0
Monday 22 Dec 2014 19:42

جنت میں جانا میرے لئے اتنا ہی آسان ہے جتنا ایک کمرے سے دوسرے کمرے میں جانا، شہید باقر شیرازی

جنت میں جانا میرے لئے اتنا ہی آسان ہے جتنا ایک کمرے سے دوسرے کمرے میں جانا، شہید باقر شیرازی
شہید سید باقر حسین کا تعلق پاراچنار کے نواحی علاقے زیڑان کی شیرازی سادات سے تھا۔ سید باقرحسین 1979ء کو سید رضی شاہ کے گھر میں پیدا ہوئے، بی اے تک تعلیم حاصل کی، اپنی پوری زندگی تنظیموں میں گزاری، چنانچہ سکول کے زمانے سے لیکر کالج تک کے تمام عرصے میں تنظیموں سے وابستہ رہے۔ سید شہید ایک جذباتی اور حساس طبیعت کے مالک تھے، چنانچہ مذہب اور تنظیموں کے متعلق کسی کی تنقید تک برداشت نہیں کرسکتے تھے۔ یہی وجہ تھی کہ بارہ ربیع الاول بمطابق یکم اپریل 2007ء کو جب دشمنان اہلبیت نے عید میلاد النبیؐ کے جلوس میں نعوذ باللہ ‘‘حسینیت مردہ باد اور یزیدیت زندہ باد’’ کے نعرے لگائے، تو امام حسین علیہ السلام کے یہ سچے عاشق کی حالت اتنی متغیر ہوگئی کہ دن رات کی نیند ہی جاتی رہی، اور اسی دن زندگی سے بیزار ہوئے، برملا اپنی شہادت کا اظہار کیا۔ ایک مقام پر اپنی ماں سے کہا کہ دیکھو امی! غلیظ نعروں پر مبنی وہ سی ڈی قطعا نہ دیکھنا، کیونکہ جس نے بھی اسے دیکھ لیا، اس پر اسی وقت جہاد فرض ہوگیا جب سے میں نے دیکھی ہے، مجھ پر جہاد واجب ہوچکا ہے۔ ان کی زندگی خصوصا شہادت سے چند دن پہلے ان کی مضطرب حالت پر مبنی زندگی سے متعلق اسکی سرگرمیوں کے بارے میں اسکے بھائی ماسٹر سید جمیل حسین شیرازی سے مفصل جبکہ آخر میں انکے عظیم والدین سے مختصر سی گفتگو کی گئی ہے، جسے اپنے قارئین کی نذر کررہے ہیں۔

اسلام ٹائمز: آپ کے کتنے بھائی ہیں؟
سید جمیل حسین: ہم چار بھائی تھے ایک شہید ہوگیا، تین بقید حیات ہیں۔
اسلام ٹائمز: شہادت کے وقت آپ کے شہید بھائی سید باقرحسین کی عمر کیا تھی؟
سید جمیل حسین: میرا شہید بھائی سید باقر حسین 1979ء میں پیدا ہوئے اور 6 اپریل 2007ء کو شہید ہوئے۔ یوں شہادت کے وقت اسکی عمر تقریبا 28 سال تھی۔
اسلام ٹائمز: بتائیں شہید کی تعلیمی حیثیت کیا تھی؟
سید جمیل حسین: وہ میرا کلاس فیلو تھا، میں نے بی اے کیا، انہوں نے بھی بی اے تک تعلیم حاصل کی۔

اسلام ٹائمز: زندگی میں کسی تنظیم یا تنظیموں سے وابستگی رہی تھی؟
سید جمیل حسین: ایک نہیں، میرے بھائی کی مختلف تنظیموں سے وابستگی تھی۔ طالبعلمی کے زمانے میں آئی ایس او سے وابستہ رہے اور اسکے بعد ادارہ تعلیم و تربیت میں زیادہ وقت گزارا۔ تنظیموں سے عشق کی حد تک محبت تھی۔ جس بھی تنظیم سے وابستہ رہے تھے، عمر بھر اس پر تنقید برداشت نہیں کرسکتے تھے۔

اسلام ٹائمز: شہید کی شادی ہوئی تھی یا نہیں؟

سید جمیل حسین: نہیں شادی نہیں ہوئی تھی۔ شہادت سے کچھ عرصہ پہلے خود بھی شادی کی تمنا کرتے رہے، ہم نے بھی اس سلسلے میں مہم شروع کی تھی، کوئی موزوں رشتہ ڈھونڈنے کی۔ تاہم جب بارہ ربیع الاول کو دشمنان اہلبیت نے غلیظ نعرے لگائے، تو وہ دنیا سے ہی متنفر ہوگئے تھے۔ بارہ ربیع الاول کے بعد اسکی مضطرب حالت کی بحالی کے لئے اگر کبھی ہم شادی کا اظہار کرتے تو وہ سختی سے ٹالتے رہے اور کہتے کیا یہ شادیوں کا وقت ہے؟ یہی نہیں بلکہ شادی کے نام سے برآت کا اظہار کرتے تھے۔

اسلام ٹائمز: شہید کی شہادت کی اصل وجہ کیا تھی؟

سید جمیل حسین: یکم اپریل 2007ء کو جب دشمنان اہلبیتؑ نے یزید کے حق اور امام حسینؑ کے خلاف نعرہ بازی کی تو اسکی حالت بالکل متغیر ہوگئی۔ ان کی خواہش تھی کہ نعروں کا منہ توڑ جواب دیا جائے۔ انہوں نے اپنے دوستوں اور تنظیمی افراد کے ساتھ ملکر مطالبہ کیا کہ ہمیں بھی جلوس کی شکل میں بازاروں سے ہوکر انکے خلاف نعرہ بازی کرنی چاہیئے، دوست تسلیاں دیتے رہے کہ 17 ربیع الاول کو ہونے والے جلسے سے جلوس کی شکل میں نکل کر جواب دیا جائے گا لیکن وہ کسی طرح مطمئن نہ ہو سکے۔ چنانچہ سترہ ربیع الاول کو جلسے کے دوران جب شہید باقر اور بعض دیگر جذباتی جوانوں کا مدعا پورا نہ ہو سکا، یعنی مشترکہ طور پر جلوس نہ نکالا جا سکا تو انہوں نے ایک چھوٹی سی جماعت تشکیل دینے کے بعد فورا جلوس نکال کر مسجد ضرار کی جانب جلوس کو پرانے اور روایتی راستے پر نکال کر نعرہ بازی شروع کی، جس پر مسجد میں موجود پہلے سے آمادہ شرپسندوں نے فائر کھول دیا اور وہ اپنے چند ساتھیوں کے ہمراہ شہداء کے پہلی صف میں شامل ہوکر جام شہادت نوش کرگئے۔

اسلام ٹائمز: جیسے آپ نے کہا کہ وہ پہلے سے مضطرب تھے، بتائیں شہادت کے وقت یعنی سترہ ربیع الاول کو انکی حالت کیسی تھی؟
سید جمیل حسین: شہید زندگی میں معمولاً دن کو11 بجے جاگا کرتے تھے، لیکن شہادت کے دن انتہائی صبح سویرے اٹھ کر غسل کیا اور واجب کے علاوہ نفلی نمازیں بھی پڑھ لی تھیں، میرے ایک قریبی پڑوسی ممتاز خوشی بتارہے تھے کہ وقوعہ کے دن اسکی حالت بالکل غیر ہوچکی تھی، میں نے اسے روکنے کی بھرپور کوشش کی، مگر وہ اپنا گریبان پھاڑ کر مجھے دھکا دیکر جذبے سے سرشار نعرے لگاتے ہوئے آگے بڑھے۔ اور چند قدم کے فاصلے پر مسجد ضرار کے پاس ہی گولیوں کا نشانہ بن کر شہید ہوگئے۔ میرے بھائی کے جسم پر آٹھ گلیاں لگ گئی تھیں۔ اسکے علاوہ وہاں پر واقع ٹرانسفر کا تیل بہنے کی وجہ سے شہید کا جسم مکمل طور پر جھلس گیا تھا۔

اسلام ٹائمز: اپنے جذبات کا اظہار گھر میں آپ سے یا والدین سے کبھی کرتے تھے؟
سید جمیل حسین: جی ہاں، شہادت سے کئی روز پہلے شہید نے میری ماں سے کہا کہ اس ویڈیو کو کبھی نہ دیکھنا جس میں امام حسین ؑ کی شان میں گستاخی ہوئی ہے۔ میں نے دیکھ لی ہے چنانچہ اب مجھ پر وہابیوں کے خلاف جنگ کرنا واجب ہو چکا ہے، اگر آپ نے دیکھ لی یا کسی نے بھی دیکھ لی تو ان تمام پر جہاد واجب ہو جائے گا۔

اسلام ٹائمز: شہادت کے ایام میں شہید کی کوئی عجیب بات یاد ہے؟
سید جمیل حسین: شہید کی بہت سی عجیب باتیں یاد ہیں، ان میں سے ایک عجیب واقعہ آپکو سناوں، شہادت سے فقط 3 دن پہلے مجھے کہا کہ کیا آپ جنت جانا چاہتے ہیں۔ میں نے مذاق سمجھا اور ان سے کہا کہ جنت میں جانا کوئی آسان کام تو نہیں ہے۔ شہید ایک کمرے سے نکل کر دوسرے کمرے میں گئے اور کہا کہ دیکھو جمیل! جنت جانا میرے لئے اتنا ہی آسان ہے، جیسے ایک کمرے سے دوسرے کمرے میں جانا۔

اسلام ٹائمز: شہید کے بچپن کے ایام سے کچھ یاد ہے تو آگاہ فرمائیں؟

سید جمیل: شہید مجھ سے چند سال چھوٹے تھے تاہم وہ میرے کلاس فیلو تھے۔ شہید بہت نڈر اور بہادر انسان تھے۔ ان کے مقابلے میں 50 بندے بھی آ جاتے تو وہ تعداد سے کسی قسم کی گھبراہٹ محسوس نہ کرتے بلکہ بغیر کسی خیال کے ان کے سامنے ڈٹ جاتے۔ اسکے علاوہ شہید کو بچپن ہی سے شہادت کا بہت شوق تھا۔ پتہ نہیں اس وقت وہ شہادت کو جانتے تھے یا نہ جانتے تھے، تاہم وہ شہادت کا ذکر بڑے انہماک سے کیا کرتے تھے۔

اسلام ٹائمز: جب وہابیوں نے امام حسینؑ کی شان میں گستاخی کی تو کیا انہوں نے اس سلسلے میں ذمہ دار افراد یا اپنے قریبی دوستوں سے رابطہ کیا تھا؟
سید جمیل حسین: میرے بھائی نے اپنے قریبی دوستوں مستری سجاد اور افتخار حسین سے اپنے جذبات کا اظہار کیا تھا کہ وہابیوں نے گستاخی کی ہے، لہذٰا ہم پر بھی ان کے خلاف کچھ کرنا واجب ہو چکا ہے۔ چنانچہ آپ بھی تیار ہوکر میرا ساتھ دیں۔ اس حوالے سے آپ خود ان سے تفصیل معلوم کرسکتے ہیں۔ نیز جتنا میرے علم میں ہے انہوں نے اس وقت کے سیکرٹری انجمن حسینیہ کیپٹن علی اکبر سے بھی رابطہ کیا تھا۔ اسکے علاوہ وہابیوں کے خلاف جہاں تک ہو سکتا تھا شہید نے اپنی پوری کوشش کی اور لوگوں سے اظہار کیا اور لوگوں کو وہابیوں کے خلاف تیار کرنے اور انکے نعروں کا جواب دینے کی بھرپور کوشش کی تھی۔

اسلام ٹائمز: بھائی کی شہادت کے حوالے سے آپ کے تاثرات کیا ہیں؟
سید جمیل حسین: ہم آئمہ اطہارؑ کے ماننے والے ہیں۔ شہادت ہمارا ورثہ ہے۔ شہید کے وارث ہونے پر ہمیں فخر ہے۔

نوٹ: آخری دو سوالات ہم نے فون پر شہید کے والدین محترم جناب سید رضی شاہ اور انکی اہلیہ سے کیے ہیں۔


اسلام ٹائمز: سید بابا بیٹے کی شہادت پر آپ کے تاثرات کیا ہیں؟
سید رضی شاہ: اللہ سے راضی ہوں، چونکہ گنہگار ہوں، ہمارے اعمال تو ایسے ہیں جن کے بخشے جانے کی کوئی امید نہیں رکھی جا سکتی۔ صرف یہی امید ہے کہ شاید اللہ تعالی بیٹے کے خون کے صدقے ہمیں بھی بخش دے۔

اسلام ٹائمز: بیٹے کی شہادت پر انسان غمگین ہوتا ہے۔ محترمہ بی بی آپ بھی شاید افسوس کرتی ہونگی؟
والدہ شہید باقر: میرا بیٹا کربلا کے شہداء پر قربان ہوا۔ کوئی فکر نہیں، بلکہ مجھے اس پر فخر ہے۔ ہماری اپنی کیا حیثیت ہے، یہ تو صرف بیٹے کے خون کا احسان ہے کہ جب بھی کسی مجلس میں جاتی ہوں تو خواتین عزت کی نگاہ سے دیکھتی ہیں۔ یہی میرے لئے کافی ہے، شہید فرزند کو اپنی بخشش کا وسیلہ سمجھتی ہوں۔ میں نے شہید کی قبر کے ساتھ ہی اپنے لئے قبر کھدوائی ہے، اسی امید کے ساتھ کہ شاید اسی شہید کے صدقے اللہ رب العزت ہمارے گناہوں کو معاف فرمائے۔
خبر کا کوڈ : 426946
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش