0
Saturday 29 Nov 2014 22:55

موجودہ حکومت 2 سال پورے کرتے دکھائی نہیں دیتی، عبداللہ گل

موجودہ حکومت 2 سال پورے کرتے دکھائی نہیں دیتی، عبداللہ گل
لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ حمید گل کے فرزند عبد اللہ گل نے ابتدائی تعلیم ایف جی سکول سے حاصل کی، نیو یارک یونیورسٹی سے بزنس میں ماسٹر کیا ہے، عبد اللہ گل اس وقت الجزیرہ کیلئے آرٹیکل لکھتے ہیں، اس کے علاوہ امریکہ سمیت جنوبی افریقی ممالک کے صحافتی اداروں کیلئے بھی آرٹیکلز لکھتے ہیں۔ عبداللہ گل میثاق ریسرچ کے نام سے ایک سینٹر بھی چلا رہے ہیں، جس کا فوکس ہاٹ ریجن ہے۔ اس میں ایران، پاکستان، کشمیر، انڈیا اور افغانستان شامل ہیں۔ اس کے علاوہ وہ محسنانانِ پاکستان فاونڈیشن ادارہ بھی چلا رہے ہیں، جس کا مقصد غیر سیاسی لوگوں کو اپنے ساتھ ملانا ہے۔ عبداللہ گل اس وقت تحریک جوانان کے صدر بھی ہیں۔ پاکستان سمیت بین الاقوامی حالات حاضرہ پر ایک خاص نقطہ نگاہ رکھتے ہیں، اسی لئے مختلف ٹی وی چینلز پر ان کے بےلاگ تبصروں کو بیحد سراہا جاتا ہے۔ ’’اسلام ٹائمز‘‘ نے عبداللہ گل سے پاکستان سمیت خطے کے حوالے سے اہم انٹرویو کیا ہے۔ ادارہ

اسلام ٹائمز: 30 دسمبر آنے والا ہے، کیا نیٹو فورسز مکمل طور پر افغانستان نکل جائیں گی۔؟
عبداللہ گل: جی پہلے بھی آپ کے ساتھ انٹرویو میں عرض کرچکا ہوں کہ دسمبر 2014ء کے آخر تک اتحادی افواج افغانستان سے چلی جائینگی، تاہم پیچھے 8 ہزار فوج رہ جائیگی کیونکہ یہ دو طرفہ سکیورٹی معاہدہ ہوا ہے، جس کے تحت اتنی افواج افغانستان میں رہے گی۔ مجھے سمجھ نہیں آ رہا کہ ہم نے کیوں یہ سمجھ لیا کہ دو طرفہ سکیورٹی معاہدے ہی سب کچھ ہیں۔ یہ مغربی جال تھا جس میں ہم پھنس چکے ہیں۔ یہ بات ٹھیک ہے کہ اشرف غنی صاحب ایک سمارٹ اور کافی پڑھے لکھے انسان ہیں، لیکن آخر کیا وجہ تھی افغان الیکشن کے نتائج کی ابھی گنتی جاری تھی کہ اشرف غنی اور عبداللہ عبداللہ کے درمیان پاور شئیرنگ کا معاہدہ طے پا گیا، اس کے پیچھے اصل جو چیز ہے وہ یہ ہے کہ ڈیپارٹمنٹ آف اسٹیٹ اور ڈیپارٹمنٹ آف ڈیفنس کے درمیان ایک سرد جنگ چل رہا تھی، ڈیپارٹمنٹ آف اسٹیٹ یہ کہتا تھا کہ آخر کب آپ افغانستان سے انخلا کرینگے، جبکہ ڈیپارٹمنٹ آف ڈیفنس یہ چاہتا تھا کہ ابھی فوج رکی رہے کیونکہ نارکوٹکس کا ٹریڈ چل رہا ہے۔ طالبان کے دور میں یہ کاروبار صفر پر آگیا تھا، یہ خود مغربی ممالک کی رپورٹ ہے۔ لیکن اس بار دنیا کا 93 فی صد نارکوٹکس کا ٹریڈ افغانستان سے ہوا ہے۔

پہلے آپ کو یاد ہوگا کہ پاکستان میں منشیات کے ٹرک پکڑے جاتے تھے لیکن اب ایسا نہیں ہے، کیونکہ اب یہ ٹریڈ جہازوں کے ذریعے ان ممالک میں کی جاتی ہے جہاں ڈالر میں ادائیگیاں کی جاتی ہیں، ڈیپارٹمنٹ آف ڈیفنس یہی چاہتا تھا کہ فورسز یہاں موجود رہیں اور ان کی روز روٹی چلتی رہے، جبکہ ڈیپارٹمنٹ آف اسٹیٹ یہ چاہتا تھا کہ جلد افغانستان سے نکلا جائے اور امریکہ میں فلاحی کاموں کو پکڑا جائے۔ اسی لئے اشرف غنی اور عبداللہ عبداللہ کے درمیان غیر قانونی شادی کرا دی گئی، اب یہ شادی کتنا عرصہ چل سکتی ہے یہ ایک سوالیہ نشان ہے۔ امریکہ کی اب یہ کٹ اِن مور پالیسی چل ہے، کنٹ اِن مور پالیسی یہ ہے کہ جیسے ویت نام کے اندر ویسٹ مور لینڈ کے جنرل تھے، جنہوں نے کہا کہ کہ پانچ لاکھ فوج میرے پاس ہے، مزید ٹروپس دیں تو میں یہ جنگ جیت کر دکھا سکتا ہوں۔ جنگ تو انہوں نے کیا خاک جیتی لیکن ان کے سپاہی ہیلی کاپٹر کے پیڈ کے ساتھ لٹک کر وہاں سے گئے۔ آج امریکیوں کو پاکستان کی اشد ضرورت ہے۔ اسی لئے انہوں نے جنرل راحیل شریف کو امریکہ کے خصوصی دورے پر بلایا اور انہیں اعلٰی ترین ایوارڈ سے نوازا۔ اعلٰی ایوارڈ تو اسے دیا جاتا ہے جس نے اس سلسلہ میں کچھ کیا ہے، جبکہ یہاں ایسا کچھ نہیں تھا۔ یہ امریکیوں کی عادت ہے جانے والے جنرل کو لپیٹ کر رکھ دیتے ہیں اور آنے والے کی تعریفیں کرتے نہیں تھکتے، یعنی چڑھتے سورج کی پوجا کرتے ہیں۔

جنرل راحیل کی قابلیت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے، آپریشن ضرب عضب گو کہ میری اس حوالے سے کچھ رائے مختلف ہوسکتی ہے لیکن کہتے ہیں کہ ہاتھی کے پاوں میں سب کے پاوں، اب ایک فیصلہ ہوچکا ہے تو بس ہوگیا ہے۔ آپ کو یاد ہوگا کہ جنرل کیانی اور جنرل ریٹائرڈ مشرف کے حوالے سے رپورٹ سامنے آئی تو انہیں دنیا کے طاقتور ترین لوگوں میں ان کا شمار کر دیا جاتا ہے، یہ رپورٹ آپ کو عموماً ٹائم میگزین اور نیوز میگزین میں ہی دکھائی دے گی۔ ہم سمجھتے ہیں کہ جنرل راحیل شریف کو ضرور ان چیزوں کا ادارک ہوگا کہ امریکین کیا چاہتے ہیں۔ امریکی افغانستان سے واپسی کا محفوظ راستے چاہتے ہیں۔ یہ محفوظ راستہ نہ صوبائی حکومتیں فراہم کرسکتی ہیں اور نہ ہی وفاقی حکومت، یہ کام فقط افواج پاکستان ہی کرسکتی ہے۔ اسی لیے امریکہ سے معاملات طے پا رہے ہیں۔

اسلام ٹائمز: کیا ان معاملات کے طے ہو جانے سے افغانستان میں امن قائم ہوجائیگا۔؟
عبداللہ گل: افغان امن کسی صورت قائم نہیں ہوسکتا۔ افغان امن کیسے قائم ہوگا؟ کیا طالبان کی ایک قانونی حکومت نہیں تھی؟، نائن الیون سے پہلے کس حکومت کی تھی؟، جواب یہی ہے کہ ملا عمر کی حکومت تھی۔ پورے افغانستان میں اس کی حکومت تھی، طالبان او پی این گروتھ کو زیرو پر لے آئے تھے، حتٰی ہتھیار رکھوا لئے تھے۔ اس قوم سے ہتھیار رکھوا لئے تھے، جس نے تاریخ میں کبھی ہتھیار نہیں رکھے تھے۔ پورے افغانستان میں امن آگیا تھا، بعد میں اگر کوئی درانداز گھس آئے اور انہوں نے پہلے کرزئی اور بعد میں ایک اور الیکشن کرا کے اُسے عوام کا نام دیدیا گیا تو کیسے ممکن ہے کہ افغانستان میں امن قائم ہوسکے، یہ مغربی ایجنڈا ہے، جس کی تکمیل کیلئے سب کچھ ہو رہا ہے۔

اسلام ٹائمز: کیا وجہ ہے کہ ایک طرف افغانستان پر نائن الیون کا الزام لگاتے ہیں، پھر عراق پر ماس ڈسٹرکشن ہتھیار کا الزام لگا کر عراق میں گھس جاتے ہیں، اسکے نتیجے میں لاکھوں لوگ مارے جاتے ہیں، لیکن اب تک یہ کوئی بھی الزام ثابت نہیں کرسکے۔؟
عبداللہ گل: سب بکواس ہے، ماس ڈسٹرکشن ہتھیاروں کا الزام لگا کر ان امریکیوں نے 20 لاکھ لوگ مار ڈالے۔ پھر آخر میں یہ بات سامنے آئی کہ ان کے پاس کوئی ایسے ہتھیار نہیں تھے، تو کیا آپ نے 20 لاکھ افراد کے ناحق قتل کا ازالہ کیا؟ اپنے تو لاکر بی طیارے کیس میں انہوں نے لیبیا سے پیسے نچوڑ لئے۔ لیبیا کو پیسے ناک سے نکالنے پڑ جاتے ہیں، تو کیا یہاں انہوں نے ایسا کچھ کیا؟ بالکل بھی نہیں۔ انہوں نے عراق کو شیعہ اور سنی عراق میں تقسیم کر دیا ہے، ٹھیک اسی کرنل رالف پیٹر کے نقشہ کے مطابق تقسیم کیا ہے، جو انہوں نے 2006ء میں پیش کیا تھا۔ وہ نقشہ یو ایس ڈیفنس میگزین کے اندر شائع کیا گیا، یہ میگزین کوئی معمولی میگزین نہیں ہے، یہ نقشہ بلڈ بارڈرز کے نام سے شائع ہوا جو آج بھی آپ گوگل پر سرچ کر دیکھ سکتے ہیں۔ اس نقشے کے مطابق عراق کے تین ٹکڑے کئے گئے ہیں، ایک شیعہ عراق، ایک سنی عراق اور ایک آزاد کردستان کے نام سے ہے۔ اس میں ترکی کا کرد علاقہ بھی شامل کیا گیا ہے۔ اس نقشے میں پاکستان کے بھی ٹکڑے دکھائے گئے ہیں، اگر انہوں نے ترکی، شام اور عراق کے اندر وہ کر ڈالا جو یہ چاہتے ہیں تو پھر پاکستان کیسے بچ پائیگا، یہ پاکستان کی افواج ہے جس کی بدولت پاکستان بچا ہوا ہے۔
 
اب دوبارہ آپ کے سوال کی طرف آتا ہوں کہ افغانستان کے اندر امن کیوں نہیں آئے گا، کیوں بنیادی لڑائی تو طالبان اور امریکیوں کے درمیان تھی، اب امریکہ جا رہا ہے۔ اب جب امریکہ جا رہا ہے تو کیا ملا عمر ختم ہوگیا، کیا طالبان ختم ہوگئے؟، ایسا نہیں ہوا تو پھر ہوگا کیا۔ آپ نے دیکھا کہ قطر کے اندر طالبان کا دفتر کھولا گیا۔ اس کے اندر انہوں نے تین شرائط پیش کیں، نمبر ایک ہمارے اوپر سے دہشتگردی کا لیبل ہٹاو، افغانستان سے نکلنے کا ٹائم دو اور ہمارے قیدیوں کو رہا کرو، ان میں دو کام ہوگئے ہیں، صرف دہشتگردی کا لیبل ہٹانا ہے۔ امریکی اب یہی پالیسی ہے کہ چپ کرکے چائنہ اور پاکستان کو پھنسا دو اور خود نکل جاو، جو جنگ 1200 بلین ڈالر خرچ کرنے اور 42 نیٹو کے ممالک ملکر نہ جیت سکے اور ایک ملا فضل اللہ کو ہمارے حوالے نہ کرسکے تو 26 کلومیٹر باڈر کو پاکستان فوج کیسے حفاظت کر پائیگی۔ کیا پاکستان فوج کو بھی 1200 بلین ڈالر دیئے جائیں گے؟، کیا پاکستان کے پاس سیٹلائٹ سسٹم اور جدید اسلحہ موجود ہے تو اس کا جواب نفی میں ہے۔

یہ وقت پڑنے پر باپ بناتے ہیں، اسی لئے پاکستان کی تعریفیں کی جا رہی ہیں کہ آپ ہی سب کچھ ہیں۔ چائنہ کو گوادر اور مڈل ایسٹ میں اکنامی اور تجارت کا لارا دیکر لانا چاہتے ہیں لیکن گودار کیسے فعال ہوسکے گا، ملک میں کیسے امن آئے گا؟، یقیناً جب افغانستان میں امن آئیگا اور افغانستان میں اس وقت تک امن نہیں آسکتا جب تک طالبان کے ساتھ کوئی معاملہ طے نہیں ہو پاتا۔ اب اہم سوال یہ ہے کہ کیا طالبان لاکھوں لوگ شہید کرانے، گوانتاموبے جیل بھگتنے کے بعد آرام سے مان جائیں گے۔ ایسا نہیں ہوگا، یہ بات ٹھیک ہے کہ گھڑی مغرب کے پاس ہے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ وقت طالبان کے پاس ہے، یہ مزاحمتی فورسز ہیں جو امریکین فورسز کو نہیں دیکھ سکتیں۔ یہ جو 8 ہزار فوجی چھوڑ کر جا رہے ہیں وہ انہیں زبح کردینگے۔ اگر اتنی فورسز کے باوجود آپ وہاں امن قائم نہیں کرسکتے تو آپ کے 8 ہزار فوجی کیا کریں گے۔ ہمیں حقیقت منتظر کو دیکھنا چاہیے اور حقیقت منتظر طالبان ہیں۔ جنہوں نے وطن کیلئے قربانیاں دی ہیں، کیا اشرف غنی صاحب ہرات جاسکتے ہیں، ہلمند جاسکتے ہیں؟۔ یقیناً نہیں۔

اسلام ٹائمز: افغانستان سے انخلا کے بعد چین اور ایران کا کیا رول دیکھ رہے ہیں۔؟
عبداللہ گل: میں ابھی سرکاری دورے پر چین گیا ہوا تھا، چین کو یہ بتایا جا رہا ہے کہ افغانستان سمیت پورے مڈل ایسٹ میں بڑی اکنامی ہے، بڑے آپ کیلئے وسائل ہیں۔ میں داد دیتا ہوں چین کو اس نے دو ٹوک الفاظ میں کہا ہے کہ نہ پہلے ہم نے افغانستان میں ایک فوجی رکھا تھا، نہ اب رکھیں گے۔ آخر میں مذاکرات ملا عمر اور امریکہ کے ہی درمیان ہونگے۔ تب معاملات طے پا جائیں گے۔ رہی بات ایران کی تو میں فقط ایران کی بات نہیں کرتا، اس میں پاکستان بھی ہے اور دیگر وہ ممالک جن کے افغانستان کے ساتھ بارڈر لگتے ہیں، ان کا یقیناً افغان امن کے حوالے سے ایک اہم رول ہوگا جو انہیں ادا کرنا چاہیئے۔

اسلام ٹائمز: مشیر خارجہ سرتاج عزیز کا بیان جس میں انہوں نے کہا ہے کہ ہم ان افراد کو کیوں ماریں جو امریکہ کیخلاف لڑ رہے ہیں، ہم انکے دشمن کو اپنا دشمن کیوں بنائیں، ایک ایسے وقت یہ بیان دینا جب آرمی چیف امریکہ پہنچے ہوئے ہیں، کیا یہ بیان دانستہ ہے یا غلطی ہوئی ہے۔؟
عبداللہ گل: نہیں یہ بیان دانستہ ہے اور جان بوجھ کر بیان دیا گیا ہے۔ اگر غلطی ہوئی ہے تو سرتاج عزیز کو استعفٰی دیکر گھر چلے جانا چاہیئے۔ سیلاب آئے لوگ مرجاتے ہیں، اسپتالوں میں بچوں کو چوہے کھا جاتے ہیں، اس کو میں قتل ہی کہوں گا لیکن ہر بار یہ کہا جائے کہ غلطی ہوئی ہے، اب غلطی والا دور گیا، اب سزا ملنی چاہیے۔ تھر میں موت رقص کر رہی ہے اور یہ بلاول کو سیاسی میدان میں اترنے کیلئے کروڑوں روپے خرچ کر رہے ہیں۔

اسلام ٹائمز: شام میں داعش کو سپورٹ کیا گیا اور اب اسی کیخلاف عراق میں آپریشن کرنے کا کہا جا رہا ہے، اب پاکستان میں بھی اس دہشتگرد تنظیم کی سرگرمیوں کی باتیں سننے کو مل رہی ہیں۔ آپ کیسے دیکھ رہے ہیں۔؟
عبداللہ گل: امریکیوں کو سب پتہ ہے کہ کس کے پیچھ کون ہے، کیا ایڈز کے پیچھے یہ لوگ نہیں تھے؟، سارا فراڈ ہے، اس خطے سے جب امریکی کی روانگی شروع ہوگئی ہے تو دو ممالک لرز اٹھے، ایک بھارت اور دوسرا اسرائیل ہے، جن کے پاس کوئی دوسرا ملک نہیں ہے۔ ان دونوں ملکوں کو فکر ہے کہ اگر امریکہ چلا گیا تو ہمارا کیا بنے گا، لٰہذا ایک کیفیت پیدا کی جا رہی ہے، حالیہ فلسطین میں ہونے والی جنگ اسی سلسلہ کی کڑی ہے۔ جس انداز میں وحشیانہ درندگی اور دہشتگردی کی گئی، اس کی کوئی مثال نہیں ملتی۔ اسی طرح کشمیر کی صورتحال ہے، حماس کے خلاف بلاوجہ جنگ چھیڑی گئی۔

اسلام ٹائمز: اس بار بھی عرب ممالک نے فلسطینیوں کا ساتھ نہیں دیا، اس پر کیا کہیں گے۔؟
عبداللہ گل: داعش کا فنامینا ان عرب ممالک کو کھا جائیگا، بہت جلد اس کے آپ اثرات دیکھیں گے، میں کسی ملک کا نام نہیں لینا چاہتا، کیوں کہ میرے لب سلے ہوئے ہیں لیکن اللہ ظالم کو سزا ضرور دیتا ہے، ان لوگوں نے مظلوم فلسطینیوں کا ساتھ نہیں دیا۔ داعش ایک آئیڈیا ہے، جسے ختم نہیں کیا جاسکتا، آئیڈیا ہمیشہ بہتر آئیڈیا کے ساتھ ہی ختم کیا جاسکتا ہے، وہ آئیڈیا آپ کی نگاہ میں اچھا ہو نہ ہو یہ الگ بات ہے، تاہم اس آئیڈیا کو بندوق یا اسلحہ کی نوک پر ختم نہیں کیا جاسکتا، میں داعش کی سرگرمیوں کو سپورٹ نہیں کر رہا اور نہ ہی ان کا حامی ہوں۔

اسلام ٹائمز: عمران خان کا کل اسلام آباد میں ایک بڑا جلسے ہے۔ مرزا اسلم بیگ صاحب نے ان دھرنوں اور احتجاج کا مدعا ایران، امریکہ، لندن اور کینڈا پر ڈالا دیا ہے، کیا آپ بھی اس مسئلہ کو اسی طرح دیکھتے ہیں یا سمجھتے ہیں کہ یہ پاکستان کے داخلی مسائل ہیں جنہیں حل نہیں کیا گیا۔؟
عبداللہ گل: یقیناً اس میں کچھ بیرونی قوتیں بھی ملوث ہیں لیکن اس میں ہمارے پروسی اور برادر اسلامی ملک کا نام لیا گیا ہے، لیکن میں اس حوالے سے ان احباب سے اختلاف رکھتا ہوں، ایسا نہیں ہوسکتا کہ ہمارا برادر اسلامی ملک اس میں ملوث ہو، البتہ ہندوستان ایسا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتا۔ لیکن انقلابی تحریک سے ہندوستان کا بھی کوئی تعلق نہیں ہوسکتا، البتہ کچھ مغربی ممالک ہیں جو اس طرح کی شرارت کرتے رہتے ہیں، کچھ نہ کچھ رائے ان کی طرف سے ضرور آتی ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ وہ پانچ پوائنٹس تھے جن پر اتفاق ہوگیا تھا اور عمران خان نے تسلیم کیا ہے کہ ان سے غلطی ہوگئی لیکن ہمارا سوال ہے کہ کیا عمران خان نے اس غلطی کا ازالہ کیا ہے۔؟ کیا عمران خان نے ان لوگوں سے معافی مانگی ہے یا یہ کہا ہے کہ مجھ سے غلطی ہوئی ہے، وہ لوگ جنہوں نے تین ماہ تک عمران خان کا ساتھ دیا، جیلیں بھگتیں، ماریں کھائیں، کیا ان سے کہا گیا ہے کہ ہم سے غلطی ہوئی ہے۔ عمران خان وزیراعظم کے استعفے سے پیچھے ہٹے ہیں حالانکہ لوگوں نے اس کیلئے جانیں دی ہیں، اس لئے کہتا ہوں کہ مجھے کچھ بیرونی سازش کی بو آتی ہے۔

آخر پہلے دن سے ہی یہ کیوں کہا گیا کہ یہاں ٹیکنوکریٹ کی حکومت ہو۔ ٹیکنو کریٹ کی حکومت تو آئین میں درج ہی نہیں، یہ تو اس وقت ہوسکتا ہے جب فوج اقتدار سنبھال ہے، ورنہ ایسا ممکن نہیں ہے۔ فوج کو اس لئے بیچ میں لایا جا رہا ہے کہ ایک آزاد بلوچستان بنایا جاسکے، کے پی کے کو کاٹ کر افغانستان میں ڈال دیا جائے۔ کشمیر کو انڈیا کے ساتھ ملا دیا جائے، یہ ہے نیا پاکستان کا نقشہ، یہ وہ نقشہ ہے جو رالف پیٹر نے پاکستان کیلئے بنایا ہے۔ میں اسے کسی طور پر نئے پاکستان کیساتھ نہیں ملا رہا لیکن بتا رہا ہوں کہ رالف پیٹر نے نئے پاکستان کا یہ نیا نقشہ بنایا ہے۔ دوسرا میں کسی نئے پاکستان کو نہیں مانتا۔ کیونکہ ہم قائد اور ریاست مدینہ کے پاکستان کو جانتے ہیں، خطبہ حجۃ الوداع کو جانتے ہیں، جس میں اسلامی ریاست کا منشور دیا گیا ہے۔ یہ وہ پاکستان ہے جس کا خواب علامہ اقبال نے دیکھا اور اس کو تعبیر قائد اعظم نے بخشی۔

اسلام ٹائمز: 30 نومبر کو کیا ہوگا۔ اس حوالے سے حکومت کو کیا کہنا چاہیں گے۔؟
عبداللہ گل: میں یہی کہنا چاہ رہا ہوں کہ حکومت 30 نومبر کو آسان نہ لے، حکومت نے بھی کوئی ایسا اقدام نہیں کیا جس کو دیکھ کر یہ کہا جائے کہ وہ مسائل حل کرنا چاہتی ہے۔ ابھی تک انہوں نے کوئی سیاست نہیں کی اور نہ ہی سیاست سیکھنے کا ان کا کوئی ارادہ نظر آتا ہے۔ ابھی سرتاج عزیز صاحب نے ایسے موقع پر ایک شوشا چھوڑ دیا ہے جب ہمارے سپہ سالار امریکہ کے دور پر ہیں۔ یہ کیڑا انہیں ہر تین ماہ بعد کاٹتا رہے گا۔ مجھے حکومت اگلے پانچ سے پورے کرتے دکھائی نہیں دے رہی، بلکہ یوں کہوں کہ اگلا سال بھی پورا کرتی دکھائی نہیں دے رہی۔ دوسرا میں عمران خان سے یہ کہوں کہ آپ قوم کو ویژن دیں، جو لوگ آپ کے ساتھ ہیں وہ شعور یافتہ ہے، وہ دل میں ضرور پوچھتے ہیں۔ جب آپ یہ کہتے ہیں کہ میں لوگوں کو کھمبوں سے لٹکاوں گا تو کیا اس کی آئین پاکستان میں اجازت ہے۔؟ لٰہذا ماورائے آئین اقدام کیسے انجام دے سکتے ہیں، کیا یہ نیا پاکستان بنا سکتا۔

اسلام ٹائمز: قادری صاحب کے حوالے سے کیا کہیں گے۔؟
عبداللہ گل: مجھے افسوس ہے کہ قادری صاحب نے کہا کہ دھرنے میں بیٹھنا شب قدر سے افضل ہے، تو ایسی تشبیہات سے گریز کرنا چاہیے۔ میں سمجھتا ہوں کہ اگر ان لوگوں کو کچھ کرنا ہے تو سینٹ کے الیکشن سے پہلے کچھ کرنا ہوگا۔ اگر سینیٹ کے الیکشن ہوگئے تو بہت پھر مشکل ہوجائیگا، میں سمجھتا ہوں کہ حکومت کیلئے بہت مشکل کی گھڑی ہے، ساری کوششیں یہ ہے کہ فوج آجائے، فوج آگئی تو اس بار آئین پاکستان ختم کر دیا جائے، کیونکہ آئین میں آرٹیکل 6 موجود ہے۔ جس کی ابھی تک سزا مشرف بھگت رہا ہے، اس کے بہت سے حمایتی ہیں، یہ آئین اور عدلیہ کا پھندا لگ ہوا ہے۔ اگر 30 نومبر کو کچھ لاشیں گر گئیں تو پھر بہت مشکل ہوجائیگا، کیونکہ آپ کے ایک طرف بھارت بیٹھا ہوا ہے، آپ کو یاد ہوگا کہ میں نے کہا تھا کہ ایک وقت ایسا آئے گا کہ جب آپ کی فوج مشرقی بارڈر پر بیٹھی ہوگی اور مغربی باڈر پر جنگ شروع ہوجائیگی، اب تو بلوچستان کے 900 کلومیٹر بارڈر پر ٹنشن پیدا ہوگئی ہے۔ کیا ہماری اندرونی سکیورٹی کی صورتحال دگر گوں نہیں ہے۔ فوج داخلی سکیورٹی کو ٹھیک کرنے میں برے طریقہ سے پھنس گئی ہے۔ اگر ایسی صورت میں ملک میں لاشیں گر گئیں تو کون ذمہ دار ہوگا۔؟

ایسی صورتحال میں فوج آئیگی تو پھر نیا آئین بنے گا، کیا بلوچستان نئے آئین کی تائید کرے گا۔ تو پھر میرے منہ خاک مجھے آزاد بلوچستان نظر آرہا ہے۔ کے پی کے کا وہ بارڈر جہاں تک ہمارا ایک فوجی نہیں کھڑا ہوتا تھا اور ہماری ساری توجہ انڈین بارڈر پر ہوا کرتی تھی، اب مشرف کی وجہ سے وہاں فوج برے طریقے سے پھنس گئی ہے۔ اگر ایسا کچھ ہوا تو خدانخواستہ کرنل رالف پیٹر کا نقشہ درست ثابت ہوگا۔ اس صورتحال سے تب ہی نکل سکتے ہیں جب ہم سیاسی و مذہبی فرقہ ورایت سے نکل آئیں اور ایک جھنڈے تلے جمع ہوجائیں۔ منزل اسلام بنائیں اسلام آباد نہ بنائیں، اقتدار کے کھلاڑی ہم نہیں ہیں۔ پاکستان کیلئے نیشنل لیڈر شپ چاہیئے نہ کہ سیاسی لیڈر کی ضرورت ہے۔ اس وقت قومی سطح کا لیڈر کوئی نہیں ہے۔ سب اپنی سیاسی جماعتوں کے لیڈر ہیں۔

قومی لیڈر کوئی نہیں ہے۔ ابھی میاں صاحب جرمنی کے دورے پر گئے ہوئے تھے، لیکن آپ کو یہ سن کر حیرانگی ہوگی کہ یہ دورہ سرکاری نہیں بلکہ میاں صاحب کا ذاتی دورہ تھا، میں پولینڈ کے سفارتخانہ میں ایک فنگشن میں شریک تھا تو وہاں مجھے جرمن سفیر نظر آگئے، میں نے ان سوال کیا کہ آپ کو تو اس وقت وزیراعظم کے ہمراہ جرمنی میں ہونا چاہیے تھا تو انہوں جواب دیا کہ میں سرکاری دوروں میں ساتھ جاتا ہوں، جو پرائیوٹ دورے ہوتے ہیں ان میں نہیں جایا کرتا، کیونکہ یہ ہماری پالیسی ہے۔ میں سن کر حیران رہ گیا اور اپنی بغلیں جھانکتا رہ گیا۔
خبر کا کوڈ : 422197
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش