0
Thursday 28 Aug 2014 15:43

مفتی جعفر حسین اس دور میں تعلیمات محمد و آل محمد (ص) کی عملی شکل تھے، ملک فیض بخش

مفتی جعفر حسین اس دور میں تعلیمات محمد و آل محمد (ص) کی عملی شکل تھے، ملک فیض بخش
ملک فیض بخش صاحب امامیہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن پاکستان کی پہلی اور دوسری مرکزی کابینہ کے رکن رہے ہیں اور اس وقت دنیا ٹی وی میں اپنی صحافتی خدمات انجام دے رہیں ہیں، آپ اس سے پہلے ایرنا نیوز ایجنسی میں بطور بیورو چیف خدمات انجام دیتے رہے، ملک فیض بخش کے مطابق انہیں امام خمینی رضوان اللہ تعالٰی کی دست بوسی کرنیکا بھی شرف حاصل ہوا ہے۔ اسلام ٹائمز نے 29 اگست،  مفتی جعفر حسین مرحوم  کی برسی کی مناسبت سے ان کے داماد ملک فیض بخش سے مفتی مرحوم کی شخصیت اور انکی زندگی کے حوالے سے ایک انٹرویو کیا، جو قارئین کے استفادے کے لئے پیش خدمت ہے۔ ادارہ 

اسلام ٹائمز: آپکے خیال میں قائد ملت جعفریہ مفتی جعفر حسین مرحوم کی قیادت میں 1980ء کنونشن کی کامیابی کے کتنے ثمرات سے ملت نے استفادہ حاصل کیا۔؟
ملک فیض بخش: 1980ء کا اسلام آباد کنونشن دو مقاصد کے لئے تھا، ایک ضیاءالحق حکومت کی طرف سے زکوٰۃ کا نفاذ جو کیا گیا تھا وہ بالکل غیر منصفانہ تھا، چونکہ یہ عبادات کا حصہ ہے، اس لئے اس حوالے سے تمام مسالک کا اپنا اپنا ادا کرنے کا طریقہ کار ہے۔ گو اس میں زکوٰۃ جوکہ عبادت ہے، پر دوسرے مسلک کا ادا کرنے کا طریقہ مسلط کرنا تھا جبکہ یہ بعد میں انکشاف ہوا کہ ضیاءالحق کا زکوٰۃ آرڈیننس مسلمانوں کے کسی بھی مسلک سے مطابقت نہیں رکھتا تھا۔ یعنی ناقص آرڈیننس تھا، اس لئے مطالبہ تھا کہ اس آرڈیننس کو منسوخ کروایا جائے، جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ ضیاءالحق کے زمانے سے سپاہ صحابہ وجود میں آئی اور اسی دور میں انقلاب اسلامی ایران کا بھی زمانہ تھا، پاکستان میں انقلاب کی حمایت سے باز رکھنے اور اس انقلاب کی حمایت کی تحریک کو کمزور کیا جاسکے، کے لئے متشدد گروہ تشکیل پائے اور ملت تشیع پاکستان پر تشدد کا سلسلہ ٹارگٹ کلنگ کی شکل میں شروع ہوگیا۔ یعنی دوسرا مطالبہ تھا حکومت ان عناصر کی حوصلہ شکنی کرے اور ملت تشیع کو تحفظ فراہم کرے۔ اس کنونشن کا فائدہ یہ ہوا کہ زکوٰۃ آرڈیننس سے شیعہ مسلک کو اس سے مستثنٰی قرار دیا گیا اور اسی وجہ سے ملت تشیع کا دائرہ وسیع ہونا شروع ہوا، اس کنونشن کے ثمرات میں یہ بات انتہائی اہمیت کی حامل ہے، ملت تشیع پاکستان پہلی مرتبہ بیدار ہوئی، اپنے حقوق سے آگاہ ہوئی اور ملت کو ایک راستہ بھی معلوم ہوگیا کہ اپنے حقوق کو منوانے کیلئے ایک مضبوط قیادت کی ضرورت کیا ہوتی ہے۔

اسلام ٹائمز: قائد مرحوم کو بزرگی کے عالم میں بھی ضیاءالحق جیسے ظالم کے دور میں بھی کبھی مایوس نہیں دیکھا گیا، اس کی کیا خاص وجوہات ہیں۔؟
ملک فیض بخش: مایوسی کسی بھی حقیقت آگاہ شخص کے نزدیک نہیں بھٹکتی ہمیشہ امید کے ساتھ جدوجہد کی جاتی ہے۔ وہ اپنی زندگی میں بھی کبھی مایوس نہیں ہوئے مفتی جعفر نے زمانہ طالبعلمی سے جب وہ لکھنو میں زیرتعلیم تھے اور جب نجف تشریف لے گئے تو انتہائی کٹھن حالات تھے، ایک امید کے ساتھ آگے بڑھتے رہے اور زیور علم سے خود کو آراستہ کیا۔ ان کی زندگی کا دوسرا پہلو تصنیف و تالیف ہے جب نہج البلاغہ کا الہامی ترجمہ کرنے کے دوران اس میں آپ نے ۱۴ سال صرف کئے ہیں اس زمانہ میں چونکہ ان کے گھر پر بجلی کی سہولت نہیں تھی اپنے اپنے مکان کی چھت پہ لالٹین کی روشنائی سے کتابوں سے استفادہ اور ترجمہ نہج البلاغہ لکھتے تھے پھر صحیفہ کاملہ کے بعد سیرت امیر المومنین علیہ السلام زیر تصنیف تھی کہ آخری وقت قریب آ گیا قیادت کے دور میں بھی انتہائی عزم ،حوصلہ اور امید کے ساتھ اپنا یہ فریضہ بڑے احسن طریقہ سے انجام دیا۔

اسلام ٹائمز: قائد مرحوم کے انداز قیادت کو مدنظر رکھتے ہوئے آپ موجودہ قیادت کو کس روش پر دیکھتے ہیں۔؟
ملک فیض بخش: مفتی جعفر حسین کے زندگی کے پہلو کا جائزہ لیا جائے تو ایسا لگتا ہے کہ مفتی مرحوم شریعت مطاہرہ کے احکامات کے وجود کا حصہ بن چکے تھے جب انکی زندگی کے آخری ایام تھے اور وہ کینسر کے مرض میں مبتلا تھے تو وضو نماز کی تاکید کرتے تھے۔ کچھ لوگوں کو دیکھ کر فرمایا کہ قرآن و اہلبیت کا باہمی تعلق کیا ہے؟ اگر اہلبیت (ع) کا اسوہ مبارک ہمارے سامنے نہ ہو تو ہمیں معلوم نہ ہوتا کہ قرآن کا مقصود کیا ہے، یعنی وہ ایسی شخصیت تھے کہ احکامات اسلامی، اسوہ محمد و آل محمد نہ صرف جانتے ہی نہیں تھے بلکہ وجود کے اوپر نافذ بھی کیا۔ قیادت کے سلسلہ میں بھی احکامات شریعت ہمیشہ مفتی جعفر کے پیش نظر ہوتے تھے اور 2 چیزیں بہت نمایاں تھیں، "تصرف فی النفوس اور تصرف فی الاموال" میں جب تک شریعی جواز نہ ملتا تھا کوئی اقدام نہیں کرتے تھے۔ تصرف فی النفوس یعنی جب کسی بھی موقع پر میٹنگ کی ضرورت محسوس کرتے تھے تو صرف اس وقت میٹنگ کی کال کرتے تھے اور  تصرف فی الاموال کی مثال یہ ہے کہ انہوں نے اپنے دور قیادت میں تحریک نفاذ جعفریہ کے فنڈ سے صرف ایک ہزار روپیہ لیا تھا اور اس میں سے ساڑھے چھ سو روپیہ نمونہ کے زکوۃ فارم پر لوگوں کی رہنمائی کیلئے خرچ ہوئے ساڑھے تین سو روپے انکی وفات کے بعد شہید قائد عارف الحسینی کو دیئے۔ وہ دورہ جات کے دوران بھی اپنی جیب سے خرچ کرتے تھے یعنی کیا اگر ہم یہ تمام جدوجہد دین و آئمہ (ع) کے اسوہ کے نفاذ کی خاطر میں کرتے ہیں تو کیا ہماری اس جدوجہد کا انداز بھی ا نہی کے اسوہ و تعلیمات کے مطابق نہیں ہونا چاہیئے؟ اس فرق کو آپ محسوس کریں۔

اسلام ٹائمز: مفتی جعفر حسین مرحوم کے نوجوانوں بالخصوص آئی ایس او کے جوانوں سے کیسے تعلقات تھے۔؟
ملک فیض بخش: آپ آئی ایس او کے جوانوں سے پیار کرتے تھے اور ان کو ایک نوید اور امید کی کرن قرار دیتے تھے انکے اجتماعات میں شرکت کرتے تھے۔ نوجوان جب انکے پاس آتے تھے تو انکو زیادہ وقت دیتے اور رہنمائی فرماتے تھے اگر کوئی اختلاف رکھتا تھا تو مخالفت نہیں رکھتے تھے کچھ لوگ تو الٹا مفتی جعفر کے لیڈر بننے کے بھی خواہشمند تھے لیکن مفتی صاحب اپنا کام مطمئن طریقہ سے پوری زندگی کرتے رہے۔

اسلام ٹائمز: مفتی جعفر حسین مرحوم کی سادگی کے حوالے سے بیان فرمائیں۔؟
ملک فیض بخش: مفتی مرحوم کی سادگی ایک ضرب المثل کی حیثیت اختیار کر چکی ہے کہ وہ اپنی ذات پر کم از کم صرف کرتے تھے۔ لباس انتہائی سادہ، خوراک سادہ تھی۔ دورہ جات کے دوران سواری کیلئے عام بس کا انتخاب کرتے تھے راستے میں اگر کہیں کھانے کا وقت ہوتا تو ایک نان اور دو پکوڑوں پر اتفاق کرلیتے تھے انکا گھر انتہائی سادگی کے ساتھ آراستہ تھا اور ایک انتہائی اہم بات وہ اپنی ذاتی ضروریات کے لئے سوال کرنے کی بجائے صبر کرنے کو ترجیح دیتے تھے اور تکلیف آنے پہ برداشت کرنے کی تلقین کرتے تھے گویا اس دور میں تعلیمات محمد و آل محمد (ص) کا امین کی کوئی چلتی پھرتی شکل نظر آتی تھی وہ مفتی جعفر حسین تھے ان کے کچھ دوست انکو ابوزر زماں (رض) بھی کہتے تھے۔
خبر کا کوڈ : 407061
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش