0
Saturday 16 Aug 2014 12:51

داعش تمام خطے کیلئے ایک بڑا خطرہ ہے جس سے سعودی عرب اور عرب حکومتیں بھی خوفزدہ ہیں، سید حسن نصراللہ

داعش تمام خطے کیلئے ایک بڑا خطرہ ہے جس سے سعودی عرب اور عرب حکومتیں بھی خوفزدہ ہیں، سید حسن نصراللہ
حزب اللہ لبنان کے سیکرٹری جنرل سید حسن نصراللہ نے لبنان کے روزنامے "الاخبار" کو تفصیلی انٹرویو دیا ہے جس میں خطے اور عالمی حالات کا جائزہ لیا گیا ہے۔ انٹرویو کے ایک حصے میں تکفیری دہشت گرد گروہ داعش کے کردار اور اس کے بارے میں حزب اللہ لبنان کی پالیسی پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ اسلام ٹائمز اردو اس حصے کا ترجمہ قارئین کی خدمت میں پیش کر رہی ہے۔

الاخبار: بعض کہتے ہیں کہ حزب اللہ لبنان ابتداء میں ایک ایسی اسلامی تحریک کی صورت میں معرض وجود میں آئی جو جغرافیائی حدود کیلئے کسی حیثیت کی قائل نہ تھی لیکن اس کے بعد وہ قومی سطح پر ایک اسلامی مزاحمت کی تحریک میں تبدیل ہو گئی۔ اگلے مرحلے میں ایسی مزاحمتی تحریک میں تبدیل ہو گئی جس کا دائرہ کار جغرافیائی حدود سے بالاتر ہو گیا اور شام میں مسلح جدوجہد انجام دینے کے بعد اب یمن اور عراق میں سرگرمیاں انجام دینے کی باتیں ہو رہی ہیں۔ یہ بات کس حد تک درست ہے اور آپ کس حد تک اس سے اتفاق رائے رکھتے ہیں؟

سید حسن نصراللہ: میں ہر قسم کی سیاسی اور ذہنی فضا سے ہٹ کر حقائق کو بیان کرنا چاہوں گا۔ شام میں ہماری موجودگی کا پہلا مقصد لبنان، لبنانی مزاحمت اور بغیر کسی استثناء کے تمام لبنانی شہریوں کا دفاع کرنا تھا۔ حال ہی میں عرسال (شام کی سرحد پر واقع لبنانی قصبہ) میں ہونے والے واقعات ہمارے دعوے کا واضح ثبوت ہیں۔ بعض ہم پر یہ الزام عائد کرتے ہیں کہ ہم نے شام میں بچاو کی جنگ لڑی ہے لیکن میں اسے صحیح نہیں سمجھتا کیونکہ جنگ ہماری سرحدوں تک آن پہنچی تھی۔ کیا وہ نہیں جانتے کہ دسیوں مربع کلومیٹر پر مشتمل عرسال اور اس کے اردگرد کا علاقہ شام میں خانہ جنگی شروع ہوتے ہی تکفیری دہشت گرد عناصر کے قبضے میں چلا گیا تھا۔ انہوں نے اس شہر میں اپنے ٹریننگ کیمپس قائم کئے اور لبنان کے اندر دہشت گردانہ اقدامات کیلئے وہاں کمانڈ سنٹرز بنا رکھے تھے۔ اسی طرح صحرائی اسپتال اور فوجی مراکز بھی قائم کئے گئے تھے۔ یہ اقدامات اس وقت انجام پائے تھے جب حزب اللہ لبنان ابھی شام میں داخل نہیں ہوئی تھی۔ وہ (تکفیری دہشت گرد) پہلے لبنان آئے اور اس کے بعد شام میں داخل ہوئے۔

لہذٰا شام میں ہماری سرگرمیوں کو بچاو کی جنگ (Preventive War) قرار نہیں دیا جا سکتا کیونکہ القصیر کا علاقہ لبنان کی سرحد پر واقع ہے اور اس میں کوئی شک نہیں کہ اگر حزب اللہ لبنان القصیر کے علاقے کو تکفیری دہشت گرد عناصر سے آزاد نہ کرواتی تو وہ بہت جلد لبنان کے علاقوں ہرمل اور بقاع شمالی میں داخل ہو جاتے۔ شام میں ہماری سرگرمیاں حزب اللہ کے قومی پہلو سے کوئی تضاد نہیں رکھتیں کیونکہ ہم نے درحقیقت اپنی سرحدوں اور اپنے ملک کا دفاع کیا ہے۔ یہ صحیح ہے کہ ہم شام کی سرزمین میں داخل ہوئے ہیں لیکن ہمارا اصلی مقصد لبنان کی سرحدوں کو محفوظ بنانا تھا۔ اہم یہ ہے کہ اس وقت اس خطرے کا سامنا سب کو ہے۔ ہم نے تین سال قبل اس خطرے کے بارے میں خبردار کیا تھا جس کا اعلان آج سب کر رہے ہیں۔ حتی ہمارے دشمن بھی اس چیز کا اعتراف کر رہے ہیں کہ خطے میں رونما ہونے والے حالیہ واقعات پورے خطے کیلئے خطرے کی گھنٹی ہیں اور عالمی طاقتوں کے مفادات کے خطرے میں پڑنے کا بھی باعث بنے ہیں۔ آج ایسی تمام قوتوں پر واجب ہے کہ وہ لبنان، شام، عراق، فلسطین اور خطے کا دفاع کریں اور مسلمانوں اور عیسائیوں کی حمایت کریں جو اس امر کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ اس وقت کسی قسم کی سیاسی، فکری اور اسٹریٹجک بحثوں میں پڑنے اور نت نئے نظریئے پیش کرنے کا وقت نہیں۔

البتہ داعش کو شکست دینا ممکن ہے اور ہم اسی سوچ کے ساتھ القصیر اور قلمون میں داخل ہوئے تھے۔
ایک عظیم خطرہ ہے جو آگے آ رہا ہے اور گھناونے جرائم کا مرتکب ہو رہا ہے۔ یہ گروہ کسی قانون اور اصول کا پابند نہیں اور کسی قسم کی اخلاقی، شرعی اور انسانی حدود کی رعایت بھی نہیں کرتا۔ یہ (تکفیری دہشت گرد) ایسے وحشی ہیں جو خطے میں آزادانہ گھوم رہے ہیں۔ اگر کوئی اس قابل ہو کہ ان وحشیوں کا مقابلہ کرے اور انہیں خطے کی اقوام اور حکومتوں کو چیر پھاڑ کر کھا جانے سے روکے تو آپ کی نظر میں اس کا شکریہ ادا کرنا چاہیئے یا اس کی سرزنش کرنی چاہیئے؟ ایک دن ایسا ضرور آئے گا جب ہمارے دشمن اس بات کا اعتراف کریں گے کہ آپ صحیح کہتے تھے اور ہم آپ کا شکریہ ادا کرتے ہیں۔

الاخبار: کیا آپ کو یقین ہے کہ ایسا دن ضرور آئے گا؟
سید حسن نصراللہ: داعش کے وحشی دہشت گرد تمام لوگوں کو ایک نظر سے دیکھتے ہیں اور دوست دشمن کی تمیز بھی کھو چکے ہیں۔ پوری انسانی تاریخ میں ان جیسے وحشی نہیں ملتے۔ اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق داعش کے تکفیری دہشت گردوں نے عراق میں ایزدی قبیلے سے تعلق رکھنے والی خواتین اور بچوں کو زندہ حالت میں دفن کر دیا ہے۔ انہیں بیگناہ عوام کو قتل کرنے میں مزہ آتا ہے اور اس سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ وہ کیسے یہاں تک پہنچے؟ سالوں سال ان کی برین واشنگ کی گئی ہے جس کے نتیجے میں آج وہ ایسے اقدامات انجام دے رہے ہیں۔ ان کی یہ سوچ آج کس کیلئے خطرہ ہے؟ شام میں داعش کے اقدامات پر توجہ کریں۔ وہ اپنے علاوہ ہر کسی کو قتل کرتے ہیں۔ بعض افراد کہتے ہیں کہ عراق میں شیعہ سنی جنگ چل رہی ہے۔ صوبہ نینوا اور صلاح الدین میں کہاں شیعہ آبادی ہے؟ داعش کے دہشت گردوں نے سنی مساجد کے پیش اماموں کو بھی قتل کیا ہے اور سنی قبیلے کے سربراہوں کو بھی مارا ہے۔ وجہ صرف اتنی تھی کہ انہوں نے داعش کے خلیفہ کے ہاتھ بیعت کرنے سے انکار کیا تھا۔ انہوں نے عراق کے سنی اکثریت والے علاقوں سے بڑی تعداد میں سنی مسلمانوں کو جلاوطن کر دیا ہے اور ان کے مقدس مقامات، مساجد اور مقبروں کو نابود کر دیا ہے۔ وہ عیسائی اور ایزدی جیسی دیگر مذہبی اقلیتوں کے ساتھ بھی ایسا ہی سلوک روا رکھتے ہیں۔ دنیا کی کون سی منطق ہزاروں افراد کو پہاڑوں میں جلاوطن کر دینے کی اجازت دیتی ہے؟ دنیا کی نظروں کے سامنے ان ہزاروں افراد کے گرد محاصرہ کرتے ہیں تاکہ وہ بھوک اور پیاس سے دم توڑ دیں۔

یہ خطرہ (تکفیری دہشت گرد گروہ داعش) سنی اور شیعہ، مسلمان اور عیسائی یا دروزی اور ایزدی میں تمیز نہیں دے سکتا بلکہ یہ ایک وحشی گروہ ہے جو پل کر بڑا ہو چکا ہے۔ شام اور عراق میں مخصوص افراد اس کا مقابلہ کرنے میں مصروف ہیں۔ بعض محاذوں پر ان کے خلاف اہم کامیابیاں بھی نصیب ہوئی ہیں۔ ایسا دکھائی دیتا ہے کہ اس وقت داعش کے پاس بہت زیادہ مالی وسائل اور افرادی قوت موجود ہے جس نے سب کو پریشان کر رکھا ہے۔ سب کو اس خطرے کی نسبت پریشان ہونے کی ضرورت ہے۔ داعش کی نسبت حقیقی خوف سعودی عرب میں ایجاد ہوا ہے کیونکہ تکفیری سوچ کے جنم لینے کا حقیقی گڑھ سعودی عرب ہی ہے۔

الاخبار: کردوں نے داعش کا مقابلہ کرنے میں سستی کا مظاہرہ کیوں کیا؟
سید حسن نصراللہ: کرد داعش کے خطرات کو صحیح طور پر درک کرنے میں غلطی کے مرتکب ہوئے ہیں۔ موصل پر داعش کی یلغار کے وقت کرد عراق حکومت کے ساتھ متنازعہ علاقوں میں داخل ہو گئے اور باقی علاقوں کو خدا کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا۔ انہیں اس بارے میں مزید غوروفکر کرنا چاہیئے تھا۔ وہ یہ سوچ رہے تھے کہ جب داعش کے دہشت گرد کردستان کی سرحد پر پہنچیں گے تو خود بخود رک جائیں گے لہذٰا کردستان کو کسی قسم کے خطرے کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا۔ شائد اس غلط فہمی کی اصلی وجہ وہ
وعدے اور تسلیاں تھیں جو داعش کے بعض علاقائی حامیوں نے انہیں دے رکھی تھیں۔ لہذٰا جب انہیں ہوش آیا تو داعش کے دہشت گرد اربیل سے فقط تیس یا چالیس کلومیٹر کے فاصلے تک پہنچ چکے تھے۔ تب کرد حکام نے امریکہ، مغربی ممالک، ایران اور عراقی حکومت سے مدد مانگنا شروع کر دی۔

الاخبار: داعش کے خطرات کا دائرہ کار کس حد تک پھیلا ہوا ہے؟
سید حسن نصراللہ: داعش کسی قسم کی حدود کا قائل نہیں۔ داعش ایک حقیقی خطرہ ہے جس نے اکثر ممالک کو خوفزدہ کر دیا ہے۔ اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ داعش کے اندر افرادی قوت جذب کرنے کی بھرپور صلاحیت پائی جاتی ہے اور وہ القاعدہ اور وہابی سوچ رکھنے والے افراد کو اپنی طرف کھینچ رہے ہیں۔ النصرہ فرنٹ میں سرگرم دہشت گردوں کا داعش کی طرف کھنچے چلے آنے کی وجہ بھی ان کے مشترکہ نظریات ہیں۔ ان دنوں تکفیری دہشت گرد تنظیموں کے درمیان اختلافات کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ایک ابومحمد الجولانی جبکہ دوسرا ابوبکر البغدادی کو خلیفہ بنانے کے چکر میں ہے۔ لہذٰا جب النصرہ فرنٹ میں سرگرم ایک تکفیری دہشت گرد یہ سنتا ہے کہ داعش کے اہداف بھی وہی ہیں جو النصرہ فرنٹ کے ہیں تو اس میں چلا جاتا ہے۔ اس تکفیری سوچ کی ترویج کیلئے گذشتہ کئی سالوں سے باقاعدہ کام ہوا ہے اور اربوں ڈالر خرچ کئے گئے ہیں۔ لہذٰا یہ سوچ جہاں کہیں بھی موجود ہو گی وہاں پر موجود افراد کی دلی آرزو یہ ہو گی کہ وہ داعش میں شامل ہو کر نام نھاد جہاد انجام دیں۔

بعض ممالک بہت اچھی طرح جانتے ہیں کہ انہوں نے کس قسم کا گروہ پروان چڑھایا ہے۔ اسی وجہ سے وہ اس وقت داعش کو اپنے لئے سب سے بڑا اور اہم ترین خطرہ قرار دیتے ہیں۔ انہیں اچھی طرح معلوم ہے کہ داعش کے پاس کیا صلاحیتیں موجود ہیں۔ اس وقت داعش کی نسبت حقیقی خوف خلیج عرب ریاستوں خاص طور پر سعودی عرب میں پایا جاتا ہے چونکہ اس دہشت گرد گروہ کی بنیاد فراہم کرنے والی تکفیری سوچ سب سے زیادہ انہیں ممالک میں رائج کی گئی ہے اور حتی اسکولوں اور تعلیمی مراکز میں بھی اس کی ترویج کی گئی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہم کہتے ہیں کہ یہ ایک خطرہ ہے اور سب کو اس کے مقابلے میں ہوشیار ہونا چاہیئے۔ حقیقی خطرے کا سامنا خطے کی حکومتوں، معاشروں، اقوام اور نظاموں کو ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ تمام مذہبی اقلیتیں بھی شدید خطرے کا شکار ہیں، اہلسنت فرقے اشاعرہ کے تمام افراد جو اہلسنت مسلمانوں کی اکثریت کو تشکیل دیتے ہیں بھی خطرے میں ہیں۔ ان کے اموال، عزت، خواتین، بچوں اور مقدس مقامات کو شدید خطرہ لاحق ہے۔ ہم لوگوں میں خوف و ہراس پھیلانا نہیں چاہتے لیکن اس خطرے کا مقابلہ کرنے اور اسے شکست دینے کی ضرورت ہے۔ البتہ اس کام کیلئے سنجیدگی بھی ضروری ہے۔ ہم القصیر، قلمون اور دوسرے مقامات پر فری سیرین آرمی اور بقیہ سیکولر قوتوں سے نہیں لڑ رہے تھے بلکہ تکفیری سوچ کا مقابلہ کر رہے تھے اور ہم نے اسے شکست دی ہے۔

الاخبار: آپ بعض سیاسی شخصیات کے ساتھ اپنی ملاقات میں عراق کے علاقے کردستان پر داعش کے حملوں کی پیشین گوئی کر چکے تھے، تکفیری دہشت گروہ داعش کا عراق کے شمالی حصوں کی طرف پیش قدمی کا کیا مقصد ہے اور انہوں نے سعودی عرب، ترکی اور اردن کو کیوں نشانہ نہیں بنایا؟
سید حسن نصراللہ: ان سب کی باری بھی آنے والی ہے۔ جس جگہ بھی تکفیری سوچ کے حامل افراد موجود ہوں گے وہاں داعش کی موجودگی اور اس کے پھیلاو کا انتہائی مناسب زمینہ پایا جاتا ہے۔ یہ زمینہ اردن، سعودی عرب، کویت اور دوسری خلیجی عرب ریاستوں میں بہت اچھی طرح موجود ہے۔ وہ حکومتیں جو یہ عقیدہ رکھتی ہیں کہ اس تکفیری دہشت گروہ کی مدد کرنی چاہیئے جان
لیں کہ جب خود ان کی باری آئے گی داعش ان پر کسی قسم کا رحم نہیں کرے گی۔ البتہ یہ سب کچھ زمینی حقائق پر منحصر ہے۔ سب اچھی طرح جانتے ہیں کہ دنیا کے مختلف حصوں سے کون تکفیری دہشت گرد عناصر کو جمع کرتا ہے اور انہیں اس گروہ تک پہنچاتا ہے اور کون اس تکفیری دہشت گرد گروہ کو اسلحہ اور پیسہ فراہم کر رہا ہے۔ ابتدا سے ہی ہمارا عقیدہ یہ تھا کہ "جو دوسروں کیلئے گڑھا کھودتا ہے وہ خود اس میں گرتا ہے"۔ یہ وہ حقیقی خطرہ ہے جسے خود انہوں نے معرض وجود میں لایا ہے، یہ بڑا ہو رہا ہے اور آخرکار خود انہیں ہی نگل جائے گا، وہ چاہے جو بھی ہو، امریکہ ہو، ترکی ہو یا خلیجی عرب ریاستیں ہوں۔ جو بھی یہ سوچ رہا ہے کہ وہ ان تکفیری دہشت گردوں کو اپنے ہتھکنڈے کے طور پر استعمال کرتے ہوئے اپنے مطلوبہ اہداف حاصل کر سکتے ہیں شدید غلطی کا شکار ہے۔

الاخبار: تکفیری دہشت گرد گروہ داعش کے سربراہ ابوبکر البغدادی کے میڈیا پر ظاہر ہونے کے بارے میں آپ کیا کہتے ہیں؟
سید حسن نصراللہ: ابوبکر البغدادی کی پالیسی یہ ہے کہ وہ میڈیا پر ظاہر نہ ہو لیکن میری نظر میں اس کی جانب سے میڈیا پر ظاہر ہونے کا مقصد ایک فقہی اور شرعی مسئلے کو حل کرنا تھا۔ وہ یہ کہ جب داعش نے خلافت پر مبنی اسلامی حکومت کے منصوبے کا اعلان کیا تو عالم اسلام میں موجود علماء دین کے ذہن میں یہ سوال پیدا ہوا کہ ہم ایک ایسے شخص کی بیعت کیسے کر سکتے ہیں جس کو نہیں پہچانتے اور حتٰی اس کے نام سے ناواقف ہیں۔ علماء دین یہ کہتے تھے کہ ہمیں اس کے بارے میں کسی قسم کی معلومات حاصل نہیں اور شرعی لحاظ سے ایک مجہول شخص کی بیعت جائز نہیں۔ لہذا ابوبکر البغدادی میڈیا پر ظاہر ہونے پر مجبور ہو گیا تاکہ اس مسئلے کو حل کرے اور خود کو مسلمانوں میں پہچنوائے اور اس طرح بیعت میں درپیش رکاوٹ کو دور کرے۔

ابوبکر البغدادی کی جانب سے خود کو قریش سے منسوب کرنے کی بنیادی وجہ وہ احادیث اور روایات ہیں جن میں پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی جانب سے یہ تاکید کی گئی ہے کہ میرے بعد آنے والے تمام امام قریش سے ہوں گے۔ مسلمانوں کے تمام فقہی فرقوں کا عقیدہ ہے کہ امیر، بادشاہ یا صدر کو خلیفہ مسلمین نہیں کہا جا سکتا کیونکہ خلیفہ مسلمین کی بنیادی شرط یہ ہے کہ اسے قریشی ہونا چاہیئے کیونکہ ابوبکر البغدادی کی سربراہی میں چلنے والے منصوبے کا اصلی مقصد خلافت طرز کی اسلامی حکومت کا قیام ہے لہذٰا اس نے خود کو قریشی ظاہر کیا ہے تاکہ تمام مسلمان اس کے ہاتھ پر بیعت کرنے کو جائز قرار دیں۔ وہ خود کو قریش اور اہلبیت اطہار (ع) سے منسوب کرنا چاہتا ہے کیونکہ اچھی طرح جانتا ہے کہ قریش اور اہلبیت اطہار (ع) کا مسلمانوں کے درمیان کیا عظیم مقام ہے۔ تمام مسلمان چاہے وہ شیعہ ہوں یا سنی یا دوسرے اسلامی فرقوں سے منسلک ہوں، اہلبیت اطہار (ع) سے خاص عقیدت رکھتے ہیں۔ البتہ مسلمانوں کے درمیان ایک چھوٹا سا گروہ ایسا بھی پایا جاتا ہے جو اہلبیت اطہار (ع) سے دشمنی رکھنے میں مشہور ہیں جنہیں "ناصبی" کہا جاتا ہے۔ یاد رہے کہ ناصبی کی اصطلاح شیعوں کی بنائی ہوئی نہیں بلکہ یہ ایک اسلامی اصطلاح ہے۔ تمام مسلمان علماء چاہے وہ شیعہ ہوں یا سنی، اس اصطلاح کو ایسے افراد کیلئے استعمال کرتے آئے ہیں جن کے دل میں اہلبیت اطہار (ع) کی دشمنی اور بغض پایا جاتا ہے۔ ناصبی افراد سے ہٹ کر دیکھا جائے تو تقریبا تمام مسلمانوں کے دل میں اہلبیت اطہار (ع) کی عقیدت اور محبت موجود ہے۔ البتہ اس کی شدت اور ضعف میں فرق ہے۔ اسی وجہ سے ابوبکر البغدادی نے یہ دعوی کیا ہے کہ وہ قریشی ہے یا اہلبیت اطہار (ع) سے منسوب ہے۔
خبر کا کوڈ : 405013
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش