0
Friday 28 Nov 2014 23:31
پی ٹی آئی کے جلسے میں شیخ رشید کی تقریر انکی ذاتی رائے ہے

گرفتاریاں اور رکاوٹیں ہمارا راستہ نہیں روک سکتیں، شاہ محمود قریشی

ہم پرامن جلسے جلوسوں کی سیاست پر یقین رکھتے ہیں، 30 نومبر کو روکا گیا تو مزاحمت کرینگے
گرفتاریاں اور رکاوٹیں ہمارا راستہ نہیں روک سکتیں، شاہ محمود قریشی
شاہ محمود قریشی 22 جون 1956ء میں پیدا ہوئے، پیشہ کے اعتبار سے ایگریکلچرلسٹ ہیں، اس وقت پاکستان تحریک انصاف کے وائس چیئرمین ہیں، اس سے قبل پاکستان پیپلز پارٹی میں تھے اور پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں وزیر خارجہ بھی رہ چکے ہیں۔ ریمنڈ ڈیوس کے معاملے میں سٹینڈ لینے پر انہیں وزارت خارجہ کے عہدے سے ہٹا دیا گیا اور ساتھ ساتھ انہیں پیپلز پارٹی کی سنٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کے عہدے سے بھی ہاتھ دھونا پڑے۔ شاہ محمود قریشی این اے 150 ملتان سے ایم این اے ہیں۔ شاہ محمود قریشی حضرت بہاؤالدین زکریا ملتانی کے مزار کے گدی نشین بھی ہیں۔ کیمرج یونیورسٹی سے لا کی ڈگری حاصل کی اور 1985ء سے کارزار سیاست میں مصروف عمل ہیں۔ اپنی سیاست کا آغاز مسلم لیگ کے پلیٹ فارم سے کیا، بعد میں پیپلز پارٹی جوائن کر لی اور نومبر 2011ء سے عمران خان کی کشتی کے سوار ہیں۔ گذشتہ روز لاہور میں ‘‘اسلام ٹائمز’’ نے ان کے ساتھ ایک مختصر نشست کی، جس کا احوال قارئین کے لئے پیش ہے۔(ادارہ)

اسلام ٹائمز: پی ٹی آئی نے 30 نومبر کو ریڈ زون میں احتجاج کی کال دی ہے، حکومت نے بھی کمر کس لی ہے، کوئی ناخوشگوار واقعہ پیش آگیا تو ۔ ۔ ۔ ۔؟؟

شاہ محمود قریشی: 30 نومبر کو ریڈ زون آنے والوں کو جیل بھیجنے اور انہیں سختی کے ساتھ روکنے کا فیصلہ حکومت کی کمزوری اور بوکھلاہٹ کو ظاہر کرتا ہے، گرفتاریاں اور رکاوٹیں حکومت کی تاریخی غلطی ہوگی، انہیں پتہ ہونا چاہیے کہ پہلے بھی وہ اس قسم کے اقدامات اٹھا کر ہمارا راستہ نہیں روک سکے تھے، اب بھی کنٹینروں اور پولیس تشدد کے ذریعے ہمارے کارکنوں کا راستہ نہیں روکا جاسکے گا۔ ریڈ زون کے نام پر کسی کو احتجاج کرنے کے حق سے نہیں روکا جاسکتا۔ حکومت ہمارے جہلم، ساہیوال، ننکانہ صاحب اور لاڑکانہ کے جلسوں سے خوفزدہ ہوچکی ہے۔ اس طرح کے اقدامات کرکے وہ عوام کے سونامی کو نہیں روک سکیں گے۔ جمہوریت میں ہر کسی کو اپنی رائے کے اظہار کی آزادی ہوتی ہے مگر آمروں کی گود میں پلنے والے حکمرانوں کو آخر کار غیر جمہوری رویہ اپنانا ہی پڑ رہا ہے۔ مگر یہ جمہوریت کی راہ میں رکاوٹ کھڑی کرنے کے مترادف ہوگا۔ کنٹینر لگانے اور پولیس کی دیواریں کھڑی کرنے سے یہ زیادہ دیر تک بچ نہیں سکیں گے، آخر کار انہیں عوامی مطالبے کے سامنے سرتسلیم خم کرنا پڑے گا۔

اسلام ٹائمز: آپکے کارکنوں کی جانب سے بھی تو کوئی ‘‘حرکت’’ ہوسکتی ہے۔؟
شاہ محمود قریشی: ہم جمہوریت پسند لوگ ہیں، اس لئے ہم کوئی غیر آئینی اور غیر قانونی راستہ اختیار نہیں کریں گے، اس کے ساتھ ساتھ ہم کسی دباؤ میں آکر اپنا احتجاج اور دھرنوں کا پروگرام منسوخ نہیں کرسکتے۔ حکمران اپنی ریاستی طاقت استعمال کریں، ہم عوام کی طاقت سے ان کی ہر غیر جمہوری رکاؤٹ کو اپنے پیروں تلے رونڈ کر آگے بڑھیں گے۔ آپ دیکھ لیں گے کہ جب ہم نے لاہور سے دھرنا شروع کیا تھا، پھر جہلم میں بھی ان کے ایک ایم این اے کے غنڈوں نے ہمارے نہتے کارکنوں پر چڑھائی کر دی تھی، جس میں درجنوں افراد زخمی ہوئے، ہم پر تشدد کا الزام لگانے والوں کو شرم آنی چاہیے کہ ہمارے کارکن پڑھے لکھے اور آئین و قانون کی پاسداری کرنے والے لوگ ہیں، ہم بھلا تشدد کا راستہ اختیار کرکے اپنے جلسے جلوس کیوں خراب کریں گے۔ اصل میں دہشت گرد تو حکمران ہیں، جنہوں نے ماڈل ٹاؤن میں گولیاں برسائیں، گاڑیاں توڑنے والے گلو بٹ کو تو 11 سال قید کی سزا دلوا دی مگر 14 بے گناہ لوگوں کے قاتل دندناتے پھر رہے ہیں۔ جبکہ مدعیوں نے نواز شریف، شہباز شریف، رانا ثناءاللہ، حمزہ شہباز، سعد رفیق سمیت 22 افراد کیخلاف مقدمہ درج کرایا ہے تو اس پر کوئی اقدام نہیں اٹھایا گیا مگر عمران خان اور طاہرالقادری کو فوراً اشتہاری قرار دے دیا گیا۔

اسلام ٹائمز: ایک طرف آپ پرامن جلسے جلوسوں کی بات کرتے ہیں، دوسری طرف آپکے ہی پلیٹ فارم سے شیخ رشید جلاؤ گھیراؤ کی بات کرتے ہیں، آپ ان سے اتفاق کرتے ہیں۔؟
شاہ محمود قریشی: ہم جلاؤ گھیراؤ پر یقین نہیں رکھتے، اگر شیخ رشید اپنی تقریر میں جلاؤ گھیراؤ کی بات کرتے ہیں تو یہ ان کی اپنی رائے ہوسکتی ہے۔ وہ اپنی پارٹی عوامی مسلم لیگ کے سربراہ ہیں، وہ جو چاہیں کہہ لیں ان سے ہمارا کیا تعلق، پھر آپ جانتے ہیں کہ وہ جوش خطابت میں ایسی باتیں کہہ جاتے ہیں۔ ہماری پارٹی کے لوگ نہایت پرامن لوگ ہیں، وہ جمہوری جدوجہد پر یقین رکھتے ہیں، ہم گولیاں چلانے یا لاٹھیاں برسانے پر یقین نہیں رکھتے، ہم آئینی دائرے میں رہتے ہوئے تبدیلی کی بات کرتے ہیں، ہمارے جلسے جلوس اور دھرنے حکومت پر دباؤ بڑھانے کے لئے ہوتے ہیں، آج اگر لوگوں کو بجلی اور گیس میں کچھ ریلیف ملا ہے تو یہ ہمارے دھرنوں کی وجہ سے ایسا ہوا ہے، پٹرول کی قیمتیں کم ہوئی ہیں تو یہ دھرنے میں بیٹھنے والوں کے دباؤ کا نتیجہ ہے، ورنہ حکمران تو عوام کو کسی قسم کا ریلیف دینے کے حق میں نہیں تھے۔ مگر ہم عوام کے حق کی جنگ لڑ رہے ہیں اور یہ جنگ جاری رکھیں گے۔ جب تک حکومت انتخابی اصلاحات نہیں کرتی اور انتخابی دھاندلی کو تسلیم نہیں کر لیا جاتا ہماری تحریک جاری رہے گی۔

عوام کے ووٹوں سے بننے والی حکومت ہی حقیقی معنوں میں عوام کے مسائل حل کرسکتی ہے۔ جعلی مینڈیٹ اور دھاندلی سے اقتدار میں آنے والوں کو بھلا عوام کے مسائل سے کیا دلچسپی، انہیں تو عوام کے پیسے سے عیاشیاں کرنے سے مطلب ہے۔ غیر ملکی دوروں پر اپنے اہل خانہ اور دوستوں کو نوازنا ہی نواز حکومت کو شیوہ ہے، ان کے یہ غیر ملکی دورے بھی دراصل کاروباری نوعیت کے ہوتے ہیں، دورہ چین ہو یا دورہ برطانیہ یہ اپنے کاروبار کو فروغ دینے جاتے ہیں، حکمرانوں کا اپنا سرمایہ باہر پڑا ہوا ہے، ان کے بزنس باہر ہیں، پھر یہ کس منہ سے باہر جا کر غیر ملکیوں کو پاکستان میں سرمایہ کاری کی دعوت دیتے ہیں، کیا یہ انہیں بے وقوف سمجھتے ہیں۔ دوسری طرف آصف زرداری عوام کے لوٹے ہوئے پیسے سے عیاشیاں کرتے پھرتے ہیں، نون لیگ کے لیڈر جو پہلے زرداری کا پیٹ پھاڑ کر ملک کا لوٹا ہوا سرمایہ نکالنے کا دعوے کرتے تھے آج اپنی کرپشن پر پردے ڈالنے کے لئے ایک دوسرے کا دست و بازو بنے ہوئے ہیں۔ پچھلےدنوں یہ لوگ لندن میں اس لئے جمع ہوئے تھے کہ پلاننگ کی جائے کہ تحریک انصاف کا احتجاجی دھرنا کیسے روکا جائے، دونوں پارٹیوں نے اپنی باریاں قائم کر رکھی ہیں۔

اب یہ اپنی دوسری نسل کو تیار کر رہے ہیں پھر تیسری نسل آجائے گی، ہم عوام کی حکمرانی قائم کرنے کی جدوجہد کر رہے ہیں جب حقیقی معنوں میں جمہوریت قائم ہوگی تو لوگوں کو ان کے حقوق مل جائیں گے اور ہماری جدوجہد اور تحریک سے شعور بیدار ہو رہے ہیں، یہی ہماری بڑی کامیابی ہے۔ عوام تبدیلی چاہتے ہیں، حکمرانوں کو عوام کی کوئی فکر نہیں، اس لئے وہ ان کی آواز پر توجہ نہیں دے رہے جبکہ آج ہر سو ‘‘گو نواز گو’’ کے صدا بلند ہو رہی ہے۔ اس لئے حکومت کو چاہیے کہ وہ مستعفی ہو جائے، ہمارے جلسے میں حکمرانوں سے ستائے ہوئے لوگ اور بے روز گار، اوور بلنگ کا شکار عام شہری پہنچتے ہیں۔ مزدور، کسان، کلرک، طالب علم بھی پہنچتے ہیں، مہنگائی اور بے روز گاری کے ستائے عوام ہماری جلسہ گاہوں میں پہنچ کر حکومت کے خلاف فیصلہ سنا چکے ہیں۔ حکمران اب زیادہ دیر تک عوام کے فیصلے کے سامنے نہیں ٹھہر سکیں گے۔ اس ایلیٹ کلاس نے ملک کی اکثریت پر قبضہ جما رکھا ہے۔ ان کے ساتھ عیاشیوں میں مصروف ہیں۔ جبکہ غریب فاقہ کشی اور خودکشی پر مجبور ہو رہے ہیں۔

مایوس اور دل گرفتہ لوگ تحریک انصاف کو نجات دہندہ پارٹی سمجھتے ہیں اور انہیں اعتماد ہے کہ عمران خان ان کی خواہشوں پر پورا تریں گے، اس لئے آج ملک کا ہر طبقہ عمران خان کے قدم سے قدم ملا کر آگے بڑھ رہا ہے۔ وہ جہاں جاتے ہیں ان کا پرتپاک استقبال کیا جاتا ہے۔ عمران خان اسلام آباد کا دھرنا نہیں چھوڑیں گے بلکہ آپ دیکھ رہے ہیں کہ وہ مختلف شہروں میں جلسے کرکے رات کو واپس اسلام آباد دھرنے میں پہنچ جاتے ہیں۔ انہیں حکومت سے خیر کی کوئی توقع نہیں۔ اس لئے اسلام آباد دھرنے کو 3 ماہ سے زائد کا عرصہ ہوچکا ہے جو ایک ریکارڈ ہے۔ ہم نے کسی کے اشارے پر دھرنا دیا اور نہ کسی کے کہنے پر دھرنا ختم کریں گے۔ ہم نے حقیقی انتخابات کے لئے اور ملک میں جمہوریت کے استحکام کے لئے دھرنا دیا ہے۔ جب تک انتخابی دھاندلیوں کا ازالہ نہیں ہو جاتا اور انتخابی اصلاحات نہیں ہو جاتیں دھرنا جاری رہے گا۔

اسلام ٹائمز: آپ کیا سمجھتے ہیں، دھرنوں سے تبدیلی آجائے گی، اور یہ بتائیں کہ آپ کیسا نظام قائم کرنے کے حق میں ہیں۔؟؟
شاہ محمود قریشی: اگر چوروں اور ڈاکوؤں کو اسمبلیوں میں داخل ہونے سے روکا نہ گیا تو جمہوریت کو اسی طرح خطرات لاحق رہیں گے۔ جب بھی جمہوری راستہ بند کیا گیا لوگ سڑکوں پر آنے پر مجبور ہوئے۔ اسی لئے ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ الیکشن ٹربیونلز میں پڑے ہمارے کیسز کو جلد از جلد نمٹایا جائے، تاکہ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہوسکے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ الیکشن دھاندلی کی وجہ ہی یہ تھی کہ الیکشن کمشنر فخر الدین جی ابراہیم کمزور انسان تھے، ان کی الیکشن کمشن پر گرفت کمزور تھی۔ جس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے بعض عناصر نے اپنی مرضی کے فوائد حاصل کئے، انہی عناصر نے اپنی پسند کے ایمپائر مقرر کروائے، جو ہمیشہ اپنے ایمپائروں کے ساتھ کھیلتے آئے ہیں۔ اس لئے نتیجہ ان کا مرضی کا حاصل کیا گیا۔ مگر اب تو معاملات کھل کر سامنے آچکے ہیں۔ اس لئے الیکشن میں مینڈیٹ چرانے والے بے نقاب ہو رہے ہیں۔ اب لوگ باشعور ہوچکے ہیں۔ وہ دھاندلی کو برداشت نہیں کرتے اور ہم تحقیقات مکمل کرنے کا مطالبہ کرتے آ رہے ہیں، تاکہ ملک میں جمہوریت مضبوط اور مستحکم ہوسکے۔ کسی نے بھی حکومت گرانے کے لئے کسی قسم کی سازش نہیں کی، یہ دھرنے تو جمہوریت کا حصہ ہیں، اسے یہ نہ سمجھا جائے کہ حکومت کیخلاف سازش ہو رہی ہے، بلکہ حکومت خود ہمارے خلاف پروپیگنڈہ میں مصروف ہے، پھر اس حکومت کے خلاف کسی کو سازش کرنے کی بھلا کیا ضرورت پڑی ہے۔ جو خود اپنے خلاف اقدام کر رہی ہے، اس کی اپنی پالیسیاں ہی اسے لے ڈوبیں گی۔

اسلام ٹائمز: ایک سال بعد آپ کو دھاندلی کا خیال کیوں آیا، اور آپکو ابھی تک دھرنا سیاست کے کیا فوائد ملے ہیں۔؟
شاہ محمود قریشی: ہم ایک سال سے دھاندلی کیخلاف احتجاج کرتے چلے آ رہے ہیں، مگر حکومت کے کان پر جوں تک نہیں رینگی، ہم ان چار حلقوں کے ووٹوں کی تصدیق کیلئے ایک سال سے انتظار کر رہے ہیں، مگر حکومت ٹس سے مس نہیں ہوئی، حکومت کے اس رویے پر ہم احتجاجی تحریک چلانے پر مجبور ہوئے ہیں۔ اگر حکومت سمجھتی ہے کہ ان حلقوں میں انہوں نے بھاری کامیابی حاصل کر رکھی ہے تو پھر وہ کیوں گھبرا رہی ہے۔ ایک سال سے ہماری طرف سے گنتی کرانے کا مطالبہ تسلیم کیوں نہیں کیا گیا۔ اگر یہ کام بروقت کر لیا جاتا تو دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جاتا۔ آپ نے دیکھا کہ نادرا نے این اے 118 لاہور میں غیر معمولی دھاندلی کو تسلیم کیا۔ 259 تھیلوں میں بوگس ووٹوں کی تصدیق کے بعد اس انتخابی نتیجے کی کیا پوزیشن رہ جاتی ہے۔ ان لوگوں نے جہاں جہاں دھاندلی کی وہاں وہاں سے انہوں نے اسٹے آڈر لے رکھا ہے۔ یہ حکومت کب تک اسٹے آڈرز پر چلے گی؟ انہوں نے اگر مینڈیٹ نہیں چرایا تو پھر خوف کیسا؟
خبر کا کوڈ : 421978
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش