0
Saturday 29 Nov 2014 01:29
داعش سمیت دیگر تمام دہشتگردانہ کارروائیاں کرنیوالوں کا اہلسنت سے کوئی تعلق نہیں

پاکستان میں دہشتگردی کا ایکشن ری پلے اور اپ گریڈ ورژن داعش کی صورت میں آرہا ہے، شبیر ابو طالب

امریکا، اسرائیل، بھارت سمیت تمام اسلام دشمنوں کی سازشوں کا مرکز و محور اور نشانہ پاکستان ہے
پاکستان میں دہشتگردی کا ایکشن ری پلے اور اپ گریڈ ورژن داعش کی صورت میں آرہا ہے، شبیر ابو طالب
کراچی سے تعلق رکھنے والے معروف اہلسنت مذہبی و سیاسی رہنما محمد شبیر ابوطالب اس وقت جمعیت علماء پاکستان کے مرکزی ڈپٹی جنرل سیکرٹری کی حیثیت سے ذمہ داری انجام دے رہے ہیں۔ آپ میمن گجراتی فیملی سے تعلق رکھتے ہیں اور مشہور و معروف نعت و ثناء خواں بھی ہیں۔ اس وقت آپ درس نظامی کے آخری سال میں ہیں اور مفتی بننے کے مراحل میں ہیں۔ مختلف ٹی وی چینلز پر مذہبی پروگرامات کرتے رہتے ہیں۔ محمد شبیر ابوطالب اس وقت کئی مساجد کے ٹرسٹی ہیں، درجنوں انجمنوں کے سرپرست اعلٰی ہیں، آپ نے 1989ء میں جمعیت علماء پاکستان میں شمولیت اختیار کی، انجمن نوجوانان اسلام کراچی کے صدر بھی رہ چکے ہیں، 2002ء کے عام انتخابات لڑنے کے بعد آپ جمعیت علماء پاکستان کراچی کے سینیئر نائب صدر مقرر کئے گئے، اسکے بعد جے یو پی کراچی کے جنرل سیکرٹری بھی رہے۔ ”اسلام ٹائمز“ نے محمد شبیر ابو طالب کے ساتھ داعش سمیت مختلف موضوعات کے حوالے سے جمعیت علمائے پاکستان کے صوبائی دفتر میں ایک مختصر نشست کی، اس موقع پر آپ سے کیا گیا خصوصی انٹرویو قارئین کیلئے پیش ہے۔ ادارہ

اسلام ٹائمز: اسلام ٹائمز: اسلام دشمن قوتوں نے جب بھی اسلام و مسلمانوں کیخلاف سازش کی، اسکے آلہ کار نام نہاد مسلمان ہی بنے، اسکی وجوہات آپ کیا سمجھتے ہیں۔؟
محمد شبیر ابو طالب:
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم۔۔۔۔۔ یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ پاکستان میں اسلام کی خدمت کیلئے ہر زاویئے سے کام کرنے والا ذہن موجود ہے، تحریری تقریری، تحقیقی، تعلیمی وغیرہ ہر حوالے سے، پاکستانی مسلمان دین اسلام سے انتہائی زیادہ لگاو رکھتے ہیں، بدقسمتی سے پاکستان میں جہاد کے حوالے سے غلط تشریحات کی گئیں، شکوک و شبہات پھیلائے گئے، جب بھی اسلام کیلئے مثبت کام کرنے والے پاکستان میں اپنی کسی تحریک کا آغاز کرتے ہیں تو دشمن کی گہری نگاہیں پاکستان کی طرف ہوتی ہیں، لیکن اس وقت ہم تھوڑا دفاعی پوزیشن میں آجاتے ہیں، جب ہم مسلمانوں کے اندر سے ہی چند لوگ دین کی غلط تشریح کرتے ہوئے، جہاد یا قتال فی سبیل اللہ کے معاملات کو غلط طریقے سے اچھالتے ہوئے یا پیش کرتے ہوئے ایسے نکتہ نظر کو ہوا دیتے ہیں، جو دراصل اسلام کے عین مطابق نہیں ہوتا، میں یہاں اتنا ضرور کہوں گا کہ اسی لئے امریکا ہو یا صہیونی اسرائیل، بھارت ہو یا کوئی بھی دوسرا ملک جو مسلمانوں کے خلاف سازشوں میں مصروف رہتا ہے، ان سب کی اسلام و مسلمان دشمن سازشوں کا مرکز و محور اور نشانہ پاکستان ہوگا۔

اسلام ٹائمز: اسلام دشمنوں کی ان سازشوں کا مقابلہ کیسے ممکن ہے۔؟
محمد شبیر ابوطالب:
ان سازشوں کا مقابلہ کرنے کیلئے جو دین کی غلط تشریح کرنے والے ہیں، دینی بنیادوں کی، خصوصاً جہاد کی، تحریک کی، انقلاب کی، جدوجہد کی، تبدیلی اور ان جیسے تمام الفاظ کی غلط تشریح کرنے والوں کو اقلیت میں بدلنا ہوگا اور دنیا کو واضح طور پر بتانا ہوگا کہ امن پسندی کے ساتھ انقلاب کی بات کرنے والے، محبت کے ساتھ تبدیلی کی بات کرنے والے، پیار و اخوت کے ساتھ دین اسلام کی صحیح تشریح کرنے والے ہی اکثریت میں ہیں، اس کیلئے اسلام و پاکستان سے محبت کرنے والے لوگوں کو آگے بڑھ کر میدان میں آنا ہوگا۔ 

اسلام ٹائمز: انبیاء کرام، اہلبیت، اصحاب رسول، اولیاء اللہ کے مزارات کو دہشتگردی کا نشانہ بنانے والے تکفیری فتنے داعش کی پاکستان میں موجودگی کے حوالے سے کیا کہیں گے۔؟
محمد شبیر ابوطالب:
ہمارے پڑوسی ممالک میں چند ملک ایسے ہیں جو پاکستان میں انتہا پسندی کی سازش میں ملوث ہیں، ان کی پاکستان پر گہری نظریں ہوتی ہیں کہ پاکستان میں کوئی ایسا گروہ اٹھے جو پاکستان کا دشمن ہو اور اس کا تعلق بھی پاکستان سے ہی ہو، پاکستان کو بھی برباد کرنا چاہتا ہو، اسلام کو بھی نقصان پہنچانا چاہتا ہو، اور جیسے ہی ان کو ایسا گروہ نظر آتا ہے وہ ان کو سپورٹ بھی کرتے ہیں، فنڈنگ بھی کرتے ہیں، اسلحہ بھی دیتے ہیں، ہر طرح سے لاجسٹک سپورٹ بھی کرتے ہیں، اور اس طرح سے پاکستان میں ایک نیا انتشار پیدا ہوتا ہے، یہ انتشار پہلے انتہا پسندی کی صورت میں آیا، پھر کافر کافر کے نعروں کے ذریعے سے آیا، پھر طالبان اور انسانوں کے گلے کاٹنے، انہیں ذبح کرنے، پھانسی دینے، گولی مارنے، خودکش حملے کرنے، مزارات پر حملہ کرنے کے ذریعے آیا، اور اب اسی کا ایکشن ری پلے اور اپ گریڈ ورژن داعش کی صورت میں آ رہا ہے، داعش کے ظلم و بربریت اور دہشتگردی و وحشت گری کے بارے میں بتانے کی کوئی ضرورت نہیں، دنیا آگاہ ہے، انٹرنیٹ پر مواد بھرا پڑا ہے، داعش جو کہ لاکھوں کروڑوں ڈالر صرف اجرتوں پر خرچ کر رہی ہے، انتہائی جدید ترین ہتھیاروں سے لیس ہے، داعش سے متاثرہ ممالک کی پولیس اور سکیورٹی فورسز بھی اس کے آگے تقریباً بے بس نظر آتی ہیں۔
 
دنیا جانتی ہے کہ اس کے پیچھے کونسی طاقت ہے، داعش مسلم ممالک کو توڑ کر اسلامی ریاست کے نام سے ایک فساد پر مبنی ریاست بنانا چاہتی ہے، جیسا کہ میں نے پہلے عرض کیا کہ دنیا میں جہاں جہاں بھی اس قسم کے دہشتگرد گروہ موجود ہوتے ہیں انکا پاکستان پر اثر ضرور پڑتا ہے، ہمارا دشمن اس پر نگاہ رکھے ہوئے تھا، اور اب اس کی کوشش ہے کہ جس چینل کے ذریعے پوری دنیا میں داعش کے فتنے کو پھیلایا جا رہا ہے، اس کو چینلائز کرکے پاکستان میں بھی داخل کیا جائے، اور اب کراچی، پشاور، لاہور سمیت پاکستان کے دیگر بڑے شہروں کی درودیوار گواہی دے رہے ہیں کہ پاکستان میں بھی داعش نے اپنے اڈے بنانا شروع کر دیئے ہیں، ہم نے تین چار مہنے پہلے ہی اس حوالے سے پریس کانفرنس کی تھی کہ جس وقت لوگ اسے سنجیدہ نہیں لے رہے تھے، ہم نے اس وقت تحفظات مزارات اولیاء ریلی بھی نکالی تھی، اس میں ہونے والی ہماری تقاریر اس بات کی گواہ ہیں کہ ہم نے داعش کے فتنے سے قوم کو آگاہ کر دیا تھا کہ ہمیں ایک ایسے چیلنج کا سامنا ہے کہ جس میں شکلیں داڑھی والی ہونگی، نعرہ تکبیر اللہ اکبر، نعرہ رسالت یا رسول اللہ لگایا جائے گا، استعمال کیا جائے گا اللہ اکبر کو، لاالہ الا اللہ کے جھنڈے کو، استعمال کی جائے گا شریعت کو، اسلام کو، فقہ کو، لیکن اس کے نتیجے میں تعلیمات ایسی عام کی جائیں گی کہ نبی کا مزار نظر آئے تو اس کو اڑا دو، صحابہ رسول اور اہلبیت کا مزار نظر آئے تو انہیں اڑا دو، جو بات نہ مانے اس کی گردن اڑا دو، اسے ذبح کر دو، آہستہ آہستہ یہ باتیں عوام و خواص کو سمجھ آنا شروع ہوگئی ہیں۔
 
لیکن انتہائی افسوس کا مقام ہے کہ اپنی جان چھڑانے کیلئے پاکستان کے کچھ سیاسی لوگ کہ بدقسمی سے جن کے ہاتھ میں پاکستان کے داخلہ امور اور دفاعی معاملات ہیں، وہ اپنی جان چھڑانے کیلئے یہ کہہ رہے ہیں کہ کچھ لوگ میڈیا میں اپنی اہمیت بڑھانے کیلئے داعش کا نام استعمال کر رہے ہیں، ٹھیک ہے ہم آپ کی بات مان لیتے ہیں لیکن اگر ایک مہینے، دو مہینے بعد داعش کا خطرہ کھل کے سامنے آگیا تو آپ اس کی ذمہ داری قبول کریئے گا کہ ہاں ہم نے سستی کاہلی سے کام لیا، جس کی وجہ سے ہزاروں لوگوں کی جانیں گئیں، تو خدارا اپنی قلبی تسکین کیلئے اور اپنی جان چھڑانے کیلئے، محنت نہ کرنے، اپنی ذمہ داری پوری نہ کرنے کیلئے آپ جو یہ انتہائی غیر ذمہ دارانہ بیانات دے رہے ہیں، اس سے خدانخواستہ ملکی سلامتی داو پر لگ سکتی ہے، میں آپ کے اس ادارے اسلام ٹائمز کے توسط سے ان تمام سیاسی لوگوں سے یہ کہنا چاہتا ہوں کہ اگر ایسا نہیں ہے تو داعش کی وال چاکنگ میڈیا پر کیسے دکھائی جا رہی ہیں، سکیورٹی فورسز ملک بھر میں چھاپے کیوں مار رہی ہیں، جیلیں کیوں ٹوٹ رہی ہیں، سرنگیں کیوں بن رہی ہیں، مزارات پر متولیوں کو کیوں مارا جا رہا ہے، خانقاہوں کو کیوں اڑایا جا رہا ہے، درگاہوں پر حملے کیوں ہو رہے ہیں، تو یہ سب اس بات کی غمازی کر رہے ہیں کہ داعش کا فتنہ کسی نہ کسی شکل میں داخل ہونا چاہتی ہے۔ ہمارا مقصد ڈرانا نہیں ہے، ہم خوف میں مبتلا نہیں کرنا چاہتے لیکن اگر کوئی خطرہ نظر آرہا ہے تو اس کا تدارک ہونا چاہئیے۔ 

اسلام ٹائمز: داعش ہو یا طالبان، القاعدہ ہو یا دیگر دہشتگرد تنظیمیں، سب اہلسنت کا نام استعمال کرتی ہیں، آپکی نگاہ کیا کہتی ہے اس حوالے سے۔؟
محمد شبیر ابو طالب:
آپ کی بات سو فیصد صحیح ہے، اہلسنت کا نام اس لئے استعمال کرتے ہیں کہ یہ نام سب سے پیارا ہے، سب سے معتبر ہے، بھائی چارگی کی نشانی ہے، محبت و اخوت کی نشانی ہے، عشق مصطفٰی کی نشانی ہے، عشق اہلبیت اطہار کی نشانی ہے، عشق صحابہ کی نشانی ہے، عشق اولیاء کی نشانی ہے، لہٰذا جس کو بھی کوئی سازش کرنی ہوتی ہے، اپنے نام سے نہیں کرتا، کوشش کرتا ہے کہ اچھی شہرت کے حامل نام سے سازش کی جائے، اس نام کو چوری کرنے کی کوشش کرتے ہیں، لیکن کارستانیاں، کارنامے اور طریقہ واردات بتا دیتا ہے کہ اس طرح کی دہشتگردانہ کارروائیاں کرنے والوں کا اہلسنت سے کوئی تعلق نہیں، ہم واضح کر دیں کہ اہلسنت وہ ہیں کہ جو سرکار دو عالم کی ذات بابرکت کو دین کا مرکز و محور سمجھتے ہیں، اور اہلبیت اطہار، صحابہ کرام، اولیاء اللہ کا احترام کرتے ہیں، تعظیم کرتے ہیں، عزت کرتے ہیں، ان کے اعراس مناتے ہیں، ایام مناتے ہیں، ان کو اپنا مولا اور ملجا مانتے ہیں، جو اہلسنت کا مقدس نام استعمال کرکے غیر شرعی حرکات کر رہے ہیں، مسلمان کو مسلمان سے لڑا رہے ہیں، یقیناً وہ یہ والا نظریہ و فکر نہیں رکھتے، لہٰذا انہیں پہچاننے کیلئے تگ و دو کرنے کی ضرورت نہیں ہے، لوگ بس اس پیمانے کو دیکھ لیں کہ کس میں عقیدت ہے، محبت و احترام ہے، کون نظریں جھکا کر بات کرتا ہے، کون سرکار کی سنت ہر عمل کرتا ہے، کون صحابہ کرام کا احترام کرتا ہے، کون ان سب کے ایام مناتا ہے اور کون مسلمانوں کو لڑاتا ہے، کون کافر کافر کے نعرے لکھتا ہے، اور اس طرح سے امریکا، اسرائیل، بھارت کو خوش کرنے کی کوشش کرتا ہے جہاں سے انہیں امداد آتی ہے۔

اسلام ٹائمز: جمہوری اسلامی ایران کے شہر قم المقدسہ میں ”انتہا پسندی اور تکفیریت علماء اسلام کی نظر میں“ کے عنوان سے دو روزہ عالمی کانفرنس کا انعقاد کیا گیا، کانفرنس میںجمعیت علمائے پاکستان اور ملی یکجہتی کونسل کے سربراہ صاحبزادہ ڈاکٹر ابو الخیر محمد زبیر کی شرکت کے حوالے سے کیا کہنا چاہیں گے۔؟
محمد شبیر ابوطالب:
ایران کے مقدس شہر قم میں مسلم اور غیر مسلم ممالک کے مسلمان جید علماء، اسکالرز، رہنماوں کی ایک عالمی کانفرنس ہوئی ہے، اور جمعیت علمائے پاکستان اور ملی یکجہتی کونسل کے سربراہ صاحبزادہ ڈاکٹر ابو الخیر محمد زبیر نے وہاں پاکستان کی نمائندگی کی، اہلسنت کی نمائندگی کی ہے اور وہاں اپنا موقف پیش کیا ہے، یہ کانفرنس بیداری ملت کیلئے تھی، تکفیری گروہوں، تکفیریت، انتہا پسندی کے خلاف تھی، اتحاد بین المسلمین اور مسلمانوں کے درمیان بھائی چارگی کیلئے تھی، وہاں صاحبزادہ ڈاکٹر ابو الخیر محمد زبیر نے پاکستان کی جانب سے پوری دنیا کے تمام مسلم لیڈروں کو یہ پیغام دیا ہے کہ اگر مٹھی بھر لوگ پاکستان میں مسلک و مذہب کے نام پر، دین کی غلط تشریح کرنے کے نام پر خون خرابہ چاہتے ہیں تو ہم اسے کامیاب نہیں ہونے دینگے، ہم وہاں موجود ہیں، محب وطن قیادت پاکستان میں موجود ہے، اس کے ساتھ ساتھ لوگوں کو یہ جان کر خوشی ہوگی کہ یہ جو تنظیم آیت اللہ ناصر مکارم شیرازی صاحب کی سرپرستی میں فعال ہے، علامہ ساجد علی نقوی کے ساتھ قاضی حسین احمد مرحوم کی جگہ جمعیت علمائے پاکستان اور ملی یکجہتی کونسل کے سربراہ صاحبزادہ ڈاکٹر ابو الخیر محمد زبیر کو پاکستان چیپٹر سے جوائنٹ ڈائریکٹر چنا گیا ہے، یہ ہمارے لئے بھی اعزاز ہے، پاکستان کیلئے بھی اعزاز ہے، جیسا کہ وہاں فیصلہ جات کئے گئے، جیسا کہ دیکھنے میں آ رہا ہے کہ قم المقدسہ میں ”انتہا پسندی اور تکفیریت علماء اسلام کی نظر میں“ کے عنوان سے منعقد ہونے والی دو روزہ عالمی کانفرنس میں پوری امت مسلمہ سے تعلق رکھنے والے تمام سنجیدہ علماء کرام اور قیادتیں اس بات پر متفق ہیں کہ داعش سمیت جو جو ایسی تنظیمیں ہیں جو فلسطین کاز کو نقصان پہنچانا چاہتی ہیں، کشمیر کاز کو نقصان پہنچانا چاہتی ہیں، شام، عراق، افغانستان، لیبیا و دیگر مسلم ممالک میں مسلمان کی گولی سے مسلمان کا سینہ چھلنی کرنا چاہتی ہیں، ہم ان تمام دہشتگردوں کا مقابلہ کرینگے، عشق مصطفٰی کو ہتھیار بنا کر، صحابہ کرام کی محبت، اولیا کرام کی عقیدت، اہلبیت اطہار کی فکر، نظریہ اور طریقہ زندگی کو ہتھیار بنا کر صبر و استقامت اور جوانمردی کے ساتھ انشاءاللہ تعالٰی ہم سب مل کر اس قسم کے تمام فتنوں کا مقابلہ کرینگے۔
اسلام ٹائمز: گذشتہ دنوں مینار پاکستان لاہور میں منعقد ہونے والے جماعت اسلامی پاکستان کے سہ روزہ اجتماع عام سے خطاب کرتے ہوئے سابق مرکزی امیر منور حسن نے کہا کہ موجودہ حالات میں پاکستانی معاشرے میں جہاد فی سبیل اللہ اور قتال فی سبیل اللہ کے کلچر کو عام کرنے کی ضرورت ہے، آپ اس بیان کو کس نگاہ سے دیکھتے ہیں۔؟
محمد شبیر ابو طالب:
منور حسن صاحب ہمارے لئے قابل احترام ہیں، وہ ایک بڑی جماعت، جماعت اسلامی سے تعلق رکھتے ہیں، ملی یکجہتی کونسل میں انکی جماعت شامل ہے، جس کے اکثر کام مجموعی طور پر پرامن ہیں، جہاں تک منور حسن صاحب کا بیان ہے وہ خود ہمارے لئے باعث حیرت بھی ہے، اور باعث افسوس اس اعتبار سے کہ ایک ایسے وقت میں کہ جب ملک دہشتگردی کا شکار ہے، تھوڑا تحمل اور برداشت کے ساتھ بات کی جانی چاہیئے، اور اگر آپ کے ذہن میں اس طرح کی کوئی بات ہے بھی تو اس کو پورے سیاق و سباق اور وضاحت کے ساتھ بیان کیا جائے، تاکہ کوئی یہ نہ کہے کہ مذہبی جماعتیں ایسی سوچ رکھتی ہیں، میں حسن ظن رکھتا ہوں کہ منور حسن صاحب کی مراد یہ ہوگی کہ جو لوگ پاکستان کے دشمن میں، ملک میں اسلام کو نقصان پہنچانا چاہتے ہیں، جو مسلمانوں کے اتحاد و وحدت کو پارہ پارہ کرنا چاہتے ہیں، جو انتہا پسند ہیں، جو کافر کافر کے نعرے لگاتے ہیں، جو معاشرے کے مختلف طبقات کو لڑاتے ہیں، اگر جمہوری انداز سے ہم انکا مقابلہ نہیں کرسکتے تو ہمیں انکے خلاف سختی کرنی ہوگی، اگر منور حسن صاحب کا یہ مقصد ہے تو ٹھیک نظر آتا ہے، لیکن چونکہ انہوں نے ایک جملہ کہہ کر اس کی وضاحت نہیں کی، جسکی وجہ سے غلط فہمی پیدا ہوئی، میں یہ سمجھتا ہوں کہ بڑے اکابرین کو اس طرح کی گفتگو کرتے وقت اسکا سیاق و سباق پورا بیان کرنا چاہیئے، تاکہ لوگوں کو بھی سمجھ میں آئے، کسی کو مذہبی جماعتوں پر انگلی اٹھانے کا موقع بھی نہ ملے۔
خبر کا کوڈ : 421990
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش