1
0
Monday 28 Jul 2014 00:20
اسرائیل کی کمر توڑ دی گئی ہے

پاکستان بھر کی طرح بلتستان میں بھی یوم القدس کو منانیکا اعزاز آئی ایس او کو حاصل ہے، زاہد مہدی

پاکستان بھر کی طرح بلتستان میں بھی یوم القدس کو منانیکا اعزاز آئی ایس او کو حاصل ہے، زاہد مہدی
زاہد مہدی کا تعلق روندو ستک سے اور انکی رہائش حیدرآباد گنگوپی میں ہے۔ انہوں نے اپنی مذہبی سرگرمیوں کا آغاز امامیہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن پاکستان بلتستان ڈویژن میں بحیثیت ممبر کیا۔ حیدریہ یونٹ گنگوپی میں یونٹ صدر اور بعد میں ڈویژنل جنرل سیکرٹری کی حیثیت سے دینی خدمات سرانجام دیتے رہے۔ ان دنوں آپ امامیہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن پاکستان بلتستان ڈویژن کے صدر ہیں اور قراقرم انٹرنیشنل یونیورسٹی اسکردو کیمپس میں زیرتعلیم ہیں۔ امامیہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن پاکستان بلتستان ڈویژن کے صدر زاہد مہدی نے یوم القدس کی مناسبت سے اسلام ٹائمز کو خصوصی انٹرویو دیا ہے جو اپنے محترم قارئین کی خدمت میں پیش ہے۔ (ادارہ)

اسلام ٹائمز: عالم اسلام کا سب بڑا مسئلہ آپ کی نگاہ میں اسوقت کیا ہے اور اسے کیسے حل کیا جا سکتا ہے۔؟
زاہد مہدی: دیکھیں! رہبر کبیر نے آج سے چار عشرہ قبل جو فرمایا تھا وہ آج بھی ہمارے لیے راہ حل ہے۔ انہوں نے فرمایا تھا کہ امریکہ عالم اسلام کی مشکلات کا ذمہ دار ہے اور امریکہ شیطان بزرگ ہے۔ اگر اقوام عالم پر نگاہ دوڑائیں تو وہ تمام ممالک جہاں پر امریکہ کی بالادستی نہیں ہے اور امریکہ کے ساتھ حالت جنگ میں ہیں وہاں انسانی اقدار بھی محفوظ ہے اور وہ اقوام دنیا میں سرخرو ہیں جبکہ اس کے برعکس جن ممالک نے امریکہ کو اپنا آقا مان لیا ہے وہاں دہشت گردی ہے، بدامنی ہے، فسادات ہے اور تنزلی ہے۔ اس وقت آپ دنیا کی شماریات دیکھیں تو یہ بات واضح ہو جائے گی کہ امریکہ کا شمار دنیا کے مقروض ترین ممالک میں ہوتا ہے اور عجیب بات ہے کہ عالم اسلام امریکہ سے لو لگائے بیٹھا ہے۔ اگر عالم اسلام اپنی اپنی خارجہ پالیسیوں پر نظر ثانی کرے اور امریکہ سے ساتھ دوستانہ رویے کی بجائے معاندانہ رویہ جاری رکھے تو اسی دن سے ترقی اور خود انحصاری کا آغاز ہوگا۔ جیسا کہ انقلاب اسلامی ایران ہمارے پاس بیّن اور شیرین تجربہ ہے۔ امریکہ روز اول سے انقلاب اسلامی ایران کے پیچھے ہے اور کوئی ایسا موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیا کہ ایران کو زک پہنچائی جائے۔ ایران پر اقتصادی پابندی عائد کر کے انکی معیشت کو برباد کرنے کی کوشش کی تو نتیجے میں ایران خود انحصاری کی طرف چلا گیا۔ امریکہ نے صدام کے ذریعے جنگ مسلط کی تو جذبہ شہادت اور جذبہ ایثار نے ایک طرف قوم کو بیدار اور مضبوط کیا تو دوسری طرف ایران کی دفاعی طاقت سپاہ پاسداران کو ابتداء میں ہی سخت ترین مراحل اور امتحانوں سے گزرنا پڑا جس کے نتیجے میں بنیان مرصوص کی صورت اختیار کر گئی ہے۔ اسی کی طرف رہبر کبیر نے اشارہ کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ یہ پابندیاں ہمارے لیے نعمت ہیں اور یقیناََ نعمت ثابت ہوگئیں۔ تو مختصر یہ کہ اسلامی ممالک اپنے مقدر کے فیصلے واشنگٹن اور وائٹ ہاوس کی بجائے اپنے ہاتھ میں لے کر قناعت اور توکل کے ساتھ کام کریں تو دنیا میں اسلام کی بالادستی قائم ہو جائے گی۔ سب سے اہم مسئلہ عالم اسلام کا یہی ہے۔ اس کے بعد دیگر معاملات آتے ہیں جن میں مرکزیت کا نہ ہونا، مختلف مسالک کے درمیان شدید تصادم، مہارت کی کمی، سائنس و ٹیکنالوجی میں پسماندگی اور غربت و جہالت کے علاوہ دہشت گردی وغیرہ شامل ہے۔

اسلام ٹائمز: ان دنوں بلتستان میں مختلف تقاریب و محافل میں مسئلہ فلسطین کو اہلیان فلسطین کی عاقبت نااندیشی کا نتیجہ سمجھا جاتا ہے، باالفاظ دیگر بعض محرابوں سے یہ بات کی جاتی ہے کہ فلسطینیوں نے اپنی زمینیں یہودیوں کو بیچ دیں تو اسکا انجام یہی ہونا تھا، آپ کی اس کے بارے میں کیا رائے ہے۔؟
زاہد مہدی: جو اس طرح کی باتیں کرتے ہیں دراصل نہ انکو تاریخ کے بارے میں کوئی علم ہے اور نہ خط امام کے بارے میں آگاہی۔ ایسے کم علم افراد کی ناقص رائے کے سبب عالم اسلام کا سب سے بڑا مسئلہ بلکہ انسانیت کا سب سے بڑا مسئلہ متنازعہ ہوتا ہے اور ایسے افراد مفت میں عالمی استعمار کی مدد کر رہے ہوتے ہیں اور ساتھ ہی فلسطینی مظلوموں کو سہارا دینے کی بجائے ان پر عملی طور پر طنز بھی ہو رہا ہوتا ہے جو کہ نہایت افسوسناک عمل ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ عالمی استعمار کی ڈیڑھ صدی سے قبل یہ سازش جاری تھی کہ قدرتی، معدنی اور سیاسی وسائل کے لحاظ سے مالا مال مشرق وسطٰی پر کنٹرول حاصل کرکے بالآخر پوری دنیا پر اپنی حکومت قائم کریں۔ اس مقصد کے لئے عالمی صہیونی سازش کاروں نے دوسری جنگ عظیم برپا کر کے " ہولوکاسٹ" کا افسانہ اس منظم انداز سے تراشا کہ ساری دنیا یہودیوں پر ہٹلر اور نازیوں کے ہاتھوں ہونے والے افسانوی ظلم و ستم کا قائل ہو گیا۔ اسی جھوٹی ہولوکاسٹ کے افسانے کو بنیاد بنا کر ساری دنیا کے یہودیوں کو ایک منظم سازش کے تحت مشرق وسطٰی کے قلب یعنی فلسطین میں جمع کیا گیا اور وہاں ان صیہونی مہاجرین کو اس طرح منظم اور طاقتور بنا دیا گیا کہ مقامی فلسطینی مسلمان انکے مقابلے میں کمزور ہو کر در بدر کی ٹھوکریں کھانے لگے جبکہ اعلان بلفور کے تحت 1948ء میں صیہونی ریاست اسرائیل کو سراسر غیر قانونی طور پر فلسطین میں قائم کیا گیا۔ اپنے ناجائز قیام سے اب تک یہ ریاست امریکہ اور مغربی دنیا کی مکمل سرپرستی اور مشرق وسطٰی میں قائم ایجنٹ حکومتوں کی مدد سے سرطانی غدود کی طرح اپنی حدود اور سرحدوں کو پھیلانے میں مصروف ہے اور اب وہ عظیم تر اسرائیل کا راگ بھی الاپنے لگا ہے، غزہ میں حملہ اسی سلسلے کی کڑی ہے۔ اسرائیل چاہتا ہے کہ شام کو بھی مسمار کر کے آگے بڑھیں اور فرات تک قبضہ جما لے۔ اسی مقصد کے لیے داعش کو پالا گیا ہے۔ بات ہو رہی تھی ہوکاسٹ ڈرامے کی تو ایران کے انقلابی دانشوروں کا یہ اعتراض اب دنیا بھر میں تسلیم کیا جانے لگا ہے کہ ہولوکاسٹ کا افسانہ مکمل طور پر جعلی ہے اور اگر جرمنی، آسٹریا، ہنگری یا یورپ کے کئی علاقوں میں یہودیوں پر ظلم ہوا ہے تو اس ظلم کی تلافی کے لئے یہودیوں کیلئے الگ ریاست یورپ کے اپنی ممالک میں قائم ہونا چاہیئے تھی جہاں پر انہیں ظلم کا نشانہ بنایا گیا۔ یہ کہاں کا انصاف ہے کہ یہودیوں پر ظلم جرمنی میں ہو اور اس کی تلافی کے لئے ریاست فلسطین میں تشکیل دی جائے۔ یعنی امریکہ، برطانیہ اور دنیا بھر کے یہودیوں کی منظم سازش کو پس پشت ڈال کر غلط سلط تعبیر کرنا غیر مناسب عمل ہے۔ ایک چیز کی وضاحت کرتا چلوں کہ اس معاملے کے حوالے سے میں نے خود نہیں سنا ہے کہ کسی نے مسئلہ فلسطین کو صرف ڈیموگریفک تبدیلی اور فلسطینوں کی پیسے کے عوض زمین بیچنے کا نتیجہ قرار دیا ہو۔ جب آپ کہہ رہے ہیں تو یقینا کوئی سابقہ ہوگا جسکی وضاحت مختصر بیان کی تفصیلا بھی اس موضوع پر بات ہو سکتی ہے۔

اسلام ٹائمز: غزہ میں جاری اسرائیلی بربریت کے حوالے سے حکومت پاکستان اس وقت مذمت کر رہی ہے  اور اقوام متحدہ سے جنگ بندی کا مطالبہ کر رہی ہے، آپ کیا سمجھتے ہیں پاکستان کی حکومت اس سلسلے میں کیا کچھ کر سکتی ہے جو نہیں کر رہی ہے۔؟
دیکھیں! اس وقت پاکستان کی حکومت مذمت سے کام چلانا چاہ رہی ہے وہ افسوسناک عمل ہے مذمت اور مطالبہ تو ایسے ممالک میں بھی ہو رہے ہیں جو غیر اسلامی ممالک ہیں. خود اسرائیل کے شہری غالباََ شمعون نام تھا اسرائیل کے خلاف پھٹ پڑے اور انہیں غاصب اسرائیلی فوج نے حراست میں لیا ہوا ہے۔ غزہ کے مظلوموں پر ڈھائے جانے والے مظالم خود یہودیوں سے برداشت نہیں ہو رہی ہے ایسے میں حکومت پاکستان کو مذمت سے بڑھ کر مسلم ملک ہونے کے ناطے عملی اقدام اٹھانے کی ضرورت ہے۔ جو پاکستانی حکومت کے بس میں ہے، غزہ کے مظلومین کی حمایت میں پاکستان کا پرچم سرنگون کرے، حکومتی سطح پر سوگ منائے، امریکی ایمبیسیز پر دباو بڑھائے، سرکاری سطح پر غزہ کے مظلومین کی بحالی کے لیے فنڈ ریز کرے، حکومت کی جانب سے ان کی بحالی کے لیے رقم مختص کرے اس کے علاوہ غزہ کے زخمیوں کے علاج معالجے کے لیے بھی کام کیا جا سکتا ہے۔ یہ وہ کام ہے جو حکومت پاکستان آسانی سے کر سکتی ہے۔

اسلام ٹائمز: بلتستان میں یوم القدس کراچی کے بعد پاکستان میں شایان شان طریقے سے منایا جاتا ہے کیا ان اجتماعات اور تقریبات کے حوالے سے آپ مطمئن ہیں۔؟
جی محترم! یہ بلتستان کے غیور عوام کو اعزاز حاصل ہے کراچی کے بعد پاکستان میں سے بڑا اجتماع اور سب سے بڑی ریلی نکالی جاتی ہے۔ خدا کا شکر ہے یہ اعزاز آئی ایس او کو حاصل ہے کہ ملک بھر کی طرح بلتستان میں بھی اس الہی دن کو منانے کا آغاز کیا۔ شاید آپ کو معلوم ہو کہ بلتستان میں کئی سال تک اس دن کو منانے میں مشکل پیش آئی۔ جب امام راحل نے دنیا بھر میں یوم القدس منانے کا حکم کیا تو آئی ایس او کے جوانوں کو اس دن کو منانے کا آغاز کیا تو گویا ایک نیا دین ایجاد کرنے کے مترادف تھا لوگ کم علمی کی وجہ سے نہیں جانتے تھے۔ اس زمانے میں کمیونیکیشن گیپ بھی بہت زیادہ تھا۔ لہٰذا مسجد و محراب تک سے مخالفتیں ہوئیں لیکن اس دن کو بلتستان میں آئی ایس او نے منانے کی روایت ڈالی جو کہ آئی ایس او کے لیے باعث صد افتخار ہے۔ آپ کے سوال کا دوسرا حصہ جو ہے ایسا ہے کہ بلتستان بھر میں جب یوم القدس کی یوم اللہ اور یوم رسول اللہ کے طور پر معرفی ہوئی تو مختلف تنظیموں اور انجمنوں نے بھی اس میں حصہ لینا شروع کیا اور آئی ایس او کی تقلید شروع کی تو آئی ایس او نے سب کو ملا کر لے جانے کی کوشش کی اور نتیجے میں مختلف مزاج کی تنظییمیں بھی سٹیک ہولڈرز بنیں تو جس انداز اور شان و شوکت کے ساتھ آئی ایس او منا سکتی ہے یا اس دن کو منانا چاہیئے تھا کماحقہ ایسا کرنا ممکن نہیں ہو رہا ہے۔ یعنی بلتستان کے عظیم اجتماع کو نظم و ضبط کے حوالے سے، پریزنٹیشن کے حوالے سے، مواد کے حوالے سے، میڈیاٹائیز کرنے کے حوالے سے اور اس اجتماع کو مواد دینے اور استفادہ حاصل کرنے کے حوالے سے بہت زیادہ کمیاب ہے۔ اس کے باوجود بلتستان بھر میں خدا کا شکر ہے آئی ایس او دوسری تنظیموں اور انجمنوں کے ساتھ ملک کر دو درجن کے قریب مقامات پر قدس کی ریلیاں نکالتی ہیں۔

اسلام ٹائمز: غزہ پر حملہ کے بارے میں آپ کیا سمجھتے ہیں کہ جنگ بندی اور حماس کے غزہ کے راستے کھولنے کے مطالبات منظور ہونگے۔؟
زاہد مہدی: آپ نے دیکھا کہ حماس نے اپنے آپ کو منوایا ہے اور اسرائیل پر حملوں کا جو انداز اپنایا ہے اس نے اسرائیل کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دیا ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ اسرائیل کی ہوا نکل گئی ہے۔ جان کیری اور دیگر شیطان کے چیلے جس طرح اچھل کود کر رہے ہیں واضح ہو رہا ہے کہ اسرائیل کی کمر توڑ دی گئی ہے، اسرائیل کی جانب سے بے گناہوں پر حملہ اور حماس کی جانب سے اسرائیل کی فوج پر حملہ، اسرائیل کی جانب سے اسکول اور ہسپتالوں پر حملہ جبکہ حماس کی جانب سے اسرائیلی نوکلیئر ری ایکٹر پر حملہ اور مسلسل حماس کی جانب سے حملے کا مطلب دنیا جان چکی ہے۔ اس وقت اسرائیل کی فوری ضرورت جنگ بندی ہے نہ کہ حماس کی۔ کیونکہ آئندہ ایک دو روز حماس چند سخت کاروائیاں کرنے کی پوزیشن میں نظر آ رہی ہے جبکہ اسرائیل نے جو کچھ کرنا ہے کر چکا ہے۔ شاید آپ کو یاد ہوگا کہ پاکستان کے میڈیا پر آنے والے نام نہاد تجزیہ نگار اسرائیل کی دفاعی طاقت کے اتنے معترف تھے گویا انکے دفاعی ادارے اور ٹیکنالوجی ہمارے تجزیہ نگاروں کے سامنے پنپ گئی ہو۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ ایک معروف تجزیہ نگار اسرائیل کی رعب میں اس حد تک مسحور ہو کر کہہ رہے تھے کہ اسرائیلی ڈیفنس اتنا مضبوط ہے کہ اسرائیلی سرحد کے پاس سے کوئی پرندہ انکی اجازت کے بغیر پر مارے اور سرحد پار کرے مجال نہیں۔ اینٹی میزائیل ٹیکنالوجی اپنی مضبوط ہے کہ ان کی سرحد کے اندر کوئی میزائیل داخل ہی نہیں ہو سکتا ہے اور ریپل ہو جاتا ہے۔۔۔۔وغیرہ وغیرہ یہ سب پروپیگنڈہ کے ذریعے اسرائیل کے رعب کو ڈالنا تھا۔ ایسی کہانیاں امریکی ڈیفنس کی ویب سائیٹ پر موجود ہیں جسے آپ دیکھ سکتے ہیں۔ حقیقت میں یہ سب فرعون کے سامری کے سانپوں کی طرح ہے۔ ان ساری کہانیوں کو حماس جیسی چھوٹی تنظیم نے انکے اینٹی ریکٹر کے پاس حملہ، ائیر پورٹ پر حملہ اور فوج پر حملہ کر کے انہیں ذلیل و رسوا کر دیا۔ مجھے لگتا ہے جنگ بندی حماس کی شرائط کو تسیلم کرتے ہوئے ہوگی لیکن اسرائیل اپنی خیانت کو ہفتوں میں نہیں بلکہ دنوں میں ہی دہرائے گا۔ دوسری طرف حماس مضبوط تر ہو جائے گی۔
خبر کا کوڈ : 401546
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

فریضه انجام دینے والے اعزاز کے در پے نھیں ہوتے
ہماری پیشکش