2
0
Tuesday 23 Dec 2014 01:13
اسلامی تحریکوں کا قیام سعودی عرب میں ایک شجر ممنوعہ ہے

سعودی عرب کا پورا ڈیفنس سسٹم امریکہ کے ہاتھوں میں ہے، مولانا غفران ساجد قاسمی

امریکہ کا نام آتے ہی سعودی حکمرانوں کے سر سجدے میں چلے جاتے ہیں
سعودی عرب کا پورا ڈیفنس سسٹم امریکہ کے ہاتھوں میں ہے، مولانا غفران ساجد قاسمی
مولانا غفران ساجد قاسمی صحافت کی دنیا میں کسی تعارف کے محتاج نہیں ہیں، مولانا قاسمی مشہور آن لائن روزنامہ اخبار بصیرت آن لائن کے چیف ایڈیٹر ہیں، اس کے علاوہ مولانا کے مضامین ہند و پاک کے مشہور اخبارات میں شائع ہوتے رہتے ہیں اور قارئین کا ایک بڑا حلقہ ہے جو انہیں دلچسپی سے پڑھتا ہے، مولانا قاسمی بھارتی ریاست بہار کے ایک ضلع مدھوبنی سے تعلق رکھتے ہیں اور آپ نے عالم اسلام کی مشہور دینی درسگاہ دار العلوم دیوبند سے عالم فاضل کی سند حاصل کی ہے، عالم دین ہونے کی وجہ سے مولانا کے مضامین میں اسلامی صحافت کی گہری چھاپ ہوتی ہے، مولانا غفران ساجد قاسمی یوں تو پیشہ سے ایک استاد ہیں اور ایک عرصہ تک انہوں نے درس و تدریس کے فرائض انجام دیئے ہیں لیکن صحافت سے ان کا واسطہ شروع سے ہی رہا، سب سے پہلے انہوں نے 2003ء میں ندائے بصیرت کے نام سے ایک سہ ماہی رسالہ بھی جاری کیا، جس کے وہ چیف ایڈیٹر تھے، گذشتہ کئی سالوں سے مولانا قاسمی بسلسلہ ملازمت سعودی عرب میں مقیم تھے لیکن ملازمت کرتے ہوئے بھی اپنی صحافت کو جاری رکھا اور وہاں رہتے ہوئے اخبارات کے لئے مستقل کالم بھی لکھتے رہے اور پھر اسی دوران انہوں نے ’’بصیرت آن لائن‘‘ ملٹی لینگول کے نام سے ایک نیوز پورٹل جاری کیا، جو اس وقت دنیا کے 60 سے زائد ممالک میں پڑھا جا رہا ہے اور مختلف ممالک میں اس کے اپنے نمائندے موجود ہیں، آپ بصیرت انٹرنیشنل فاؤنڈیشن کے چیئرمین بھی ہیں، اسلام ٹائمز نے مولانا غفران ساجد قاسمی سے نئی دہلی میں ایک نشست کے دوران خصوصی انٹرویو کا اہتمام کیا جو قارئین کرام کی خدمت میں پیش ہے۔ (ادارہ)

اسلام ٹائمز: صحافت، ذرائع ابلاغ اور تحریر کا اثر معاشرے کی تربیت و اصلاح میں کیا ہوسکتا ہے۔؟

مولانا غفران ساجد قاسمی: کسی بھی قوم کو جگانے اور بیدار کرنے کے لئے اور اس قوم تک صحیح بات، حق بات پہنچانے کے لئے بالخصوص مسلمانوں میں دو شعبے بڑی اہمیت کے حامل ہیں، ایک تقریر کا شعبہ اور ایک تحریر کا شعبہ، تقریر کو یوں سمجھیئے کہ ہماری مسجدیں ایک مرکز کی حیثیت رکھتی ہیں اور محراب کی حیثیت ایک مورچے کی حیثیت رکھتے ہیں، جہاں سے مسلمانوں کی صحیح ترجمانی کی جاسکتی ہے اور قوم کی صحیح تربیت کی جاسکتی ہے، محراب اور مسجد کی رفتار ترسیل بہت زیادہ ہے، بہت جلدی یہاں کی کہی ہوئی بات لوگوں تک پہنچتی ہے، دوسرا شعبہ تحریر کا ہے کہ ہر وہ انسان کہ جو تھوڑا بہت پڑھا لکھا ہوتا ہے اور اسے اپنی زبان سے واقفیت ہوتی ہے تو وہ اپنی روزمرہ کی زندگی میں اخبار وغیرہ کا مطالعہ ضرور کرتا ہے اور جو چیزیں اب تقریر اور تحریر کے ذریعہ اس تک پہنچ جاتی ہے اس پر عمل کرنے کی کوشش کرتا ہے، میں نے اپنے طور یہ اخذ کیا ہے کہ تقریر اور تحریر کا اثر ضرور ہوتا ہے، اب تقریر کا اثر وقتی ہوتا ہے اور تحریر کا اثر پائیدار ہوتا ہے، تقریر کا اثر ہوا میں اڑ جاتا ہے، غائب ہوجاتا ہے، لیکن تحریر کا اثر زندہ رہتا ہے، جب جب تحریر پر نظر پڑتی ہے انسان کے اندر وہ توانائی اور حوصلہ تازہ ہوتا ہے۔ غرضیکہ میں نے محسوس کیا ہے کہ صحافت کا اپنا ایک خاص اثر ہوتا ہے اور اسکی خاص تاثیر ہوتی ہے، صحافت کے ذریعے سے ہم اپنے معاشرے اور سماج میں ایک بہتر اصلاح کی شروعات کرسکتے ہیں، صحافت کی جگہ کوئی اور شعبہ نہیں لے سکتا۔

اسلام ٹائمز: اس قدر اہم شعبہ ہے صحافت کا اور جب دیکھا جاتا ہے تو اس پر یہود اور ہنود کا مکمل قبضہ ہے اور مسلمانوں کے پاس کوئی بھی نمائندہ صحافتی ادارہ نہیں پایا جاتا ہے، جہاں سے مسلمانوں کے ملی اور اجتماعی مسائل کا حل تلاش کیا جاتا، اسکی کیا وجہ ہے ہوسکتی ہے۔؟

مولانا غفران ساجد قاسمی: یہ ایک اہم ترین سوال ہے اور حقیقتاً یہی وہ وجہ ہے کہ میں نے اپنے سعودی عرب کی ایک اچھی خاصی ملازمت کو خیرباد کہہ کر ہندوستان میں قیام کرنے کا فیصلہ کیا، دیکھئے ہندوستان میں اخبارات اور مسلم رسائل کی کمی نہیں ہے، ہندوستان میں مسلمانوں میں صحافت کی کمی نہیں ہے اور ایسا نہیں ہے کہ صحافت کے میدان میں مسلمان ایکٹیو نہیں ہیں، لیکن ہم جب دقیقاً اس معاملے پر تجزیہ کرتے ہیں تو ہمیں مسلمانوں کا کوئی ایسا نمائندہ اخبار نظر نہیں آتا جو مسلمانوں کی صحیح ترجمانی کرتا دکھائی دے، دوسری اہم بات یہ ہے کہ یہاں جو بڑے اردو اخبارات ہیں، وہ اگرچہ اردو میں ہیں لیکن مسلمانوں کے نہیں ہیں، انکے قارئین مسلمان ہیں لیکن انکے مالکان اور پالیسی ساز دیگر مذاہب کے ہوتے ہیں، اس کی وجہ یہی ہے کہ ہمارا اکثر میڈیا اور ذرائع غیر کے ہیں، دشمن کے ہیں اور یہودیوں کے ہیں، اور ہر جگہ مسلمان اپنے اخبارات رکھتے ہوئے بھی انکے مالکان اپنے ذاتی مفادات کے لئے مسلم مسائل کو اجاگر کرنے سے قاصر رہے ہیں، ہم نے اپنے مضامین میں لکھا ہے کہ اردو کے ساتھ ساتھ مسلمانوں کو ملٹی لینگول اخبارات اور رسائل کی ضرورت ہے، ہندی اور انگریزی میں بھی ہمارا خود کا میڈیا ہونا چاہیے۔

دنیا بھر میں خاص کر ہندوستان کی بات کروں تو بڑی بڑی تنظیمیں موجود ہیں، لیکن اس جانب کوئی قدم بڑھتا نہیں دکھائی دیتا، ہم نے اس حوالے سے یہاں لوگوں سے رابطہ کیا کہ صحافت کے ذریعہ سے قوم کی خدمت کی جائے، لیکن کوئی مثبت جواب نہیں ملا، ایسا کام ہمارے لوگ کرتے ہیں جہاں نام و شہرت کی نشو و نما ہو، لیکن ایسے شعبوں میں واقعاً کوئی کام کرنے کے لئے تیار نہیں، جو بھی مسائل ہمارے درمیان ہیں، ان کو تحریر کے ذریعے سے حل کیا جاسکتا ہے، لیکن کوئی مولانا ابو الکلام آزاد کی روش اپنانے کے لئے آمادہ نہیں ہے کہ جنہوں نے اس وقت بنا کسی دباؤ میں آکر ’’الہلال‘‘ رسالہ نکالا، اس رسالے کے ذریعے ایک وقت قوم کی صحیح ترجمانی ہوئی، لوگوں نے ان کاوشوں کو سراہا اور اس رسالے نے انقلاب برپا کیا، محمد علی جوہر اور دیگر اکابرین نے اپنی ذمہ داریاں نبھا کر صحافت کو ایک مشن بناکر ہندوستان میں آزادی کی ایک لہر پیدا کی اور ہندوستان آزاد ہوا، جس میں مسلمانوں نے اہم ترین اور ناقابل فراموش قربانیاں پیش کیں، آج ہم کیوں اس طریقے سے کوشش نہیں کرتے ہیں، ہمارا معاشرہ جو تفرقہ اور بے راہ روی و فسادات کا شکار ہے، ہم صحافت کے ذریعے سے پھر وہ آزادی والی تاریخ دہرا سکتے ہیں، اور مسلمانوں کو اس شعبے کی خدمت سے بلندیوں تک پہنچا سکتے ہیں۔ صحافت کے ساتھ ساتھ ہندوستان میں تعلیم کا شعبہ اہم ہے، جس پر مسلمانوں کو کام کرنے کی ضرورت ہے، حال ہی میں جسٹس راجندر سچر کی رپورٹ سامنے آئی، جس میں کہا گیا ہے کہ بھارتی مسلمان ہر شعبے میں پیچھے ہیں، خاص طور پر تعلیم کے شعبے میں، صرف 4 فیصد مسلم بچے اسکول میں زیر تعلیم ہیں، اسمیں بھی بعد میں اعلٰی تعلیم سے وہ رہ جاتے ہیں، وہاں نہیں پہنچ پاتے ہیں، مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد تعلیمی اداروں سے دور ہے، مدرسوں سے دور ہے، کوئی ایسے بچوں کیلئے سوچنے کے لئے آمادہ نہیں ہے، ہم نے ایک ایسا خاکہ مرتب کیا ہے کہ ایسے بچوں پر کام کیا جائے، لیکن اس کے لئے ایک مسلسل تحریک کی ضرورت ہے۔

اسلام ٹائمز: ہندوستان کے مسلمانوں کی دین مبین کی جانب رغبت اور سعودی عرب کے مسلمانوں میں دین کی جانب رجحان کے حوالے سے آپ نے سعودی عرب میں رہ کر کیا مشاہدہ کیا۔؟

مولانا غفران ساجد قاسمی: دیکھئے میں چند سال سعودی عرب میں رہا، سعودی عرب میں اولاً قانون ہی اسلامی قانون ہے اور اسلام پر عمل کرنا بظاہر لوگوں کی مجبوری بھی ہے، اسکے علاوہ اندرونی طور پر سعودی عرب کے باشندوں میں دینی رغبت بہت زیادہ نہیں ہے، شاید مجھے اس بات پر لوگ برا بھلا کہیں اور طعنے بھی دیں، لیکن کہنا ضروری سمجھتا ہوں کہ وہاں فرائض کا خوب اہتمام ہوتا ہے لیکن فرائض فرائض تک محدود ہیں، فرائض کی ادائیگی ہی وہاں دیکھی جاتی ہے اور اسکو ہی اپنی نجات تصور کیا جاتا ہے اور اسلامی تحریکوں کا قیام سعودی عرب میں ایک شجر ممنوعہ ہے، اسکے علاوہ بھی بہت ساری چیزیں ایسی ہیں، میں سمجھتا ہوں اس سے کہیں بہتر ہمارا ہندوستان ہے، ہندوستان کے مسلمان وہاں کے مسلمانوں سے کہیں بہتر ہیں اور کہیں زیادہ اسلامی جذبہ رکھتے ہیں، اسلامی سوچ اور اسلامی فکر رکھتے ہیں، معاشرتی طور پر ہوسکتا ہے یہاں برائیاں ہوں، لیکن جب دین اسلام کی بات آجاتی ہے تو لوگ متحرک ہوجاتے ہیں۔

اسلام ٹائمز: سعودی عرب کو ایک مرکز کی حیثیت حاصل ہے، کیوں وہاں دینی شعور و دینی رجحانات کا فقدان پایا جاتا ہے اور اسکے برعکس بھارت میں۔۔۔؟

مولانا غفران ساجد قاسمی: مشہور مقولہ ہے: الناس علی دین ملوکھم۔۔ لوگ اپنے حاکم اور بادشاہ کے دین پر ہوتے ہیں، سعودی عرب کو مرکزیت حاصل ہے اور مکہ و مدینہ کو چھوڑ کر سعودی عرب کی اپنی کوئی حیثیت نہیں رہتی، مکہ و مدینہ تو بہرحال ہمارے لئے مقدس ہے، پوری دنیا کے لئے مقدس ہے، ان مقدسات کا تحفظ اور تقدس تمام مسلمانوں کے لئے لازم ہے، لیکن اسکے علاوہ سعودی عرب میں جو بادشاہانہ نظام ہے اور وہاں جو نظام قائم ہے تو میں نے محسوس کیا ہے کہ وہاں امریکی ذہینیت اور اجارہ داری مکمل طور پر حاوی ہے، یعنی وہاں مکمل طور پر امریکہ کا تسلط قائم ہے، جس کی بنیاد پر ایسا کچھ دیکھنے کو ملتا ہے، ظاہر سی بات ہے کہ مرکزیت کے ساتھ وہ چھیڑ چھاڑ نہیں کرسکتے ہیں، ایسا کرنا سعودی عرب کے لئے قیامت تک ناممکن ہوگا، لیکن اسکے علاوہ انکی کوشش یہ رہتی ہے کہ دین کی جڑوں کو ایسا کھوکھلا کیا جائے کہ لوگ اسلام پر قائم تو رہیں، لیکن انکے اندر وہ حمیت اور غیرت موجود نہ رہے، اس چیز کو وہاں سرکاری طور پر انجام دیا جاتا ہے، ایسے امور پر وہاں عمل ہو رہا ہے۔

جب مصر کا معاملہ اور اخوان المسلمین کا معاملہ سامنے آیا تو اس موقع پر میں نے سعودی عرب میں رہ کر دو تین مضامین بھی تحریر کئے تھے، اس پر وہاں کے کچھ سلفی حضرات نے جو سلفی سوچ کا دعویٰ کرتے دکھائی دیتے تھے، انہوں نے مجھے پیغام بھیجا کہ آپ سعودی عرب چھوڑ دیں تو اس میں ہی تمہاری بہتری ہے، غرضیکہ جو بھی ہم دیکھا، اس میں امریکہ کی ذہنیت اور اجارہ داری کا اثر دیکھنے کو ملا، امریکہ کی جی حضوری کا نتیجہ ہے جسکی وجہ سے وہاں اس فکر کو ترویج دی جاتی ہے، میں نے وہاں کام کیا ہے اور میں جس ڈپارٹمنٹ (Department) میں کام کرتا تھا، اس کا تعلق ڈیفنس (Defence) سے تھا تو کہنا چاہوں گا کہ سعودی عرب کا پورا ڈیفنس سسٹم امریکہ کے ہاتھوں میں ہے اور یہی وجہ ہے کہ وہاں ڈیفنس سے ریلیٹڈ (Related) جتنے بھی ہتھیار اور جنگی جہاز ہوں، وہ امریکی میڈ ہیں، امریکہ سے خریدے جاتے ہیں اور وہ ہتھیار جب تک سعودی عرب میں رہیں گے، امریکہ کی مداخلت وہاں رہے گی، انکی مینٹیننس (Maintenance) امریکہ ہی کرتا رہے گا۔

امریکہ کے ہتھیار سب سے زیادہ سعودی عرب ہی خریدتا ہے، یعنی ٹاپ ٹن میں ہتھیار بیچنے کا امریکہ کا نام ہی سرفہرست ہے اور خریدنے والوں میں سرفہرست سعودی عرب ہے، سوچنے کی بات ہے کہ آخر سعودی عرب کو اتنے زیادہ ہتھیار خریدنے کی ضرورت تو نہیں پڑنی چاہیے، اس کے باوجود روزانہ امریکہ کے بنائے ہوئے کئی نئے ہتھیار سعودی عرب خریدتا ہے اور دوسری بات یہ کہ سعودی عرب کے معاشرے میں امریکیوں کو بڑی اہمیت دی جاتی ہے، میں نے تو یہ محسوس کیا چاہے اب یہ لوگوں کو برا لگے یا بھلا کہ امریکہ کا نام آتے ہی وہاں کے حکمرانوں کے سر سجدے میں چلے جاتے ہیں، اگر انکے پاس کوئی امریکی چیز کوئی امریکی پروڈیکٹ مہیا ہے تو فخر سے کہتے ہیں کہ ’’ھذا امریکی‘‘ یہ ان کا فخریہ جملہ ہوتا ہے، کہ وہ چیز امریکی ہے، اور اگر کوئی وفد امریکہ سے آتا ہے تو اس کی جی حضوری میں کوئی کمی باقی نہیں رہتی ہے، ان سب باتوں سے ان کی ذہنیت معلوم ہوجاتی ہے کہ جو امریکہ کہے اس پر آنکھ بند کرکے عمل کیا جاتا ہے اور اسکو حرف آخر تصور کیا جاتا ہے۔

اسلام ٹائمز: تشدد اور دہشتگردی یعنی تکفیری سوچ کو دنیا بھر میں پروان چڑھایا جاتا ہے، جیسا کہ آپ نے کہا کہ سعودی عرب میں آپکو ایسے افراد سے واسطہ پڑا ہے۔؟

مولانا غفران ساجد قاسمی: سلفی سوچ کے بارے میں کہنا چاہوں گا کہ جہاں تک کسی گروہ یا فکر کی ترویج اور اسکی پالیسی پر عمل کرنے کی بات ہو تو اسلام میں اس کی ممانعت نہیں ہے، لیکن جہاں کسی گروہ کا تشدد والی پالیسی ہے تو اسلام اس کی اجازت ہرگز نہیں دیتا، اگر صرف اپنے خیالات پر عمل کریں گے تو کوئی حرج نہیں ہونا چاہیے لیکن جب تشدد کی بات آجائے تو قابل برداشت نہیں ہے، کسی دوسرے مسلک کو نشانہ بنانے کی بات انسان قبول نہیں کرسکتا ہے، جو لوگ تشدد کی راہ اپنائے ہوئے ہیں، اس سے اسلام کی شبیہ بالکل بگڑ جاتی ہے، میں نے سعودی عرب میں رہ کر یہ محسوس کیا کہ عوامی سطح پر اس تشدد کی راہ کا رجحان ہرگز نہیں پایا جاتا، لیکن وہاں جو خارجی حضرات ہیں اور وہاں جاکر سلفیت کا لبادا اوڑھا ہوا ہے، تاکہ یہ ثابت کرسکیں کہ وہ ہی اصلی سلفی ہیں، وہی حضرات اس کو زیادہ ہوا دیتے ہیں، عوامی سطح پر اسکا سعودی عرب میں رجحان نہیں پایا جاتا ہے، ہوسکتا ہے کوئی ایک طبقہ ایسا بھی ہو سعودی عرب میں، لیکن عام طور پر نہیں، میں وہاں جس آفس میں کام کرتا تھا تو میرے بارے میں وہاں سب جانتے تھے کہ یہ حنفی متشدد فرد ہے، اس کے باوجود میری امامت میں ہی تمام حضرات نماز جماعت ادا کرتے تھے، اس میں سعودی عرب، پاکستان اور سوڈان کے لوگ شریک ہوتے تھے، عام سلفی حضرات بھی شامل ہوتے تھے، کچھ ہی لوگ ایسے ہیں جو اپنے آپ کو سعودی عرب کے حکمرانوں کی نظروں میں آنے کے لئے کچھ بھی کرسکتے ہیں، وہ اپنے مفادات کے لئے کسی بھی حد تک جاسکتے ہیں، عام سعودی باشندوں کا اپنے فرائض کی ادائیگی سے مطلب ہوتا ہے، وہ ایسی تشدد کی لعنت سے دور ہیں، وہ ایسے چکروں میں نہیں پڑنا چاہتے ہیں۔

اسلام ٹائمز: عراق، شام اور پاکستان کے بعد اب بھارت میں ایسے تکفیری عناصر کے کیا اثرات محسوس کئے جا رہے ہیں۔؟

مولانا غفران ساجد قاسمی: یہ داعش قرآن کے منافی ہیں، اسلام کے منافی ہیں، ان لوگوں کی اسلامی تعلیمات سے یہاں تک کہ چھوٹے ایک حرف سے بھی انکی حوصلہ افزائی نہیں ملتی ہے اور نہ اسلام میں ایسی چیزوں کا تاثر ملتا ہے، نہ کہیں کوئی تذکرہ اس روش کا ملتا ہے، اور نہ صحابہ کرام کی زندگی سے ایسی چیزیں ثابت ہوسکتی ہیں، رسول اکرم (ص) کی زندگی، صحابہ کرام اور اہل بیت کرام کی حیات کو لیجئے، ائمہ اطہار کو لیجئے، کسی بھی مقدس تاریخ میں آپ کو ایسی شدت پسندی دیکھنے کو نہیں ملتی ہے، یہ جو موجودہ دور کی دہشت گردی ہے، اس کو فقط ہم اجارہ داری ذہنیت، اسلام دشمنی، استعماری ذہنیت یا وہ ذہنیت اس میں شامل ہے، جن کے ذاتی مفادات بڑی طاقتوں سے وابستہ ہیں، اس کے علاوہ اس کا مذہب اسلام سے دور کا تعلق بھی نہیں ہے، اور میرے خیال میں ایسے عناصر ہمارے یہاں نہیں پائے جاتے ہیں اور نہ یہاں ایسی ذہنیت پنپ پائے گی، انکا یہاں کوئی اثر نہیں دکھائی دیتا، یہاں صرف کچھ لوگوں کا ہوا ہے، جو اپنے مفادات کے لئے ایسی چیزیں پھلا رہے ہیں۔
خبر کا کوڈ : 427546
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

Ahmad Ali Barqi Azmi
India
صاحبِ فکر و نظر غفران ساجد قاسمی
ہیں صحافی نامور غفران ساجد قاسمی

ان کو اسلامی صحافت سے ہے اک فطری لگاؤ
جس کی رکھتے ہیں خبر غفران ساجد قاسمی

نبضِ دوراں پر نہایت سخت ہے ان کی گرفت
ہیں نہایت معتبر غفراں ساجد قاسمی

ہیں بصیرت آن لائن ان کا میدانِ عمل
کرتے ہیں قلمی سفر غفران ساجد قاسمی
احمد علی برقی اعظمی
عامر مظهرى
United States
مرد مجاهد
ہماری پیشکش