0
Wednesday 15 Oct 2014 12:22
وفاقی حکومت اور عسکری قیادت کے تعاون کی ضرورت ہے

بلوچستان میں مخلوط حکومت کیوجہ سے مسائل حل کرنے میں مشکلات پیش آرہی ہیں، میر رحمت بلوچ

دہشتگردی کا بیج اسلام آباد کے ایک مخصوص مائنڈ سیٹ نے بویا
بلوچستان میں مخلوط حکومت کیوجہ سے مسائل حل کرنے میں مشکلات پیش آرہی ہیں، میر رحمت بلوچ
میر رحمت علی بلوچ نیشنل پارٹی کی مرکزی سینٹرل کمیٹی کے رکن و صوبائی وزیر صحت بلوچستان ہیں۔ آپ یکم جنوری 1975ء کو بلوچستان کے علاقے پنجگور چٹکان میں پیدا ہوئے۔ آپ محمد صالح بلوچ کے صاحبزادے ہیں۔ اپنی ابتدائی تعلیم پنجگور سے حاصل کی اور 1997ء کو اپنے آبائی شہر سے گریجویشن مکمل کی۔ آپ 2002ء میں بھی ممبر بلوچستان اسمبلی رہے ہیں جبکہ 2013ء میں ایک مرتبہ پھر الیکشن جیتنے اور پارٹی کو وزارت عظمٰی ملنے کے بعد آپ کو کابینہ کا رکن منتخب کیا گیا۔ بلوچستان کی مجموعی سیاسی و معاشی صورتحال کے علاوہ بلوچ مزاحمت کاروں سے مذاکرات کے حوالے سے ’’اسلام ٹائمز‘‘ نے ایک مختصر انٹرویو کیا، جو قارئین کے لئے پیش ہے۔ (ادارہ)

اسلام ٹائمز: بلوچستان میں دہشتگردی کی روک تھام کیوں نہیں ہو پا رہی۔؟
میر حمت بلوچ: کوئٹہ سمیت ملک بھر میں جو حالات نظر آ رہے ہیں، یہ وہ بیج ہے جو اسلام آباد کے ایک مخصوص مائنڈ سیٹ نے بویا تھا۔ جس کی وجہ سے آج سب اس کے شکار ہورہے ہیں۔ اس وقت ہمارے قائدین نے کہا تھا کہ مہربانی کریں، اپنی جنگ میں ہمیں نہ ڈالیں۔ ایسا نہ ہو کہ آج افغانستان کو ٹارگٹ کر رہے ہیں۔ کل اسی میزائل اور اسی کلاشنکوف کا رخ اسلام آباد کی جانب ہوگا۔ آج وہی ہو رہا ہے اور اسکا خمیازہ ہم موجودہ صورتحال کی صورت میں بھگت رہے ہیں۔ جس کے پاس بندوق ہے وہ ٹرم اینڈ کنڈیشن کا تعین کرتا ہے۔ ہر جگہ قدغن لگی ہوتی ہیں۔ پاکستان میں جمہوریت پسند عوام نے جمہوریت کے فروغ کیلئے بے شمار قربانیاں دی ہیں۔ آمروں کیساتھ آمریت کیخلاف جمہوریت کیلئے ہر سطح پر مقابلہ کیا ہے، جسکے مثبت نتائج سامنے آئے۔ جو سازشی عناصر پاکستان میں جمہوریت کو ڈی ریل کرنا چاہتے تھے اور آمریت کو لانا چاہتے تھے، آج بھی جمہوریت کیخلاف سازشوں میں مصروف ہیں۔

بلوچستان میں مشکلات اس وقت دو نوعیت کی ہیں۔ ایک سیاسی اور دوسری معاشی۔ سیاسی مشکلات کو ہم تین چار حصوں میں ڈال دیتے ہیں۔ جب نیشنل عوامی پارٹی پر پابندی عائد کی گئی۔ اسکے بعد بلوچ پشتون سے پھر بلوچ بھی بلوچ سے علیحدہ ہوگیا۔ ہم نواب خیر بخش کے کھاتے میں پڑ گئے۔ ہم نے میر غوث بخش بزنجو کی سیاست سے اختلاف کیا۔ اس وقت ایرانی انقلاب اور افغان انقلاب کی باتیں گردش کر رہی تھی۔ ہم یہ سمجھ رہے تھے کہ ہم دنیا میں انقلاب لا رہے ہیں۔ بلوچستان میں مذہبی انتہا پسندی ہے۔ ایک ایسا کھیل کھیلا جا رہا ہے جسکی وجہ سے معصوم عوام دہشتگردی کا شکار ہو رہے ہیں۔ خاص طور پر شیعہ ہزارہ قوم کو اسکا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ جب ہمیں وزارت عظمٰی کی ذمہ داری سونپی گئی تو ان تمام چیلنجز کا سامنا تھا۔ یہ کسی سے ڈھکی چھپی چیز نہیں۔ ان حالات کو کنٹرول کرنے کیلئے مثبت حکمت عملی کیساتھ ساتھ وفاقی حکومت اور عسکری قیادت کے تعاون کی ضرورت تھی۔ ہم نے بلوچستان کا کیس وفاق اور خصوصی طور پر وزیراعظم میاں محمد نواز شریف اور عسکری قیادت کو تفصیلی حقائق اور ثبوت کے ساتھ بتایا۔ وزیراعظم میاں محمد نواز شریف نے ہمیں یقین دہانی کروائی، جب ہم بلوچستان میں حکومت بنا رہے تھے ہم نے میاں صاحب سے کہا ہمارا سب سے بڑا مسئلہ لاپتہ افراد اور مسخ شدہ لاشوں کا ملنا ہے۔ جب تک آپ تعاون نہیں کرینگے ہمیں کامیابی حاصل نہیں ہوگی۔

بیڈ گورننس کی وجہ سے بلوچستان میں گذشتہ دس برسوں میں صورتحال ابتر رہی۔ اس عرصے میں کسی بھی حکومت نے قابل ذکر سنجیدگی سے کام نہیں کیا۔ حکومتیں بھی بنیں، وزارتیں بھی ملیں لیکن عوام کیلئے کوئی ایسا اقدام نہیں کیا گیا جس سے یہاں کے عوام کی محرومی اور تحفظات کا ازالہ کرکے ان کا اعتماد حاصل کیا جا سکے۔ ان حکومتوں‌ کی نااہلی، عدم توجہی کی وجہ سے عوام میں محرومیوں نے جنم لیا۔ اسی وجہ سے گذشتہ انتخابات مشکل ترین الیکشن تھے۔ مجھ سمیت میری جماعت کا کوئی ایسا رکن نہیں جس پر تین چار بار حملے نہ ہوئے ہوں۔ خاص طور پر پنجگور، آواران اور تربت میں ایسا خوف کا ماحول تھا کہ ووٹروں کو گھروں سے باہر لانا ناممکن کام تھا۔ انہی حالات کی وجہ سے حکومت نے پولیس سمیت دیگر فورسز کی تقرریوں میں مداخلت نہیں کی، جسکی وجہ سے حالات میں بہتری آئی۔ بلوچستان میں مسلح گروہوں کے دستے مختلف شکل میں، 72 ونگ گینگسٹر کے تھے۔ انکی وجہ سے کوئی بس کراچی سے کوئٹہ نہیں پہنچ سکتی تھی۔ سب سے پہلے ان کیخلاف کاروائی کی گئی۔

اسلام ٹائمز:‌ پشتون، بلوچ اور ہزارہ سمیت دیگر اقوام کے درمیان تعلقات کو کسطرح دیکھتے ہیں۔؟
میر حمت بلوچ: ہم کسی نہ کسی طرح عوام کو ایک ساتھ کھڑا کرنا چاہتے ہیں۔ عوام کے درمیان جو نفرتیں، ہمالیہ کے پہاڑ کی طرح حائل کردی گئی ہیں، انہیں ہم کس طرح گرا سکتے ہیں۔ بظاہر یہ کھٹن منزل ضرور نظر آتی ہے لیکن جذبے اور یقین سے یہ منزل عوام کی منزل ہے۔ جمہوریت پسند عوام کے تمام راستے اسی منزل کے حصول کیلئے ہیں، جسکے لئے جمہوریت ترقی پسند سیاسی کارکن رواں دواں ہیں۔

اسلام‌ ٹائمز: سکیورٹی فورسز کے درمیان امن و امان کو یقینی بنانے کیلئے کس حدتک ہم آہنگی ہے۔؟
میر حمت بلوچ: میں سمجھتا ہوں کہ کوئٹہ میں ایف سی، پولیس، لیویز سمیت تمام سکیورٹی فورسز کو آپس میں ایک دوسرے کو سپورٹ کرنا چاہیئے۔ انتظامی فریم ورک غیر فعال ہونے کی وجہ سے صورتحال خراب تھی، مگر اب آہستہ آہستہ یہ مسئلہ بھی حل ہوتا جا رہا ہے۔

اسلام ٹائمز: صوبے کے مسائل کو حل کرنے میں سب بڑی رکاوٹ کیا ہے۔؟
میر حمت بلوچ: ہم نے سخت حالات بھی دیکھے ہیں۔ مارشل لاء کے ادوار سے بھی گزر چکے ہیں۔ لیکن جتنی مشکلات ہمیں حکومت میں رہتے ہوئے پیش آرہی ہے وہ بہت زیادہ ہیں۔ ایک جانب ایکس پٹیشن ہیں۔ جیسے ہم کوئی انقلاب لائے ہیں۔ دوسری جانب مخلوط حکومت میں پسے ہوئے ہیں۔ ایسی مخلوط حکومت ہے کہ روزانہ حساب کتاب ہوتا ہے۔ کبھی ایک ناراض ہوتا ہے تو کبھی دوسرا۔ لہذٰا اسی وجہ سے مسائل کو حل کرنے میں کافی مشکلات درپیش آتی ہیں۔

اسلام ٹائمز: بیرون ممالک مقیم ناراض بلوچ قائدین اور ان سے ملاقات میں کیا پیشرفت ہو پائی ہے۔؟
میر حمت بلوچ: جہاں تک ناراض بلوچ کی بات کی جاتی ہے تو یہ ناراضگی نہیں بلکہ باقاعدہ ایک مائنڈ سیٹ ہے۔ جو 1948ء سے کام کر رہا ہے۔ ہماری خواہش ہے کہ تمام وسائل بروئے کار لاکر مذاکرات کی راہ ہموار کی جائے۔ اب تک اس سلسلہ میں کوئی خاطر خواہ کامیابی حاصل نہیں ہو سکی۔ ہماری کوشش ہے کہ بلوچ مزاحمت کار قومی سوال چھوڑ کر سیاسی و جمہوری جدوجہد سے منسلک ہو جائیں۔ اس مسئلے کے حل کیلئے بیٹھ کر بات چیت کریں۔ جو ناراض بلوچ اس معاملے میں موضوع ہے، ان سے ملاقات نہیں ہوئی۔ البتہ بلوچ کمیونٹی جو لندن، یورپ اور مڈل ایسٹ میں ہے۔ ان سے ہماری بات چیت ہو رہی ہیں۔ جہاں تک اندروں بیٹھے بلوچوں سے بات چیت کا تعلق ہے، تو میرا ان سے کوئی رابطہ نہیں۔ یقیناً ان سے بات چیت ہو سکتی ہے اور اسکے امکانات کو رد نہیں کیا جا سکتا۔
خبر کا کوڈ : 414720
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش