0
Sunday 21 Dec 2014 01:35
معصوم بچوں کا قتل پاکستان میں تکفیریت کی انتہا ہے

سانحہ پشاور کے بعد پاک فوج دہشتگردوں کیخلاف ملک گیر آپریشن کرے، علامہ ناصر عباس جعفری

سانحہ پشاور کے بعد پاک فوج دہشتگردوں کیخلاف ملک گیر آپریشن کرے، علامہ ناصر عباس جعفری
علامہ ناصر عباس جعفری مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی سیکرٹری جنرل ہیں، آپ نے بہت ہی کم عرصے میں ملت تشیع میں اہم مقام پایا ہے، اپنی سادگی اور دلیری کی وجہ سے عوام میں بیحد مقبول ہیں، شیعہ سنی وحدت کے حوالے سے آپ نے مثالی کام کیا ہے، سانحہ ماڈل ٹاون کے بعد آپ پاکستان عوامی تحریک کے سربراہ ڈاکٹر طاہرالقادری کے ساتھ کھڑے ہوگئے اور آخری روز تک ان کی تحریک کا ساتھ دیا۔ علامہ ناصر عباس جعفری نے اپنے اکثر خطابات میں کہا کہ جہاں ہمارے سنی بھائیوں کا پسینہ گرے گا وہاں ہمارا خون بہے گا۔ اسلام ٹائمز نے ان سے حالیہ پشاور سانحہ اور ایران میں تکفیریت کے خلاف ہونے والی عالمی کانفرنس سے متعلق ایک اہم انٹرویو کیا ہے، جو پیش خدمت ہے۔ ادارہ

اسلام ٹائمز: سانحہ پیشاور کے اندوہناک واقعہ پر کیا کہیں گے، دوسرا کیا وجوہات ہیں کہ اس دہشتگردی پر قابو نہیں پایا جا رہا۔؟

علامہ ناصر عباس جعفری: پاکستان میں گذشتہ چند دہائیوں سے دہشتگردی کے المناک واقعات رونما ہوتے آئے ہیں، جنرل ضیاء کے دور میں پرائیوٹ جہادی تیار کئے گئے، جس کا مقصد افغانستان میں روس کا مقابلہ کرنا تھا اور کشمیر کی تحریک کو مہمیز دینا تھا۔ یہ جہادی طبقہ ایک مخصوص طبقہ فکر کا حامی تھا، جس کی ایک خاص فکر تھی، یعنی یہ تکفیری آئیڈیالوجی رکھتے تھے، یعنی یہ لوگ اپنے علاوہ تمام مکاتب فکر کی تکفیر کرتے تھے، ضیاء کے دور میں انہیں طاقتور بنایا گیا، نائن الیون کے بعد جب پاکستان میں ریاستی اداروں کی پالیسی تبدیل ہوئی تو ان کی لڑائی جہاں پہلے تشیع اور عوام سے تھی اب ان کی لڑائی ریاستی اداروں کے ساتھ بھی شروع ہوگئی۔ ان لوگوں کے غیر ملکی ایجنسیوں سے بھی رابطے ہیں، یہ لوگ اپنی سوچ کا اسلام نافذ کرنا چاہتے ہیں، ان کے اقدامات سے پاکستان کمزور ہوا ہے، اسلام بدنام ہوا ہے، ان کے اقدامات سے غیروں کو فائدہ ہوتا ہے، یہ تکفیری وہ ٹولہ ہے جس کا پاکستان دشمن قوتوں سے تعلق ہے اور ان کی پاکستان کے اندر بھی حمایت موجود ہے جو سیاسی، مذہبی اور سماجی سطح پر ان کے ساتھ کام کر رہے ہیں، وہ ان کے حق میں جواز تراشتے ہیں، بیانات دیتے ہیں، وہ انہیں ہر لحاظ سے سپورٹ کرتے ہیں۔

پریڈ لائن راولپنڈی کا واقعہ دردناک تھا، اسی طرح اور بھی واقعات گزرے جو دردناک تھے، لیکن یہ حالیہ واقعہ انتہائی دردناک تھا، اس سے ثابت ہوتا ہے کہ اگر ان افراد کا مقابلہ نہ کیا گیا تو کیا انجام ہوگا، یہ تکفیری کتنے ظالم اور بے رحم ہیں، پوری قوم کو ان کا مقابلہ کرنا چاہیے۔ لیکن افسوس ہے کہ سیاستدانوں میں وہ ول نہیں ہے، ان کا نام لینے سے گھبراتے ہیں، یہ اس تکفیری ٹولے کی کارروائی ہے جس کی پاکستان، افغانستان، عراق، شام اور افریقہ تک سوچ اور فکر موجود ہے، جنہوں نے کافروں کے بجائے لاکھوں مسلمانوں کو خون میں غلطاں کر دیا ہے، جتنا انہوں نے ابتک مسلمانوں کا قتل کیا ہے، اتنے کسی جنگ میں مسلمان نہیں مارے گئے۔ پاکستان کے اندر ایسی قوتیں موجود ہیں جو انہیں سپورٹ کرتی ہیں، وہ قوتیں کہیں بےنظیر بھٹو کا راستہ روکتیں ہیں تو کہیں دوسری حقیقی سیاسی موومنٹ کو ثبوتاژ کرتی ہیں، ان قوتوں نے طالبان کو استعمال کیا اور محترمہ کو شہید کروا دیا۔

موجودہ صورت میں غیر ملکی قوتوں نے ایک بڑی کارروائی کرائی ہے، کیونکہ سیاسی صورت جس طرف جا رہی تھی، ایسے وقت میں ایسی کارروائی کا ہونا سوالیہ نشان ہے، ہمارے حکمران بے رحم ہیں، جو حکمران بننے کیلئے الیکشن میں دھاندلی کرا سکتے ہیں، ماڈل ٹاون میں درجنوں افراد کو شہید کرا سکتے ہیں اور ایک سو کے قریب افراد کو گولیوں سے چھلنی کرسکتے ہیں، ان سے کوئی چیز بعید نہیں۔ لٰہذا ان حکمرانوں سے یہ توقع رکھیں کہ یہ لوگ دہشتگردوں کیخلاف کارروائی کریں گے اور دہشتگردی کا خاتمہ کریں گے، ہرگز نہیں۔ ان سے کوئی توقع نہیں رکھنی چاہئے، یہ لوگ ان سے فائدہ اٹھاتے ہیں، تاکہ عوام ڈرے رہے ہیں، یہ وہ حکمران ہیں جن کے دور میں یہ دہشتگرد پیدا ہوئے اور پنپتے رہے ہیں، یہ کیسے ان کو ختم کرسکتے ہیں۔

اسلام ٹائمز: تو آپ کیا سمجھتے ہیں کہ یہ واقعہ موجودہ سیاسی صورتحال کو ختم کرنے کیلئے کرایا گیا ہے۔؟
علامہ ناصر عباس جعفری: یہ باتیں آپ کو آئندہ چند دنوں میں پتہ چل جائیں گی، جس طرح ان حکمرانوں پر پریشر تھا یہ پاگل ہوگئے تھے، جس طرح سے فیصل آباد، کراچی اور لاہور میں عوام نے رسپانس کیا، وہ حکمرانوں کیلئے کافی تھا، پاکستان مخالف قوتیں یہی چاہتی ہیں کہ پاکستان میں کوئی مثبت تبدیلی نہ آئے، ان قوتوں کو عوامی حکمران پسند نہیں ہیں، کیونکہ وہ ان کے آلہ کار نہیں بنیں گے۔ اس طرح کے واقعات کا مقصد یہ تھا کہ سیاسی تحریک کو ڈائیورٹ کر دیا جائے اور چار مہینوں سے جاری تحریک کو متشدد قرار دیا جائے۔ کیا یہ حکمران خود قاتل نہیں ہیں، انہوں نے ماڈل میں اپنی نگرانی میں دن دیہاڑے لوگ قتل نہیں کرائے، لٰہذا ان کی موجودگی میں یہ توقع رکھیں کہ یہ دہشتگردوں سے لڑیں گے، ہرگز ممکن نہیں۔ آپ خود دیکھیں کہ تکفیری ٹولے کو پاکستان میں کھلی چھوٹ ہے، وہ جہاں چاہیں کافر کافر کے نعرے لگا سکتے ہیں، ان سے کوئی پوچھنے والا نہیں ہے، یہ کس کی حکمرانی کے اندر ہو رہا ہے؟ تکفیریت کی بلآخر انتہا قتل و قتال ہی ہے۔ جب قانون کی حکمرانی نہ ہو، لوگوں کے حقوق پر ڈاکہ ڈالا جائے، ڈیلور نہ کیا جائے اور بدمعاشی کے ساتھ لوگوں پر مسلط ہوا جائے تو اس طرح کے حالات کا عوام کو سامنا کرنا پڑتا ہے، ان کو ڈاکوں اور بدمعاش چاہیں، جن کے ساتھ ملکر یہ حکمرانی کریں اور مسلط رہیں۔

اسلام ٹائمز: اب آپ کو سیاسی تحریک کا انجام کیا نظر آ رہا ہے۔؟
علامہ ناصر عباس جعفری: میرے خیال میں لوگوں کو بابصیرت ہونا چاہیے، فتنوں کا زمانہ ہے، ان فتنوں پر گہری نظر رکھنی چاہیئے۔ پاکستان کے اندر دہشتگردوں کا مقابلہ اس وقت ہوسکتا ہے جب آئین اور قانون کے مطابق حکومت بنے، تب ممکن ہے کہ دہشتگردوں سے جنگ لڑی جاسکے اور عوام کو ان کے حقوق دلائے جاسکیں۔ یہ حکومت زیادہ دیر نہیں چل سکتی۔

اسلام ٹائمز: ایران میں ہونیوالی حالیہ کانفرنس جس کا موضوع تکفیریت تھا، اپنے عنوان سے ایک اچھوتی کانفرنس تھی، اسکا مقصد کیا تھا اور اسکے اثرات کیا ہوں گے۔؟
علامہ ناصر عباس جعفری: یہ کانفرنس حوزہ علمیہ قم میں ہمارے مراجع تقلید آیت اللہ ناصر مکارم شیرازی اور آیت اللہ شیخ جعفر سبحانی کی طرف سے بلائی گئی تھی، یہ واضح کر دوں کہ یہ کانفرنس سرکاری کانفرنس نہیں تھی، ہمارے نظام مرجعیت کو احساس تھا کہ اس وقت عالم اسلام کو اندرونی تھریٹ کا سامنا ہے اور یہ تھریٹ بڑھ چکا ہے، ہمارے دشمن نے ہمارے مسلمانوں کو اندرونی طور پر تکفیری ٹولے کے ذریعے جو مختلف ناموں سے کام کر رہا ہے، گھیر لیا ہے۔ تکفیریوں کے ذریعے عالم اسلام کو ایک بہت بڑے چیلنج سے دوچار کر دیا ہے، لہٰذا ہمارے فقہا نے محسوس کیا ہے کہ جہاں تکفیریت کا عسکری لحاظ سے مقابلہ کرنا ہے، وہی آئیڈیالوجی اور فکری عنوان سے بھی ان کا مقابلہ کرنا ضروری ہے۔ کیونکہ اس آئیڈیالوجی کو ہی ٹارگٹ کیا جائے اور ثابت کیا جائے کہ یہ نظریہ ہی باطل ہے، جس میں بےگناہ عوام کی جان لی جائے۔ یہ ہمارے فقہا کی جانب سے ایک اہم کام تھا کہ تکفیریوں کے نظریہ کو ڈسکس کیا جائے اور اسے باطل ثابت کیا جائے۔ اس حوالے سے بہترین آرٹیکل لکھے گئے ہیں، بہترین کتابیں لکھی گئی ہیں، جو تکفیری نظریہ کا مقابلہ کریں گی۔ یہ سلسلہ آگے بڑھے گا۔ اسی حوالے سے جامعہ الاذہر میں کانفرنس کی گئی ہے۔ تکفیریوں کو نظریہ کے حوالے سے تنہا کرنے کی ضرورت ہے، اور یہ کانفرنس اس حوالے سے اہم قدم ہے، اس حوالے سے جہان اسلام میں موجود دانشور اور علماء اپنا کردار ادا کرینگے۔

اسلام ٹائمز: پاکستان میں اس حوالے سے کیا کر رہے ہیں۔؟
علامہ ناصر عباس جعفری: اس حوالے سے ہم پہلے ہی کام کر رہے ہیں، شیعہ سنی کا اکٹھے ہونا تکفیریوں کو تنہا کرنے کے برابر ہے۔ سیاسی، مذہبی حوالے سے شیعہ سنی کا اکٹھے ہونا تکفیریوں کو معاشرے سے جدا کرنا ہے۔ یہ تکفیریت کے خلاف بذات خود ایک اسٹنڈ ہے۔ یہاں پاکستان میں ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم بھی پاکستان میں تکفیریت کیخلاف علمی بنیادوں پر کام کریں۔ ان کے نظریہ کو باطل ثابت کریں۔ تکفیرت کے تین اہم مراکز ہیں، جن میں پاکستان، سعودی اور مصر شامل ہے۔ پاکستان میں بھی اردو زبان میں علمی سطح پر بڑا کام کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ ہم کوشش کریں گے کہ معتدل سنی علماء کے ساتھ ملکر تکفیریت کے خلاف علمی فضا بھی بنائیں۔
خبر کا کوڈ : 427113
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش