0
Saturday 29 Nov 2014 18:45
عامۃ المسلمین کی تکفیر کرنے والا دائرہ اسلام سے خارج ہے

داعش کے ہاتھوں 70 فیصد اہل سنت مارے گئے، علامہ السید عقیل انجم قادری

تکفیریت کیخلاف ایران میں ہونیوالا اجتماع پوری دنیا پر مثبت اثرات چھوڑے گا
داعش کے ہاتھوں 70 فیصد اہل سنت مارے گئے، علامہ السید عقیل انجم قادری
علامہ السید عقیل انجم قادری آج کل جمعیت علماء پاکستان سندھ کے صوبائی ناظم اعلٰی کے طور پر فرائض سرانجام دے رہے ہیں۔ کراچی یونیورسٹی سے ماس کمیونیکشن میں ایم اے کرنے کے ساتھ ساتھ درس نظامی کی تعلیم حاصل کی اور کراچی کی ایک معروف مسجد میں جمعہ کی خطابت کے فرائض بھی سرانجام دے رہے ہیں۔ دور طالب علمی میں ملک کی معروف طلبہ تنظیم انجمن طلباء اسلام کے مرکزی صدر رہے ہیں۔ حق گوئی، جرات مندی شعار ہے اور حق چاہے کتنا ہی کڑوا کیوں نہ ہو، اس کے اظہار میں کسی لومتہ لائم سے نہیں شرماتے۔ علامہ عقیل انجم گذشتہ دنوں اسلامی جمہوریہ ایران میں ہونے والی دو روزہ عالمی کانفرنس میں شریک رہے، کانفرنس کا عنوان "انتہا پسندی اور تکفیریت علماء اسلام کی نظر میں" تھا۔ اسلام ٹائمز نے علامہ السید عقیل انجم قادری کا اسی کانفرنس کے حوالہ سے انٹرویو کیا ہے، جو قارئیں کے پیش خدمت ہے۔

اسلام ٹائمز: تکفیریت کے موضوع پر ہونیوالی کانفرنس کے اہداف کیا تھے، اور انکا حصول کہاں تک ممکن ہوسکا۔؟

علامہ السید عقیل انجم قادری: دنیا میں بڑھتی ہوئی تکفیریت اور اسلام کے نام پر ہونے والی دہشت گردی کے خلاف قم کے اندر آیت اللہ ناصر مکارم شیرازی کے زیر اہتمام یہ کانفرنس منعقد ہوئی۔ یہ علماء، مشائخ اور اہل علم کا انتہائی کامیاب اجتماع تھا، اس کانفرنس میں تقریباً 80 ممالک سے مندوبین نے شرکت کی۔ کامیاب اجتماع تھا اور میں سمجھتا ہوں کہ اس کانفرنس کے مثبت نتائج پوری دنیا پر مرتب ہوں گے، جہاں تک اس کانفرنس کے اہداف کا تعلق ہے تو یہ کانفرنس تکفیریت کے خلاف تھی، دین کے اندر بغاوت کا جذبہ اور دہشت گردی یہ کوئی نئی چیز نہیں ہے، مولائے کائنات حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے دور میں خوارج پیدا ہوئے تھے، انہوں نے اللہ کے دین سے اور اللہ کے نائب خلیفۃ المسلمین سے بغاوت کی تھی، اور اس بغاوت کے نتیجہ میں انہوں نے امت سے علیحدگی اختیار کی تھی، اور ان کی علیحدگی اس انداز میں تھی کہ انہوں نے پوری امت کی تکفیر کی تھی، اور انتہا پسندانہ رویوں کا مظاہرہ کرتے ہوئے یہ خوارج صرف اپنے آپ کو مسلمان سمجھتے تھے۔

ایک ادنٰی سی مثال پیش کرنا چاہوں گا، سیدنا حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم سے زیادہ کون معرفت مصطفٰی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) رکھتا ہوگا، جس کو مصاحبت مصطفٰی (ص) رہی، تربیت مصطفٰی (ص) رہی، لیکن ان (خوارج) نے حضرت علی (ع) کو بھی نہیں بخشا، خوارج کی انتہا پسندیوں کا یہ عالم رہا تھا کہ ایک دفعہ ایک خارجی نے گزرتے ہوئے کسی عیسائی کے باغ سے ایک کجھور اٹھا لی، دوسرے خارجی نے اسے ٹوکا اور کہا کہ بلا اجازت تو نے یہ کجھور کیسے اٹھا لی اور واپس رکھوائی، کسی عیسائی نے خنزیر پال رکھے تھے، ایک خارجی نے گزرتے گزرتے نیزہ مار کر ایک خنزیر کو ہلاک کر دیا، اس کے اوپر خارجیوں نے حد لگا دی کہ تو نے ایک شخص کی اجازت کے بغیر اس کے جانور کو کیسے مار دیا، لیکن انہی خارجیوں کے ہاتھوں ایک صحابی جو اپنی اہلیہ یا کنیزہ سمجھ لیجئے کے ساتھ جا رہے تھے، انہوں نے کہا کہ میں مسلمان ہوں، اس سے پوچھا کہ تو علی (ع) کے بارے میں کیا عقیدہ رکھتا ہے، اس نے کہا کہ میں علی (ع) کو خلیفہ برحق سمجھتا ہوں، انہوں نے اس صحابی کی کنیزہ کو ہلاک کیا، اس کا پیٹ چاک کرکے اس کے پیٹ سے بچہ نکالا اور اس کو اچھالا اور نیزے کے اوپر لپک لیا، صحابی کو قتل کر دیا۔

اتنا انتہا پسندانہ رویہ تھا کہ ایک طرف ایک کجھور کو برداشت نہیں کرتے ہیں اور دوسری طرف
صحابی کو برداشت نہیں کرتے، ان انتہا پسند لوگوں کی نسلیں تو شاید نہ رہی ہوں لیکن ان کی فکر بہرحال باقی ہے، اور پوری دنیا کے اندر جب استعمار نے دیکھا کہ نہ ہم مسلمانوں کو معاشی طور پر تباہ کرسکے، نہ قوت کے بل بوتے پر تباہ کرسکے، تو اپنے منفی مقاصد کی تکمیل کے لئے، ڈیوائیڈ اینڈ رول کا کلیہ چلایا، مسلمانوں میں ہی ایسے طبقات کو پیدا کیا، جو آپس میں ہی ایک دوسرے کی تکفیر کرکے ایک دوسرے کو قتل کریں گے، داعش کو بنے ہوئے ابھی چند ماہ ہوئے ہیں، لیکن ان کی جڑیں ماضی کے طالبان اور سعودی عرب کے وہابی حکمرانوں اور وہابی تحریک سے اور القاعدہ سے جا ملتے ہیں، جنہوں نے قتل مسلم کو، مسلمانوں کے مال کو، اپنے لئے مباح قرار دے دیا ہے، ان لوگوں کے بیانات اب آئے کہ طالبان ناکام ہوگئے، اب ہم اس سے زیادہ سخت گیر رویئے اختیار کریں گے۔

میں قدرے واقف الحال ہوں، میں جانتا ہوں کہ افغانستان کی وار میں روسیوں کو خوفزدہ کرنے کے لئے، امریکہ نے جن لوگوں کو استعمال کیا، انہوں نے بہیمانہ طریقے بھی استعمال کئے، روسی فوجیوں کو تشدد کے ساتھ ہلاک کیا گیا، تاکہ جب ان کی خبریں باہر پہنچیں گی، تو باقی لوگوں کو عبرت حاصل ہوگی اور خوفزدہ ہوجائیں گے، داعش نے بھی وہی طریقہ کار استعمال کیا، امت مسلمہ کو خوفزدہ کرنے کے لئے انہوں نے مسلمانوں اور انسانوں کو ذبح کرنے کا طریقہ اختیار کیا ہوا ہے، انہوں نے انبیا (ع) اور اولیا اللہ کے مزارات کو شہید کیا ہے، شعائر اللہ کی توہین کی ہے، مسلمانوں کے جذبات کو ٹھیس پہنچائی ہے، یہ مسلمانوں کو خوفزدہ کر رہے ہیں، مجھے ایسا لگتا ہے جیسے منگولوں اور تاتاریوں نے مسلمانوں پر یلغار کی تھی، داعش نے وہ یلغار بننے کی کوشش کی ہے، میں امید کرتا ہوں کہ وہ تمام امن پسند لوگ جو رسول اللہ (ص) کی سیرت مبارکہ اور اسلام کی رحمۃ اللعالمینی کے چہرے پر یقین رکھنے والے ہیں ان کا عمل، ان کی حکمتیں اور ان کا دین غالب آئے گا، دہشت گرد ماضی کی طرح ایک بار پھر ذلیل و رسوا ہوں گے۔

اسلام ٹائمز: تکفیریت کیخلاف ایران میں ہونیوالی اس کانفرنس میں پوری دنیا کے علمائے کرام کی کیا متفقہ رائے سامنے آئی۔؟

علامہ السید عقیل انجم قادری: متفقہ رائے یہ سامنے آئی کہ جو عامۃ المسلمین کی تکفیر کرتا ہے، وہ خود دائرہ اسلام سے خارج ہوجاتا ہے، اس کا یہ رویہ انتہا پسندانہ ہے اور اسلام کے لئے ناپسندیدہ ہے، وہ دائرہ اسلام سے خارج ہوجاتا ہے، کانفرنس میں شریک تمام کلمہ گو مسلمانوں نے بخاری شریف کی احادیث مبارکہ اور حضور اکرم (ص) کا قول مبارکہ سنایا کہ جو شخص ہمارے قبلے کی طرف رخ کرکے نماز پڑھتا ہے، جس شخص نے لا الہ الا اللہ پڑھ لیا، جو شخص ہمارے ذبیحہ کو کھاتا ہے، وہ شخص دائرہ اسلام میں ہے، حضور (ص) نے جب حضرت اسامہ بن زید (رض) اور صحابہ کو جب روانہ کیا تو فرمایا کہ جنگ کرو اس وقت تک جب تک یہ کلمہ نہ پڑھ لیں، لیکن جب یہ کلمہ پڑھ لیں گے تو یہ اسلام کی امان میں آجائیں گے، متفقہ رائے یہہی سامنے آئی کہ عامۃ المسلمین جو کلمہ پڑھنے والے ہیں، قبلہ کی طرف رخ کرکے نماز پڑھتے ہیں، مسلمانوں کا ذبیحہ کھاتے ہیں، وہ مسلمان ہیں، ان کے جان مال کی حفاظت پوری امت مسلمہ پر واجب ہے۔

اسلام ٹائمز: کانفرنس میں مقالہ جات کس طرح کے پیش کئے گئے، اور ان میں کیا موقف اختیار کیا گیا۔؟
علامہ السید عقیل انجم قادری: کانفرنس میں چونکہ وقت کم تھا، پوری دنیا سے جید علماء کی حاضری تھی، اکثر لوگوں کو موقع دینا تھا، بھرپور مقالہ جات سے چیدہ حصے سنائے گئے، اور دس دس اور پانچ پانچ منٹ کے خطابات کئے۔

اسلام ٹائمز: ان مقالہ جات کا لب لباب کیا تھا۔؟
علامہ السید عقیل انجم قادری: ان مقالہ جات کا لب لباب یہی تکفیری مظالم تھے، خصوصاً شام و عراق سے آنے والے علمائے کرام اور محققین نے بیان کیا کہ آج ان دونوں سرزمینوں پر داعش کے ہاتھوں مسلمانوں کی کی جان، مال اور عزت محفوظ نہیں ہے، اہم ترین بات جو وہاں کے سابق وزیر خارجہ یا موجودہ وزیر خارجہ نے بتائی کہ داعش کے لوگوں کے ہاتھوں سب سے زیادہ نقصان اہل سنت کو ہوا ہے، اور ستر فیصد سنی لوگ داعش کے ہاتھوں قتل ہوئے، تیس فیصد شیعہ اور دوسرے لوگ ہیں، یہاں میں ایک جملہ عرض کرنا چاہوں گا کہ عراق اور شام کے سنی مسلمان انتہائی کسمپرسی کے عالم میں ہیں، ایک طرف داعش کے لوگ انہیں اس جرم میں قتل کرتے ہیں کہ وہ یارسول اللہ (ص) کہتے ہیں میلاد مناتے ہیں، اولیائے اللہ اسے استعانت رکھتے ہیں، اہل بیت (ع) سے محبت رکھتے ہیں، انہیں اس جرم میں وہابی داعش کے لوگ انہیں قتل کرتے ہیں دوسری طرف سرکاری افواج کی بمبارٹمنٹ اور یلغار بھی ان پر ہوتی ہے، چونکہ داعش نے ان کی آبادیوں میں اڈے بنا رکھے ہیں، تو وہاں کے اہل سنت دونوں طرف سے چکی کے دو پاٹوں میں پس رہے ہیں۔

اسلام ٹائمز: کانفرنس میں تکفیریت کے عفریت سے نمٹنے کیلئے کیا تدابیر پیش کی گئیں۔؟

علامہ السید عقیل انجم قادری: تکفیریت کے عفریت کے سلسلہ میں ایک بات سمجھ لیجئے کہ میڈیا کا دور ہے تو میڈیا نے ہر بات کو ایک فتنہ بنا دیا ہے، وہ مباحث اور وہ باتیں جو کتابوں کے اندر اور مخصوص لوگوں کی زبانوں پر ہوتی تھیں، آج میڈیا نے چاہیے وہ الیکٹرانک، پرنٹ یا سوشل میڈیا ہو، اس نے اسے ایک عوامی مسئلہ بنا دیا ہے، آج زیادہ سے زیادہ ضرورت اس بات کی ہے کہ مسلمان جو کلمہ پڑھتا ہے، قبلہ کی طرف رخ کرکے نماز پڑھتا ہے، مسلمانوں کا ذبیحہ کھاتا ہے، اس کی جان و مال اور عزت کا تحفظ مسلمانوں پر واجب ہے، اس بنیادی فکر کو عام کیا جائے، ان دہشت گردوں کا سختی کے ساتھ سدباب کیا جائے، ایک تو علماء سد باب کرتے ہیں، اگر بات فتووں کی ہو تو فتووں سے حل ہوسکتی ہے، مسئلہ انتظامی بن چکا ہے، علماء فتویٰ دے سکتے ہیں، تحریر یا زبان سے کہہ سکتے ہیں، اس کے بعد انفورسمنٹ آف لاء اور دہشت گردی سے نمٹنے کا مسئلہ ہے، اب یہ ذمہ داریاں حکومتوں اور انتظامی یونٹس کی ہوتی ہیں کہ وہ اس مسئلے سے کیسے نمٹتے ہیں، بنیادی طور پر اب یہ حکمرانوں کی ذمہ داری ہے، عالم اسلام کے اس متفقہ رائے اور مطالبے پر اب مسلم حکمرانوں کو ایکشن لینا چاہیے، صدر ملی یکجہتی کونسل صاحبزادہ ابوالخیر زبیر نے کانفرنس میں ایک بہت اچھی تجویز پیش کی، کہ سعودی عرب اور ایران کی رائے داعش کے معاملہ میں تقریباً ایک ہے، اس موقع پر اسلامی سربراہ کانفرنس یا اسلامی وزرائے خارجہ کی کانفرنس بلائی جانی چاہیے، تاکہ یہ معاملہ علماء سے آگے بڑھ کو حکمرانوں اور انتظامی ہاتھوں تک پہنچ سکے۔

اسلام ٹائمز: اس کانفرنس کا سب سے اہم سیشن کونسا تھا اور اس میں کیا تجاویز سامنے آئیں۔؟
علامہ السید عقیل انجم قادری: اس کانفرنس کے چار سیش ہوئے، افادیت کے لحاظ سے چاروں اہم ترین تھے، آیت اللہ ناصر مکارم شیرازی کا ابتدائی خطاب، اس کے بعد آیت اللہ جعفر سبحانی کا خطاب تھا جنہوں نے اس معاملہ میں بہت زیادہ علمی معاونت کی ہے، پھر دنیا پھر سے آنے والے لوگوں کے خطابات انتہائی اہم تھے، لیکن کانفرنس کا اختتامی سیشن بہت ہی پر لطف تھا جس کا اختتام تلاوت قرآن مجید سے کیا گیا، قاری صاحب نے سورۃ بقرۃ کی آخری تین آیات اور چند دعائیہ آیات کی تلاوت کی، اس نے ایسا سماع باندھ دیا، ہزاروں افراد کا اجتماع تھا، اور ہر شخص قرآن کی ان آیات کو سن کر اشک بار تھا اور اس کے ہاتھ اٹھے ہوئے تھے، اور خدا سے استعانت کا طلبگار تھا، اور ان نیک مقاصد کی کامیابی کے لئے آمین آمین کی صدائیں بلند ہو رہیں تھیں۔

اسلام ٹائمز: پاکستان سے وفد میں کتنے اور کون کون سے علماء کرام شامل تھے۔؟

علامہ السید عقیل انجم قادری: سندھ سے میں اور صاحبزاہ ابوالخیر زیبر تھے، اسلام آباد سے علامہ ساجد نقوی صاحب، علامہ امین شہیدی صاحب، علامہ ثاقب اکبر صاحب، مفتی گلزار احمد نعیمی صاحب نے شرکت کی، بعد میں ناصر شیرازی اور علامہ ناصر عباس جعفری بھی پہنچ گئے تھے اور شاید حافظ ریاض حسین نجفی صاحب بھی نظر آئے تھے، مولانا محمد خان شیرانی۔ آج نماز فجر میں جے یو آئی سندھ کے  سربراہ اور ایکس سینیٹر ڈاکٹر خالد محمود سومرو کو فائرنگ کرکے نامعلوم افراد نے ہلاک کر دیا ہے، اس واقعہ پر ہم لواحقین سے اظہار تعزیت کرتے ہیں، اور اس واقعہ کی بھرپور مذمت کرتے ہیں۔ ملک کے حالات کو بگاڑنے کی ایک بدترین سازش ہے، صوبہ سندھ کی حکومت عملاً ناکام ہوچکی ہے۔
خبر کا کوڈ : 422123
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش