2
0
Monday 17 Nov 2014 23:44
ایم ڈبلیو ایم کی پی اے ٹی کی احتجاجی تحریک میں شمولیت شیعہ سنی اتحاد کے حوالے سے خوش آئند ہے

علامہ غلام رضا نقوی کے سخت بیانات سے فرقہ واریت پھیلانے والے عناصر غلط استفادہ کرینگے، علی اوسط

پاکستان عوامی تحریک کی حکومت آئی تو تکفیریوں سمیت کسی بھی دہشتگرد گروہ کو نہیں چھوڑینگے
علامہ غلام رضا نقوی کے سخت بیانات سے فرقہ واریت پھیلانے والے عناصر غلط استفادہ کرینگے، علی اوسط
کراچی سے تعلق رکھنے والے سید علی اوسط پاکستان عوامی تحریک صوبہ سندھ کے سینیئر نائب صدر ہیں، اس کے ساتھ ساتھ آپ آل پاکستان شیعہ ایکشن کمیٹی کے مرکزی محرک بھی ہیں۔ سید علی اوسط زمانہ طالبعلمی میں امامیہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن پاکستان سے مربوط رہے، زمانہ طالبعلمی کے بعد آپ نے شہید قائد علامہ سید عارف حسین الحسینی (رہ) کی قیادت میں تحریک نفاذ فقہ جعفریہ میں شمولیت اختیار کی، آپ شہر کراچی میں تحریک جعفریہ کو پروان چڑھانے والی شخصیات میں سے ایک ہیں۔ آپ مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی سیکرٹری سیاسیات کے عہدے پر بھی فائز رہ چکے ہیں، بعد ازاں آپ اس عہدے سے مستعفی ہوگئے تھے۔ سید علی اوسط گذشتہ 14 سال سے پاکستان عوامی تحریک سے وابستہ ہیں، کراچی میں پاکستان عوامی تحریک کی طرف سے 2002ء کے عام انتخابات میں بھی حصہ لے چکے ہیں، آپ پاکستان عوامی تحریک کراچی کے جنرل سیکرٹری اور صدر بھی رہ چکے ہیں۔ ”اسلام ٹائمز“ نے سید علی اوسط کے ساتھ انکی رہائش گاہ پر ڈاکٹر طاہر القادری کی احتجاجی تحریک، پاکستان میں داعش کی موجودگی، علامہ غلام رضا نقوی کی رہائی اور انکے بیانات سمیت مختلف موضوعات کے حوالے سے نشست کی، اس موقع پر لیا گیا خصوصی انٹرویو قارئین کی خدمت میں پیش ہے۔ ادارہ

اسلام ٹائمز: ڈاکٹر طاہرالقادری دھرنا ختم کرکے ملک سے باہر چلے گئے، تاثر یہ پھیلتا جا رہا ہے کہ ڈاکٹر صاحب اپنی انقلابی روش سے پیچھے ہٹ گئے، کیا کہیں گے اس حوالے سے۔؟
سید علی اوسط:
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم ۔۔۔۔۔ ہم پاکستان کے موجودہ سیاسی نظام کو نہیں مانتے، پاکستان عوامی تحریک کی روش، انقلابی روش ہے، ہم نے روش نہیں بدلی بلکہ حکمت عملی بدلی ہے، جو کہ حالات کی مناسبت سے بدلی جاسکتی ہے۔ آج جماعت اسلامی، پاکستان تحریک انصاف بھی وہی باتیں کر رہی ہیں جو پیپلز پارٹی کے دور میں طاہرالقادری نے دھرنا دیتے ہوئے کیں، اگر یہ جماعتیں اس وقت ڈاکٹر طاہر القادری کا ساتھ دے دیتیں تو اس وقت ملک کا نقشہ کچھ اور ہوتا، لیکن اس وقت ان لوگوں نے ڈاکٹر صاحب کا ساتھ نہیں دیا، اور خود عمران خان صاحب نے اسمبلی میں اپنی پہلی تقریر میں ذکر کیا کہ ڈاکٹر طاہرالقادر ی صاحب کا کہنا صحیح تھا، ہم اس وقت انہیں سمجھے نہیں۔ آج پورا پاکستان اس بات کو تسلیم کرتا ہے کہ ڈاکٹر طاہرالقادری نے معاشرے میں غالب جمود کو توڑا اور انقلابی تحرک پیدا کیا، بیداری و شعور پیدا کیا۔ تو انقلابی روش سے پیچھے ہٹنے کا تاثر صحیح نہیں، یہ ہمارے مخالفین کا پروپیگنڈا ہے، اگر ڈاکٹر صاحب ڈیل کرتے تو حکومت کی جانب سے کبھی بھی انہیں اشتہاری قرار نہیں دیا جاتا۔ ہم نے روش نہیں بلکہ اپنی حکمت عملی تبدیل کی ہے، ہم نے احتجاجی دھرنے کی تحریک کو جلسے جلوسوں کے ذریعے پاکستان بھر میں پھیلا دیا ہے، انشاءاللہ ڈاکٹر صاحب 20 نومبر کو پاکستان واپس آرہے ہیں اور کوئی بھی طاقت انہیں وطن واپس آنے سے نہیں روک سکتی، ڈاکٹر صاحب 23 نومبر کو بھکر میں جلسہ عام سے خطاب میں نئی حکمت عملی کے حوالے سے قوم کو مزید آگاہ کرینگے، ملک و قوم کے مفاد پر مبنی اپنے مقاصد کی جدوجہد کو مزید تیز کرینگے۔

اسلام ٹائمز: کیا ڈاکٹر طاہرالقادری ابھی بھی وزیراعظم نواز شریف کے استعفے کے مطالبے پر قائم ہیں۔؟
سید علی اوسط:
میرا خیال ہے کہ ڈاکٹر طاہرالقادری صاحب نے بہت زیادہ اصرار کے ساتھ کبھی بھی نواز شریف کے استعفے کی بات نہیں کی، البتہ شہباز شریف کے استعفے کی بات ہمارے پلیٹ فارم سے ہوتی رہی ہے، ہم شہباز شریف کو وزیراعلٰی نہیں قاتل اعلٰی، ظالم اعلٰی کہتے ہیں، جو ہمارے 14 بے گناہ کارکنان کے قتل میں ملوث ہیں۔ ہمارا سب سے زیادہ زور نظام کی تبدیلی اور اصلاحات پر ہے۔

اسلام ٹائمز: ڈاکٹر طاہرالقادری صاحب نے ایک بار پھر پاکستانی آرمی چیف سے مداخلت کا کہا ہے، کیا یہ سیاست میں فوجی مداخلت کا سبب نہیں بنے گا۔؟
سید علی اوسط:
اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ پاکستان آرمی سیاسی معاملات میں دخیل رہی ہے، لیکن یہ بات واضح کرنا چاہتا ہوں کہ پاکستان عوامی تحریک سیاست میں فوجی مداخلت کے خلاف ہے، ہم آمریت اور مارشل لاء کے خلاف ہیں۔ ہم پاکستانی سیاست میں پاکستان آرمی کو مداخلت کی دعوت نہیں دے رہے ہیں بلکہ حقیقت یہ ہے کہ نواز حکومت نے خود پاکستان آرمی کو ثالثی کی دعوت دی تھی۔ ہمارے لوگوں کو بیدردی سے قتل کیا گیا، حکومت خود قاتل ہے، ہمیں انصاف نہیں مل رہا ہے، ہمیں مزید دبایا جا رہا ہے، ہمیں اشتہاری قرار دیا جا رہا ہے تو ہم کہاں جائیں، لہٰذا ہم انصاف کیلئے کسی ایسی قوت کی طرف دیکھنے کیلئے مجبور ہیں کہ جس سے ہمیں انصاف ملنے کی امید ہے یا وہ کوئی کردار ادا کرسکتی ہے، چاہے وہ عدلیہ ہو یا پاکستان آرمی۔ لہٰذا ہمارے اس اقدام کو غیر سیاسی قوت کو سیاست میں مداخلت کی دعوت کی بجائے انصاف کے حصول کے تناظر میں دیکھنا چاہیئے۔

اسلام ٹائمز: نواز حکومت کیخلاف ڈاکٹر طاہرالقادری کی پاکستان عوامی تحریک، مجلس وحدت مسلمین اور سنی اتحاد کونسل کی صورت میں شیعہ سنی اتحاد وجود میں آیا، آپ اس شیعہ سنی ہم آہنگی کو کس نگاہ سے دیکھتے ہیں۔؟
سید علی اوسط:
شیعہ سنی اتحاد اور ہم آہنگی پاکستان کے مسائل کے حل میں سے ایک حل ہے، یہ مسائل کو حل کرنے میں کلیدی کردار ادا کریگا، پاکستان کا قیام شیعہ سنی اکابرین کی مشترکہ جدوجہد کا نتیجہ ہے، قیام پاکستان کے وقت جو عناصر پاکستان بننے کی مخالفت کر رہے تھے، وہی آج پاکستان میں تکفیریت کا پرچار کر رہے ہیں، کچھ کھل کر تکفیریت کی سازش کر رہے ہیں اور کچھ کھل کر تو سامنے نہیں آ رہے لیکن پس پردہ وہ تکفیریت پھیلانے میں فعال کر دار ادا کر رہے ہیں، اسی تکفیریت کے خلاف، پاکستان مخالف عناصر اور ناسوروں کے خلاف شیعہ سنی مسلمانوں کا اتحاد پاکستان میں ایک فطری اتحاد ہے، یہ لازمی اور ضروری اتحاد ہے، شیعہ سنی اتحاد پاکستان کیلئے انتہائی ضروری ہے اور پاکستانی عوام بھی یہی چاہتی ہے۔

اسلام ٹائمز: پاکستان عوامی تحریک کے بڑے عوامی اجتماعات میں مجلس وحدت مسلمین کے مرکزی سیکرٹری جنرل علامہ ناصر عباس جعفری نے کہا ہے کہ جہاں اہلسنت کا پسینہ گرے گا، وہاں ہم اپنا خون نچھاور کریں گے، کیا آپ سمجھتے ہیں کہ ڈاکٹر طاہرالقادری کا ساتھ دینے کا جو وعدہ ایم ڈبلیو ایم نے کیا تھا، وہ اس میں ثابت قدم رہے ہیں۔؟
سید علی اوسط:
میں سمجھتا ہوں کہ بظاہر جو نظر آیا ہے کہ مرکزی قیادت ہو یا اس سے نچلے درجے کی قیادت، مختلف جگہوں پر اور مسلسل نظر آئی ہے اور شامل رہی ہے ہمارے ساتھ، ڈاکٹر طاہر القادری کی اس تحریک میں، لیکن چونکہ میں تنظیمی معاملات میں بہت زیادہ براہ راست منسلک نہیں رہا، لہٰذا اس بارے میں یہ نہیں کہہ سکتا کہ مجلس وحدت مسلمین نے افرادی قوت کے حوالے سے کتنا ساتھ دیا ہے اور کتنا ساتھ نہیں دیا۔ لیکن جو مجھے نظر آیا ہے اور میں دھرنے میں ظاہر میں اسٹیج پر رہا بھی ہوں، دیکھا بھی ہے، تو مسلسل مجلس وحدت مسلمین کی مرکزی قیادت، پنجاب کی قیادت اور اس سے نچلی سطح کی قیادت بھی اچھی بڑی تعداد میں نظر آتی رہی ہے۔ یہ شیعہ سنی اتحاد پاکستان کی ضرورت ہے، یہ فطری اتحاد ہے، یہ انتہاء سے زیادہ خوش آئند ہے، اس میں اور زیادہ بڑھ کر کوشش کرنا چاہیئے، اسے مزید مضبوط کرنا چاہیئے، پھیلانا چاہیئے۔

اسلام ٹائمز: کالعدم سپاہ محمد کے 18 سال کی قید کے بعد رہا ہونیوالے سربراہ علامہ غلام رضا نقوی نے اپنی رہائی کے بعد بیان دیا ہے کہ طالبان، اہلسنت والجماعت (کالعدم سپاہ صحابہ) اور لشکر جھنگوی کا واحد حل مسلح جدوجہد ہے، موجودہ ملکی صورتحال میں کیا آپ سمجھتے ہیں اس قسم کے بیانات مناسب ہیں۔؟
سید علی اوسط:
علامہ غلام رضا نقوی کو تو بہت پہلے رہا ہو جانا چاہیئے تھا لیکن ان کو رہا نہیں کیا گیا تھا، جو کہ ان کے ساتھ زیادتی کی گئی ہے، لیکن اب جو ان کو رہا کیا گیا ہے اس میں نواز حکومت کا کوئی کردار نہیں ہے، نہ ہی نواز حکومت نے علامہ غلام رضا نقوی صاحب پر کوئی احسان کیا ہے۔ جہاں تک علامہ غلام رضا نقوی کے رہا ہونے کے بعد کے بیانات ہیں، جیسا کہ آپ نے سوال میں بھی بیان کیا ہے، میں ان کے اس طرح کے بیانات کو مناسب نہیں سمجھتا ہوں کہ پاکستان کے موجودہ ماحول میں اس طرح کے سخت بیانات دیں، اس طرح کی بات کریں، اس طرح کے سخت بیانات سے پاکستان میں فرقہ واریت پھیلانے کی سازشیں کرنے والے عناصر سوءِ استفادہ کرینگے۔ اس سے ہٹ کر خود ہماری طرف سے، خود ڈاکٹر طاہرالقادری صاحب کی طرف سے، مختلف تقاریر میں یہ کہا جاتا رہا ہے کہ تکفیری گروہ کو آزاد نہیں چھوڑا جاسکتا، بلکہ ڈاکٹر صاحب نے آیات قرآنی اور احادیث نبوی کے ذریعے دلائل دیئے ہیں کہ تکفیری گروہ کی سرکوبی کی جائے، ان کو مارا جائے، یہ جہاں ملیں انہیں قتل کر دیا جائے، ڈاکٹر صاحب کی یہ باتیں ریکارڈ پر موجود ہیں، لہٰذا یہ کام کوئی جماعت یا گروہ، یا کوئی مسلک اپنے ہاتھ میں نہ لے بلکہ یہ حکومت کا کام ہے کہ ایسے عناصر کی سرکوبی کرے، ان کی جڑیں کاٹے، سزائیں دے، لیکن کسی جماعت، گروہ یا مسلک کا یہ کام نہیں ہونا چاہیئے، کیونکہ اس طرح پاکستان میں فرقہ واریت کی سازش کرنے والے فائدہ اٹھائیں گے۔ ہم جو پاکستان میں جدوجہد کر رہے ہیں، انشاءاللہ ہمارے ہاتھ میں اگر حکومت آئے گی تو تکفیریوں سمیت کسی بھی دہشتگرد یا مجرمانہ گروہ کو نہیں چھوڑینگے، ہم ان کی سرکوبی کرینگے۔

اسلام ٹائمز: کیا آپ سمجھتے ہیں کہ پاکستان میں تکفیری دہشتگرد گروہ داعش کا کوئی سیٹ اپ بن رہا ہے یا بننے جا رہا ہے، حقیقت کیا ہے۔؟
سید علی اوسط:
دہشتگرد گروہ کا نام مختلف وقتوں میں بدلا گیا ہے مگر لوگ وہی ہیں، نظریات وہی ہیں، کسی زمانے میں کراچی میں سوادِ اعظم کے نام سے لوگوں نے فساد برپا کیا، میرا خیال ہے کہ یہ سن بیاسی تراسی کی بات ہے، بعد میں اس فساد کا نام سپاہ صحابہ ہوگیا، اس کے بعد اس فساد کا نام ملت اسلامیہ رکھ دیا گیا، اب اس فساد کا نام اہلسنت والجماعت رکھ دیا گیا ہے، اسی فساد کا نام لشکر جھنگوی ہے، عالمی سطح پر اس فساد کا نام القاعدہ سامنے آیا، اس کے بعد یہ فساد طالبان کی صورت میں سامنے آیا، اب اس فساد کا نام داعش ہوگیا، لہٰذا نام بدلتے گئے مگر افراد اور نظریات وہی ہیں، میں سمجھتا ہوں کہ یہ عالمی سطح کی ایک زنجیر ہے جو آپس میں جڑی ہوئی ہے۔ جب افغانستان میں طالبان کے نام سے حکومت بنی تو وہی افراد سپاہ صحابہ میں شامل تھے، لشکر جھنگوی میں تھے اور آج تک ہیں۔ لہٰذا یہ آج تک نام ضرور بدلتے رہے ہیں لیکن لوگ اور نظریات وہی ہیں۔ مثال کے طور پر شاہد اللہ شاہ تحریک طالبان پاکستان کا ترجمان تھا اب اس نے داعش میں شمولیت کا اعلان کر دیا، نام بدل لیا لیکن چہرہ وہی ہے، کام وہی ہے، نظریات بھی وہی ہیں، یہ اصل میں عالمی سازش ہے، جس کے پیچھے عالمی صہیونیت اور امریکا ہیں، جنہوں نے القاعدہ بنائی، طالبان بنائی اور اب داعش کو تشکیل دیا۔ المیہ تو اس بات کا ہے کہ یہ سارے دہشتگرد عناصر مسلمان ہیں، یہ کہنا درست نہیں کہ یہ مسلمان نہیں ہوسکتے، میں مثال دیتا ہوں کہ یزید اور اسکی فوج نے مسلمان ہونے کے باوجود بھی حضرت امام حسین علیہ السلام اور انکی آل و اصحاب کو کربلا میں شہید کر دیا، لہٰذا مسلمانوں میں ہمیشہ ایک گروہ ایسا رہا ہے جو تھا تو مسلمان، جو ہے تو مسلمان، لیکن اس نے ہمیشہ اسلام کے نام پر اسلام پر ظلم کیا، مسلمانوں پر ظلم کیا، آج بھی یہ گروہ داعش، طالبان اور دیگر ناموں سے موجود ہے۔

جس طرح تاریخ نے اعلان کیا کہ یزید مردہ باد، یزیدیت مردہ باد، حسین زندہ باد، حسینیت زندہ باد، آج مسلمانوں کو یہ اعلان کرنا پڑے گا مشترکہ طور پر کہ داعش مردہ باد، داعش اور اس جیسے دیگر تکفیری دہشتگرد گروہوں سے کنارہ کش ہونا پڑیگا، اگر آج اقدام کرینگے تو یہ مسائل حل ہونگے، تو یہ لکیر کھنچنے کی ضرورت ہے۔ قرآن کہتا ہے کہ یہود و نصاریٰ کو دوست نہ بناؤ لیکن اسلام کا سب سے بڑا ٹھیکیدار سعودی عرب ان کے قریب اور انکا دوست نظر آتا ہے، سعودی عرب اپنے مفادات کیلئے اپنے ہی لوگوں پر چڑھ دوڑنے کیلئے تیار رہتا ہے، حال ہی میں امریکی اسرائیلی ایماء پر مصر میں اخوان المسلمین کی حکومت کو گرانے کیلئے سعودی عرب نے جو کردار ادا کیا ہے وہ سب کے سامنے ہے، میری ذاتی رائے ہے کہ تکفیریت بھی سعودی عرب سے نکلی ہوئی سوچ ہے اور سعودی عرب ہی تکفیریت کا مرکز ہے۔ پاکستان میں تکفیری دہشتگرد عناصر کے خاتمہ کیلئے ریاستی اداروں کو چاہیئے کہ انکی جڑوں کو تلاش کریں جہاں سے یہ تکفیریت پھیلتی ہے، جہاں سے ان کو پروان چڑھایا جاتا ہے، جہاں انکو تربیت دی جاتی ہے، جہاں انکی پناہ گاہیں ہیں، لہٰذا ریاستی ادارے انکی شاخوں کو کاٹنے کے بجائے انکی جڑوں کو کاٹیں۔
خبر کا کوڈ : 419960
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ماشاء اللہ، بہت طویل عرصے بعد علی اوسط بھائی کی باتیں سننے کو ملیں،
شکریہ اسلام ٹائمز۔۔۔۔
bahtreen
ہماری پیشکش