0
Saturday 13 Sep 2014 04:14
چینی صدر کا دورہ ملتوی ہونے میں امریکہ اور متحدہ عرب امارات کا بہت بڑا ہاتھ ہے

نواز لیگ لشکر جھنگوی و دیگر دہشتگرد گروہوں سے آنیوالوں کو اپنی جماعت سے باہر نکالے، سیدہ شہلا رضا

وفاقی حکومت جنوبی پنجاب میں دہشتگردوں کے بیس کیمپس ختم کرنے کیلئے پنجاب حکومت کو حکم دے
نواز لیگ لشکر جھنگوی و دیگر دہشتگرد گروہوں سے آنیوالوں کو اپنی جماعت سے باہر نکالے، سیدہ شہلا رضا
سندھ اسمبلی کی ڈپٹی اسپیکر سیدہ شہلا رضا کا تعلق پاکستان پیپلز پارٹی سے ہے، آپ نے جامعہ کراچی سے فزیولوجی میں ماسٹرز کی ڈگری حاصل کی ہے۔ آمر جنرل ضیاء کے دور میں جب پاکستان میں سیاسی سرگرمیوں پر مکمل پابندی عائد تھی، سیدہ شہلا رضا نے بھٹو ازم سے متاثر ہو کر 1986ء میں طالب علمی کے دوران جامعہ کراچی میں پاکستان پیپلز پارٹی کے طلباء ونگ پیپلز اسٹوڈنٹس فیڈریشن میں شمولیت اختیار کرکے سیاسی کیرئیر کا آغاز کیا۔ پی ایس ایف اور پیپلز پارٹی میں آپ مختلف عہدوں پر فائز رہیں، سیاسی کیرئیر کے دوران ماضی میں آپ پر نواز شریف کے حکومت کے دور میں سیاسی مقدمات قائم کئے گئے جس کے نتیجے میں آپ کو جیل کی صعوبتیں بھی برداشت کرنا پڑیں، 2008ء کے عام انتخابات میں سیدہ شہلا رضا پہلی بار خواتین کی مخصوص نشست پر پیپلز پارٹی کی طرف سے رکن سندھ اسمبلی منتخب ہوئیں۔ 7 اپریل 2008ء میں آپ پہلی بار بلامقابلہ ڈپٹی اسپیکر سندھ اسمبلی منتخب ہوئیں۔ گذشتہ عام انتخابات میں بھی آپ خواتین کی مخصوص نشست RSW131 پر پیپلز پارٹی کی طرف سے رکن سندھ اسمبلی منتخب ہوئیں اور 30 مئی 2013ء کو دوسری مرتبہ ڈپٹی اسپیکر سندھ اسمبلی منتخب کی گئیں۔ اسلام ٹائمز نے سیدہ شہلا رضا کے ساتھ انکی رہائش گاہ پر پاکستان خصوصاً کراچی میں دہشتگردی سمیت مختلف موضوعات کے حوالے سے ایک مختصر نشست کی، اس موقع پر آپ کے ساتھ کیا گیا خصوصی انٹرویو قارئین کیلئے پیش ہے۔ ادارہ

اسلام ٹائمز: سندھ میں پیپلز پارٹی کی حکومت ہے، بڑھتی ہوئی دہشتگردی کے حوالے سے کیا کہیں گی، عوامی تاثر یہ ہے کہ ارباب وزیراعلٰی سندھ کے دور کے مقابلے میں پیپلز پارٹی کی سندھ حکومت کے دور میں دہشتگردی زیادہ پروان چڑھی۔؟
سیدہ شہلا رضا:
جیسے جیسے مذہبی انتہاپسندی میں اضافہ ہو رہا ہے، اسی تناظر میں مسلم ممالک میں اہل تشیع مسلمانوں کو بہت زیادہ نشانہ بنایا جا رہا ہے، مثلاً متحدہ عرب امارات میں اہل تشیع کا معاشی قتل عام بھی کیا جا رہا ہے، اہل تشیع مسلمانوں کو یو اے ای سے جبری بےدخل کیا جا رہا ہے، پاکستان میں لشکر جھنگوی اور سپاہ صحابہ جیسے عناصر نے تو باقاعدہ شیعہ مخالف فتاویٰ بھی حاصل کر رکھے ہیں، پہلے کراچی میں متحدہ قومی موومنٹ اور عوامی نیشنل پارٹی کے درمیان ٹارگٹ کلنگ جاری تھی، جس کے خاتمہ کیلئے پیپلز پارٹی نے ان دونوں جماعتوں کو بار بار بٹھایا، دونوں کو بار بار سمجھایا، جو کہ ان دونوں کو بہت آخر میں سمجھ میں آئی کہ کوئی طاقت ہے جو ان دونوں قوتوں کو آپس میں لڑا رہی ہے کیونکہ وہ دونوں انتہا پسندی کیخلاف ہیں، پھر سب نے دیکھا کہ پیپلز پارٹی کی کوششیں رنگ لائیں اور دونوں کے درمیان جاری ٹارگٹ کلنگ کا خاتمہ ہوگیا، پیپلز پارٹی کے لوگ بھی ٹارگٹ ہوئے مگر ہم نے کسی سیاسی جماعت پر الزام نہیں لگایا۔ پہلے جب پیپلز پارٹی کی حکومت نہیں تھی تو کراچی میں 158 شیعہ ڈاکٹرز، علامہ حسن ترابی پر خود کش حملہ، مفتی جمیل، مفتی شامزئی سمیت مختلف مکاتب فکر کی شخصیات کو ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بنایا گیا، انفرادی واقعات کے علاوہ اجتماعی طور بھی دہشتگردی کے بڑے بڑے واقعات ہوئے مثلاً سانحہ امام بارگاہ مدینة العلم، سانحہ نشتر پارک، سانحہ حیدری مسجد، سانحہ امام بارگاہ علی رضا وغیرہ اور اس جیسے دیگر واقعات بھی رونما ہوئے۔ پھر جب پیپلز پارٹی کی حکومت آئی جس نے دہشتگردوں کے خلاف ایک آپریشن شروع کیا، جس کی وجہ سے مذہبی انتہا پسندی اور سیاسی ٹارگٹ کلنگ میں کمی واقع ہوئی۔ موجودہ صورتحال میں جبکہ ہر صوبے میں الگ الگ جماعت کی حکومت ہے، سندھ میں پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کی حکومت ہے اور دونوں دہشتگردی کیخلاف واضح موقف رکھتی ہیں، اسی وجہ سے تحریک طالبان پاکستان کے ترجمان شاہد اللہ شاہد نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ ہم سندھ پولیس اور سیاسی جماعتوں کو نہیں چھوڑیں گے، پیپلز پارٹی وہ جماعت ہے جس نے چوہدری اسلم کے قتل کی ایف آئی آر شاہد اللہ شاہد کیخلاف کٹوائی، ہمارے صوبے کے معاملات دیگر صوبوں کے مقابلے میں الگ ہیں۔
 
اب اہل تشیع کے ساتھ ساتھ دیگر مکاتب فکر کے افراد کی ٹارگٹ کلنگ بھی شروع ہوگئی ہے، لیکن علماء کرام نے صورتحال کو سنبھالا ہوا ہے، ہاں مگر کچھ لوگ ایسے ہیں جن کے بیانات یوٹیوب اور سوشل میڈیا پر بھی عام ہوئے کہ جن میں انہوں نے کہا کہ میں ایسے حالات کر دوں گا کہ ہر گھر سے لوگ نکل کر اہل تشیع کو ماریں گے، اسی مکتب فکر کے لوگوں نے یہ کہا کہ اہل تشیع مسلمانوں کے جلوس نہیں نکلنے چاہیئیں، یہ تو سندھ کے حالات ہیں، مگر یہاں ہم نے دہشتگردوں کو بیس کیمپ قائم کرنے میں کامیاب نہیں ہونے دیا جبکہ افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے پنجاب خصوصاً رحیم یار خان سمیت جنوبی پنجاب میں دہشتگردوں کے بیس کیمپس قائم ہیں، مگر وہاں کسی قسم کا کوئی آپریشن نہیں ہوتا، مگر ہمارے ہاں سندھ میں دہشتگردی کے واقعات اس لئے بڑھ رہے ہیں کہ ہم دہشتگردی کیخلاف بہت واضح مؤقف رکھتے ہیں، ہم کھل کر کہتے ہیں کہ یہ دہشتگرد ہیں، یہ دہشتگردی کی بنیاد پر اپنی رٹ قائم کرنا چاہتے ہیں، جہاد کے نام پر دہشتگردی کی اسلام میں گنجائش نہیں ہے، ہمارا مؤقف ہے کہ یہ مذہبی لوگ نہیں ہیں، یہ تنخواہ دار لوگ ہیں۔ تمام جماعتیں اس حقیقت کا اظہار کرتی ہیں کہ کوئی بھی جماعت پیپلز پارٹی سے زیادہ دہشتگردی کے خلاف واضح مؤقف نہیں رکھتی۔

اسلام ٹائمز: سندھ حکومت کالعدم تکفیری دہشتگرد گروہوں کیخلاف فوجی آپریشن کیوں نہیں کرواتی، آئین کے تحت فوجی معاونت حاصل کی جا سکتی ہے تو ایسا کرنے سے گریز کیوں کیا جا رہا ہے۔؟
سیدہ شہلا رضا:
کراچی میں دہشتگردی کیخلاف آپریشن جاری ہے، اس حوالے سے پاک فوج اور رینجرز بھی ہمارے ساتھ ہیں، ایک ایسے وقت میں جب فوج آپریشن ضرب عضب میں مصروف ہے، ہم کلی طور پر فوج کو یہاں نہیں لگا سکتے جیسے شمالی وزیرستان میں ہے۔ میں واضح کر دوں کہ ہمیں دہشتگردوں کیخلاف فوج کی سپورٹ حاصل ہے۔

اسلام ٹائمز: کراچی آپریشن کے دوران رینجرز اور پولیس نے ہزاروں ملزمان کی گرفتاری کا دعویٰ کیا، جن میں دہشتگرد، ٹارگٹ کلرز، بھتہ خور بھی بڑی تعداد میں شامل ہیں، مگر سزا ہوتے اور پھانسی چڑھتے کوئی بھی نظر نہیں آیا، سزا نہ ملنے اور بری ہو جانے کے باعث دہشتگردوں کے حوصلے بلند ہو جاتے ہیں، کون ذمہ دار ہے اس حوالے سے۔؟
سیدہ شہلا رضا:
بالکل صحیح بات ہے، بلکہ میں یہ بھی کہنا چاہوں گی کہ پولیس لوکل انفارمیشن کی بنیاد پر پکڑتی ہے، تیس پینتیس ہزار افراد پکڑے گئے، لیکن جیسے جیسے تحقیقات ہوئیں کچھ کو چھوڑا بھی گیا، جیسے علامہ حسن ترابی کے قتل کے منصوبہ بنانے والے پکڑے گئے ہیں، وہ بہت مضبوط ہیں انہیں کوئی سزا نہیں ہوئی، خالد شیخ کی مثال ہے، اسے کوئی سزا نہیں ہوئی، اس کے علاوہ بھی بہت سارے لوگ ہیں، تو عدلیہ آزاد ہے۔ ہمیں یہ کہا جاتا تھا کہ witness protection bill لے کر آئیں، ہم وہ بل بھی لے آئے، تو ہمارا کہنا بھی یہی ہے کہ عدالتیں دہشتگردوں کو سزائیں دیں، قانون کی اہمیت جب نظر آئے گی جب دہشتگردوں کو سزائیں ہونگی، یہ ہم بھی کہتے ہیں، آپ بھی کہتے ہیں کہ نشان عبرت بنایا جائے، مگر جب یہ جرائم پیشہ افراد جیل جاتے ہیں تو وہ اور بہادر ہو جاتے ہیں، کیونکہ انہیں معلوم ہے کہ اب وہ آرام سے کام کرسکیں گے۔

اسلام ٹائمز: پاکستان پہلے ہی لشکر جھنگوی، سپاہ صحابہ، جنداللہ اور دیگر دہشتگرد گروہوں کی دہشتگردی کا شکار ہے، خصوصاً جنوبی پنجاب میں دہشتگردوں کے بیس کیمپس کی موجودگی کی اطلاعات ہیں اور اب شام اور عراق میں دہشتگردی اور بربریت پھیلانے والے دہشتگرد گروہ داعش کی بھی پاکستان میں موجودگی کی اطلاعات میڈیا میں عام ہو رہی ہیں، داعش کی پاکستان میں موجودگی کا کون ذمہ دار ہے۔؟
سیدہ شہلا رضا:
جیسا کہ ہم نے پہلے بھی کہا اور میں سمجھتی ہوں کہ نواز حکومت کی وجہ سے آپریشن ضرب عضب کے آغاز میں تاخیر ہوئی، نواز حکومت کی وجہ سے آئی ایس پی آر نے پہلے اعلان کیا جبکہ حکومت کو پہلے کرنا چاہیئے تھا، اور تمام سیاسی جماعتوں کو بہت زیادہ چاہیئے کہ اپنی پاک فوج کے پیچھے کھڑی ہوتیں، لیکن سب اپنے چھوٹے چھوٹے ایشوز لیکر اپنے اپنے ڈرامے کر رہی ہیں، میں یہ سمجھتی ہوں کہ پاک فوج اپنا کام کر رہی ہے، لیکن جو فیصلے نواز حکومت نے کرنے ہیں اس کو ہی کرنے ہونگے اور ایسے لوگ جو پانچ سال، آٹھ سال، دس سال لشکر جھنگوی و دیگر دہشتگرد گروہوں کے رکن رہ چکے ہیں، ان کو اپنی جماعت سے بھی ہٹانا ہوگا اور وہ لوگ جیسا کہ آپ نے بھی دیکھا کہ راولپنڈی میں عاشور کے روز جو فساد ہوا، اس میں جھنگ سے اٹھا کر احمد لدھیانوی کو لایا گیا، انہیں اسٹیک ہولڈر بنایا گیا اور انہوں نے انتہائی غلط قسم کی باتیں کیں، تو یہ سب بھی ختم کرنا چاہیئے، وفاقی حکومت کو پنجاب حکومت کو آرڈر کرنا چاہیئے کہ دہشتگردوں کے تمام بیس کیمپس ختم کریں، اس سوچ کی جڑیں کاٹنی ہونگی۔ جہاں تک داعش کی آپ نے بات کی کہ تو لٹریچر تو پایا گیا ہے، چاکنگ بھی دیکھی گئی ہے، سوشل میڈیا میں بھی پاکستان میں داعش کے حوالے سے لٹریچر اور چاکنگ کی تصاویر عام ہوئی ہیں، تو جیسا کہ میں نے کہا کہ عالمی سطح پر جا کر دیکھیں تو اسلامی ممالک میں اہل تشیع مخالف دہشتگرد عناصر سرگرم عمل ہیں۔ اگر داعش کی پاکستان میں موجودگی کی خبروں میں صداقت ہے تو یہ وفاقی حکومت کی ذمہ داری ہے کہ اسے کنٹرول کرے۔

اسلام ٹائمز: امریکہ اور سعودی عرب پر پاکستان میں مداخلت، دہشتگرد عناصر کو فنڈنگ اور سپورٹ کے حوالے سے بہت تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے، جبکہ امریکہ کی جانب سے پیپلز پارٹی کی جاسوسی کرنے کے الزامات بھی منظر عام پر آئے، جس پر خود پیپلز پارٹی نے بھی تشویش ظاہر کی، کیا کہیں گی اس حوالے سے۔؟
سیدہ شہلا رضا:
پیپلز پارٹی اور امریکہ کا پرانا مسئلہ ہے کیونکہ پاکستان پیپلز پارٹی کی سب سے بڑی غلطی یہ ہے کہ انہوں نے پاکستان کو ایک ایٹمی طاقت بنایا، اسلامی ممالک کو ایک پلیٹ فارم پر لے کر آئی، تیسری دنیا کو منظم کرنے کی کوشش کی، تو پیپلز پارٹی سے انہیں مسئلہ تو ہے کہ پاکستان نیوکلیئر پاور بننے کے ساتھ مزید استحکام کے ساتھ کھڑا ہوگا۔ میں سمجھتی ہوں کہ اس وقت چینی صدر کا دورہ جو نہیں ہوسکا ہے تو اس میں بہت زیادہ متحدہ عرب امارات اور امریکہ کا ہاتھ ہے کیونکہ متحدہ عرب امارات سمجھتی ہے کہ اس کا دبئی پورٹ بالکل ختم ہوجائے گا گوادر پورٹ کی وجہ سے اور امریکہ کو یہ مسئلہ ہے کہ گوادر کو چین کے حوالے کرنے سے خطے میں بحرین اور دوسری جگہوں پر جب امریکی جہاز جائیں گے تو چین ان کو مانیٹر کریگا، تو یہ ساری چیزیں ہیں، اس گوادر پورٹ کی وجہ سے چین کے ساتھ ساتھ انڈیا، افغانستان، قازقستان وغیرہ کو بھی فائدہ پہنچے گا۔ ظاہر سی بات ہے اس سے پاکستان بھی انتہائی فائدہ پہنچے گا اور خطے میں پاکستان کی اہمیت میں مزید اضافہ ہوجائے گا مگر مسئلہ صرف امریکہ اور متحدہ عرب امارات کو ہے، کراچی کو بھی عدم استحکام سے دوچار اسی لئے ہی کیا جاتا ہے کہ گوادر نہ آباد ہوجائے۔

اسلام ٹائمز: اس صورتحال میں ضروری نہیں ہے پاکستان اپنے پڑوسی ممالک کیساتھ ملکر ایک مضبوط علاقائی بلاک بنائے۔؟
سیدہ شہلا رضا:
بہت ساری وجوہات ایسی ہیں کہ عالمی طاقتیں پیپلز پارٹی کو پسند نہیں کرتیں، جس میں چین سے دوستی ہے، ہم ایران کی طرف دیکھتے ہیں، پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ آپ کے سامنے ہے، ہم سمجھتے ہیں کہ یہ ہمارا حق ہے کہ پاکستان اپنے پڑوسی ممالک سے اچھے تعلقات قائم رکھے، یہی تمام چیزیں عالمی طاقتوں کو پسند نہیں آتی ہیں، سب سے زیادہ مسئلہ یہ بھی ہے کہ خطے میں امریکہ کی چوکیدار عرب بادشاہتیں پسند نہیں کرتیں کہ امریکہ ایران کی طرف دیکھے یا پاکستان کی طرف دیکھے، کیونکہ عرب بادشاہتیں اسے اپنے مفادات کیخلاف سمجھتی ہیں۔

اسلام ٹائمز: اسلام آباد میں جاری نواز حکومت مخالف دھرنے کے حق اور مخالفت میں ہر طرف سے دلائل دیئے جا رہے ہیں، موجودہ ملکی حالات کے تناظر میں آپ پاکستان عوامی تحریک اور پاکستان تحریک انصاف کیجانب سے کس قسم کے کردار کو ادا کرنے کی خواہاں ہیں، مختصراً کیا کہنا چاہیں گی۔؟
سیدہ شہلا رضا:
پاکستان میں طاہر القادری کا تو کوئی اسٹیک ہی نہیں ہے، جس طرح سے وہ لوگوں کو لائے ہیں، بی بی سی اردو اور سب نے دکھا دیا ہے کہ انکی ڈنڈا بردار فورس کس طرح لوگوں کو خیموں میں محصور رکھے ہوئے ہے، انکا طرز عمل بالکل ایل کے ایڈوانی کی طرح سے جس طرح وہ بابری مسجد پر حملہ کرنے آیا تھا نظر آتا ہے، میں سمجھتی ہوں کہ ان سے بات چیت کی جائے اور پھر کینیڈا سے بھی بات چیت کی جائے کہ اپنا یہ آئٹم اب آپ اپنے پاس رکھیں۔ دوسرے جناب عمران خان ہیں وہ ایک اچھے آدمی ہیں، ان کو سمجھنا چاہیئے کہ انکی جماعت کو ایک بہت بڑا مینڈیٹ ملا ہے، دوسرے نمبر پر ووٹ ملے ہیں، اگر وہ اسمبلی اور آئین کی عزت نہیں کرینگے تو تاریخ میں وہ بہت نیچے چلے جائیں گے، انہیں اسمبلی میں آنا ہے، آنا ہے، آنا ہے، دھرنے ختم کریں، سیلاب ہے، صورتحال صحیح نہیں ہے، عمران خان کو چاہیئے کہ سنجیدگی کا مظاہرہ کریں کیونکہ سیاست میں سنجیدگی بہت ضروری ہے۔
خبر کا کوڈ : 409435
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش