0
Tuesday 30 Dec 2014 01:27
تمام طالبان نواز مذہبی سیاسی جماعتوں کیخلاف بھی آپریشن کا دائرہ کار وسیع کرنا چاہیئے

اچھے طالبان اور برے طالبان کی پالیسی اپنائی گئی تو پاکستان میں امن و امان قائم نہیں ہو سکتا، شاہد غوری

دہشتگردی میں ملوث تمام مدارس کیخلاف فی الفور کارروائی کی جائے
اچھے طالبان اور برے طالبان کی پالیسی اپنائی گئی تو پاکستان میں امن و امان قائم نہیں ہو سکتا، شاہد غوری
پاکستان سنی تحریک کے سینئر مرکزی رہنما محمد شاہد غوری 1994ء سے سنی تحریک سے وابستہ ہیں۔ بنیادی طور پر آپ کا تعلق حیدر آباد سے ہے۔ سینئر مرکزی رہنما اور سینئر ممبر سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کی حیثیت سے آپ پاکستان سنی تحریک میں انتہائی فعال کردار ادا کر رہے ہیں۔ اسلام ٹائمز نے سانحہ پشاور، اچھے طالبان اور برے طالبان کی تفریق، ملک میں جاری دہشتگردی، آپریشن ضرب عضب، کالعدم دہشتگرد جماعتوں کی نام بدل کر فعالیت، مدارس کا دہشتگردی میں ملوث ہونا، فوجی عدالتوں کے قیام سمیت مختلف موضوعات کے حوالے سے محمد شاہد غوری کے ساتھ پاکستان سنی تحریک کے مرکزی دفتر ’’مرکز اہلسنت‘‘ میں ایک مختصر نشست کی، اس حوالے سے کیا گیا خصوصی انٹرویو قارئین کی خدمت میں پیش ہے۔ ادارہ

اسلام ٹائمز: سانحہ پشاور اور اس میں ملوث طالبان کے حوالے سے کیا کہنا چاہیں گے؟
محمد شاہد غوری:
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم۔ ۔ ۔ ۔ ۔ سانحہ پشاور ملکی تاریخ کا بدترین سانحہ ہے، تمام مذاہب کے لوگوں نے اس سانحہ کی مذمت کی، حتیٰ کہ پاکستان دشمن ممالک نے بھی اس بدترین سانحہ کی مذمت کی، سانحہ پشاور ہمارے لئے انتہائی شرم کا مقام ہے، اس بدترین سانحہ پشاور سے قبل بھی دہشتگرد عناصر پاکستان کو عدم استحکام سے دوچار کرنے کیلئے ہزاروں دہشتگردانہ کارروائیاں کر چکے ہیں، عوام، سیکیورٹی فورسز کو نشانہ بنایا، جی ایچ کیو پر حملہ کیا، پولیس سینٹرز پر حملے کئے، حساس فوجی تنصیبات پر حملے کئے، ہوائی اڈوں کو دہشتگردی کا نشانہ بنایا، مساجد، امام بارگاہوں، مزارات، درگاہوں، دیگر عبادت گاہوں، بازاروں پر حملے کئے، ہمارا شروع سے مطالبہ تھا کہ ان دہشتگردوں کو لگام دی جائے، ان کے گرد گھیرا تنگ کیا جائے، نواز حکومت کی جانب سے طالبان کے ساتھ جو مذاکرات کا دور چلا تھا، ہم نے اس کی بھی مخالفت کی تھی، ہم نے کہا تھا کہ طالبان کے ساتھ مذاکرات کرنا کسی بھی طرح ٹھیک نہیں ہے، یہ طالبان دہشتگرد ساڑھے ساتھ ہزار سے زائد سیکیورٹی فورسز کے جوانوں کے قاتل ہیں، یہ ساٹھ ہزار سے زائد بے گناہ پاکستانی شہریوں کے قاتل ہیں، انہوں نے تقریباً ایک سو بتیس صحافیوں کو قتل کیا، ان دہشتگردوں کو کسی بھی طرح نہیں بخشنا چاہیئے، ان کو ان کے کئے کی سزا دینی چاہیئے، ان دہشتگردوں کے گرد گھیرا تنگ کرنا چاہیئے، دہشتگردوں کے خلاف جاری آپریشن ضرب عضب، آپریشن خیبر ون کی ہم بھرپور حمایت کرتے ہیں اور مطالبہ کرتے ہیں کہ دہشتگردوں کے خلاف جاری آپریشن کا دائرہ کار واسیع کرتے ہوئے اسے ملک گیر کیا جائے۔

اسلام ٹائمز: بعض مذہبی جماعتوں اور رہنماؤں کی جانب سے ابھی بھی طالبان کی حمایت جاری ہے، کیا کہنا چاہیں گے؟
محمد شاہد غوری:
جو مذہبی سیاسی جماعتیں طالبان دہشتگردوں کی سپورٹ کرتی ہیں، انکے بارے میں عوام سب جانتی ہے، طالبان دہشتگردوں، کالعدم دہشتگرد جماعتوں، نام نہاد جہادی گروہوں کی سپورٹ کرنے والی مذہبی سیاسی جماعتوں کے بارے میں ملکی حساس ادارے بھی سب جانتے ہیں، سیاستدانوں، حکمرانوں کو بھی معلوم ہے، دہشتگردوں کی سپورٹ کرنے والی مذہبی سیاسی جماعتیں تو یہ بھی کہہ رہی ہیں کہ دہشتگردوں کے خلاف ہونے والا فوجی آپریشن صحیح نہیں ہے، فوج پر الزام لگاتے ہیں کہ فوج قتل و غارتگری کر رہی ہے، ایسی تمام انتہاپسند مذہبی سیاسی جماعتوں کا ملکی سلامتی کے حساس اداروں کو نوٹس لینا چاہیئے، ایسے انتہاپسند عناصر کسی بھی طرح ملکی مفاد میں نہیں ہیں۔ ایسی مذہبی سیاسی جماعتیں جو طالبان دہشتگردوں کی حمایت کرتی ہیں، سپورٹ کرتی ہیں، جو سانحہ پشاور کی مذمت تک نہیں کرتیں، جو اس بدترین سانحہ کو طالبان دہشتگردوں کے خلاف جاری آپریشن کا ردعمل قرار دیتی ہیں، ایسی تمام طالبان نواز انتہاپسند مذہبی سیاسی جماعتوں کیخلاف بھی آپریشن کا دائرہ کار وسیع کرنا چاہیئے۔

اسلام ٹائمز: ایک بڑے حلقے کی رائے ہے کہ ریاستی ادارے ابھی بھی اچھے طالبان اور برے طالبان پر مبنی پالیسی جاری رکھے ہوئے ہیں، اگر یہ رائے درست ہے تو کیا ایسی پالیسی کے جاری رہتے ہوئے پاکستان سے دہشتگردی کا خاتمہ ممکن ہے؟
محمد شاہد غوری:
میں نہیں سمجھتا کہ کوئی بھی طالبان کے کسی بھی گروہ کو اچھا کہتا ہو، طالبان کے اگر چھتیس گروہ ہیں تو سارے کے سارے دہشتگرد ہیں، کوئی بھی ثابت نہیں کر سکتا کہ طالبان کا کوئی گروہ لوگوں کی حفاظت کر رہا ہے، کون لوگوں کی فلاح وبہبود کیلئے فعال ہے، یہ سارے کہ سارے دہشتگرد ہیں، یہ بیرونی آقاؤں کے اشاروں پر پاکستان کو عدم استحکام سے دوچار کرنے کیلئے دہشتگردانہ کارروائیاں کر رہے ہیں، جو بھی اچھے طالبان اور برے طالبان کی تفریق کرتا ہے چاہئے وہ حکومت ہو یا کوئی مذہبی یا سیاسی جماعت، وہ سب اصل میں پاکستان سے بے وفائی کر رہے ہیں، اچھے طالبان اور برے طالبان کی پالیسی اپنائی گئی تو پاکستان میں کبھی بھی امن و امان قائم نہیں ہو سکتا، آج اگر کسی کو اچھے طالبان کہا جا رہا ہے تو یہ کل پھر سر اٹھائیں گے اور قتل و غارتگری کرینگے، یہ کس اچھے طالبان اور برے طالبان کی بات کر رہے ہیں، طالبان کے سارے گروہوں نے ہمیشہ دہشتگردی اور بربریت کا بازار گرم کیا ہے، سب ایک دوسرے سے رابطے میں ہیں، طالبان کے سارے گروہوں نے اپنے اپنے ٹارگٹ طے کئے ہوئے ہیں، کوئی فوج پر حملہ کرتا ہے، کوئی عوام پر حملے کرتا ہے، کوئی عبادت گاہوں کو نشانہ بناتا ہے، کوئی بازاروں میں حملہ کرتا ہے، کوئی مذہبی رہنماؤں کو دہشتگردی کا نشانہ بنایا ہے، کوئی سیاسی جماعتوں کو نشانہ بناتا ہے، جو بھی اچھے طالبان اور برے طالبان کی بات کرتا ہے، ہم اس تفریق کے بالکل قائل نہیں ہیں، کوئی بھی طالبان گروہ پاکستان کے حق میں نہیں ہے، یہ سب جہاد کے نام پر دہشتگردی کر رہے ہیں، اسلام کو بدنام کر رہے ہیں، اگر پاکستان میں کوئی جہادی جماعت ہے تو وہ صرف اور صرف پاک فوج ہے۔

اسلام ٹائمز: کیا آپ سمجھتے ہیں کہ دہشتگردی کیخلاف جاری آپریشن ضرب عضب کے دائرے کو وسیع کرتے ہوئے اسے ملک گیر کیا جانا چاہیئے؟
محمد شاہد غوری:
طالبان دہشتگردوں کے خلاف جاری آپریشن ضرب عضب کے دائرے کو وسیع کرتے ہوئے اسے ملک گیر کرنا چاہیئے، طالبان دہشتگردوں کے ساتھ ساتھ طالبان کی حمایت کرنے والی، طالبان کے ساتھ رابطے رکھنے والی، طالبان کی سپورٹ کرنے والی، طالبان کو تحفظ فراہم کرنے والی مذہبی سیاسی جماعتوں کو بھی آپریشن ضرب عضب کے دائرے میں لانا چاہیئے، طالبان نواز مذہبی ساسی جماعتوں کیخلاف بھی آپریشن ہونا چاہیئے۔ اس کے ساتھ ساتھ میں اس بات کی طرف بھی توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ نام بدل کر کام کرنے والی کالعدم دہشتگرد جماعتوں کو کس اصول و قانون کے تحت ریاستی اداروں کی جانب سے رعائت دی جا رہی ہے کہ یہ دہشتگرد جماعتیں کالعدم قرار دیئے جانے کے بعد نام بدل کر آزادانہ فعال ہیں، خود بھی دہشتگردی کر رہی ہیں، دہشتگردوں کو سپورٹ بھی کر رہی ہیں، لہٰذا اس پر بھی ارباب اختیار کو نوٹس لینا چاہیئے، کالعدم دہشتگرد جماعتوں کو نام بدل کر کام کرنے کی اجازت نہیں ہونی چاہیئے، ان کے خلاف بھی گھیرا تنگ کرنا چاہیئے۔

اسلام ٹائمز: آپ نے کالعدم دہشتگرد جماعتوں کی جانب سے نام بدل کر فعالیت کی بات کی، کیا نام بدل کر فعالیت دکھانے والی کالعدم دہشتگردوں جماعتوں کو روکے بغیر، انکے خلاف کارروائی کئے بغیر دہشتگردی کیخلاف جاری آپریشن کی کامیابی ممکن ہے؟
محمد شاہد غوری:
نام بدل کر کام کرنے والی کالعدم دہشتگردوں جماعتوں کی سرگرمیوں کو روکے بغیر دہشتگردی کے خلاف جاری آپریشن کے سو فیصد نتائج حاصل کرنا ممکن نہیں ہے، لہٰذا دہشتگردی کے خلاف جاری آپریشن کی سو فیصد کامیابی کیلئے ضروری ہے کہ کالعدم دہشتگرد جماعتوں کے نام بدل کر کام کرنے پر بھی پابندی عائد کی جائے، انکے کارکنان، عہدیداران کی فعالیت پر بھی پابندی عائد کی جائے، ہم یہ نہیں کہتے کہ سب کو اٹھا کر جیلوں میں ڈال دیا جائے مگر ان سب کی کڑی نگرانی کی جائے، یہ سب دہشتگردی میں ملوث ہیں، بالخصوص لشکر جھنگوی اور سپاہ صحابہ کہ جس نے پابندی لگنے کے بعد ملت اسامیہ نام رکھا اور اب اہلسنت والجماعت کے نام سے سرگرم ہے، یہ سارے دہشتگرد ہیں، ان کی پچیس سال سے زائد کی دہشتگردی کی تاریخ ہے، اس کے ساتھ ساتھ ایسی اور بھی کالعدم دہشتگرد جماعتیں ہیں ان پر بھی پابندی عائد کی جائے۔

اسلام ٹائمز: دہشتگردوں کو سزائیں دینے کیلئے فوجی عدالتوں کے قیام کے حوالے سے پاکستان سنی تحریک کا کیا مؤقف ہے؟
محمد شاہد غوری:
اس وقت پاک فوج دہشتگردی کے خاتمے کیلئے سب سے زیادہ محنت اور جدوجہد کر رہی ہے، قدرتی آفات ہو یا سرحد کی حفاظت یا پھر دہشتگردی کا خاتمہ، ہمیں ہر جگہ پاک فوج فعال نظر آتی ہے، آئین و قانون کے تحت اگر فوجی عدالتیں قائم کر دی جائیں ایک مخصوص مدت کیلئے، جیسا کہ دو سال کیلئے فوجی عدالتوں کے قیام کی بات کی جا رہی ہے اور آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے بھی یقین دہانی کرائی ہے کہ فوجی عدالتوں کا قیام دہشتگردوں کو کیفر کردار تک پہنچانے کی حد تک ہی ہوگا، اسکا کوئی غلط فائدہ نہیں اٹھایا جائے گا، ہمارا یقین ہے کہ پاک فوج محب وطن اثاثہ ہے، فوری انصاف حصول کیلئے، دہشتگردوں کو جلد کیفر کردار تک پہنچانے کیلئے ہمیں فوجی عدالتوں کے قیام پر کوئی اعتراض نہیں ہے۔

اسلام ٹائمز: پاکستانی وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار کا کہنا ہے کہ 10فیصد مدارس دہشتگردی میں ملوث ہیں، کیا کہیں گے اس حوالے سے؟
محمد شاہد غوری:
ہمارا کہنا تو یہ ہے کہ اگر ایک فیصد مدارس بھی دہشتگردی میں ملوث ہیں تو انہیں کیوں چھوڑا جا رہا ہے، حقیقت یہ ہے کہ جتنی بھی دہشتگردی ہوئی ہے، جتنے بھی خودکش بمبار پکڑے گئے ہیں، جتنے خودکش بمبار حملہ کرتے ہوئے مارے گئے ہیں، جتنے خودکش بمبار جیکٹیں پہنے اور بناتے ہوئے گرفتار ہوئے ہیں، بارودی مواد کے ساتھ پکڑے گئے ہیں، ان تمام دہشتگردوں کا تعلق کسی نہ کسی دارالعلوم سے ہے، کسی نہ کسی مدرسے ہے، تو یہ ہم سے زیادہ بہت ملکی سلامتی کے حساس ادارے جانتے ہیں، یہ حکمران جانتے ہیں، وزارت داخلہ جانتی ہے، اب جبکہ یہ خود اعتراف کر رہے ہیں کہ دس فیصد مدارس دہشتگردی میں ملوث ہیں تو کیوں انہیں کھلا چھوڑا ہوا ہے، کیوں ان کے خلاف کارروائی نہیں ہوتی، ہمارا مطالبہ ہے کہ دہشتگردی میں ملوث تمام مدارس کیخلاف فی الفور کارروائی کی جائے۔

اسلام ٹائمز: مدارس ہوں یا کالعدم دہشتگرد جماعتیں، سب اہلسنت کا نام استعمال کرتے ہیں، حقیقت کیا ہے؟
محمد شاہد غوری:
دنیا اس حقیقت سے بخوبی واقف ہے کہ جتنی بھی دہشتگرد جماعتیں اہلسنت کا نام استعمال کر رہی ہیں، یہ اہلسنت کا نام تو استعمال کر رہی ہیں لیکن انکا اہلسنت سے کوئی تعلق نہیں، کیونکہ اہلسنت حقیقت میں وہ ہوتے ہیں جو جشن عید میلاد النبی (ص) مناتے ہیں، اہلسنت وہ ہوتے ہیں جو مزارات اولیا کو مانتے ہیں، انکا احترام کرتے ہیں، جو نعت کی محافل سجاتے ہیں، اہلسنت کا نام استعمال کرنے والے دہشتگرد عناصر اپنے آپ کو حنفی ضرور کہلاتے ہیں مگر وہ اہلسنت نہیں ہیں، دہشتگردی میں ملوث مدارس ہوں یا دہشتگرد جماعتیں، ان سب کا مکتب فکر دیوبندی ہے، انکا مکتب فکر وہابی ہے، انکا مکتب فکر جماعتی ہے، لیکن انکا تعلق اہلسنت سے ہرگز نہیں ہے اور اس حقیقت سے عوام اچھی طرح واقف ہے۔ یہ دہشتگرد عناصر اہلسنت کا نام استعمال کرکے عوام کو گمراہ کرنے کی ناکام کوشش کر رہے ہیں۔
خبر کا کوڈ : 429104
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش