QR CodeQR Code

جمہوری اسلامی ایران کو اتنا نقصان امریکہ اور اسرائیل نے نہیں پہنچایا جتنا اسلامی ممالک نے پہنچایا ہے، نوید خان

29 Sep 2014 23:33

اسلام ٹائمز: مسلم لیگ حقیقی کے سربراہ کا اسلام ٹائمز سے خصوصی انٹرویو میں کہنا تھا کہ عالم اسلام میں ڈاکٹر محمود احمدی نژاد میرے پسندیدہ لیڈر ہیں۔ میں نے ڈاکٹر احمدی نژاد کو صدر بننے پر مبارک باد کا خط لکھا تھا جس کا انہوں نے باقاعدہ جواب دیا تھا، ایسا بہت کم ہوتا ہے کہ کوئی عام آدمی کسی ملک کے صدر کو خط لکھے اور اس ملک کا صدر اسے جواب دے لیکن کیوںکہ احمدی نژاد ایک حقیقی لیڈر تھے اس لئے انہوں نے خط کا جواب دیا، یہ چیز میرے لئے باعث افتخار تھی۔


نوید خان مسلم لیگ حقیقی کے سربراہ ہیں، بنیادی تعلق مانسہرہ سے ہے، 19 سال پہلے جب تحریک انصاف کی بنیاد رکھی جارہی تھی تو نوید خان ان آٹھ لوگوں میں سے ایک تھے جنہوں نے اس جماعت کے قیام میں اپنا کردار ادا کیا۔ تحریک انصاف مانسہرہ کے ضلعی صدر رہے، ضلعی سیکرٹری جنرل کے عہدے پر کام کیا، پانچ سال تک عمران خان کے مشیر برائے امور جوانان رہے، اسٹیرنگ کمیٹی کے ممبر بھی رہے، بارہ سال تک تحریک انصاف میں مختلف عہدے پر کام کرتے رہے تاہم نظریاتی اختلافات کے باعث نوید خان نے تحریک انصاف کو خیرباد کہہ دیا۔ بعد میں انہوں نے ایم کیو ایم جوائن کرلی تاہم چار سال بعد ایم کیو ایم کو بھی الوداع کہہ گئے۔ اسلام ٹائمز نے ان سے مختلف ایشوز پر ایک تفصیلی انٹرویو کیا ہے جو پیش خدمت ہے۔ ادارہ

اسلام ٹائمز: سب سے پہلے یہ بتائیے گا کہ تحریک انصاف چھوڑنے کی کیا وجہ بنی۔؟۔

نوید خان: 1996ء میں پی ٹی آئی کا جو پہلا منشور تھا اس کے اندر ایک شق تھی کہ پی ٹی آئی کا قیام موروثی اور کرپٹ سیاستدانوں کی بیخ کنی کیلئے لایا گیا ہے، جب میں نے محسوس کیا تحریک انصاف میں کرپٹ اور موروثی سیاستدانوں کا داخلہ شروع ہو گیا ہے تو میں نے محترم عمران خان کو اس جانب متوجہ کیا۔ مگر انہوں نے کہا کہ سیاست نام ہی اسی چیز کا ہے، ہم چلتے گئے وقت گزرتا گیا، اور آخر کار وہ لمحہ آیا جب عمران خان اے پی ڈی ایم یعنی آل پارٹیز ڈیموکریٹک موومنٹ کا حصہ بنے تو میں نے خان صاحب سے کہا کہ یہ تو ان جماعتوں کا ٹولہ ہے جن کیخلاف تحریک انصاف وجود میں آئی اور ہم جیسے لوگ جن کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں تھا سیاست میں وارد ہوئے، آج انہی سے ملنے اور موروثی سیاسی جماعتوں کے ساتھ اتحاد کرنے جا رہے ہیں۔ پھر وہ وقت آیا جب تمام سیاست دان لندن میں جمع ہوئے اور خان صاحب اس اے پی ڈی ایم کے پروگرام میں شرکت کیلئے روانہ ہوئے۔ اس پروگرام میں شرکت کیلئے میرا بھی ٹکٹ کرایا گیا تھا لیکن میں نے انہی اختلافات کی بنیاد پر پی ٹی آئی کو الوداع کہہ دیا۔

میں نے خان صاحب کو کہہ دیا تھا کہ خان صاحب جن سیاست دانوں کے خلاف آپ نے قیام کیا اور آج انہیں کے ساتھ بیٹھ رہے ہیں لٰہذا ہماری راہیں آج سے جدا جدا ہیں۔ میں نے عمران خان صاحب سے یہ بھی کہا تھا کہ آج نظریہ فنا ہو گیا ہے۔ میں نہیں چاہتا تھا کہ ہم تقریریں اور بحث و مباحثے تو کرپٹ حکمرانوں کیخلاف کریں اور پھر عملی طور پر انہی کے ساتھ بیٹھ جائیں۔ میں نے اسلام آباد میں ایک پریس کانفرنس کی جس میں پی ٹی آئی سے علیحدگی کا اعلان کیا۔

اسلام ٹائمز: ایم کیو ایم کیوں جوائن کی اور پھر اس سے بھی علیحدہ ہو گئے۔ وجہ کیا بنی۔؟
نوید خان: جی تحریک انصاف چھوڑنے کے بعد ایک سال تک میں کافی سوچ و بچار کرتا رہا کہ کیا کرنا چاہیئے۔ اس دوران مجھ سے مختلف سیاستندانوں نے رابطے کئے جن میں مسلم لیگ نون سے لیکر ایم کیو ایم تک کئی جماعتوں نے اپنے ساتھ ملانے کی کوشش کی، ہر جماعت نے کہا کہ آپ ہمارے مل جائیں۔ پیپلزپارٹی اور نون لیگ میں شامل اس لئے نہیں ہو سکتا تھا کہ کیوں کہ میں نے عمران خان کیساتھ ملکر ان دونوں جماعتوں کو ٹارگٹ کیا تھا۔ مجھ سے دینی جماعتوں نے بھی رابطہ کیا۔ جن میں جے یو آئی (ف) اور (سین) شامل ہیں، دونوں نے رابطہ کیا تاہم ان پر بھی الزامات تھے اور ان میں تضادات تھے اس وجہ سے ان کے ساتھ بھی نہ مل سکا۔ اس دوران مجھ سے ایم کیو ایم نے بھی رابطہ کیا۔ ان پر بھی الزامات تھے تاہم کچھ لوگوں نے کہا کہ آپ ان کے قریب جا کر دیکھیں پھر فیصلہ کریں۔ اس کے بعد میں فاروق ستار سمیت ایم کیو ایم کی دیگر لیڈر شپ سے ملا۔ انہوں نے لاہور میں الحمرا ہال میں اپنے کنونشن میں شرکت کی دعوت دی۔

اس کنونشن میں شرکت کیلئے گیا تو دیکھا کہ جو ایم این ایز تھے وہ نیچے کرسیوں پر بیٹھے ہوئے تھے جبکہ پارٹی عہدیدار اسٹیج پر تشریف فرما تھے، یہ میرے لئے نیا بھی تھا اور حیران کن بھی تھا۔ جب پروگرام ختم ہوا تو میں نے دیکھا کہ ایم کیو ایم کے این ایز بجائے اپنی کاڑیوں پر جانے کے رکشے روک کر جانے لگے، جو میرے لئے کافی حیرت انگیز تھا۔ میرے لئے حیرانگی تھی کہ کیا کوئی ایم این اے بھی رکشہ پر جا سکتا ہے۔ یہ لوگ پنجاب ہاوس جا رہے تھے۔ اس کے بعد میں نے ایم کیو ایم جوائن کرلی اور مجھے صوبائی جوائنٹ آرگنائزر بنا دیا گیا۔ ایم کیو ایم کے ٹکٹ پر الیکشن بھی لڑا۔ پنجاب کا سیکرٹری انفارمیشن بھی بنایا گیا، چار سال ان کے ساتھ رہا۔ پھر وہ وقت آیا جب اے این پی نے صوبہ خیبرپختونخوا کا نام تبدیل کرا دیا اور ایم کیو ایم اس نام کی تبدیلی کا حصہ بن گئی۔ حالانکہ صوبہ سرحد کا نام قائد اعظم نے رکھا تھا، یہ دیکھتے ہوئے کہ اس صوبے میں مختلف قبائل رہتے ہیں۔ ایم کیو ایم کیو کو قومی اسمبلی اور سینیٹ میں مخالفت میں ووٹ ڈالنے کیلئے کہا لیکن انہوں نے معذرت کرلی۔ حالانکہ ہزارہ خیبرپختونخوا بھی نام تجویز کیا تھا لیکن اس پر کوئی عمل نہ ہو سکا جس پر میں نے ایم کیو ایم کو خدا حافظ کہہ دیا۔

اسلام ٹائمز: پھر نئی سیاسی جماعت شکیل دینے کی وجہ کیا بنی۔؟
نوید خان: آپ کا یہ اہم سوال ہے، میں نے جب ایم کیو ایم کو بھی چھوڑ دیا تو میرے زہن میں خیال کیا کہ سیاست کو ڈورانا خواب سمجھ کر چھوڑ دیا جائے یا پھر مہنگائی، ظلم، کرپشن، بدعنوانی اور عوامی مسائل پر اسٹینڈ لیا جایا۔ اس کے بعد میں نے اپنی سیاسی جماعت کے قیام کا سوچا جس کا نام مسلم لیگ حقیقی رکھا۔ آج کل تمام اوقات اسی جماعت کیلئے وقف کر رہا ہوں۔ اس نام کی وجہ یہی تھی کہ قائداعظم کی جماعت مسلم لیگ ہی تھی جو دفن ہو گئی، دو سال سے اس جماعت کو آرگنائز کررہا ہوں۔ جب ڈاکٹر قدیر خان نے تحریک تحفظ پاکستان کی بنیاد رکھی اور ایک نیا اتحاد وجود میں آیا تو اس وقت میری جماعت فقط پندرہ دن کی تھی۔ ہم نے ان کے ساتھ ملکر اسلام آباد میں پریس کانفرنس کی اور ان کا ساتھ دیا۔ یہ اتحاد آج تک قائم ہے۔

اسلام ٹائمز: عمران خان کو جن لوگوں کی وجہ سے آپ نے چھوڑ دیا وہ آج بھی ان کے دائیں بائیں ہیں، لیکن اس کے باوجود لوگوں کی بڑی تعداد خان صاحب کے ساتھ ہے، کراچی اور لاہور کے جلسوں نے ثابت کیا ہے کہ عمران خان آج بھی لوگوں کی امید بنے ہوئے ہیں۔ آج آپ اپنے فیصلے پر کیا کہتے ہیں۔؟
نوید خان: جہاں تک عمران خان کا تعلق ہے اس میں کوئی شک نہیں وہ محب وطن پاکستانی ہیں، انہوں نے پاکستان میں سیاست کی ایک نئی راہ متعین کی ہے، وہ ہمیشہ کرپشن کے خلاف بولے اور بات کرتے ہیں۔ پاکستانی قوم کے حقیقی ایشوز کو ایڈرس کرتے ہیں، انہوں نے اپنی جوانی اس ملک کیلئے وقف کی اور سوشل کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ شوکت خانم اسپتال ان کا بہترین کارنامہ ہے لیکن جس تحریک انصاف نے تبدیلی لانا تھی جس نے کرپشن کی سزا، سزائے موت رکھنا تھی آج اس جماعت میں دیگر سیاسی جماعتوں سے دھتکارے ہوئے لوگ شامل ہوگئے ہیں۔ اگر میں یہ کہوں کہ تحریک انصاف تمام سیاسی جماعتوں کا لنڈا بازار بن چکی ہے تو بےجا نہ ہوگا۔ انفرادی طور پر عمران خان نے ہمیشہ ہر ظلم کیخلاف آواز بلندی کی ہے جس پر باقی لوگ خاموش رہے ہیں۔

اسلام ٹائمز:میرا پھر وہی سوال ہوگا کہ آخر کیا وجہ ہے لوگ تحریک انصاف کے دیوانے ہوگئے ہیں، فقط تین دن کے مارجن پر کراچی میں ایک بڑا جلسہ کرنا اور پھر ایک ہفتہ کے نوٹس پر مینار پاکستان میں پروگرام کرنا کوئی آسان بات نہیں، مینار پاکستان کا نام آتے ہی سیاسی جماعتیں سوچوں میں پڑ جاتی ہیں۔ لیکن عمران خان نے کرکے دکھایا۔
نوید خان: عمران خان کے دو پس منظر ہیں جن میں سے ایک سیاسی ہے، بہت سے لوگوں کو یہ بھی نہیں معلوم ہوگا کہ عمران خان سیاست میں کیوں آئے۔ آج وہ روائتی سیاست کر رہے ہیں، لوگوں کو یہ بھی معلوم نہیں ہوگا کہ تحریک انصاف کے منشور میں کیا لکھا ہے۔ یہ چیزیں لوگوں کیلئے اہم نہیں ہیں لیکن میرے لئے بہت ہیں۔ رہی بات عمران خان کے جلسوں میں عوام کی بھرپور شرکت کی تو یہ ایک حقیقت ہے کہ لوگ عمران خان سے جنون کی حد تک عشق رکھتے ہیں، ان سے محبت کرتے ہیں۔ خان صاحب سے لوگ عیقدت رکھتے ہیں، وہ سمجھتے ہیں کہ وہ جو کہہ رہے ہیں وہ ٹھیک کہتے ہیں۔ جس طرح لوگ قائد اعظم سے عشق رکھتے ہیں۔ اس کی بڑی وجہ کرکٹ بھی ہے۔ ہمارے لوگ کرکٹرز سے بےانتہا محبت کرتے ہیں۔

اسلام ٹائمز: کرنٹ ایشوز پر عمران خان اور تحریک القادری میں کیا فرق ہے۔؟
نوید خان: عمران خان اور طاہرالقادری میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ عمران خان موجودہ جمہوری نظام میں رہتے ہوئے تبدیلی لانا چاہتے ہیں جبکہ ڈاکٹر صاحب موجودہ نظام کے حوالے سے زیادہ مضبوط موقف رکھتے ہیں، وہ پورے نظام کو تبدیل کرنا چاہتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں اس نظام میں رہتے ہوئے کوئی تبدیلی نہیں آ سکتی جبکہ عمران خان نے چار حلقوں کی بات ہے۔ خان صاحب اس نظام کے اندر کھیل رہے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب نے ایک وسیع پروگرام دیا ہے۔ انہوں نے لفظ انقلاب استعمال کیا ہے۔ جبکہ عمران خان نے نیا پاکستان کا لفظ استمعال کیا۔

اسلام ٹائمز: طاہرالقادری صاحب نے انہیں اپنا بڑا بھائی کہا ہے۔ اس پر کیا کہیں گے۔
نوید خان: جی بالکل انہوں نے عمران خان کو بڑا بھائی کہا ہے اور ساتھ یہ بھی کہا ہے کہ کیوں کہ عمران خان قد میں بڑے ہیں تو اس لئے وہ میرے بڑے بھائی ہیں اور میں کیوں کہ ان سے عمر میں بڑا ہوں تو اس لئے ان کا بڑا بھائی ہوں۔ باقی آپ خود سمجھ سکتے ہیں اور اس کا بہترین جواب قادری صاحب ہی دے سکتے ہیں۔

اسلام ٹائمز: میاں صاحب کی ڈیڑھ سال کی کارکردگی پر کیا کہیں گے۔؟
نوید خان: نواز شریف کی فقط یہ حکومت نہیں بلکہ انہوں نے اپنے سابقہ ادوار میں بھی عوام کو کچھ نہیں دیا۔ انیس سو پچاسی سے یہ سیاست میں پیسے کا استمعال کررہے ہیں، یہ ضمیر خریدتے ہیں، اس وقت سیاست کو تجارت سے دور کرنے کی ضرورت ہے۔ پاکستان کی تاریخ میں اتنے قرضے نہیں لئے گئے جتنے ان چودہ ماہ میں لئے گئے ہیں۔ اپنے رشتہ داروں کو حکومت میں لے آئے ہیں، جو اپنے بزنس بھی کررہے ہیں اور حکومت بھی کررہے ہیں۔ تجارت کو سیاست سے الگ کرنے کی اشد ضرورت ہے اور یہ پاکستان کی بقاء کا مسئلہ ہے۔ بھائی، بھتیجے، بھانجے، سمدی اور پتہ نہیں کتنے رشتہ دار حکومت میں ہیں۔ یہ پاکستان کی تاریخ کی کرپٹ ترین اور نااہل ترین حکومت ہے۔ اگر یہ حکومت مزید رہی تو پاکستان کی بقاء خطرے میں پڑ جائیگی۔

اسلام ٹائمز: پاکستان کی خارجہ پالیسی کے حوالے سے کیا کہیں گے؟۔
نوید خان: پاکستان کی خارجہ پالیسی کبھی بھی آزاد نہیں رہی۔ امریکہ اور سعودی عرب ہمیں پیسہ دیتا ہے لیکن آپ ڈونیشن کی تاریخ اٹھا کر دیکھ لیں اس سے غریب عوام کی زندگی اجیرن ہوئی ہے اس پر کوئی مثبت اثر نہیں پڑا۔ کیوں بھکاری کبھی انتخاب کرنے والا نہیں ہوا کرتا۔ یہ بھکاری لوگ ہیں۔ سعودی عرب نے ہمیشہ اس وقت پیسے دیئے جب امریکہ اور ورلڈ بینک نے نہیں دیئے ہیں۔ جب تک پاکستان کی خارجہ پالیسی آزاد نہیں ہوگی، خودی کی بنیاد پر خارجہ پالیسی ترتیب نہیں دی جائیگی تب تک ہم مسائل کا شکار رہیں گے اور ہم آگے نہیں بڑھ سکتے۔ جب تک امریکہ اور سعودی عرب سے پیسے لیتے رہیں گے اس وقت تک اہم ان ممالک کے ماتحت رہیں گے جو خارجہ پالیسی پر اثر انداز ہوتے رہیں گے۔ اس لئے ان قرضوں سے اجتناب کرنا ہوگا۔ ہم دنیا کی عظیم قوم ہیں، جہاں چاروں موسم، تمام فصلیں، جفا کش لوگ، اٹھارہ کروڑ ہیومن ریسورس موجود ہے، ہمارے پاس کافی سارے ذخائر ہیں لیکن کارآمد سیاستدان نہیں۔

اسلام ٹائمز: فرقہ وارنہ مسائل کو کس نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ اس کے پیچھے کون ہے جو ہوا دے رہا ہے۔؟
نوید خان: ہم نے اللہ کے اس قول پر عمل نہیں کیا، جس میں اللہ تعالی نے کہا کہ اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھامو اور تفرقہ میں نہ پڑو، اس وقت پاکستان میں ہر طرح کی فرقہ واریت ہے۔ سیاسی اور لسانی فرقہ واریت بھی ہے، ہر بندہ کہتا ہے کہ میں اعوان ہوں، آرائیں ہوں، جٹ ہوں، پاکستانیت پر کوئی فخر نہیں کرتا۔ جہاں تک مذہبی فرقہ واریت کا تعلق ہے اس کی بنیادی وجہ بیرونی مداخلت اور فنڈنگ دونوں ہے، جس ملک میں دہشتگردوں کو قانون سپورٹ کرے، ہزاروں لوگوں مر چکے ہیں، کتنے لوگوں کو سزا دی گئی، جو پکڑے گئے انہیں عدالتوں نے چھوڑ دیا۔ قانون میں اتنے نقائص اور سکم موجود ہیں جنہیں دور نہیں کیا گیا۔

اسلام ٹائمز:کیا وجہ ہے کہ آج تک پاک ایران تعلقات اس طرح آگے نہ بڑھ سکے جس انداز میں آگے بڑھانا چاہیئے تھے۔ پاک ایران گیس پائپ لائن سڑسٹھ برسوں میں واحد معاہدہ ہے جو ہوا بھی تو اب کھٹائی میں نظر آرہا ہے۔
نوید خان: ہماری یہ بدقسمتی ہے کہ ہم نے ہمیشہ غیروں کا ساتھ دیا اور غیر مسلموں سے دوستی کی، ہم نے اپنے ہمسایہ ممالک جو مذہب کے حوالے سے ہمارے قریب ہیں ان کا ساتھ نہیں دیا۔ میں سمجھتا ہوں کہ ایران کو اتنا نقصان غیروں نے نہیں پہنچایا جتنا ہم مسلمانوں نے نقصان پہنچایا ہے۔ مسلم ممالک نے ایران کے ساتھ غیروں سے بڑھ کر سلوک کیا ہے، ایرانی باغیرت قوم ہے، ایران کے اندر قانون کی عمل داری ہے، ایرانی قوم نے بہت قربانیاں دی ہیں، ایرانی رہنما عالم اسلام کے رہنماوں سے مختلف ہیں، آپ ڈاکٹر محمود احمدی نژاد کو دیکھیں، جب وہ امریکہ جاتا ہے تو اس کا کورٹ پھٹا ہوا ہوتا ہے، وہ سادگی کی بہترین مثال ہے، جب کہ دوسری جانب پاکستانی رہنماوں کو دیکھ لیں، وی آئی پی کلچر کو فروغ دیتے ہیں۔ ہمارے حکمران بیس بیس لاکھ کے کورٹ پہنتے ہیں، کیا مقروض ملک کے رہنماوں کو اسیا کرنا چاہیئے۔ ایرانی قوم ایک عظیم قوم ہے۔

اسلام ٹائمز: سنا ہے کہ آپ نے ایرانی صدر احمدی نژاد کو ایک خط بھی لکھا تھا، ہمارے قارئین کو اس خط کی تفصیلات بتائیں۔
نوید خان: عالم اسلام میں ڈاکٹر محمود احمدی نژاد میرے پسندیدہ لیڈر ہیں۔ میں نے انہیں صدر بننے پر مبارک باد کا خط لکھا تھا، ایسا بہت کم ہوتا ہے کہ کوئی عام آدمی کسی ملک کے صدر کو خط لکھے اور اس ملک کا صدر اسے جواب دے لیکن کیوںکہ احمدی نژاد ایک حقیقی لیڈر تھے اس لئے انہوں نے خط کا جواب دیا۔ میرے خط کا جواب ایرانی سفیر آغا سراج موسوی کے توسط سے مجھے ملا تھا اور مجھے انہوں نے فون کیا تھا کہ میں آپ سے ملنا چاہتا ہوں جب میں ملا تو انہوں نے انتہائی عقیدت سے مجھ اپنے صدر محترم کا خط پیش کیا اور کہا جو خط آپ نے صدر احمدی نژاد کو لکھا تھا اس کا جواب آیا ہے اور مجھے ہدایت ملی ہے کہ میں خود آپ کو یہ خط پہنچائوں۔ جب صدر احمدی نژاد پاکستان آئے تو اس وقت بھی انہوں نے مجھے فون کرایا اور ملاقات کی اور خط لکھنے پر شکریہ ادا کیا۔ یہ میرے لئے بہت بڑے اعزاز کی بات تھی۔ ان لمحات کو کبھی بھلا نہیں سکتا۔ ایسی مثالیں بہت کم ملتی ہیں۔


خبر کا کوڈ: 412371

خبر کا ایڈریس :
https://www.islamtimes.org/ur/interview/412371/جمہوری-اسلامی-ایران-کو-اتنا-نقصان-امریکہ-اور-اسرائیل-نے-نہیں-پہنچایا-جتنا-ممالک-ہے-نوید-خان

اسلام ٹائمز
  https://www.islamtimes.org