0
Saturday 20 Dec 2014 11:53

یہ تکفیری دہشتگرد اسلام کی خدمت نہیں بلکہ جہنم کی طرف جا رہے ہیں، مولانا مقصود الحسن قاسمی

یہ تکفیری دہشتگرد اسلام کی خدمت نہیں بلکہ جہنم کی طرف جا رہے ہیں، مولانا مقصود الحسن قاسمی
مولانا مقصود الحسن قاسمی کا تعلق بھارتی دارالحکومت نئی دہلی سے ہے، آپ 8 سال سے امام کونسل آف انڈیا کے صدر ہیں، امام کونسل آف انڈیا کے ساتھ کشمیر، اترانچل، دہلی، اترپردیش، ممبئی سمیت بھارت کی مختلف ریاستوں کے جید علماء کرام و مفتی عظام جڑے ہوئے ہیں، امام کونسل آف انڈیا کا قیام بھارت میں فعال علماء کرام کے درمیان ہم آہنگی اور ہم آواز بنانے کے لئے عمل میں لایا گیا ہے۔ مسلم نوجوانوں میں دینی تعلیم و ماڈرن ایجوکیشن کے لئے امام کونسل آف انڈیا کا اہم رول ہے، مولانا مقصود الحسن قاسمی اوکھلا نئی دہلی میں امام جمعہ والجماعت کے فرائض بھی انجام دیتے ہیں، موصوف نئی دہلی اور اس کے اطراف میں اہم دینی امور اور اتحاد و اتفاق بین المسلمین کے حوالے سے بہت ہی فعال ذمہ داریاں سرانجام دے رہے ہیں، اسلام ٹائمز نے مولانا مقصود الحسن قاسمی سے نئی دہلی میں ملاقات کے دوران ایک خصوصی انٹرویو کا اہتمام کیا جو قارئین کرام کی خدمت میں پیش ہے۔ (ادارہ)

اسلام ٹائمز: ہر آئے دن بھارت میں مسلمانوں کے خلاف ہندو شدت پسندوں کی جانب سے سازشیں کی جا رہی ہیں، ایسے میں مسلمانوں کی پیشرفت اور آزادانہ حقوق کے بارے میں ابھی موجودہ صورتحال کیا ہے۔؟

مولانا مقصود الحسن قاسمی: ہندوستان کے مسلمانوں کی پیش رفت کے حوالے سے مختلف جہت ہیں، اگر ہم ہندوستانی مسلمانوں کو دیکھیں گے تو انہیں کئی چیلنجز کا سامنا ہے، ہندوستان کا مسلمان ہندوستان کو اپنا ملک سمجھتا ہے اور اس کا یہ اپنا ملک ہے بھی، جتنا یہ ملک کسی اور کا ہے اس سے زیادہ مسلمانوں کا ہے اور ہمارا بھی اس ملک پر برابر کا حق ہے، لیکن ہمارے ہم وطنوں کی طرف سے کچھ تنظیمیں ہیں جیسے ’’آر ایس ایس‘‘ اور دیگر شدت پسند جماعتیں انکی جانب سے مسلمانوں کو کچھ زیادہ چیلنجز کا سامنا ہے، الحمدللہ بھارت کا مسلمان ان چینلجز کا اچھے طریقے سے مقابلہ کرتا ہے، فیس بھی کرتا اور جواب بھی دیتا ہے اور ہمارے ملک کی جمہوریت کو اس کا کریڈٹ ملتا ہے کہ یہاں کے ہم وطنوں ہندوں اور مسلمانوں کے درمیان کبھی کوئی ناخوشگوار واقعہ پیش آئے تو اسکے خلاف ایکشن لیا جاتا ہے، اور عام ہندو بھی شدت پسند ہندو کے خلاف ہوتا ہے، گجرات فسادات پر بھی ہندو افراد نے آواز بلند کی، ہندو کارکن ’’ستیش ستروارڈکر‘‘ نے گجرات فسادات متاثرین کے لئے جنگ لڑی، غرضیکہ مسلمانوں اور اقلیتی فرقوں کے حق میں مسلسل آواز اٹھائی جا رہی ہے، دوسری اہم بات یہ ہے کہ ہندوستان میں ہمارے پڑوسی ملک پاکستان کے مقابلے میں بہت کم تشدد پایا جاتا ہے، پاکستان جہاں مسلکی ٹکراو، آپسی تضاد اور فرقہ وارانہ اور انتہا پسندی اپنی انتہا کو پہنچ چکی ہے وہاں مسجدیں، چرچ، امام بارگاہ، مدرسے خاص کر اسکول محفوظ نہیں ہیں یہاں تک کہ نماز جنازہ میں بھی بم برسائے جاتے ہیں، بےخطا اور بےگناہ و معصوم بچوں کی جانیں لی جاتی ہیں، میلاد النبی (ص) کے جلسے جلوسوں پر، محرم کے ماتمی جلوسوں ہر بمباری کی جاتی ہے، ابھی 4 دن پہلے کا خونین واقعہ تو ہم نہیں بھول سکتے ہیں، اللہ کا شکر ہے کہ ہندوستان کے مسلمان اس طرح کی لعنت سے بہت دور ہیں۔

اسلام ٹائمز: عالمی سطح پر مسلم حکمرانوں کو خریدا جاتا ہے اور ایک خونین کھیل کا آغاز ہو چکا ہے، اس حوالے سے آپ کیا کہنا چاہیں گے۔؟
مولانا مقصود الحسن قاسمی: ایسے واقعات رونما ہو رہے ہیں جس میں کوئی شک و شبہ نہیں ہے، عالم اسلام کے کچھ نام نہاد ممالک ہیں جو دوسرے بڑے ممالک، یہودی اور صہیونی طاقتوں کے زیر نگرانی ایسا کرتے ہیں کہ وہ تفرقہ اور تقسیم کے لئے کچھ بھی کرسکتے ہیں، ایسے اسلامی ممالک اپنے بڑے بڑے مفتیوں کو دیگر ملکوں میں بھیج کر جلسے کراتے ہیں کبھی کسی کی عظمت میں تو کبھی کسی کی شان میں، ایسے جلسوں کا مقصد دراصل مسلمانوں کے درمیان آپسی رسہ کشی اور تضاد کو بڑھانا ہوتا ہے اور تفرقہ ایجاد کرنا ہوتا ہے، شیعہ کو سنی سے اور سنی کو شیعہ سے لڑانے کی کوششیں کی جا رہی ہے پھر سنیوں کو بھی آپس میں تقسیم کیا جاتا ہے، ہمیں اس حوالے سے تشویش ہے کہ کچھ لوگ دنیا بھر میں دشمن کے آلہ کار بن کر گھوم رہے ہیں اور نفرت انگیز تقریریں کرتے ہیں انکی مالی معاونت کہاں سے مل رہی ہے کسی سے پوشیدہ نہیں ہونا چاہیئے۔

اسلام ٹائمز: کیا یہ آشکارہ نہیں ہے کہ یہ صہیونیت اور دشمن اسلام کے ایجنٹ ہیں پھر بھی مسلمان انکے دھوکے میں آجاتے ہیں۔؟

مولانا مقصود الحسن قاسمی: آپ کی بات قابل تائید ہے، دیکھئے جس طرح عراق اور شام میں بےنظمی اور انسانیت مخالف سازشیں جاری رکھی گئیں، شام اور عراق کے آس پاس کے ممالک ہی وہاں بدامنی پھیلا رہے ہیں اور وہاں قتل عام کرا رہے ہیں اور ہر مسلمان کے لئے یہ واضح ہونا چاہیئے کہ یہ سب امریکہ کے اشاروں پر انجام دیا جاتا ہے، اسرائیل اور دیگر صہیونی طاقتوں کے فرمان پر یہ سب کھیل جاری ہے اور بدقسمتی سے نام نہاد مسلم حکمران اور مسلم ممالک بھی اس قتل و غارت میں امریکہ، اسرائیل اور دیگر صہیونی طاقتوں کے ساتھ ساتھ ہیں، ہمارا کہنا ہے کہ وہ لوگ اسلامی لبادا اوڑھ کر لوگوں کو ورغلاتے ہیں اور تقسیم کرنے کی کوشش کررہے ہیں، یہ بات آپ کی صحیح ہے کہ کچھ ملک ہیں جو صہیونیت کے خاکوں میں رنگ بھرنے کا کام کررہے ہیں، اسرائیل کو فلسطین پر اور غزہ پر ببماری کی مہلت کس نے دی، مصر میں انہوں نے اخوان المسلمین کی حکومت کو گرایا، یہ مواقع فراہم کس نے کئے، مصر کی اخوان المسلمین فلسطین کی حامی جماعت تھی اور وہاں قتل و غارت کی مخالف حکومت تھی، محمد مرسی کی حکومت کو گرانے کے لئے یہودی اور سعودی پیسے استعمال ہوئے، مصر میں بدامنی کی ذمہ دار اسرائیل، امریکہ اور سعودی عرب کی حکومتیں ہی ہیں مجھے لگتا ہے کہ اگر مرسی کی حکومت نہ گرتی تو غزہ میں رمضان میں اس قدر قتل و غارتگری نہ ہوتی۔

اسلام ٹائمز: عرب مملکتوں کی صہیونیت سے وابستہ مفادات کے بارے میں آپ کی رائے جاننا چاہیں گے۔؟
مولانا مقصود الحسن قاسمی: ان کا صرف اور صرف ایک ہی ہدف ہے وہ یہ کہ عرب مملکتیں اپنے ظالمانہ اور جابرانہ حکومتیں دائم رکھنا چاہتی ہیں، ان کی اَن ڈیموکریٹک سرکاریں جو ہیں وہ اس کو بچانے کے لئے دشمنان اسلام سے سازباز کئے ہوئے ہیں، ان سے ہاتھ ملائے ہوئے ہیں، اس کے بدلے میں وہ انکی شہنشاہت و بادشاہت کی حفاظت کر رہے ہیں اور اس کے بدلے میں یہ اُن کے آلہ کار بنے ہوئے ہے، اور اس بیچ تخت و تاج کے چکر میں مسلمان بھائیوں کے خون کی ہولیاں کھیلی جا رہی ہیں۔

اسلام ٹائمز: اس تمام صورتحال کے پیش نظر باشعور علماء کرام کا ردعمل کیا ہونا چاہیے۔؟

مولانا مقصود الحسن قاسمی: دنیا بھر کے تمام علماء کرام کو چاہیئے کہ ان مسائل کو لیکر مل بیٹھ جائیں، کانفرنسز اور سیمینارز کا اہتمام کریں اور واضح پیغام دیں کہ جو بھی عالم اسلام میں قتل و غارتگری کر رہے ہیں یا کرا رہے ہیں وہ اسلام کے دشمن ہیں، وہ صہیونیت کے آلہ کار ہیں، یہ تکفیری دہشت گرد اسلام کی خدمت ہرگز نہیں بلکہ جہنم کی طرف جا رہے ہیں، رسول اکرم (ص) کا فرمان ہے کہ مومن کا جس نے بھی قتل کیا اس کا ٹھکانہ جہنم ہے، قرآن مجید کی آیت ہے کہ جس نے کسی مومن کو جان بوجھ کر قتل کیا اسکا ٹھکانہ جہنم ہے وہ ہمیشہ جہنم میں ہی رہے گا، یعنی جو مومن کا بےگناہ قتل کرتا ہے وہ کافر ہو جاتا ہے مسلمان نہیں رہتا، علماء کرام کو لوگوں کے سامنے یہ باتیں پہنچانی ہونگی کہ یہ اسلام کی خدمت ہرگز نہیں ہے بلکہ کفر کی خدمت ان تکفیری دہشت گردوں کے ہاتھوں ہورہی ہے۔

اسلام ٹائمز: تہران میں ابھی ایک ماہ قبل تکفیری دہشتگرد مخالف کانفرنس منعقد ہوئی، ان جیسی کانفرنسز کا اہتمام کس قدر لازمی ہے، اور کیا مثبت اثرات ان سیمینار اور کانفرنسز کے مرتب ہو سکتے ہیں۔؟

مولانا مقصود الحسن قاسمی: ایسی کانفرنسز ہونی چاہیئیں، آپ کو بتاتا چلوں کہ مارچ میں ہم بھی تہران میں منعقدہ ایک کانفرنس میں شریک تھے اور ابراہیم جعفری عراقی وزیر خارجہ اور دیگر شرکاء نے طے کیا تھا کہ بغداد میں بھی ایک عالمی دہشتگرد مخالف کانفرنس رکھی جائے، مجھے نہیں پتا کہ وہاں حالات ناساز ہونے کی بنا پر وہاں شاید کانفرنس نہیں کی گئی، غرض کہ ایسی کانفرنسز ہر جگہ، ہر ملک میں ہونی چاہیئیں اور ہندوستان اور پاکستان میں بھی اس طرح کی ایک عالمی کانفرنس منعقد ہونی چاہیئے۔

اسلام ٹائمز: بھارت بھر میں داعش کی جانب رجحان اور داعش کے بھارت میں سائے کے بارے میں آپ کیا کہنا چاہیں گے۔؟

مولانا مقصود الحسن قاسمی: داعش کی جانب بھارت کے بعض عناصر کا رجحان قابل تشویش ہے، داعش کی کچھ حرکتیں کشمیر میں بھی دکھائی دیں اور وہاں بھی داعش کے پرچم لہرائے گئے، مجھے یقین ہے کہ یہ ہندوستان کے لوگ نہیں ہیں بلکہ بیرون ممالک کے لوگ یہاں آکر نوجوانوں کو ورغلا رہے ہیں، ممبئی سے 4 نوجوان عراق پہنچے جن میں سے ایک واپس آیا اور یہاں پکڑا بھی گیا، کہیں کہیں پر داعش سے وابستگی کے واقعات رونما ہوئے لیکن میں حکومت وقت سے اپیل کرتا ہوں کہ وہ اس حوالے سے گہرائی سے چھان بین کرے اور دیکھے کہ ایسے وابستہ عناصر کی جڑیں کہاں جا ملتی ہیں ان لوگوں میں جو ایسے عناصر کو ورغلا رہے ہیں اور اکسا رہے ہیں یہ ہمارے لئے ایک سنگین معاملہ ہے۔ ابھی تک بھارت کے کسی سرکردہ عالم دین، مولوی یا مفتی کی جانب سے داعش کی حمایت کھل کر سامنے نہیں آئی ہاں لکھنؤ کے ایک عالم دین سلمان ندوی نے ایک خط لکھا تھا لیکن بعد میں انکے اس خط کی سخت مخالفت کے بعد انہوں نے معافی مانگی اور اپنے بیانات واپس لئے اور کہا کہ میں داعش اور انکے پالیسیوں سے متفق نہیں ہوں، اور آج وہ اپنے آپ کو ایسے عناصر سے ہرگز نہیں جوڑتے۔

اسلام ٹائمز: بھارت میں ہندو شدت پسند گروہ تمام مسلمانوں کو داعش سے جوڑنے کی کوشش کر رہے ہیں، اس حوالے سے آپ کی رائے جاننا چاہیں گے۔؟

مولانا مقصود الحسن قاسمی: اس کے ہم ہی ذمہ دار ہیں یہاں کے کچھ نام نہاد لوگوں نے اپنے نوجوانوں کو شام و عراق بھیجا اور ہندو شدت پسندوں کو موقع ہاتھ آیا، ہمارے لوگوں نے ہی ایسے عناصر کو موقع دیا، دوسری بات یہ ہے کہ اس ملک میں بھی کچھ عناصر ہیں جو بہانے کی تلاش میں ہوتے ہیں کہ مسلمانوں کے بدنام کریں، لیکن ایسے عناصر کامیاب ہرگز نہیں ہونگے، اس لئے کہ بھارت کا مسلمان اور ہر دینی مسلم تنظیم داعش کے خلاف ہے، اور انکی حرکات کو غیر اسلامی مانتے ہیں، اور اس گروہ کو اسلام کے خوارج اور باغی تصور کرتے ہیں، ہم نے طے کیا ہے کہ نئی دہلی میں عنقریب تکفیری دہشتگردی کے خلاف ایک اعلیٰ سطحی کانفرنس منعقد کی جائے گی جس میں داعش کے اصلی خونین چہرے کو بےنقاب کیا جائے گا۔
خبر کا کوڈ : 426674
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش