0
Sunday 24 Aug 2014 15:56
پاکستان کو اچھی قیادت مل گئی تو یہ دنیا کا بہترین ملک بن جائیگا

اہلسنت کی آبادی 10 کروڑ ہے، لیکن دوسرے مسالک کیطرح سیاسی تشخص نہیں رکھتے، مفتی گلزار احمد نعیمی

اہلسنت کی آبادی 10 کروڑ ہے، لیکن دوسرے مسالک کیطرح سیاسی تشخص نہیں رکھتے، مفتی گلزار احمد نعیمی
علامہ مفتی گلزار احمد نعیمی، جامعہ نعیمیہ اسلام آباد کے موسس اور مہتمم ہیں۔ پاکستان میں مسالک اور اسلامی فرقوں کے درمیان ہم آہنگی کے لیے ہونے والی کوششوں میں پیش پیش رہتے ہیں۔ پاکستان کے موجودہ حالات، انقلاب اور آزادی مارچ سمیت، ملکی سیاست میں مذہبی جماعتوں کے کردار اور اثرات کے متعلق مفتی صاحب کی اسلام ٹائمز کیساتھ ہونے والی گفتگو قارئین کے استفادہ کے لیے پیش ہے۔ ادارہ

اسلام ٹائمز: موجودہ ملکی صورتحال میں ہماری قومی ترجیحات کیا ہونی چاہیں۔؟
مفتی گلزار احمد نعیمی: سب سے پہلے آپ کا شکریہ۔ سوال اہم ہے۔ ہماری سب سے بڑی ترجیح دین ہونا چاہیے اور ہمارا وطن۔ اور اس پر کبھی کمپرومائز نہیں کیا جانا چاہیے۔ ہر پاکستانی کی ذمہ داری ہے کہ پاکستان میں امن، سکون اور پاکستان کی تعمیر و ترقی کے لیے اپنا مثبت کردار ادا کرے۔ یہ ہمارا اسلامی فریضہ ہے کہ ہم اپنے وطن کی حفاظت کریں۔ 

اسلام ٹائمز: موجودہ حکمرانوں کے کرپٹ ہونے میں کسی کو شک نہیں، آپ کیا سمجھتے ہیں انکی موجودگی میں ملک کی سلامتی اور ترقی کا خواب ممکن ہے۔؟
مفتی گلزار احمد نعیمی: المیہ یہ ہے کہ پاکستان کسی معاشی نعرے کی بنیاد پہ نہیں بلکہ مذہب کی بنیاد پہ معرض وجود میں آیا تھا، لیکن بدقسمتی سے اسلام اور پاکستان الگ الگ نظر آتے ہیں، ایسا ملک جس کی بنیاد میں لا الہ الا اللہ ہے، وہاں اسلام کا نظام نہیں ہے، اسلام کا سماجی انصاف کا عادلانہ سسٹم رائج نہیں ہے۔ اسی طرح معاشی اور سیاسی انصاف بھی میسر نہیں، جسکی وجہ سے ہر ملکی ادارہ ناگفتہ بہ صورتحال کا شکار ہے۔ ملکی مسائل کی بڑی وجہ یہ کہ ہمارے حکمران دینی پس منظر کے حامل نہیں اور نہ ہی عصری تقاضوں کے مطابق تعلیم یافتہ ہیں۔ ہمارے ملک میں صاف ستھری اور اہل قیادت کو سامنے ہی نہیں آنے دیا جاتا، جسکی وجہ سے ملکی مشکلات گھمبیر تر ہوتی جاتی ہیں۔ جب بھی پاکستان کو اچھی قیادت مل گئی ہمارا ملک دنیا کا بہترین ملک بن جائے گا، بالخصوص عالم اسلام میں ایک نمایاں مقام کا حامل ملک ٹھہرے گا۔ سب سے بڑی مشکل اچھی قیادت کا فقدان ہے، حقیقی قیادت کی بجائے، لٹیرے، چور، ڈاکو اور مفاد پرست لوگ اقتدار پر قابض ہیں۔ اس سے بڑا المیہ یہ ہے کہ یہ لوگ باریاں بدل بدل کر حکمران بن جاتے ہیں، انہیں نہ عوام کا خیال ہے نہ ملک کا اور نہ ہی دین متین کا۔

اسلام ٹائمز: آپ بھی یہ سمجھتے ہیں کہ تبدیلی کی ضرورت ہے، طاہر القادری علمی شخصیت ہیں اور عمران خان آکسفورڈ کے تعلیم یافتہ ہیں۔ انہوں نے جو تبدیلی کی تحریک شروع کر رکھی ہے، اس تحریک سے حقیقی تبدیلی کی کتنی توقع رکھتے ہیں؟ کیا یہ حقیقی طور ملک کی قیادت کرسکتے ہیں۔؟
مفتی گلزار احمد نعیمی: اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ پروفیسر ڈاکٹر طاہر القادری علم، فہم و فراست اور تقویٰ کے لحاظ سے اچھی خصوصیات کے حامل ہیں اور انہوں نے ان میدانوں میں اپنے آپ کو ثابت کیا ہے۔ لیکن بدقسمتی سے پاکستان کی مروجہ سیاست میں جس طرح ایک مثبت کردار انہیں ادا کرنا چاہیے تھا، میری ذاتی رائے میں انہوں نے وہ کردار ادا نہیں کیا۔ گذشتہ سال انہوں نے دھرنا دیا، جن لوگوں کو یزید کہا، انہیں کیساتھ مل کے بیٹھ گئے، پھر سیاسی میدان سے غائب ہوگئے، عملی طور پر سیاست میں نہیں رہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ ابھی جب وہ نظام کی تبدیلی کا نعرہ لیکر آئے ہیں تو انکے ساتھ جو لوگ کھڑے ہیں وہ پاکستان کے بدترین سیاسی کردار ہیں۔ کون یقین کرسکتا ہے کہ مصطفٰی کھر، پرویز الٰہی اور شیخ رشید جیسے لوگوں کی موجودگی میں اس نطام میں تبدیلی آسکتی ہے۔ ڈاکٹر طاہر القادری کی صلاحیتوں کو ہم تسلیم کرتے ہیں، لیکن جو لوگ ان کے ساتھ ہیں وہ ملک کے مخلص نہیں بلکہ ذاتی مفادات کی سیاست کرنے والے لوگ ہیں۔ 

جہاں تک عمران خان کی بات ہے، انکا پس منظر علمی تو بالکل نہیں ہے، انہوں نے چالیس سال سے زیادہ کرکٹ کھیلی ہے، پھر شوکت خانم ہسپتال بنایا، وہ کیسے کامیاب سیاست کرسکتے ہیں، اس میدان میں انکو دست راست حاصل نہیں۔ انہوں نے تو اپنی زندگی کا گولڈن پیریڈ کرکٹ میں گذارا ہے۔ اپنی عمر کے ساٹھ سال کسی اور میدان میں گذارنے کے بعد وہ کیسے ملک کی سنگین سیاسی صورتحال میں کردار ادا کرسکتے ہیں، جبکہ وہ یو ٹرن پہ یو ٹرن لیتے ہیں اور کسی ایک بات پر نہیں ٹھہرتے۔ انہوں نے تبدیلی کا نعرہ تو دیا ہے لیکن کوئی لائحہ عمل نہیں ہے ان کے پاس۔ انکے دھرنے کیوجہ سے وہ خود بھی پریشان ہیں اور پوری قوم بھی پریشان ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ جس طرح کا کلچر وہ دکھا رہے ہیں وہ اسلام کے منافی ہے، انکے اسی طرز عمل کی وجہ سے شدت پسند تنظیمیں ان دھرنوں کیخلاف، فحاشی کو جواز بنا کر مظاہرے کر رہی ہیں۔ انہوں نے جو پیش منظر دیا ہے اس میں ہم اپنی روایات کو ڈوبتا ہوا دیکھ رہے ہیں۔ دھرنے میں ناچ گانا، خواتین کا مردوں کے ساتھ آزادانہ اختلاط اسلامی روایات کے خلاف ہے۔ عمران خان تو کوئی اور تبدیلی نہیں بلکہ اسلامی روایات کو ختم کرکے مغربی روایات کو رائج کرنا چاہتے ہیں اور اسطرح کی تبدیلی پاکستان کے لیے مثبت نہیں ہے۔ 

اسلام ٹائمز: اسوقت پاکستانی سیاست میں ایک طرف مذہب کی نمائندگی متشدد گروہ کر رہے ہیں اور دوسری طرف سیکولر سیاست رائج ہے، پاکستان کے قیام میں جس طرح اہلسنت علماء اور مشائخ کا کردار تھا وہ اب کیوں نظر ںہیں آتا۔؟
مفتی گلزار احمد نعیمی: تاریخ کی روشنی میں دیکھیں تو قیام پاکستان میں صرف اور صرف اہلسنت علماء اور مشائخ، پیر جماعت علی شاہ، پیر آف مانکی شریف، پیر علامہ عبدالعلی میرٹھی جیسے بزرگوں کو قائد اعظم محمد علی رحمة اللہ علیہ کے ساتھ دیکھ رہے ہیں، لیکن قیام پاکستان کے بعد علماء اور مشائخ ملکی سیاست سے کنارہ کش ہوگئے، اور وہ لوگ جو قیام پاکستان کے مخالف تھے، ملکی سیاست کی باگ ڈور انہوں نے سنبھال لی۔ قیام پاکستان میں ہراول دستے کا کردار ادا کرنے والے علماء اور مشائخ اپنے حجروں، مدرسوں اور خانقاہوں میں جا کر نہ بیٹھتے تو یہ سیاسی خلا پیدا نہ ہوتا، پاکستان کی غالب اکثرت اہلسنت کی جگہ جماعت اسلامی، مولانا فضل الرحمان، مولانا سمیع الحق اور متشدد گروہوں پر مشتمل اقلیت ایک طاقت بن نہ ابھر سکتی۔ اسوقت پاکستانی سیاست کی باگ ڈور جاگیرداروں اور وڈیروں کے ہاتھ میں ہے اور مذہبی سیاست کی نمائندگی وہ لوگ کر رہے ہیں جنہوں نے قیام پاکستان کی شدید ترین مخالفت کی تھی۔ 
میں سمجتا ہوں غلطی اہلسنت علماء اور مشائخ کی ہے کہ انہوں نے دوسروں کے لیے راستہ کھلا چھوڑ دیا اور خود سیاست سے کنارہ کش ہوگئے۔ ہمیں اس کمی کا شدت سے احساس ہے کہ پاکستان کو حقیقی اسلامی اور روحانی قیادت ملے، ہم اسکے لیے پوری جدوجہد کر رہے ہیں کہ پاکستان کی باگ ڈور پاکستان کے اصلی وارثوں کے ہاتھ میں آجائے۔ تحریک پاکستان میں اپنے کردار اور اسلام کی حقیقی روحانی تعلیمات کے وارث ہونے کے ناطے قیادت اہلسنت کو کرنی چاہیئے، اہلسنت کی آبادی دس کروڑ ہے، مسلک کے اعتبار سے ہم اکثریت ہیں، دیوبندی اور اہل تشیع آبادی میں کم ہیں۔ دوسرے مسالک اہلسنت کیساتھ شدت کا رویہ اختیار کرتے ہیں، لیکن اہلسنت کو چاہیئے کہ وہ اپنا قائدانہ کردار ادا کریں اور چھوٹے بھائیوں، شیعہ اور دیوبندیوں کیساتھ شدت کا رویہ اختیار نہ کریں۔ 

اسلام ٹائمز: اہلسنت علماء اور مشائخ نے مسلم لیگ کو ہی پاکستان کی وارث جماعت سجھتے ہوئے، سیاست اسے سونپ دی، وقت آنے پہ ضیاءالحق نے مسلم لیگ کو دیوبندی جماعتوں کو ملا کر کسی اور کے ہاتھ سپرد کر دیا، لیکن آج بھی پنجاب کے بریلوی پیر مسلم لیگ اور نون کیساتھ ہیں، اس پر کیا فرمائیں گے۔؟
مفتی گلزار احمد نعیمی: ہاں یہ درست ہے، اہلسنت نہ صرف مسلم لیگ نون میں ہیں بلکہ پیپلز پارٹی میں بھی ہیں اور دوسری سیاسی جماعتوں میں بھی ہیں۔ ہم سے یہ غلطی ہوئی ہے، ہم سے مراد اہلسنت، کہ ہم نے دیوبندی اور شیعہ مسلک کے علماء کی طرح اپنے مسلک کی بنیاد پر سیاست کا آغاز نہیں کیا۔ اس لیے اب ہمارا سیاسی تشخص نہیں، اہلسنت اکابرین پہلے مسلم لیگ میں تھے پھر پیپلز پارٹی اور اب تحریک انصاف میں ہیں۔ شاہ محمود قریشی صاحب پی ٹی آئی میں تو کام کرتے ہیں، اپنے مسلک کے لیے نہیں، پیر امین الحسنات صاحب مسلم لیگ نون کے کام کر رہے ہیں، صمصام بخاری صاحب پی پی پی کے لیے۔ اہلسنت اپنا سیاسی تشخص بنانے کی بجائے، دوسری سیاسی جماعتوں کے لیے فعال ہیں۔ ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم اکٹھے ہوں اور مل کر کام کریں۔
ہمیں یہ بھی دیکھنا چاہیے کہ ان سیاسی جماعتوں کا ایجنڈا بھی دینی نہیں ہے، اسلامی نہیں ہے، تو علماء اور مشائخ کو یہ چیز مدنظر رکھنی چاہیے کہ وہ اپنے مسلک کے لیے کام کریں۔ شاہ محمود قریشی صاحب جیسی شخصیت کو دیکھیں کہ پی ٹی آئی کے جلسے میں کھڑے ہو کر یا رسول اللہ ﴿ص﴾ اور یا علی ﴿ع﴾ کے نعرے تو لگاتے ہیں لیکن ان نعرے لگانے والوں کی نہ تو بات کرتے ہیں اور نہ ہی انکا ساتھ دیتے ہیں۔ اسی طرح پیر امین الحسنات صاحب مسلم لیگ نون میں مسلک کی بات نہیں کرتے بلکہ اسے فرقہ واریت شمار کرتے ہیں، حالانکہ جو دیوبندی حضرات ہیں وہ مسلک سے بات شروع کرتے ہیں اور مسلک پہ ختم کرتے ہیں۔ ہمارا مقصد یہ ہے کہ بزرگان اور اکابرین، تشدد اور شدت پسندی سے پاک اسلامی تعلیمات کی حامل سیاسی جدوجہد کریں، اسی میں ملکی مسائل کا حل ہے۔ 

اسلام ٹائمز۔ اسرائیل نے غزہ میں بربریت جاری رکھی ہوئی ہے اور داعش نے انبیاء کرام کے مزارات گرائے ہیں، پاکستان میں اس کا ردعمل خاطر خواہ نہیں تھا، اسکی کیا وجہ ہے۔؟
مفتی گلزار احمد نعیمی: پاکستان میں فلسطین کی صورتحال کے حوالے سے ردعمل کا اظہار تو ہوا ہے۔ ہمارے مدرسے سے باقاعدہ یوم القدس کا جلوس نکلا ہے، ایک بڑا سیمینار کروایا گیا ہے، عوام الناس کی بڑی تعداد شریک رہی ہے۔ لیکن اصل المیہ یہ ہے کہ داعش استعمار کی پروردہ ہے، انکا مقابلہ کرنے والا کوئی نہیں عالم عرب میں۔ وہ من گھڑت نظریات کے حامل ہیں، مسلمانوں کے خلاف لڑ رہے ہیں، پاکستان میں طالبان کی طرح عرب ممالک میں بھی شیعہ سنی تفریق کو ہوا دینے کے لیے داعش اہل تشیع اور اسلامی مقدسات کیخلاف جنگ کر رہے ہیں۔ پاکستان میں یہ کیا گیا کہ مسالک کے درمیان مسلح حملے کروائے گئے، تاکہ دنیا کو یہ محسوس ہو کہ پاکستان مسلکی فسادات کا گڑھ ہے، استعماری قوتیں یہی کھیل عراق اور شام میں جاری رکھنا چاہتی ہیں۔
خبر کا کوڈ : 406433
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش