0
Friday 1 May 2009 11:42

اسرائیل کو تسلیم کرنے کا سوچا بھی نہیں جاسکتا: جسٹس ر جاوید اقبال

اسرائیل کو تسلیم کرنے کا سوچا بھی نہیں جاسکتا: جسٹس ر جاوید اقبال
جسٹس (ر) ڈاکٹر جاوید اقبال کو فرزند اقبال ہونے کا اعزاز قدرت نے دیا ہے اور اس اعزاز کے باعث پاکستان کے اندر اور باہر انہیں غیر معمولی عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ وہ خود بھی پاکستان کے نمایاں ترین دانشوروں میں سے ایک ہیں۔ وہ ایک ہمہ پہلو شخصیت کے حامل ہیں۔ طالب علمی کے زمانے میں انہوں نے اقبال کے ’’جاوید نامہ‘‘ کے باعث شہرت پائی۔
عملی زندگی میں قدم رکھا تو انہیں اقوام متحدہ میں پاکستانی مندوب کے طور پر فلسطین کاز پر اہل پاکستان کے جذبات کی ترجمانی کا تین سال کے لئے موقع ملا۔ وہ لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس رہنے کے علاوہ پارلیمنٹ کے ایوان بالا کے رکن رہے۔ انہیں بار بار بین الاقوامی فورمز پر پاکستان کی نمائندگی کرنے کا اعزاز بھی حاصل ہوا۔ وہ آج کل نظریہ پاکستان ٹرسٹ کے عہدیدار ہیں۔ ’’فلسطین کاز‘‘ کے سلسلے میں ان کے خیالات ایک انٹرویو کی صورت میں نذر قارئین ہیں۔

جسٹس صاحب! امریکہ میں ایک سیاہ فام کے برسر اقتدار آنے کے بعد تبدیلی کے جن امکانات کی بات ہو رہی ہے کیا آپ مشرق وسطی پر بھی اس تبدیلی کے کچھ اثرات کی توقع رکھتے ہیں؟
امریکہ میں جو تبدیلی آئی ہے اس کا مقصد دنیا میں تبدیلی لانا نہیں ہے۔ صدر بش دنیا میں بہت بدنام ہوگئے تھے اور ان کی وجہ سے پوری دنیا میں امریکہ کے لئے نفرت پیدا ہو رہی تھی اس لئے ایک سیاہ فام کو آگے لایا گیا ہے تاکہ امریکہ کا خراب ’’امیج‘‘ بہتر ہوسکے۔ اسے آپ امریکیوں کا اپنا کھویا ہوا تشخص بحال کرنے کی کوشش قرار دے سکتے ہیں۔ اوباما کی ترجیح ہو گی کہ اپنے ملک کی معیشت کو بحال کریں اور مڈل کلاس کو آگے لائیں۔ اس سے آگے نہ وہ کچھ کر سکتے ہیں اور نہ ہی ان سے اس طرح کی امید لگانی چاہیے۔ گورے انہیں آسانی سے چلنے نہیں دیں گے، اگر انھوں نے اس سے زیادہ تبدیلی کی کوشش کی تو گورے انہیں ناکام بنا دیں گے۔ بلکہ میں تو یہ سمجھتا ہوں کہ اوباما کے لئے کافی خطرات ہوں گے اور انہیں صدر کنیڈی سے بھی سخت سیکورٹی کی ضرورت ہے۔ لگتا یہی ہے کہ پالیسی گوروں کی ہی چلتی رہے گی۔ اسکی وجہ یہ ہو گی کہ مغرب نے مسلمانوں پر ایک تہذیبی جنگ مسلط کر رکھی ہے اور مغرب سمجھتا ہے کہ سوویت یونین کے انہدام کے بعد ان کے لئے اصل خطرہ اسلام ہے۔ مغربی مفکرین جن میں برناڈ لیوس بڑے مشہور ہیں انھوں نے اپنی کتاب "دی متھ آف مسلم ریج" میں اسلام کو ہی خطرہ قرار دیا ہے۔ انھوں نے مغر ب کو یہ پیغام دیا ہے کہ ان کے سامنے اگلا خطرہ اسلام اور مسلمان ہیں۔ اس سے پہلے تہذیبوں کے تصادم کا نظریہ سامنے آچکا ہے۔ اسلام کو خطرہ سمجھنے کے اصل اسباب ایرانی انقلاب، الجزائر میں اسلام پسندوں کی فتح اور طالبان ہیں۔ ایک بات واضح کرتا چلوں کہ اس وقت مغرب سے مراد امریکہ ہے جس کے پاس طاقت ہے اور وہ دنیا پر حکمرانی کا خواہش مند بھی ہے۔
جہاں تک مشرق وسطی کا تعلق ہے، اگر اسرائیل ختم ہو جاتا ہے تو امریکہ عرب ممالک کو زیر نگیں نہیں رکھ سکتا۔ عرب ممالک میں نہ تو کوئی بڑی قیادت ہے اور نہ ہی وہاں جمہوریت ہے۔ ایسی صورت میں فلسطین کی آزادی میں مشکلات پیدا ہو رہی ہیں۔ جنوبی ایشیا کا بڑا مسئلہ کشمیر ہے، دیکھتے ہیں صدر اوباما اس کے لیے کیا پالیسی اختیار کرتے ہیں۔ ایک بات اور واضح رہنی چاہیے کہ مسلمانوں کی طرف سے جہاں بھی تحریکیں چلی ہیں وہ ردعمل میں چلی ہیں۔ وہ چیچنیا ہو یا بوسنیا، فلسطین ہو یا کشمیر، سب ردعمل ہے۔ دوسری جانب امریکہ گیارہ ستمبر کے واقعات کو بنیاد بنا کر مسلمانوں کے خلاف جنگ کر رہا ہے، جس کی وجہ سے القاعدہ، طالبان اور مختلف تحریکیں باہم متحد ہوگئی ہیں۔ امریکہ ان سب کو اسلام کا نام دے کر جنگ کر رہا ہے۔
اسلام کے بار ے میں امریکہ اور اہل مغرب کے خدشات پرانے ہیں۔ جمال الدین افغانی کے نظریات کو "پین اسلام ازم" کا نام اہل مغرب نے ہی دیا تھا اور وہ اسی دور سے اسلام کو خطرے کے طور پر دیکھتے ہیں۔ اس زمانے میں بھی مسلمان ان کے احکامات کو تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں تھے اور آج بھی مسلمان ان کے سامنے سر تسلیم خم نہیں کرتے۔
امریکہ نے نیو ورلڈ آرڈر تیار کیا ہے جبکہ مسلمانوں کے پاس اپنا اسلامی آرڈر ہے۔ امریکہ اور مغرب جس کو حقوق انسانی کہتے ہیں وہ ہمارے نزدیک حقوق العباد ہیں۔ مغرب کی ریاست کا تصور اور ہے ہماری اسلامی ریاست کا تصور اور ہے۔ ان کی جو جمہوریت ہے وہ ہمارے ہاں شورائیت ہے۔ اہل مغرب کی کتابیں پڑھنے سے پتہ چلتا ہے کہ وہ اسلام کے بارے میں کیا نظریہ رکھتے ہیں۔ مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ جدید علوم حاصل کریں۔ اسی سے ان کا مقابلہ کیا جاسکتا ہے۔ اگر ہم یہ نہیں کریں گے تو اور پیچھے رہ جائیں گے۔
بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح نے اسرائیل کو ایک ناجائز ریاست قرار دیا تھا۔ کیا آپ سمجھتے ہیں کے بعد کے حالات میں قائداعظم کی یہ رائے درست ثابت ہوئی؟
قائد اعظم اور علامہ اقبال نے فلسطین کی آزادی کے لیے بھرپور آواز بلند کی۔ اپنی تحریروں اور تقریروں میں انھوں نے واضح موقف اختیار کیا۔ حتی مسلم لیگ کو علامہ اقبال کی جانب سے توجہ دلائی گئی کہ اس کے قائدین اپنی تقاریر میں اس اہم مسئلے کو شامل رکھا کریں۔ بعد ازاں پاکستان نے فلسطین کی آزادی کے لیے ہر سطح پر کام کیا اور جب ظفراللہ خان وزیر خارجہ تھے اس زمانے میں مجھے بھی اقوام متحدہ میں بطور پاکستانی مندو ب مسئلہ فلسطین کے لیے پاکستان کا موقف بہت موثر انداز سے پیش کرنے کا موقع ملا ہے۔
میں سمجھتاہوں کہ اہل فلسطین کے ساتھ پاکستان اور اہل پاکستان کی نظریاتی وابستگی ہے جسے کوئی بھی نظر انداز نہیں کر سکتا۔ حتی آج کے حکمران بھی اسرائیل کو تسلیم کرنے کی حماقت نہیں کر سکتے۔
کئی بار ایسا ہوا کہ جب میں اقوام متحدہ میں تقریر کر تا تو وہاں موجود اسرائیلی سفارت کار مجھے کہتے کہ آپ عربوں سے بڑھ کر فلسطینیوں کی حمایت کر رہے ہیں، حالانکہ کشمیر کے مسئلے پر عرب آپ کی حمایت نہیں کرتے۔ آپ ان کی کیوں حمایت کرتے ہیں؟ میں انہیں کہتا کہ فلسطین ہمارے عقیدے کا مسئلہ ہے، وہاں پر ہمارا قبلہ اول ہے۔ ایک وقت آئے گا کہ عر ب کشمیر کے مسئلے پر ہماری حمایت کریں گے۔ اب حالات اس طرح نہیں ہیں۔ عربوں نے بھی اپنی پالیسی میں تبدیلیاں کی ہیں۔ وہ کشمیر کے مسئلے پر ہماری حمایت کرتے ہیں۔ میں ہمیشہ اسرائیلی اور مغربی نمائندوں سے کہتا تھا کہ ہم مظلوموں کے ساتھ ہیں۔ ہم فلسطین پر قبضے کے خلاف ہیں۔
آپ کو مغربی ممالک کا بھی بار بار دورہ کرنے کا موقع ملا۔ وھاں آپ نے اسرائیل اور فلسطینیوں کے حق خود ارادیت کے لئے کیسا ماحول دیکھا؟
میں جب بھِی مغربی ممالک کے دورے پر گیا کوئی مجھ سے سوال نہیں کرتا تھا، صرف یہودی مجھ سے سوال کرتے تھے۔ ان یہودیوں کو معلوم ہوتا تھا کہ میں اقبال کا بیٹا ہوں۔ وہ مجھ سے پوچھتے تھے کہ آپ کے والد محترم نے ضرب کلیم لکھی ہے، ہم نے اس کو عبرانی زبان میں ترجمہ کیا ہے، آپ ہمارے خلاف کیوں لڑتے ہیں؟
میں نے انہیں جواب میں کہتا کہ اسی علامہ اقبال کا مؤقف ہمیشہ فلسطینیوں کے حق میں رہا ہے۔ علامہ کہا کرتے تھے کہ اگر فلسطین پر ان کا حق تسلیم کیا جائے تو پھر سپین پر مسلمانوں کا حق کیوں تسلیم نہیں کرتے؟۔ یہودی اہم پاکستانی شخصیات کے ساتھ روابط بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔ میں جب کیمرج میں پڑھ رہا تھا تو ایک یہودی لڑکی نے میرے ساتھ رابطہ رکھنے کی کوشش کی۔
ایک دفعہ علامہ اقبال پر قرطبہ میں ایک بین الاقوامی کانفرنس ہو رہی تھی، یہودی نمائندے نے مسلمانوں کے لئے اچھے جذبات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ جب عیسائی ان پر ظلم کر رہے تھے تو مسلمانوں نے ان کو بچایا تھا۔ اس وقت یہودیوں کو اگر کسی نے پناہ دی ہے تو وہ مسلمان ہی تھے۔ میں نے ان سے کہا کہ مسلمانوں نے ہمیشہ روادار ی کا ثبوت دیا ہے۔
اقوام متحدہ نے اسرائیل کے خلاف کئی قراردادیں پاس کی ہیں، مگر ان پر اسرائیل نے کبھی عمل نہیں کیا۔ کیا اس سے عالمی ادارے کی ساکھ کو نقصان نہیں ہو رہا ہے؟
اقوام متحدہ کا حال لیگ آف نیشنز جیسا ہونے جا رہا ہے۔ یہ ادارہ بھی بڑی طاقتوں کے زیر نگیں ہے۔ اسرائیل کی پشت پر چونکہ بڑی طاقتیں ہیں اس لیے وہ کوئی بات ماننے کے لیے تیار نہیں ہے۔ اگر بڑی طاقتیں اسرائیل کی حمایت نہ کریں تو وہ ان قراردادوں پر عمل کرنے پر مجبور ہو سکتا ہے۔ اسرائیل کو بڑی طاقتوں کی حمایت کی وجہ سے ہی فلسطین پر قبضہ کرنے کا موقع ملا اور اسی وجہ سے اس کا قبضہ ابھی تک قائم ہے۔
اسرائیل نسل پرستی میں بھی سب سے آگے ہے، اس کے باوجود کوئی اس کے خلاف بات نہیں کرتا، اس کی کیا وجہ ہے؟
اسرائیل ایک نسل پرست ریاست ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ وہ اس پر فخر بھی کرتے ہیں۔ ان کی نسل چونکہ عورت سے چلتی ہے اس لیے وہ اپنی نسل پر خاص توجہ دیتے ہیں۔ اسی وجہ سے اسرائیل میں کئی روسی یہودیوں کو یہودی ماننے سے بھی انکار کیا گیا اور انہیں واپس روس آنا پڑا۔ نسل پرستی کی اس برائی میں پورپ بھی شامل ہے۔ ترکی کو اسی وجہ سے آج تک پورپی یونین میں شامل نہیں کیا گیا جبکہ اس کے مقابلے میں رومانیہ کو شامل کر لیا گیا۔ یہ نسل پرستی کی وجہ سے ہی ہے۔ البتہ کچھ ماڈرن یہودی اسرائیل کو تسلیم نہیں کرتے ہیں۔ نسل پرستی میں اسرائیل کا کوئی ثانی نہیں ہے۔
اسرائیل نہ صرف اقوام متحدہ کی قرار دادوں پر عمل کرنے پر آمادہ نہیں ہے بلکہ وہ دیگر عالمی قوانین کی بھی خلاف ورزی کا مرتکب ہوتا رہتا ہے۔ غزہ پر مسلط کردہ حالیہ جنگ کے دوران اسرائیلی افواج نے بھی جینوا کنونشن کی خلاف ورزیاں کیں۔ ان جرائم پر اسرائیل کے خلاف کیا کارروائی ہو سکتی ہے؟
اسرائیل کے خلاف اقتصادی پابندیاں لگوانے اور عالمی اداروں، بچوں، خواتین اور نہتے شہریوں کے خلاف اس کے رویے پر او آئی سی اور عرب لیگ کو  اس کے بارے میں مشترکہ لائحہ عمل اختیار کرنے کیلئے کوشش کرنی چاہیے۔ اسرائیل کے رویے کو دیکھا جائے تو اقوام متحدہ کی اسرائیلی رکنیت کو بھی چیلنج کیا جا سکتا ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا عرب لیگ اور او آئی سی ایسا کوئی ارادہ یا رجحان رکھتی ہیں؟۔ او آئی سی کا معاملہ تو یہ ہے کہ اس نے غزہ پر اسرائیلی مسلط کردہ بائیس روزہ جنگ کے دوران یا اس کے بعد بھی اپنا اجلاس نہیں بلایا۔ لیکن میں پھر بھی کہوں گا کہ او آئی سی کو چاہیے کہ اسرائیل کے خلاف اقتصادی پابندیوں کا مطالبہ کرے اور اس کی اقوام متحدہ کی رکنیت کے خاتمے کے لئے بھی کوششیں کرے۔
حزب اللہ کے ساتھ لبنان میں اور اب حماس کے ساتھ غزہ جنگ میں اسرائیل کو وہ مقاصد حاصل نہیں ہوئے جو وہ حاصل کرنا چاہتا تھا۔ آپ کیا دیکھتے ہیں؟
جب تک مغرب انصاف کی طرف نہیں آئے گا اس وقت تک دنیا میں امن قائم نہیں ہو سکتا۔ اسرائیل چونکہ امریکہ کے مفاد میں ہے اس لیے وہ اس کی حمایت کرتا ہے۔ امریکہ گلوبلائزیشن کی باتیں بھی اسی لئے کرتا ہے تاکہ ہر جگہ اس کا حکم چل سکے۔ وہ اپنی بالادستی چاہتا ہے اور سمجھتا ہے کہ اس کی بالادستی میں مسلمان رکاوٹ ہیں۔ عرب متحد ہو جائیں تو اسرائیل ان کے لیے کوئی مسئلہ ہی نہیں ہے، مگر وہ خود منقسم ہیں۔ اگر وہ متحد ہو جائیں تو عجم بھی ان کے ساتھ ہو جائیں گے۔
خبر کا کوڈ : 4048
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش