0
Saturday 18 Oct 2014 23:59
مکتب تشیع نے ہمیشہ استعمار کو للکارا ہے

عالم اسلام کے مسائل کا حل حقیقی دشمن کی پہچان، رہبریت سے تمسک اور آپس میں اتحاد ہے، تہور عباس حیدری

عالم اسلام کے مسائل کا حل حقیقی دشمن کی پہچان، رہبریت سے تمسک اور آپس میں اتحاد ہے، تہور عباس حیدری
امامیہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن پاکستان کو ملکی اور قومی تاریخ میں نہایت اہم مقام حاصل ہے۔ گذشتہ ماہ تنظیم کے سالانہ مرکزی کنونشن کے موقع پر امامیہ طلبہ کے نئے میر کارواں کا انتخاب عمل میں آیا۔ نئے تنظیمی سال کے آغاز میں نو منتخب مرکزی صدر کیساتھ تنظیمی اور قومی حوالے سے اسلام ٹائمز کی مختصر لیکن اہم گفتگو، قارئین کے استفادہ کے لیے پیش ہے۔ تہور عباس حیدری مینجمنٹ سائنسز کے طالب علم ہیں اور ملتان ڈویژن کے صدر، مرکزی جنرل سیکرٹری سمیت تنظیم کے متعدد عہدوں پر اپنی ذمہ داریاں انجام دے چکے ہیں۔

اسلام ٹائمز: تنظیمی ذمہ داری ایک گراں مسئولیت بھی ہے اور اعزاز بھی، آپکی خدمت میں ہدیہ تبریک عرض ہے۔ سابقہ تنظیمی تجربے کی بنیاد پہ بتائیں کہ آپکے خیال میں اسوقت تنظیم کہاں کھڑی ہے، نئے تنظیمی سال کے آخر تک اسکی منزل کیا ہوگی۔؟
تہور عباس حیدری: تنظیموں کی فعالیت میں نشیب و فراز ایک فطری عمل ہے، اسی طرح آئی ایس او بھی اس مرحلہ سے خالی نہیں ہے، اسکی فعالیت میں بھی مختلف ادوار آتے رہے ہیں، لیکن الحمداللہ، پہلے کی طرح اب بھی آئی ایس او اپنے پاکیزہ اہداف کے ساتھ منزل کی طرف گامزن ہے، لیکن وقت کی تبدیلی کے ساتھ بہت سی چیزیں درست اور بہتر کرنے کی ضرورت رہتی ہے، ہر آنے والے مسئول کی خواہش ہوتی ہے کہ تمام شعبہ جات میں کام کیا جائے۔ لیکن آپکا سوال ہے منزل کیا ہوگی؟ تو ہماری کوشش یہ ہے کہ امسال افراد سازی اور تنظیم سازی پر کام کیا جائے اور کوشش ہوگی کہ اس سال کے آخر تک نئے تنظیمی کارکنان کی تیاری کے حوالے سے کام کرسکیں اور ہمارے لئے یونٹس میں گراﺅنڈ لیول پر، کام انتہائی اہمیت کا حامل ہوگا۔ انشاءاللہ۔

اسلام ٹائمز: تنظیمی ذمہ داری ایک سال کیلئے ہوتی ہے، سارا بوجھ بھی موجودہ مسئولین کے کاندھوں پر ہوتا ہے لیکن سابقین یا گذشتگان کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا ہے۔ آپکی نظر میں نئے سال میں امامینز کیلئے کیا ہدف مقرر کیا جاسکتا ہے۔؟
تہور عباس حیدری: تنظیم میں موجودہ افراد یا کارکنان ہی اپنا کلیدی کردار ادا کرتے ہیں، لیکن محبین، سابقین اور کارکنان یعنی ممبران، ایک ایسی مثلث ہیں جو آئی ایس او کی مضبوطی و فعالیت کا باعث ہیں۔ تنظیمی فعالیت کے لئے سابقین کے کردار کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا اور موجودہ دور میں، جب آئی ایس او شعبہ جات سے ادارہ جات تک کا سفر طے کر رہی ہے، ان اداروں کی فعالیت کے لئے سابقین جو کہ تنظیم کا اثاثہ و سرمایہ ہیں، کو فعال و متحد کرنے کی ضرورت ہے۔ لہذا آئی ایس او کے تمام ادارہ جات کی فعالیت و بہتری کے لئے سابقین سے استفادہ حاصل کیا جائے گا۔

اسلام ٹائمز: تنظیم کے تمام شعبے مساوی اہمیت کے حامل ہوتے ہیں، آپ نئے سال کیلئے کس میدان کو اولیت دیں گے، تنظیمی عمل یا طلبہ سیاست۔؟
تہور عباس حیدری: تنظیمی عمل ہی اس وقت ہماری اولین ترجیح ہے، افراد سازی، یونٹ سازی، تنظیم سازی اور افراد کی تنظیمی تربیت ہماری اولین کوشش ہے، پوری کوشش کریں گے کہ آئی ایس او اپنا قومی چہرہ برقرار رکھتے ہوئے، تنظیمی عمل تیز تر انداز میں انجام دے۔

اسلام ٹائمز: آئی ایس او ملت تشیع کا قومی اثاثہ اور امامیہ طلبہ قوم کی امیدوں کا مرکز ہیں، لیکن یہ تاثر کیوں ہے کہ تنظیم صرف ایک قومی جماعت کے ہاتھوں یرغمال ہے۔؟ اس میں صداقت ہے یا یہ ڈس انفارمیشن ہے۔؟
تہور عباس حیدری: یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ آئی ایس او اپنے فیصلوں میں خود مختار ہے، ہاں جہاں تک قومی جماعت کیساتھ تعاون کا تعلق ہے تو یہ آئی ایس او کی پالیسی اور شرعی وظیفہ ہے کہ جو بھی ملت تشیع کی مضبوطی اور اس کے تحفظ کے لئے کام کر رہا ہو، آئی ایس او ہمیشہ اس کا ساتھ دیتی ہے اور دیتی رہے گی۔ آئی ایس او پالیسی میکنگ کے لئے اپنے واضح ادارہ جات رکھتی ہے، نظارت، اجلاس عاملہ، اجلاس عمومی آئی ایس او کے فیصلہ ساز ادارے ہیں، جو کہ اس کی خود مختاری کا ثبوت ہیں کہ تنظیم اپنے فیصلے خود کرتی ہے۔

اسلام ٹائمز: اسوقت پاکستان سمیت دنیا کے شیعہ نشین مناطق، سخت ترین حالات کا شکار ہیں، اسکے اسباب کیا ہیں اور آپکی نگاہ میں اسکا حل کیا ہے۔؟
تہور عباس حیدری: یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ ہمیشہ استعمار، استکبار جس چیز سے خائف رہا ہے یا جس طاقت نے اٹھ کر ان ظالموں کا مقابلہ کیا ہے، وہ مکتب تشیع ہے۔ عالم اسلام میں بھی آج تک کسی نے مزاحمت کی ہے یا آواز حق بلند کی ہے اور استعمار کو للکارا ہے تو وہ مکتب تشیع ہے اور اسی طرح امام راحل، امام خمینی کی اسلامی تحریک کی کامیابی کے بعد استعمار زیادہ خوفزدہ ہے کہ کہیں یہ اسلامی انقلاب پورے عالم اسلام میں نہ پھیل جائے، یہی وجہ ہے کہ شیعہ نشین مناطق کو نشانہ بنا رہے ہیں، تاکہ خانہ جنگی کی فضاء پیدا کرکے اپنے مذموم مقاصد کی تکمیل کی جاسکے۔ جہاں تک اس کے حل کی بات ہے، اس کا حل استعمار شناسی، حقیقی دشمن کی پہچان، رہبریت سے تمسک اور مسلمانوں کا آپس میں اتحاد ہے، اسرائیل کے مقابل حماس کی کامیابی آپکے سامنے ہے، جو نظام ولایت سے تمسک کا نتیجہ ہے۔

اسلام ٹائمز: بین الاقوامی اور پیچیدہ قومی صورتحال میں پاکستانی قوم بالخصوص نوجوانوں کا کیا کردار ہوسکتا ہے۔؟
تہور عباس حیدری: نوجوان کسی بھی قوم و ملت کی ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں، ملک عزیز پاکستان اس وقت مشکلات کا شکار ہے، استعماری مداخلت نے ہماری طاقت کو پراگندہ کر دیا ہے، گویا بین الاقوامی سطح پر ہم سرنڈر کی پوزیشن پر کھڑے ہیں، ایسے میں نوجوانون کا فریضہ ہے کہ علمی اور ثقافتی محاذ پر اپنی خدمات انجام دیں اور حقیقی دشمن کے خلاف عوامی شعور کو اجاگر کریں۔

اسلام ٹائمز: محرم الحرام کی آمد آمد ہے، اس مناسبت سے کیا پیغام دینا چاہیں گے۔؟
تہور عباس حیدری: ماہ محرم عزت، شجاعت اور فداکاری کا مہینہ ہے۔ ہمارا فریضہ ہے کہ اس شعائر الٰہی کی حفاظت کریں، نوجونواں اس میں اہم کردار ادا کرسکتے ہیں، پیغام کربلاء، جس میں حماسیت، شجاعت اور شہادت کا پیغام ہے، کو لوگوں میں اجاگر کیا جائے، ماہ محرم میں قلوب گرم ہوتے ہیں، ہدایت کی طرف متوجہ ہوتے ہیں، پس اس کربلاء کے پیغام کہ جس میں امر بالمعروف کا درس ہے، کو پھیلایا جائے۔ عرض کروں گا کہ کربلاء سے قلبی و عملی رشتہ کو مضبوط سے مضبوط تر کریں۔
خبر کا کوڈ : 415265
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش