QR CodeQR Code

داعش سعودی عرب، امریکہ اور اسرائیل کی مشترکہ پیداوار ہے

تکفیری گروہ داعش کا مقصد عالم اسلام کی توجہ مسئلہ فلسطین اور اسرائیلی مظالم سے ہٹانا ہے، حسین شیخ الاسلام

3 Aug 2014 15:48

اسلام ٹائمز: اسلامی جمہوری ایران کی پارلیمنٹ کے بین الاقوامی امور کے مشیر کا کہنا ہے کہ تکفیری دہشتگرد گروہ "داعش" صیہونیستوں کی پیداوار ہے، جسکا اصلی مقصد عالم اسلام کی توجہ قبلہ اول اور مظلوم فلسطینی عوام پر اسرائیلی ظلم و ستم سے ہٹانا ہے۔ تکفیری دہشتگرد گروہ "داعش" خطے میں پائے جانیوالے ممالک کی جغرافیائی حدود کو تبدیل کرنیکے درپے ہے۔ اس مقصد کے حصول کیلئے اس نے فرقہ وارانہ تعصب اور مذہبی جنگ کی آگ بھڑکانے کا ہتھکنڈہ استعمال کیا ہے۔ خطے میں قائم حکومتوں کو علوی، سنی اور دروزی حکومتوں میں تقسیم کئے جانے کا مقصد یہودی حکومت کے قیام کا جواز فراہم کرنا ہے۔


عراق میں تکفیری دہشت گرد گروہ "داعش" یا امارت اسلامی کے دہشت گردانہ حملے اور ملک کے دوسرے بڑے شہر موصل پر قبضے کے فوراً بعد ہی اسرائیل کی غاصب صہیونیستی رژیم کی جانب سے غزہ ہر وحشیانہ حملہ اور معصوم روزہ دار مسلمانوں کا بے دریغ قتل عام ان دونوں مجرم قوتوں میں ایک طرح کے گٹھ جوڑ کو ظاہر کرتا ہے۔ اسلامی جمہوریہ ایران کی پارلیمنٹ کے بین الاقوامی امور کے مشیر حسین شیخ الاسلام نے اپنے انٹرویو میں تکفیری دہشت گرد گروہ داعش کی پیدائش، اسرائیل کی جانب سے اس کی حمایت اور تکفیری دہشت گردوں کی جانب سے دین مبین اسلام کے خوبصورت اور نورانی چہرے کو بگاڑ کر پیش کرنے کی منحوس سازش جیسے موضوعات پر روشنی ڈالی ہے۔ قارئین کی خدمت میں ان کا انٹرویو پیش کیا جا رہا ہے۔

سوال: تکفیری دہشتگرد گروہ داعش کے کیا اہداف و مقاصد ہیں۔؟
حسین شیخ الاسلام: درحقیقت تکفیری دہشت گرد گروہ "داعش" سعودی عرب، امریکہ اور اسرائیل کی مشترکہ پیداوار ہے، جس کا مقصد خطے میں ان ممالک کے مفادات کو یقینی بنانا ہے۔ اگرچہ داعش یا امارت اسلامی ظاہری طور پر اسلامی احکام کے اجرا پر تاکید کرتا ہوا نظر آتا ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس دہشت گرد گروہ کے افکار و نظریات مکمل طور پر اسلام مخالف ہیں۔ شریعت کے نفاذ کا نعرہ اس لئے لگا رہے ہیں تاکہ دنیا والوں پر یہ ظاہر کریں کہ وہ ایک اسلامی گروہ ہیں۔ اس کا مقصد ایک طرف اسلام کے چہرے کو بدنام کرنا ہے اور دوسری طرف عالم اسلام میں مذہبی اور فرقہ وارانہ جنگ کی آگ بھڑکانا ہے۔ آپ کے سوال کا جواب دینے کیلئے ضروری ہے کہ میں چند اہم نکات کی جانب اشارہ کروں۔

اول: یہ کہ داعش کا اصلی مقصد اسلام کے چہرے کو بگاڑ کر پیش کرنا ہے۔ ان کی جانب سے انتہائی درجہ کی بے رحمی اور قساوت قلبی کے ساتھ بیگناہ انسانوں کا قتل عام کیا جانا، مذہبی اور مقدس مقامات اور انبیاء الٰہی اور اولیائے خدا کے مزارات مقدسہ کی تخریب اور اسی طرح کے دوسرے جرائم کا ارتکاب محض اس لئے انجام پا رہے ہیں کہ دنیا والوں کو یہ پیغام دیا جائے کہ جب مسلمان خود ہی اپنے مسلمان بھائیوں کے گلے کاٹ رہے ہیں تو اسرائیل کو فلسطینی مسلمانوں کے قتل عام پر برا بھلا کیوں کہیں۔؟

دوم: تکفیری دہشت گرد گروہ داعش اپنے جرائم، شدت پسندی اور غیر انسانی اقدامات کی باقاعدہ طور پر سوشل نیٹ ورک پر تشہیر کرتا ہے۔ مساجد، مقدس مقامات، انبیاء الٰہی اور اولیاء خدا کے مزارات کو تخریب کرنے کے بعد ان کی ویڈیو بنا کر فیس بوک اور دوسری ویب سائٹوں پر شائع کی جاتی ہے۔ آپ کے خیال میں اس کا کیا اثر پڑے گا؟ آیا کل جب اسرائیل کی غاصب صہیونیستی رژیم قبلہ اول مسجد اقصٰی کو شہید کرے گی تو عوام یہی نہیں کہیں گے کہ کوئی بڑا مسئلہ رونما نہیں ہوا، خود مسلمان بھی تو اب تک مساجد اور انبیاء کے مزاروں کو نابود کرتے آئے ہیں؟ لوگ اسرائیل کی جانب سے انجام پانے والی شدت پسندی اور غیر انسانی اقدامات کو بھول جائیں گے۔

سوم: تکفیری دہشت گرد گروہ "داعش" خطے میں پائے جانے والے ممالک کی جغرافیائی حدود کو تبدیل کرنے کے درپے ہے۔ اس مقصد کے حصول کیلئے اس نے فرقہ وارانہ تعصب اور مذہبی جنگ کی آگ بھڑکانے کا ہتھکنڈہ استعمال کیا ہے۔ خطے میں قائم حکومتوں کو علوی، سنی اور دروزی حکومتوں میں تقسیم کئے جانے کا مقصد یہودی حکومت کے قیام کا جواز فراہم کرنا ہے۔ داعش خطے میں قومی اور مذہبی جنگ ایجاد کرنا چاہتی ہے اور اسے شیعہ سنی جنگ کا رنگ دینا چاہتی ہے۔ اس کا منطقی نتیجہ یہ نکلے گا کہ عالم اسلام میں مسئلہ فلسطین کو بھلا دیا جائے گا یا کم از کم مسلمانوں کی پہلی ترجیحات سے نکل جائے گا اور مسلمان ممالک دوسرے مسائل میں الجھ کر رہ جائیں گے۔

سوال: یعنی آپ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ داعش اور اسرائیل کی صہیونیستی رژیم کے اہداف ایک جیسے ہیں؟ عالم اسلام میں موجود داعش اور غاصب صہیونیستی رژیم کے درمیان تعلقات کی کیا نوعیت ہے۔؟
حسین شیخ الاسلام: تکفیری دہشت گرد گروہ داعش صہیونیستی رژیم کی ایجاد ہے۔ خطے میں انجام پانے والے اکثر دہشت گردانہ حملوں میں داعش کے کردار کو واضح طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔ مثال کے طور پر لبنان میں ایرانی سفارتخانے پر خودکش بم حملے میں داعش نے ایک فلسطینی خودکش بمبار کو استعمال کیا تھا۔ اس اقدام کا مقصد بھی شیعہ سنی جنگ کی آگ بھڑکانا تھا۔ ایسے اقدامات کا مقصد عالم اسلام میں انارکی پیدا کرنا ہے۔ جب داعش کے دہشت گرد فلسطینی پرچم کی توہین کرتے ہیں اور یہ اعلان کرتے ہیں کہ اس پرچم کو داعش کے پرچم سے تبدیل کر دینا چاہئے، تو اس کا کیا مطلب ہے؟ وہ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ یہ وہی مقصد ہے جو اسرائیل چاہتا ہے۔ یعنی فلسطین کو بھلا دیا جائے، مسئلہ فلسطین کو پس پشت ڈال دیا جائے اور حتی فلسطینی پرچم کا وجود بھی ختم کر دیا جائے۔ داعش کے دہشت گردوں نے مرتدین اور منافقین کے خلاف جنگ کا نعرہ لگا رکھا ہے جبکہ وہ اسرائیلی صہیونیستوں کو اہل کتاب قرار دیتے ہیں اور ان کے خلاف جہاد نہیں کرتے۔ اسرائیل کے غاصب صہیونیست جو اس وقت غزہ کے معصوم اور بیگناہ فلسطینی مسلمانوں کا خون بہا رہے ہیں اور ان کے گھروں کو مسمار کر رہے ہیں، کا مقابلہ نہیں کرتے۔ دوسری طرف ہم دیکھتے ہیں کہ اسرائیل شام اور عراق میں زخمی ہونے والے تکفیری دہشت گردوں کو اپنے ملک میں لے جا کر ان کا مفت علاج کرتا ہے جبکہ فلسطینی بچوں، بوڑھوں اور خواتین کے خون کا پیاسا ہے۔ ان حقائق سے کیا معلوم ہوتا ہے؟ ذرہ بھر شک باقی نہیں رہ جاتا ہے، تکفیری دہشت گرد گروہ داعش سو فیصد اسرائیل کی ایجاد اور پیداوار ہے۔

سوال: آپ سعودی عرب جیسے عرب ممالک کی جانب سے تکفیری دہشتگرد گروہ داعش کی حمایت کئے جانے کے بارے میں کیا کہتے ہیں۔؟
حسین شیخ الاسلام: سعودی عرب جیسے ممالک جو خطے میں تکفیری دہشت گرد گروہ داعش کی حمایت کرنے میں مصروف ہیں، ایک طرف تو شیعہ مسلمانوں کو سیاست کے میدان سے باہر نکال کر انہیں گوشہ گیر کرنے کے درپے ہیں اور ساتھ ہی دوسری طرف خطے میں موجود اسلامی مزاحمتی بلاک کو کمزور کرنا چاہتے ہیں۔ خود سعودی عرب اس وقت اسلامی بیداری کی تحریک کے نتیجے میں سیاسی بحران کا شکار ہے اور اس کی کوشش ہے کہ اسلامی بیداری کی امواج اس تک نہ پہنچ پائیں، تاکہ آل سعود کا اقتدار محفوظ رہ سکے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ سعودی عرب اور خطے میں تکفیری دہشت گرد گروہ داعش کے حامی دوسرے عرب ممالک کو عقل مندی کا ثبوت دینا چاہئے اور اس بات کو نہیں بھولنا چاہئے کہ یہی تکفیری دہشت گرد گروہ کل ان کے گلے بھی پڑ سکتا ہے اور دہشت گردی کی وہ آگ جسے وہ آج خطے میں بھڑکا رہے ہیں، کل ان کے دامن کو بھی اپنی لپیٹ میں لے سکتی ہے۔ اسلام دشمن عناصر جو اب تک مسلمانوں کے درمیان تفرقہ ڈالنے میں ناکام رہے ہیں اب تکفیری، وہابی، سلفی اور بہائی شدت پسند گروہوں کی تشکیل کے ذریعے اپنے منحوس اہداف حاصل کرنے کیلئے کوشاں نظر آتے ہیں۔ وہ خطے میں مذہبی تعصب اور جنگ پھیلا کر شیعہ قوتوں کو کمزور اور گوشہ نشینی کا شکار کرنا چاہتے ہیں اور اس طرح خطے میں جنم لینے والی اسلامی بیداری کی تحریک کو دبا دینا چاہتے ہیں۔

سوال: داعش کیجانب سے انجام پانے والے غیر انسانی جرائم اور وحشیانہ قتل عام نے عالمی رائے عامہ میں اسلام فوبیا پھیلانے میں کیا کردار ادا کیا ہے۔؟
حسین شیخ الاسلام: تکفیری دہشت گرد گروہ داعش کی تشکیل کے بعد اس کی جانب سے اسلام کے نام پر عراق اور شام میں انجام پانے والے غیر انسانی اقدامات اور دہشت گردانہ اقدامات کا اصل مقصد ہی اسلام کے نورانی اور خوبصورت چہرے کو بگاڑ کر پیش کرنا ہے۔ داعش کی جانب سے نہتے عوام کے خلاف بہیمانہ ظلم و ستم انجام پانے کا بڑا مقصد اسرائیل کے چہرے کو سفید کرنا ہے اور عالمی سطح پر اس کے چہرے پر لگے ظلم و بربریت کے لیبل کو ہٹانا ہے۔ داعش کی پیدائش کا مقصد صہیونیزم کے کریہہ اور منفور چہرے کو چھپانا ہے۔ صہیونیستوں نے اپنی تاریخ کے دوران دوسری قوموں جیسے مسلمان، عیسائی اور حتی کسی مذہب سے تعلق نہ رکھنے والے افراد کے خلاف انتہائی ناروا سلوک روا رکھا ہے، جس کے نتیجے میں عالمی سطح پر ان کے خلاف انتہائی منفی رائے عامہ پائی جاتی ہے۔ تکفیری دہشت گرد گروہ داعش کی تشکیل اس منحوس اسرائیلی منصوبے کا حصہ ہے جس کا مقصد ایک طرف اپنے جرائم پر پردہ ڈالنا اور دوسری طرف خطے میں موجود اسلامی مزاحمتی قوتوں کو کمزور کرنا ہے۔ البتہ حال ہی میں اسرائیل کی غاصب صہیونیستی رژیم کی جانب سے غزہ میں مظلوم اور بیگناہ فلسطینی عوام کے خون کی ہولی کھیلنے سے اس کی یہ منحوس سازش بری طرح ناکام ہوچکی ہے اور دنیا والوں نے ایک بار پھر صہیونیزم کا وحشیانہ اور خوفناک چہرہ دیکھ لیا ہے۔

سوال: اسلامی ممالک غاصب صہیونیستی رژیم اور تکفیری دہشتگرد گروہوں کو شکست دینے میں کیا کردار ادا کرسکتے ہیں۔؟
حسین شیخ الاسلام: مسلم ممالک کے درمیان موجود اختلافات تکفیری دہشت گرد گروہ داعش کی جانب سے شام اور عراق پر حملہ ور ہونے کا سبب بنے ہیں۔ لہذا ناپاک صہیونیستی سازشوں کا مقابلہ کرنے کا بہترین راستہ آپس میں اتحاد اور وحدت کو فروغ دینا ہے۔ مسلمانان عالم کو ہوشیار ہوجانا چاہئے اور انہیں چاہئے کہ وہ اپنے بیٹوں کو بظاہر اسلامی لیکن حقیقت میں صہیونیستی خطرناک تکفیری دہشت گرد گروہوں کے دام میں پھنسنے سے بچائیں۔ اسلام اور عالم اسلام کو جو نقصان ان احمق تکفیری دہشت گردوں نے پہنچایا ہے، وہ پوری تاریخ میں اسلام دشمن عناصر نے نہیں پہنچایا۔ ان سازشوں کا مقابلہ کرنے کی ضرورت ہے۔ مسلم ممالک کے سربراہان کو چاہئے کہ وہ عالم اسلام میں مشترکہ ادارے تشکیل دیتے ہوئے صہیونیستی – مغربی بلاک کی جانب سے بولے جانے والے اس عظیم جھوٹ کو برملا کریں اور اپنے اتحاد کے ذریعے اسلام کے حقیقی چہرے کو خدشہ دار ہونے سے بچا لیں۔


خبر کا کوڈ: 402771

خبر کا ایڈریس :
https://www.islamtimes.org/ur/interview/402771/تکفیری-گروہ-داعش-کا-مقصد-عالم-اسلام-کی-توجہ-مسئلہ-فلسطین-اور-اسرائیلی-مظالم-سے-ہٹانا-ہے-حسین-شیخ-الاسلام

اسلام ٹائمز
  https://www.islamtimes.org