہے اور دنیا کی شیطانی قوتوں کو یہ پیغام دیا ہے کہ آئندہ ہمارے وطن کی طرف اپنی ناپاک نظریں مت کرنا ورنہ انجام اس سے بھی زیادہ بھیانک ہو سکتا ہے۔

اسلام ٹائمز: الیکشن کے موقع پر شام کے عوام کے تاثرات کیا تھے؟ خصوصاً شامی حکومت اور دہشت گردوں سے متعلق؟
صابر کربلائی: جیسا کہ میں پہلے ہی عرض کر چکا ہوں کہ شام کے 80 فیصد سے زائد عوام نے انتخابات کے عمل میں حصہ لیا ہے اور اپنا حق رائے دہی استعمال کیا ہے تو اس بات سے واضح ہوجاتا ہے کہ شام کے عوام کے تاثرات کیا ہو سکتے ہیں، شام کے عوام یقیناً بشار الاسد سے بے پناہ محبت کرتے ہیں اور ان کی خاطر اپنی جان و مال کی قربانی سے دریغ نہیں کرتے اور ایسا عملی طور پر بھی کرکے دکھایا ہے۔ شام کے لوگوں کے دہشت گردوں سے متعلق تاثرات بڑے واضح تھے انہوں نے ان دہشت گردوں کو نہ صرف شام اور شامی عوام کا دشمن قرار دیا بلکہ ان دہشت گردوں کو ملت اسلامیہ کا بد ترین دشمن قرار دیا ہے۔

اسلام ٹائمز: گذشتہ تین برس سے شامی افواج اور حزب اللہ اسلام دشمن دہشت گردوں کے ساتھ برسرپیکار ہے، اس بارے میں شام میں کیا تاثرات پائے جاتے ہیں؟
صابر کربلائی: تین برس قبل شام میں ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت امریکہ اور اسرائیل سمیت خطے کی چند ناعاقبت اندیش ریاستوں نے شام کے خلاف ایک ایسے راستے کا اختیار کیا جو کسی بھی طریقے سے درست نہیں تھا، شام میں مسلح گروہوں کو کھڑا کیا گیا، ان کی بھرپور مالی اور مسلح معاونت کی گئی تاکہ شام کی حکومت کو غیر مستحکم کیا جا سکے اور وہاں پر امریکی اور اسرائیلی حمایت یافتہ افراد کو برسر اقتدار لایا جائے، لیکن امریکہ اور اسرائیل سمیت ان کے عرب حواری سب کے سب اپنے اس خواب کی تکمیل کو کبھی ہوتے ہوئے نہیں دیکھ پائیں گے۔ جہاں تک بات مزاحمت کی ہے تو یہ بات روشن عیاں ہے کہ شام کے عوام چاہے وہ مسلمان ہوں، عیسائی ہوں یا پھر کسی اور اقلیتی مذہب سے تعلق رکھتے ہوں سب کے سب نے یک زبان ہو کر شامی افواج اور حزب اللہ کی بھرپور حمایت کا اعلان کیا ہے کیونکہ شام میں موجود دہشت گرد گروہوں نے اپنے اعمال سے واضح کر دیا تھا کہ وہ کس نظریہ فکر سے تعلق رکھتے ہیں، کیونکہ شام میں رسول گرامی قدر حضرت محمد مصطفی (ص) کے جید صحابہ کرام (رض) کے مزارات مقدسات کو منہدم کیا گیا، صحابہ کرام کے اجساد مبارک کو قبور ہائے مبارکہ سے نکال کر توہین کا نشانہ بنایا گیا، لوگوں کو بے دردی سے قتل کیا گیا، انسانوں کے جگر چاک کر کلیجے چبائے گئے، خواتین کی عصمت دریاں کی گئیں، عیسائیوں کے مقدس مقامات کو توڑ دیا گیا، عیسائی آبادیوں پر حملے کئے گئے، جہاد النکاح کے نام پر زنا کے کلچر کو عام کیا گیا، غرض یہ کہ انسانیت سے گری ہوئی ہر حرکت کو انجام دیا گیا۔

حزب اللہ کی قیادت نے درست فیصلہ کیا کہ شام میں ان دہشت گردوں کا قلع قمع کیا جائے ورنہ یقیناً یہی دہشت گرد شام کے بعد لبنان کا رخ کرتے اور پھر لبنان کو بھی شام کی طرح غیر مستحکم کرنے کی کوشش کرتے، یہی وجہ ہے کہ شام کے عیسائی ہوں، دروز ہوں، شیعہ و سنی مسلمان سب کے سب اسلامی مزاحمت کے ترانے گناتے ہیں کیونکہ اسلامی مزاحمت نے نہ صرف شام کے لوگوں کا دفاع کیا بلکہ لبنان کا دفاع کیا اور ممالک سے بڑھ کر اسلامی مقدسات اور شعائر اللہ کی توہین کے خلاف قیام کیا اور اسلام دشمن قوتوں کو منہ توڑ جواب دیا، خلاصہ یہ ہے کہ لبنان ہو یا شام، دونوں ممالک کے عوام حزب اللہ کی بھرپور حمایت کررہے ہیں اور بعض مفکرین اور سیاست دانوں کا کہنا ہے کہ شام میں ہونے والے صدارتی انتخابات دراصل شامی افواج اور حزب اللہ کی مرہون منت ہیں۔ میں ان تمام شہداء کے لئے دعاگو ہوں جو شام میں اسلام دشمن دہشت گردوں کا مقابلہ کرتے ہوئے، سیدہ زینب سلام اللہ علیہا کا عباس بن کر دفاع کرتے رہے، خدا ہمیں بھی ان کے وسیلے سے جہاد فی سبیل اللہ کے راستے کو اختیار کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔

اسلام ٹائمز: عراق میں حالیہ دنوں داعش نے موصل، فلوجہ، تکریت سمیت صلاح الدینیہ پر قبضہ کر لیا ہے، اس بارے میں آپ کا کیا کہنا ہے؟
صابر کربلائی: بعض افراد داعش کو ایک اسلامی گروہ مانتے ہیں جبکہ یہ اسلام کے ساتھ ایک خیانت کے مترادف ہے، داعش جیسے گروہوں کو اسلامی گروہوں کی نسبت دینا بالکل غلط اقدام ہے۔ خاص طور پر ایسے موقع پر کہ جب آپ جانتے ہوں کہ ان کی مالی معاونت کون کرتا ہے، ان کو سیاسی سطح پر کون مدد فراہم کرتا ہے اور پھر خود اسلام میں داعش جیسے تکفیری گروہوں کی کوئی جگہ نہیں ہے۔ مغربی قوتیں ہمیشہ سے اسلامی نام نہاد جہادی گروہوں کو استعمال کرتی رہی ہیں اور ان کا استعمال اپنے مفادات اور سامراجی نظام کو تحفظ دینے کے لئے کیا جاتا رہا ہے اور آج بھی وہی کیا جا رہا ہے۔ اس طرح کے جہادی نام نہاد گروہوں میں لڑنے والے افراد یہ سمجھ رہے ہوتے ہیں کہ شاید وہ اسلام کی خدمت کر رہے ہیں لیکن در اصل وہ دشمن کے مفادات کا تحفظ کر رہے ہوتے ہیں اور انہیں خود بھی علم نہیں ہوتا۔ داعش کا رویہ بالکل غیر اسلامی ہے، داعش کے دہشت گرد دہشت گردی اور جرم کو فلم بندی کرتے ہیں اور مزے سے نشر کرتے ہیں جو کہ خود ایک غیر اسلامی فعل ہے، وہ انتہائی فخر کرتے ہیں اپنے جرائم اور ظالمانہ کاروائیوں پر اور یہ واقعاً اسلام نہیں ہے بلکہ اسلام کی تعلیمات میں ایسا کہیں نہیں ملتا ہے۔

آج ظاہراً تو داعش کے دہشت گردوں نے عراق کے شمالی علاقوں پر قبضہ کر لیا ہے لیکن عنقریب انہیں یہاں بھی شکست ہو گی، عراق میں ہونے والے معاملات دراصل شام کا رد عمل ہے کیونکہ وہاں سے انہیں منہ کی کھانی پڑی ہے اور فرار اختیار کرنا پڑی ہے جس کے باعث اب یہ لوگ عراق کو اپنا اگلا ہدف بنا رہے ہیں تاکہ ایک طرف عراقی حکومت کو کمزور کیا جائے جبکہ دوسری طرف امریکہ اور اسرائیل کے مقاصد کہ دنیا میں شیعہ اور سنی فسادات کو ہوا دیا جانا ہے کا آغاز کرنا بھی ہے اور حالات کو اسی طرف لے جایا جا رہا ہے۔ میں یہ سمجھتا ہوں کہ عراق کے حالات کو خراب کرنے اور داعش کو عراق کے شمالی علاقوں پر قبضہ کروانے میں امریکہ، اسرائیل سمیت سعودی عرب اور ترکی براہ راست شامل ہیں جبکہ اس خیانت کاری میں عراقی سابقہ نائب صدر طارق الہاشمی بھی داعش کے ساتھ معاونت کر رہے ہیں۔ گذشتہ برس میں نے اپنی ایک تحقیقی رپورٹ میں جس کا عنوان تھا ’’شام کے بعد عراق دہشت گردوں کا اگلا ہدف‘‘ کافی تفصیل سے بیان کیا تھا کہ کون کون سے عناصر ہیں جو عراق کو غیر مستحکم کرنے کے لئے سر گرم عمل ہیں، اور آج بالکل اسی طرح ہو رہا ہے۔ میں امید کرتا ہوں کہ شام کی طرح عراق میں بھی اسلام دشمن قوتوں کو شکست فاش ہوگی اور اسلام کا پرچم لہراتا رہے گا اور دنیا کی کوئی طاقت اس پرچم کو سرنگوں نہیں کر سکتی۔
خبر کا کوڈ : 393791
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش