0
Sunday 28 Sep 2014 19:37
آخری سانس تک حق کے راستے پر گامزن رہینگے

میرے خاوند کی اسیری آئمہ (ع) کی اسیری سے زیادہ مشکل تو نہیں، اہلیہ خواجہ محمد علی

محمد علی کا جرم اب تک سامنے نہیں لایا گیا، اتنا تشدد کیا گیا وہ پہچاننے کے قابل نہیں رہے
میرے خاوند کی اسیری آئمہ (ع) کی اسیری سے زیادہ مشکل تو نہیں، اہلیہ خواجہ محمد علی
خواجہ محمد علی کا شمار ان اسیران امامیہ میں ہوتا ہے جو حکومتی ظلم و جبر کے نتیجے میں اپنے ناکردہ گناہوں کی سزاء اسیری کی صورت میں کاٹ رہے ہیں، انہیں کالعدم تکفیری جماعت سپاہ صحابہ کے سربراہ اعظم طارق کے قتل کیس میں 2007ء میں گرفتار کیا گیا، اور جرم ثابت نہ ہونے پر انسداد دہشتگردی راولپنڈی کی عدالت نے 2010ء میں باعزت بری کر دیا، ان کا بنیادی تعلق پنڈ دادنخان سے ہے، زمانہ طالب علمی میں امامیہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن سے منسلک رہے، محنت مزدوری کرکے اپنے خاندان کا پیٹ پالنے والے خواجہ محمد علی روزگار کے سلسلے میں خلیجی ملک گئے، رواں سال 21 مئی کو پولیس نے بغیر کوئی جرم بتائے گرفتار کرلیا، اور اب تک اسیر ہیں، ان کی دونوں معصوم بچیاں آج بھی اپنے بابا کے انتظار میں ہیں، ’’اسلام ٹائمز‘‘ نے خواجہ محمد علی کی گرفتاری، کیس کی صورتحال اور خاندان کے حالات جاننے کیلئے ان کی اہلیہ کیساتھ انٹرویو کیا، جو قارئین کے پیش خدمت ہے۔
 (اسیر محمد علی کی اہلیہ کی خواہش پر انکی بچیوں کی تصویر انٹرویو کے ہمراہ جاری کی جا رہی ہے۔ ادارہ)


اسلام ٹائمز: محمد علی صاحب کے فیملی بیک گراونڈ کے بارے میں بتایئے گا۔؟
اہلیہ خواجہ محمد علی:
ان کے تین بھائی ہیں، ایک بیمار ہیں، ان سے جتنا ہوسکتا ہے وہ میری مدد کرتے ہیں، ہماری شادی 2010ء میں ہوئی تھی، اور ہماری دو بیٹیاں ہیں۔

اسلام ٹائمز: محمد علی کو کس کیس میں گرفتار کیا گیا۔؟
اہلیہ خواجہ محمد علی:
انہیں 21 مئی 2014ء کو گرفتار کیا گیا، اعظم طارق کیس میں وہ بری ہوکر آئے تھے، تاہم رواں سال 21 مئی کو بچیوں کیلئے دوائی لینے بازار گئے، کچھ دیر بعد مجھے فون آیا کہ آپ کے خاوند کو پولیس پکڑ کر لے گئی ہے، ہمیں آج تک معلوم نہیں ہوسکا کہ انہیں کس جرم میں اور کیوں گرفتار کیا گیا۔

اسلام ٹائمز: کیا پولیس کیجانب سے ان پر تشدد بھی کیا گیا۔؟
اہلیہ خواجہ محمد علی:
جی ہاں، ان پر بہت زیادہ تشدد کیا گیا ہے، ہمیں جب بھی ان کے بارے میں معلومات ملیں تو یہی سننے کو ملا کہ ان پر بہت تشدد کیا جا رہا ہے، کچھ عرصہ قبل میں ان سے ملاقات بھی کرکے آئی ہوں، ان کی حالت بہت خراب تھی، مجھ سے ان کی وہ حالت دیکھنا برداشت نہیں ہو رہا تھا، معلوم نہیں انہیں کس جرم میں یہ ظالمانہ سزاء دی جا رہی ہے، ان پر اس قدر تشدد کیا گیا ہے کہ وہ پہچانے بھی نہیں جا رہے تھے۔

اسلام ٹائمز: موجودہ کیس کی کیا تفصیلات ہیں۔؟
اہلیہ خواجہ محمد علی:
کیس کے حوالے سے تو ابھی تک چالان ہی پیش نہیں کیا گیا، ہماری کوشش ہے کہ کسی طور پر کیس کی صورتحال سامنے آئے، لیکن کیس کو آگے چلایا ہی نہیں جا رہا، اس سے بڑھ کر مظلومیت کیا ہوگی کہ ہمیں اب تک معلوم ہی نہیں کہ ہمارا جرم کیا ہے۔ یہ سب کچھ دیکھتے ہوئے ایسا لگتا ہے کہ ملک میں جنگل کا قانون ہے، مظلوم کا کوئی پرسان حال نہیں۔

اسلام ٹائمز: انہیں کہیں سانحہ راولپنڈی میں تو ملوث کرنے کی کوشش نہیں کی گئی۔؟
اہلیہ خواجہ محمد علی:
نہیں۔ اس میں ملوث نہیں کیا گیا۔

اسلام ٹائمز: اعظم طارق قتل کیس میں بھی خواجہ محمد علی کو بے گناہ گرفتار رکھا گیا۔ اس کیس کی کیا تفصیلات ہیں۔؟
اہلیہ خواجہ محمد علی:
اس کیس میں ان کو بے گناہ 3 سال تک پابند سلاسل رکھا گیا، یہ میری شادی سے پہلے کی بات ہے، تاہم پھر 2010ء میں انہیں باعزت بری کر دیا گیا، اس کیس میں بھی وہ بے گناہ ثابت ہوئے تھے، انشاءاللہ مولا (ع) کی مدد ہمارے ساتھ ہے، وہ اس کیس سے بھی بری ہوں گے۔

اسلام ٹائمز: موجودہ کیس کو چلانے کیلئے آپ لوگوں نے وکیل کیا ہے۔؟
اہلیہ خواجہ محمد علی:
جی ہاں، امجد کاظمی صاحب نے وکیل کروایا ہے، وہ اس حوالے سے ہماری مدد کر رہے ہیں۔

اسلام ٹائمز: کیا کیس چلانے میں کسی قسم کی مشکلات پیش آرہی ہیں۔؟
اہلیہ خواجہ محمد علی:
شروع سے لیکر اب تک مشکلات تو بہت ساری پیش آرہی ہیں، جب میرے خاوند گرفتار ہوئے تو ہمیں معلوم ہوا کہ مجلس وحدت مسلمین راولپنڈی کے رہنماوں نے 11 مومنین کو رہا کروایا ہے، پھر میں نے ان سے رابطہ کیا، انہوں نے اس حوالے سے جس حد تک ممکن ہوا میری مدد کی۔ اس کے علاوہ بھی میں نے کئی جگہ پر رابطہ کرنے کی کوشش کی، لیکن کہیں اور سے کوئی رسپانس نہیں ملا، اس کے علاوہ مالی مشکلات کا بھی سامنا ہے۔

اسلام ٹائمز: آپ ایک اسیر کی اہلیہ ہیں، ملت کی جانب سے رسپانس کیسا رہا۔؟
اہلیہ خواجہ محمد علی:
ملت کی جانب سے بہت اچھا رسپانس رہا، آپ کو معلوم ہے کہ ہماری قوم بیدار ہے، اور وہ اپنے اسیروں اور محسنوں کو تنہاء نہیں چھوڑتی، لیکن ایک افسوسناک پہلو وہ یہ ہے کہ ہماری ملت متحد نہیں ہے، ہمیں متحد ہونے کی ضرورت ہے، جو ملت کے قائدین بنے پھرتے ہیں، انہیں قوم کو اکٹھا کرنا چاہئے، اور جو مثبت کام کر رہا ہے، اس کی حوصلہ افزائی ہونی چاہیئے۔

اسلام ٹائمز: کیا آپ کے حوصلے بلند ہیں۔؟
اہلیہ خواجہ محمد علی:
بے شک میرا حوصلہ اور عزم چٹان کی طرح مضبوط ہے، میرے خاوند نے کوئی گناہ نہیں کیا، اہلبیت (ع) کا بتایا ہوا راستہ حق کا راستہ ہے، ہم اپنی آخری سانس تک اسی راستے پر چلیں گے، چاہے اس راستہ پر چلنے میں ہماری جانیں ہی کیوں نہ قربان ہوجائیں۔

اسلام ٹائمز: آپ ایک اسیر کی اہلیہ ہیں، اس حیثیت سے ملت تشیع کے نام اگر کوئی پیغام دینا چاہیں تو ہمارا پلیٹ فارم حاضر ہے۔؟
اہلیہ خواجہ محمد علی:
اسیری کا سلسلہ تو ہمارے آئمہ (ع) کے دور سے چلتا آرہا ہے، انہیں بھی اسیر کیا گیا، یہ تو ہمارے لئے سعادت ہے، ہم نے تو زندگی کی آخری سانس تک انہی کی راہ پر چلنا ہے، جب ان کی اسیری اور مشکلات کا سوچتی ہوں تو میرے اندر مزید جذبہ پیدا ہوتا ہے، مجھے کوئی خوف نہیں ہے، اگر میں تنہاء بھی رہ جاوں تو حسینی پرچم تلے کھڑی رہوں گی، میرے خاوند مشکلات سے گذر رہے ہیں، لیکن ہمارے آئمہ (ع) تو اس سے کہیں زیادہ مشکلات سے گزرے ہیں، میرے خاوند بھی ان عظیم ہستیوں کے نقش قدم پر چلے ہیں، تو مولا (ع) ہی ہمارے وارث ہیں، وہی ہمارا ساتھ دیں گے۔ میرا قوم کے نام یہی پیغام ہے کہ بیدار ہوں، اور خصوصاً اسیران امامیہ کے لئے ایک ادارہ قائم کیا جائے، جو ان کی اور ان کے خاندان کی مشکلات کو دیکھے، کیسز کے حوالے سے معاونت اور رہنمائی کرے۔ یہ بہت بڑی مظلومیت ہے، ہمارے اسیر واقعی بہت مظلوم ہیں، اس موقع پر میں ایک اور اسیر ملک شبیر جوئیہ کا ذکر بھی کروں گی، وہ بہت بزرگ ہیں اور بے گناہ قید ہیں، ان کے ساتھ بھی میرے شوہر کی طرح ظالمانہ سلوک کیا جا رہا ہے۔
خبر کا کوڈ : 412112
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش