0
Wednesday 22 Oct 2014 13:33
داعش کیخلاف فوری کارروائی کی ضرورت ہے

پاکستان کے دیگر علاقوں میں بھی دہشتگردوں کیخلاف آپریشن ضرب عضب کیا جائے، صاحبزادہ ابوالخیر زبیر

پاکستان کے دیگر علاقوں میں بھی دہشتگردوں کیخلاف آپریشن ضرب عضب کیا جائے، صاحبزادہ ابوالخیر زبیر
ملی یکجہتی کونسل کے صدر صاحبزادہ ابوالخیر محمد زبیر کا شمار سنجیدہ مذہبی شخصیات میں ہوتا ہے، آپ جمعیت علمائے پاکستان کے مرکزی صدر ہونے کے ساتھ ساتھ تحریک تحفظ ناموس رسالت کے سربراہ بھی ہیں۔ آپ پاکستان میں حقیقی نظام مصطفٰی کے قیام کے لئے بھی عملی جدوجہد کر رہے ہیں اور اسی نظام کو پاکستان کی بقا اور سلامتی کی ضمانت سمجھتے ہیں۔ اسلام ٹائمز نے صاحبزادہ ابوالخیر محمد زبیر کے خصوصی انٹرویو کا انتظام کیا ہے، جو قارئین کے پیش خدمت ہے۔ ادارہ

اسلام ٹائمز: پاکستان میں بھی داعش کی سرگرمیاں شروع ہوگئی ہیں۔ اس خطرے کو کس نگاہ سے دیکھ رہے ہیں اور حکومت کو کیا اقدام اٹھانے چاہیئں، کیا عراق و شام والی صورتحال تو نہیں بننے جا رہی۔؟

صاحبزادہ ابوالخیر زبیر: یہ صورتحال بن نہیں رہی بلکہ یوں کہوں گا کہ بن چکی ہے، پاکستان میں داعش نامی تنظیم بن چکی ہے، اس سے بڑھ کر ہمارے لئے تشویشناک صورتحال کیا ہوگی کہ کراچی میں ان کی وال چاکنگ شروع ہوگئی ہے، میں ابھی کراچی سے آرہا تھا کہ ان کی جگہ
جگہ پر وال چاکنگ دیکھی۔ شہر قائد کے در و دیوار پر داعش کی چاکنگ کے ساتھ ساتھ ان کے نعرے بھی لکھے گئے ہیں۔ حکمرانوں کیلئے یہ ایک چیلنج ہے، ایک ایسی تنظیم جس نے کئی ملکوں میں فساد برپا کیا ہے، وہ پاکستان میں کیوں پنپ رہی ہے۔؟ اس تنظیم کے دہشتگرد پاکستان میں داخل ہوچکے ہیں اور داخل ہوکر اپنی کارروائیاں شروع کر دی ہیں۔ لیکن افسوسناک امر یہ ہے کہ ہمارے حکمران غافل ہیں اور ابھی تک کوئی کارروائی نہیں کی۔

اسلام ٹائمز: کیا قانون نافذ کرنیوالے ادارے اپنا کام کر رہے ہیں؟ کیا وہ بھی اس خطرے کو بھانپ رہے ہیں، اگر یہ پاکستان میں مضبوط ہوجاتے ہیں اور یہاں بھی شام و عراق جیسی کارروایئوں کا آغاز کر دیتے ہیں تو ہم کہاں اسٹینڈ کریں گے۔؟

صاحبزادہ ابوالخیر زبیر: یہی چیز ہمارے لئے باعث تشویش بنی ہوئی ہے، جو حرکتیں انہوں نے شام اور دیگر علاقوں میں کی ہیں وہ کافی پریشان کن اور افسوسناک ہیں۔ ان لوگوں نے انبیاء کرام، اہل بیت علیہ اسلام اور اصحاب کرام کے مزارات منہدم کئے ہیں۔ اب وہ یہی
ایجنڈا پاکستان میں لیکر آچکے ہیں۔ ہماری ایجنسیاں اور حکمران خواب خرگوش میں ہیں، ابھی تک انہوں نے ان کو روکنے کیلئے کوئی اقدام نہیں کیا۔ نہ اس خطرے کو بھانپتے ہوئے کوئی پلاننگ کی ہے کہ اس سے کس طرح سے نمٹنا ہے، کیا کرنا ہے، کوئی چیز واضح نظر نہیں آ رہی۔ اول تو ہونا یہ چاہیئے تھا کہ پاکستان اس خطرے کو پہلے ہی بھانپ کر اس سے نمٹنے کیلئے اقدام کرتا، لیکن اب وہ پاکستان کے اندر داخل ہوچکے ہیں۔ لیکن پریشان کن بات یہ ہے کہ وہ آچکے ہیں اور یہ کوئی ایکشن نہیں لے رہے اور اس کا کوئی تدارک نہیں کر رہے، جو انتہائی افسوسناک اور تشویشناک صورتحال ہے۔

اسلام ٹائمز: ملی یکجہتی کونسل کے پلیٹ فارم کے علاوہ اپنی جماعت کی سطح پر اس خطرے سے نمٹنے کیلئے آپ کیا کرسکتے ہیں۔؟

صاحبزادہ ابوالخیر زبیر: دیکھئے اس کا مقابلہ اتحاد کے ذریعے ہوگا اور پارٹی کی سطح پر یہ مسئلہ اٹھا رہے ہیں۔ اس سلسلہ میں ہم جلسے بھی کر رہے ہیں۔ ہم نے کراچی کے اندر نشتر پارک میں اتحاد اہلسنت کانفرنس کی تھی جو بڑی
کامیاب رہی۔ اس میں ہمارے مسالک کی دیگر جو جماعتیں ہیں، ان کو اس پلیٹ فارم پر جمع کیا تھا۔ آپس میں ملیں اور متحد ہوکر ان خطرات کا مقابلہ کیا جائے۔ اگلا مرحلہ یہ ہے کہ ہم نے دیگر مسالک کے لوگوں کو آگاہ کرکے اس خطرے سے نمٹنے کیلئے انہیں ساتھ ملائیں۔ ملی یکجہتی کونسل کے آج کے اجلاس میں داعش کے معاملے پر بات ہونا ہمارے دوسرے مرحلے کی تکمیل ہے۔ پہلے مرحلے میں ہم نے داخلی سطح پر اس مسئلہ کو اٹھایا اور اب دیگر مسالک کے لوگوں کے ساتھ ملکر داعش کے معاملے کو اٹھا رہے ہیں۔ انشاءاللہ ملکر اس طوفان، چیلنج اور خطرے کا مقابلہ کریں گے۔

اسلام ٹائمز: وزیرستان میں جاری آپریشن ضرب عضب پر کیا کہیں گے۔؟
صاحبزادہ ابوالخیر زبیر: جی ہماری فوج لائق تحسین ہے جو دہشتگردوں کیخلاف لڑ رہی ہے اور قربانیاں دے رہی ہے۔ لیکن اب ضرورت اس بات کی ہے کہ حکمران بھی ساتھ دیں۔ مزید جو خطرات سامنے آرہے ہیں ان کا مقابلہ کیا جائے۔ ہمارا مطالبہ ہے کہ ضرب عضب کا دائرہ وسیع کیا جائے۔ جہاں جہاں یہ دہشتگرد
پہنچ چکے ہیں، وہاں وہاں ان کا پیچھے کیا جائے۔

اسلام ٹائمز: آپ لوگوں نے دھرنے ختم کرانے اور ثالثی کا کردار ادا کرنے کی کوشش کی، اس حوالے سے آپکی کوششیں کیوں کارگر ثابت نہ ہوسکیں۔؟
صاحبزادہ ابوالخیر زبیر: ساری دنیا جانتی ہے کہ پاکستان میں خلفشار پیدا کیا جا رہا ہے، خانہ جنگی کی طرف دھکیلا جا رہا ہے۔ دھرنے کی صورتحال کو ختم کرنے کیلئے ہم نے مصالحتی فارمولا طے کیا اور ڈاکٹر صاحب کے پاس گئے لیکن افسوس کہ ڈاکٹر صاحب نے اس فورمولے کو نہیں مانا۔ اگر وہ ہماری بات مان لیتے تو اس میں فریقین کی عزت تھی، پورے ملک کی مذہبی جماعتیں ان کے ساتھ تھیں۔ اس سے نظام مصطفٰی کی منزل قریب، ملک سے کرپشن کا خاتمہ اور دیگر مسائل کے خاتمے میں بیشرفت ہوتی۔

اسلام ٹائمز: کیا آپکو حکومت کی جانب سے مذاکرات کرنے کے حوالے سے کوئی مینڈیٹ ملا تھا۔؟
صاحبزادہ ابوالخیر زبیر: ہم نے علماء و مشائخ کے ساتھ ملکر نواز شریف سے ملاقات کی تھی، انہوں نے ہمیں کوئی مینڈیٹ تو نہیں دیا تھا، لیکن وہ بھی چاہتے
ہیں کہ ملک میں کسی نہ کسی طرح امن کی فضاء قائم ہو۔ اگر یہ ہماری بات مانتے تو ہم نے طے کیا تھا کہ وفاقی وزیر امین الحسنات کے ذریعے سے تمام مسائل حل کریں گے۔

اسلام ٹائمز: گذشتہ سال کا سانحہ راولپنڈی اور اس بار محرم الحرام، کیا ملی یکجہتی کونسل ایسی کوئی کوشش کریگی جس کے نتیجے میں شہر راولپنڈی میں امن قائم ہو۔؟
صاحبزادہ ابوالخیر زبیر: ملی یکجہتی کونسل کے حالیہ اجلاس میں حمید گل صاحب آئے تھے، جنہوں نے کہا کہ ہم نے اس معاملے کو ہینڈل کیا ہے، حالانہ کہ خطرناک صورتحال پیدا ہوگئی تھی، دونوں طرف سے تشدد ہو رہا تھا۔ ہم نے انہیں تعاون کی یقین دہانی کرائی ہے۔

اسلام ٹائمز: محرم الحرام کے حوالے سے کوئی پیغام دینا چاہیں۔؟
صاحبزادہ ابوالخیر زبیر: محرم کا مہینہ حرمت کا مہینہ ہے، عظمت کا مہینہ ہے، تمام مسلمانوں پر واجب ہے کہ وہ اس کی حرمت کا خیال رکھیں۔ امن کو فروغ دیں، دشمن کی سازش کو ناکام بنائیں، جو لوگ فرقہ واریت کی آگ کو بھڑکانے کی کوشش کر رہے ہیں، انہیں ناکام کریں۔
خبر کا کوڈ : 415898
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش