0
Wednesday 8 Oct 2014 22:55
حکمران جمہوریت کی بجائے کرسی بچانے کے چکروں میں ہیں

وزیرستان سمیت پورے ملک سے دہشتگردی کو جڑ سے اُکھاڑ پھینکنا ہوگا، ڈاکٹر عنایت اللہ خان

سیاسی معاملات کو ہر حال میں سیاسی جماعتوں کو ہی حل کرنا چاہیئے
وزیرستان سمیت پورے ملک سے دہشتگردی کو جڑ سے اُکھاڑ پھینکنا ہوگا، ڈاکٹر عنایت اللہ خان
ڈاکٹر عنایت اللہ خان عوامی نیشنل پارٹی بلوچستان کی سینٹرل کونسل کے ممبر ہیں۔ آپ 1943ء کو بلوچستان کے علاقے گلستان میں پیدا ہوئے۔ آپ گذشتہ سات سالوں سے عوامی نیشنل پارٹی سے منسلک ہیں۔ آپ ایک مرتبہ سابق رکن بلوچستان اسمبلی بھی رہے ہیں۔ تحریک اںصاف اور پاکستان عوامی تحریک کے احتجاجی دھرنوں کے مستقبل اور انتخابی دھاندلی کی تحقیقات سمیت دہشتگردوں کیخلاف آپریشن کے حوالے سے ’’اسلام ٹائمز‘‘ نے ایک مختصر انٹرویو کیا، جو قارئین کے لئے پیش ہے۔ (ادارہ)

اسلام ٹائمز: کیا موجودہ حکومت پر دھاندلی کے الزامات کو آپ درست سمجھتے ہیں۔؟
ڈاکٹر عنایت اللہ خان: پاکستان کی آزادی سے لیکر آج تک جتنے بھی انتخابات ہوئے ہیں، سب میں‌ کسی نہ کسی طرح دھاندلی ہوئی ہے۔ انتخابی عمل میں بےشک بہت سی خامیاں اور شکوک و شبہات موجود ہیں۔ اس عمل اور ادارے کو غیر جانبدار اور مضبوط بنانے کیلئے ابھی مزید وقت درکار ہے۔ ایک تو پہلے سے آمرانہ قوتوں کی وجہ سے ملک تباہی کے دہانے پر کھڑا ہے اور اب سیاسی جماعتوں کی غیر سنجیدگی کی وجہ سے مسائل میں مزید اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ ایک مضبوط جمہوری پاکستان کیلئے تمام سیاسی جماعتوں کو اپنے پارٹی مفادات سے بالاتر ہوکر ایک شفاف انتخابی عمل کو ممکن بنانا ہوگا۔ جہاں تک گذشتہ انتخابات کی بات ہے تو وہ بھی زیادہ شفاف نہیں تھے۔ عمران خان اور طاہرالقادری صاحب کے تحفظات بھی دور کرنے چاہیئیں۔ ہماری جماعت کو بھی اس بارے میں تشویش ہے، کہ انتخابات میں دھاندلی ہوئی۔ اس عمل کیلئے ایک شفاف جوڈیشنل ٹیم کی تشکیل ناگزیر ہے۔ اسکے برعکس احتجاج کرنے والوں کو بھی اس بات کا خیال رکھنا ہوگا کہ انکے کسی بھی عمل سے غیرجمہوری قوتوں کے فائدہ نہ پہنچے۔ یہ ملک بڑی قربانیوں کے بعد اس نہج تک پہنچا ہے۔ لہذٰا کوئی بھی غیرمعقول حرکت اسے نقصان پہنچا سکتی ہے۔

اسلام ٹائمز: دونوں حریف کے درمیان مذاکراتی عمل میں فوج کے کردار کو کس طرح دیکھتے ہیں۔؟
ڈاکٹر عنایت اللہ خان: یہ سیاسی معاملہ ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ اس مسئلے کو صرف سیاسی جماعتیں ہی حل کرسکتی ہیں، بلکہ انہیں ہی حل کرنا ہوگا۔ سب سے پہلے تو خود نوازشریف صاحب کی جانب سے انہیں مذاکراتی عمل میں شریک کرنا ایک غیر معقول حرکت تھی۔ جس کی وجہ سے پارلیمنٹ کی کارکردگی پر بھی سوالیہ نشان آن پڑا تھا لیکن بعدازاں انکے اس معاملے سے علیحدگی اختیار کرنا اچھا اقدام تھا۔ موجودہ وقت میں وزیرستان سمیت دیگر معاملات میں‌ فوج پہلے ہی سے مصروف ہے۔ لہذٰا تمام سیاسی جماعتوں کو چاہیئے کہ وہ انکی سپورٹ کیلئے کھڑی ہوں۔ دہشتگردی کی لعنت کا مقابلہ کرنے کیلئے ہر شخص کو مشترکہ جدوجہد کرنی ہوگی۔ اب کسی بھی دفاعی ادارے کو سیاسی معاملے میں داخل کرنا انتہائی نقصان دہ ہوگا۔

اسلام ٹائمز: دو مہینے گزرنے کے باوجود حکومت دھرنے کے شرکاء کے مطالبات ماننے کو تیار نہیں۔ ان دھرنوں کے مستقبل کو آپ کس طرح دیکھتے ہیں۔؟
ڈاکٹر عنایت اللہ خان: اسلام آباد سمیت دیگر شہروں میں اس سیاسی معاملے نے ملک کو بحرانی کیفیت سے دوچار کیا ہوا ہے۔ جتنا یہ احتجاجی دھرنا لمبا ہوتا جارہا ہے، اتنا ہی حکومت اور مارچ والوں پر پریشر بڑھتا جا رہا ہے۔ اس ڈیڈلاک سے حکومت کو بھی نقصان ہو رہا ہے اور عمران خان و ڈاکٹر قادری صاحب کی پریشانیاں بھی بڑھ رہی ہیں۔ اب اس موقع پر سیاسی جرگے نے معاملات کو سلجھانے کی کوشش تو کی، مگر کوئی خاص کامیابی انہیں بھی نہیں ملی۔ حکومت کی جانب سے سختی کی وجہ سے معاملات یہاں تک آ پہنچے ہیں۔ اسی طرح عمران خان صاحب بھی اپنی پالیسی میں لچک کا مظاہرہ نہیں کر رہے۔ دھرنوں کا مستقبل جو بھی ہو، کامیابی اس جمہوری عمل اور پاکستان کو ہونی چاہیئے۔

اسلام ٹائمز: دہشتگردوں کیخلاف کاروائی کیلئے تو وزیراعظم صاحب نے کھل کر کبھی بات ہی نہیں کی لیکن انتخابی دھاندلی کی تحقیقات اور احتجاجی دھرنوں کو روکنے کیلئے قوم سے خصوصی خطاب بھی کرلیا۔؟
ڈاکٹر عنایت اللہ خان: اسی بات کا تو رونا ہے کہ حکمران جمہوریت کی بجائے کرسی بچانے کے چکروں میں ہیں۔ حکومت کو شروع دن سے ہی انتخابی دھاندلی کے الزامات کی تحقیقات کرنی چاہیئے تھی لیکن وہ ٹال مٹول سے کام لیتے رہے۔ جسکی وجہ سے معاملات خراب ہو گئے۔ دہشتگردوں کیخلاف ہماری جماعت نے شروع دن سے ٹھوس موقف اپنایا اور ہمارے رہنماؤں کو شہید بھی کیا گیا جس پر ہمیں فخر ہے لیکن خوف کی وجہ سے بعض جماعتیں انکے خلاف بات کرنے سے بھی ڈرتی ہیں۔ اب یہاں تک پہنچنے کے بعد نواز شریف سمیت تمام جماعتوں کو دہشتگردی کیخلاف مشترکہ جدوجہد کرنی ہوگی۔

اسلام ٹائمز: کیا صرف وزیرستان میں فوجی آپریشن کرنے سے شدت پسندی کا خاتمہ ممکن ہے یا اسکے لئے پورے ملک میں ٹارگٹڈ آپریشن کرنا ہوگا۔؟
ڈاکٹر عنایت اللہ خان: ہماری جماعت کے سربراہ ارباب عبدالظاہر کاسی صاحب تو اسی شدت پسندانہ سوچ کی وجہ سے کئی مہینوں تک طالبان کے قید میں رہے۔ گذشتہ تیس سالوں سے انکی جڑیں پورے ملک میں مضبوط ہو چکی ہیں۔ لہذٰا انکے مرکزی نیٹ ورک کو وزیرستان میں ختم کرنے کے بعد پاکستان کے دیگر علاقوں میں بھی انکو جڑ سے ختم کرنا ہوگا۔ اگر ایک مرتبہ پھر ان سے چشم پوشی اختیار کی گئی تو دوبارہ کشت و خون کا بازار گرم ہوجائے گا۔ جس طرح اب بھی کراچی، پشاور اور کوئٹہ سمیت دیگر علاقوں میں انکی کاروائیاں جاری ہیں۔

اسلام ٹائمز: ارباب عبدالظاہر کاسی کو اغواء کرنے کا مقصد کیا تھا۔؟
ڈاکٹر عنایت اللہ خان: دہشتگرد اغواء برائے تاوان کے ذریعے اپنے عسکری عزائم کو جاری رکھتے ہیں لیکن جب ارباب صاحب کو اغواء کیا گیا تو ہم نے دوٹوک الفاظ میں ایک روپیہ بھی دینے سے انکار کردیا۔ طالبان نے دو ارب روپے کی رقم تاوان کے طور پر مانگی تھی۔ لیکن ہم پارٹی اصولوں پر کاربند رہے۔ اسی طرح ارباب صاحب کو بھی پیسے کی خاطر اغواء کیا گیا۔ تاہم ابھی تک ہمیں معلوم نہیں کہ انہیں کیوں رہائی دی گئی اور اسکے پیچھے کس کا ہاتھ تھا۔ ہم خدا کا شکر ادا کرتے ہیں کہ وہ سلامتی سے اپنے گھر پہنچے ہیں۔
خبر کا کوڈ : 413745
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش