0
Friday 12 Dec 2014 19:39

داعش، القاعدہ اور طالبان خارجی گروہ کی کڑی ہیں، انہیں ختم کیا جائے، مولانا اشفاق ہمایوں

داعش، القاعدہ اور طالبان خارجی گروہ کی کڑی ہیں، انہیں ختم کیا جائے، مولانا اشفاق ہمایوں
مولانا محمد اشفاق ہمایوں ایک مذہبی اسکالر کے طور پر اسلام آباد کلب، اسلام آباد میں خدمات انجام دے رہے ہیں۔ شہادۃ العالمیہ کی ڈگری مکمل کرنے کے بعد آپ نے پنجاب یونیورسٹی سے اسلامک اسٹڈیز، عربی اور ایجوکیشن میں ماسٹرز کی ڈگریاں لیں۔ اسلام ٹائمز نے امت مسلمہ کو درپیش مسائل اور ان کے حل کے حوالہ سے مولانا محمد اشفاق ہمایوں کا انٹرویو کیا، جس کا احوال پیش خدمت ہے۔

اسلام ٹائمز: دور حاضر میں امت مسلمہ کس طرح کے مسائل سے دوچار ہے۔؟

مولانا محمد اشفاق ہمایوں: بنیادی طور پر ہمیں جن مسائل کا سامنا ہے یہ کم علمی کے باعث ہیں۔ آج جتنی بھی ترقی یافتہ اقوام ہیں، انہوں نے علم حاصل کیا اور علم کے بل بوتے پر ترقی کی، امت مسلمہ کا ماضی شانداز تھا، آج سے دو تین سو سال قبل پوری دنیا پر مسلمانوں کی حکومت تھی، سائنس کے ساتھ ساتھ تعلیم کے تمام میدانوں میں مسلمانوں کا راج تھا، لیکن بدقسمتی سے مسلمان جب سے علم سے دور ہوئے ہیں، کتابوں کا مطالعہ چھوڑ دیا گیا، قرآن سنت سے رابطہ چھوڑ دیا گیا، اسی لئے ہماری لئے مشکلات بڑھی ہیں اور مسائل پیدا ہوئے ہیں، ٹیکنالوجی اور سائنس کے میدان میں ہم طاغوتی قوتوں کے غلام بن گئے ہیں، ہماری لائبریوں کو آگ لگائی، اور سازش کے تحت ہمارے لوگوں کو یہ سوچ دی گئی کہ علم کو حاصل کرنا اتنا ضروری نہیں ہے۔ اس سوچ کے باعث مسلمان علم سے قریب نہیں ہو پارہے۔ اور جب تک مسلمان علم اور قرآن وسنت کے قریب نہیں ہوں گے، اس وقت تک کھویا ہوا مقام حاصل کرنا انتہائی مشکل ہے۔ تو بنیادی طور پر ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم علم کی طرف راغب ہوں، تمام جدید علوم کو حاصل کریں جن کا بنیادی ماخذ قرآن مجید ہےاور نبی علیہ الصلوٰ ۃ والسلام کی سنت مبارکہ ہے۔ جب تک ہم ان علوم کو حاصل نہیں کریں گے ہم ترقی کی راہ پر گامزن نہیں ہو سکتے۔

اسلام ٹائمز: ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت پوری دنیا میں مسلمانوں کے تشخص کو مسخ کیا گیا، آج باہر کی دنیا میں مسلمان کو ایک دہشت گرد کے طور پر جانا جاتا ہے، اس کی کیا وجہ ہے۔؟

مولانا محمد اشفاق ہمایوں: حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دور میں بھی منافقین کا ایک گروہ موجود تھا، بظاہر انہوں نے اسلام قبول کیا لیکن اندرون خانہ ان کے کفار سے تعلقات تھے، یہ ہی سلسلہ ہر دور میں چلا آتا رہا ہے، اسلام سے ناآشنا لوگوں کو طاغوتی طاقتوں نے استعمال کیا، ان لوگوں پر انویسٹمنٹ کی گئی، ان لوگوں کے ہاتھوں میں کلاشنکوف دی گئی، اور اسے کہا گیا کہ یہ اسلام ہے، حالانکہ یہ انتہا پسندی اسلام کی سراسر مخالفت ہے، اسلام اس کی قطعاً اجازت نہیں دیتا، نبی اکرم (ص) نے یہاں تک کہ عیسائیوں اور یہودیوں کے ساتھ بھی مذاکرات کئے، ان کے ساتھ آقا علیہ صلواۃ والسلام کے دور میں معاہدے کئے گئے، لیکن اسلام کے اندر تشدد کا داخل ہونا طاغوتی طاقتوں کی بہت بڑی سازش ہے، انہوں نے بنیادی تعلیم سے ناواقف لوگوں کو استعمال کیا اور ان لوگوں کے ذریعے اسلام کے تشخص کو خراب کرنے کی کوشش کی گئی اور تاثر دینے کی کوشش کی گئی کہ مسلمان امن پسند نہیں بلکہ دہشت گرد ہیں۔ یہ اسلام کے خلاف سراسر سازش اور ایک بڑا فتنہ و فساد ہے۔

اسلام ٹائمز: جہاں ملکی افواج شدت پسندوں کا قلع قمع کرنے میں مصروف ہیں، وہیں ایک نئے دہشت گرد گروہ داعش کی بازگشت بھی پاکستان میں سنائی دے رہی ہے، بطور مذہبی سکالر آپ اس گروہ کے بارے میں کیا رائے رکھتے ہیں۔؟

مولانا محمد اشفاق ہمایوں: ہم دیکھتے ہیں کہ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دور میں خارجیوں کا ایک گروہ نکلا تھا، میں سمجھتا ہوں کہ آج کے دور کے داعش، القاعدہ اور طالبان اسی خارجی گروہ کی کڑی ہیں، یہ خارجی ہیں جن کے بارے حضور اکرم (ص)، صحابہ کرام اور اسلام کا موقف واضح ہے کہ انہیں ختم کیا جائے، یہ اسلام کے دشمن ہیں، یہ لوگ اسلام کے تشخص کو غلط طریقے سے پیش کر رہے ہیں، تو ان لوگوں کی دین کے اندر کوئی گنجائش نہیں ہے اور ایسے جتنے بھی عوامل ہیں وہ سراسر دین کے خلاف ہیں۔

اسلام ٹائمز: مسلمانوں کے مختلف فرقوں کے درمیان ہم آہنگی اور امن کے قیام کے لئے کئی پلیٹ فارم بنائے گئے، ملی یکجہتی کونسل بھی ایسے پلیٹ فارمز میں سے ایک ہے، اس طرح کے اداروں کو کس قسم کے اقدامات اٹھانے چاہیئیں۔؟

مولانا محمد اشفاق ہمایوں: دیکھئے میں سمجھتا ہوں کہ بنیادی طور پر جن عوامل پر کام ہونا چاہیئے تھا ان پر عمل نہیں کیا گیا، ایک فارمیلٹی پوری کی گئی اور میڈیا کے سامنے آکر علامتی اتحاد دکھایا گیا ہے، یہ ہی لوگ جب اپنے مساجد اور مدارس میں جاتے ہیں تو مختلف فرقوں کے بارے میں زہر اگل رہے ہوتے ہیں۔ بہترین حکمت عملی یہ ہے کہ کسی کو چھیڑیں مت اور اپنا عقیدہ چھوڑیں مت۔ ہر کسی کے اپنے نظریات ہیں، اختلاف رائے کا حق بھی موجود ہے۔ اس اختلاف رائے کو مخالفت اور دشمنی میں نہیں بدلنا چاہیئے، جب ہم اختلاف رائے کو دشمنی میں بدل لیتے ہیں تو یہ فتنہ و فساد کی شکل اختیار کر جاتا ہے، معاشرے کے اندر انتشار اور بدامنی پیدا ہوتی ہے۔

کم علم لوگوں کو استعمال کیا جاتا ہے جو استعمار کے آلہ کار بن کر فتنہ و فساد پید ا کرتے ہیں، اہل علم اختلاف رائے رکھتے ہیں، مخالفت نہیں کرتے، فرقوں کے درمیان ہم آہنگی کو محض فارمیلٹی نہ سمجھا جائے، تمام مکاتب فکر کے علما آگے آئیں، اپنے ماننے والوں کو یہ باور کرائیں کہ مختلف فرقوں کے درمیان موجود اختلاف اس نوعیت کا نہیں ہے کہ ایک دوسرے کے گلے کاٹے جائیں، ایک دوسرے کی مساجد یا امام بارگاہوں پر حملے کئے جائیں، ہمیں دین اس بات کی اجازت نہیں دیتا، اختلاف رائے ہونا مخالفت یا دشمنی والی بات نہیں ہے، یہ دین کا حسن ہے، آقا علیہ صلوۃ والسلام نے فرمایا کہ اختلاف امتی رحمۃ  ہاتھ کھول کر نماز پڑھنا بھی آقا علیہ صلوٰۃ والسلام کی سنت ہے اور ہاتھ باندھ کر نماز پڑھنا بھی آقا علیہ صلوٰۃ والسلام کی سنت ہے، حضور (ص) کے ہر عمل کو اللہ تعالیٰ نے زندہ رکھا ہے، ہاتھ کھول پر نماز پڑھنے والے بھی موجود ہیں، ہاتھ باندھ کر نماز پڑھنے والے بھی موجود ہیں، حضور (ص) کی ساری سنتیں زندہ ہیں۔

اسلام ٹائمز: مسلمانوں کے خلاف تکفیرکے فتویٰ دینے والے عناصر کے بارے میں اسلام کیا حکم دیتا ہے۔؟

مولانا محمد اشفاق ہمایوں: ایک دوسرے کو کافر کہنے کے حوالہ سے اگر مختلف مکاتب فکر کے اہل علم افراد کو پڑھا جائے تو ہمٰن کہیں یہ دکھائی نہیں دیتا کہ اہل علم افراد نے فروعی اختلاف کی بنیاد پر کسی کو کافر قرار دیا ہو، یا کفر کا فتویٰ دیا ہو، ہمیں چاہیئے کہ ہم کافروں کو مسلمان بنائیں، لیکن معاملہ اس کے الٹ چل رہا ہے (اللہ تعالیٰ معاف فرمائے) کہ مسلمانوں کا کافر بنایا جارہا ہے، یہ عجیب تماشہ ہے، دین کے اندر اس کی کوئی اجازت نہیں ہے، یہ انتہائی غلط امر ہے کہ ہم اس کی پرزور مذمت کرتے ہیں، یہ ایک غلط اور جاہلانہ طریقہ ہے کہ ایک دوسرے پر سوچے سمجھے کفر کا فتویٰ لگا دیا جائے، اختلاف رائے ہونا اور چیز ہے، تو کسی کے خلاف کافر کافر کے نعرے لگانا، کسی کو مشرک کہہ دینا، کسی کو بدعتی کہہ دینا یہ انتہائی غلط ہے، دین اس بات کی اجازت نہیں دیتا۔

اسلام ٹائمز: ان دنوں پوری دنیا میں چہلم سید الشہداء منایا جارہا ہے، تحریک حسینی کے حوالہ سے بیان فرمائیں۔؟
مولانا محمد اشفاق ہمایوں: امام عالی مقام حضرت امام حسین علیہ السلام کی تحریک کے حوالے سے میں سمجھتا ہوں کہ امام حسین (ع) ایک شخصیت کا نام نہیں بلکہ ایک مشن کا نام ہے، ایک تحریک کا نام حسین (ع) ہے۔ وہ مشن جو امام عالی مقام (ع) نے پوری دنیا پر امن کے قیام کے لئے شروع کیا۔ ایک سچائی اور دیانت داری کا مشن ہے، امام عالی مقام (ع) نے ہمیں درس دیا کہ اگر کوئی طاغوتی قوتیں ہم پر مسلط ہو رہی ہیں، ان کے سامنے سینہ سپر ہو جاتا اور دین مبین کی سربلندی کے لئے ڈٹ جانا، امام علیہ السلام نے یزید کے ہاتھ پر بیعت نہیں کی، دیکھیں یزید کلمہ بھی پڑھتا تھا، کبھی کبھار نماز بھی پڑھتا تھا، اس سے اختلاف کی وجہ یہ تھی وہ شرابی اور زانی تھا اس نے مقدس رشتوں کو پامال کیا، ماں، بہن اور دادی کے ساتھ نکاح کرنے کو جائز قرار دیا، اسی وجہ سے امام حسین (ع) نے یزید کے مقابل ڈٹ جانے کا فیصلہ کیا اور امت کو بھی یہ ہی درس دیا کہ طاغوت کے سامنے ڈٹ جانا، یہ امام حسین (ع) مشن تھا جو قیامت تک جاری رہے گا۔
خبر کا کوڈ : 425184
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش