0
Wednesday 31 Dec 2014 22:50

ایران ہی وہ واحد ملک ہے جو اتحادِ امت کیلئے کام رہا ہے، مفتی گلزار نعیمی

ایران ہی وہ واحد ملک ہے جو اتحادِ امت کیلئے کام رہا ہے، مفتی گلزار نعیمی
شیخ الحدیث مفتی گلزار احمد نعیمی پنجاب کے ایک علمی گھرانے میں پیدا ہوئے۔ آپ نے بارہ سال کی عمر میں قرآن پاک حفظ کیا۔ آپ مفتی اعظم پاکستان مفتی حسن نعیمی اور ڈاکٹر سرفراز نعیمی شہید کے شاگر خاص ہیں۔ آپ نے جامع نعیمیہ لاہور میں تعلیم کے دوران درس نظامی مکمل کیا، علاوہ ازیں مفتی صاحب نے پنجاب یونیورسٹی سے ماسٹرز بھی کیا۔ مفتی گلزار احمد نعیمی صاحب نے شہید سرفراز احمد نعیمی کے حکم پر 2002ء میں اسلام آباد میں جامع نعیمیہ کی بنیاد رکھی۔ اب تک آپ ہزاروں طلباء کو قرآن و سنت کی تعلیم سے آراستہ کرچکے ہیں۔ مفتی صاحب اتحاد بین المسلین کے حوالے سے اپنے نظریات کے لئے کافی شہرت رکھتے ہیں۔ آپ نے متعدد ممالک کے علمی دورہ جات کئے جن میں ایران اور اردن قابل ذکر ہیں۔ مفتی صاحب ملک کے معروف ٹی وی چینلز پر کئی ایک علمی مذاکروں میں شرکت کرچکے ہیں۔ آپ اہلسنت و الجماعت کی ملک گیر تنظیم کے مرکزی عہدہ دار بھی ہیں۔ اسلام ٹائمز نے ملک کی موجودہ صورتحال اور تکفیریت کیخلاف ہونے والی عالمی کانفرنس کے حوالے سے اہم انٹرویو کیا ہے، جو قارئین کے پیش خدمت ہے۔ ادارہ


اسلام ٹائمز: سب سے پہلے یہ بتائیں کہ سانحہ پشاور کے بعد جو ملٹری کورٹس کے قیام کا فیصلہ کیا گیا ہے، کیا نظر آرہا ہے کہ اس عمل سے دہشتگردی ختم ہوگی، دوسرا سیاسی تقسیم نظر آرہی ہے۔؟
مفتی گلزار نعیمی : بنیادی طور پر سوال یہ ہے کہ آخر یہ ملٹری کورٹس کی ضرورت کیوں محسوس کی گئی؟ موجودہ حکومت جس کے پاس سیشن کورٹس، ہائی کورٹس، سپریم کورٹ موجود ہے اس کو آخر ضرورت کیوں محسوس ہوئی۔ اصل میں دہشت گردی اور انتہاپسندی نے ہمارے معاشرے کو جکڑ رکھا ہے اور آپ دیکھتے ہیں کہ جو بھی جج کسی دہشت گرد اور انتہا پسند کیخلاف فیصلہ دیتا ہے تو اگلے ہی دن اس کے گھر کو اس کی لاش جاتی ہے یا ان کو دھمکیاں آنا شروع ہوجاتی ہیں، جو بچ جائے تو اسکی قسمت ہے ورنہ یہ ہے کہ وہ اپنی تمام تر کوششیں کرتے ہیں کہ جج کو قتل کر دیا جائے۔ ہمارے جو کورٹس میں بیٹھے جج صاحبان ہیں، وہ کسی بھی صورت ایسے کیسز سننے کیلئے تیار نہیں ہیں۔

اس کے علاوہ اگر 100 مجرموں کے کیس عدالت میں فائل ہوتے ہیں تو ان میں سے تین سے چار مجرموں کو سزا ہوتی ہے۔ یہ نہیں ہے کی تمام ’’ایف آئی آر‘‘ جھوٹی ہوتی ہیں، یہ سچ ہے کہ ’’ایف آئی آر،، کاٹنے والوں میں بھی کمزوریاں ہیں اور اس ملک میں یہ بھی ہے کہ ’’ایف آئی آر‘‘ سچی یا جھوٹی ہوتی ہے لیکن جو ’’ایف آئی آر‘‘ فائل ہوتی ہے ان میں تین سے چار مجرمان کو سزا ہوتی ہے۔ ہمارے ہاں ویسے بھی سزائیں دینے کی شرح بہت کم ہے، اسی انتہا پسندی اور دہشت گردی کی وجہ سے اور اس وجہ سے اس ملک میں ایک ایسے نظام کی ضرورت تھی جو بلاامتیاز ان لوگوں کو لٹکائے اور بلاامتیاز ان کو سزائیں دے۔

یہ کام بڑا ہی مضبوط کوئی ادارہ کرسکتا ہے جو ہر طرح کی شرانگیزی کا سامنا کرسکے یا کرنے کیلئے تیار ہو، تب ہی ممکن ہے کہ دہشتگردوں کو سزائیں ہوں اور وہ اپنے منطقی انجام تک پہنچ سکیں۔ جو جج صاحبان ان کورٹس میں بیٹھے ہوں، وہ آرمی کے ہوں یا آرمی کی حفاظت میں ہوں۔ وہ لوگ ان کو سزائیں دیں، تاکہ جواب میں ان کو کوئی تنگ نہ کرسکے۔ اس لئے میرے خیال میں ملٹری کورٹس کا فیصلہ بہت ہی احسن ہے اور اس سے ہمارے جو مسائل ہیں، دہشت گردی اور انتہا پسندی کے، ان میں بہت کمی آئے گی۔ جہاں تک سیاسی تقسیم کا مسئلہ ہے تو میں سمجھتا ہوں کہ ہمیں ایک پیج پہ ہونا چاہیے۔ ملٹری کورٹس کو بھی یہ چاہئے کہ وہ فقط ان کسیز کو ہی نہ سنیں جو فوجیوں سے متعلق ہوں، عام عوام کا قتل عام کرنے والوں کو بھی اسی طرح لٹکایا جائے جس طرح ریاستی اداروں پر حملہ کرنے والوں کو لٹکایا جائے۔ بلاامتیاز دہشتگردوں کو پھانسی دی جائے۔

اسلام ٹامز: زرداری صاحب سمیت کئی سیاسی جماعتیں ملٹری کورٹس پر انگالیاں اٹھا رہی ہیں، حالانکہ انہیں جماعتوں نے کل جماعتی کانفرنس میں اسکی حمایت کی، اس کی کیا وجہ نظر آتی ہے۔؟

مفتی گلزار نعیمی: اصل مسئلہ یہ ہے کہ سیاسی جماعتیں کسی ضابطے کے تحت نہیں چلائی جا رہیں، یہاں حادثاتی طور پر لیڈر بنتے ہیں اور بن رہے ہیں بلکہ میں یوں کہوں تو بےجا نہ ہوگا کہ جو سیاسی جماعتیں ہیں وہ لمیٹڈ کمپنی کے طور پر چلائی جا رہی ہیں، ان سیاسی قائدین کو یہ ڈر لاحق ہوگیا ہے کہ شاید اب ہمارے پرانے کیس کھل جائیں گے۔ اس وجہ سے انھوں نے اس کی مخالفت شروع کر دی ہے۔ دیکھیں جب بھی انصاف ہوتا ہوا نظر آتا ہے تو ہر مجرم پریشان ہوتا ہے کہ اب تلوار شاید میرے سر پر بھی آئے گی اور مجھے بھی اسی قسم کے نتائج کا سامنا ہوگا۔ میں یہ سمجھتا ہوں کہ ان کا جو ڈر ہے وہ اب باہر آرہا ہے اور اس پر تقسیم کیا جا رہا ہے کہ ملٹری کورٹس نہ بنیں، تمام مجرم اور مجرمانہ ذہنیت کے جو لوگ ہیں وہ کبھی بھی اس کی حمایت نہیں کریں گے۔

اسلام ٹائمز: رحمان ملک صاحب نے کہا ہے کہ داعش کے پچیس افراد ملک کے مختلف شہروں میں تعینات کر دے گئے ہیں، کیا آپ یہ سمجھتے ہیں کہ واقعاً ایسا کوئی خطرہ لاحق ہے۔؟
مفتی گلزار نعمی: دیکھیں جی میں یہ سمجھتا ہوں کہ اس ملک میں طالبان اور ان کے حمایتی موجود ہیں۔ وہ مذہبی جماعتیں ہوں یا مدارس کے لوگ، تو داعش، القاعدہ کا ہونا اور طالبان کا ہونا، میں یہ سمجھتا ہوں کہ یہ ایک ہی چیز ہے۔ ان میں کوئی فرق نہیں ہے۔ اگر یہاں پہ لال مسجد میں مولانا عبدالعزیز علی الاعلان آئین اور قانون کی مخالفت کرتے ہیں تو میں یہ سمجھتا ہوں کہ داعش موجود ہے۔ ساری انتہا پسندی اور دہشتگردی کے جتنے بھی سلسلے ہیں، وہ پاکستان کے اندر موجود ہیں۔ جب ایک سیاسی مذہبی جماعت کا سابق امیر یہ کہتا ہے کہ اس ملک کے گلی کوچوں میں قتال فی سبیل اللہ ہونا چاہیے تو آپ مجھے بتائیں کہ کیا یہ دہشتگردی نہیں ہے، انتہا پسندانہ سوچ نہیں ہے؟ میں تو اس کو بھی دہشت گردی کہتا ہوں۔ جہاد فی سبیل اللہ ایک ایسی اصطلاح ہے جو قرآن و سنت نے ہمیں دی ہے اور قرآن و سنت کے اپنے اصول اور ضابطے ہیں، جو بیان کئے گئے ہیں کہ کس طرح جہاد ہوگا۔ جب کوئی شخص یہ کہتا ہے کہ گلی کوچوں میں جہاد فی سبیل اللہ ہونا چاہیے تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ ان گلی کوچوں میں مسلمان نہیں رہ رہے، یعنی اس سیاسی مذہبی جماعت کے سربراہ نے اس کو دارالحرب قرار دے دیا ہے۔ عجیب ہے کہ اس سے کوئی پوچھنے والا بھی نہیں ہے۔ پہلے اسی صاحب نے حکیم اللہ محسود کو شہید قرار دیا تھا۔

اسلام ٹائمز: دہشتگردی کے سپورٹر ہی اے پی سی میں موجود تھے، شیعہ سنی کی نمائندگی کیوں نہیں تھی، حالانکہ دہشتگردی کا شکار سب سے زیادہ یہ لوگ ہوئے ہیں۔ اسکی کیا وجہ نظر آتی ہے۔؟

مفتی گلزار نعیمی: دیکھیں کہ دہشتگردی کن کی وجہ سے ہے، کن کے مدارس دہشتگردوں کو سپورٹ کرتے ہیں، یہی لوگ اے پی سی میں نظر آئے، شائد میر تقی نے انہی کیلئے کہا تھا کہ:
میر کیا سادہ ہیں بیمار ہوئے جن کے سبب
 اسی عطار کے لونڈے سے دوا لیتے ہیں
بڑی عجیب بات ہے کہ انھی لوگوں سے ہم نے دہشتگردی کی دوا لینا شروع کر دی ہے جو ہر طرح سے دہشتگردوں کو سپورٹ کر رہے تھے، تو اہم سوال ہے کہ دہشتگردی کہاں ختم ہوگی؟، معاملہ یہ ہے کہ ہمیں حقائق کی طرف جانا ہوگا کہ کون لوگ دہشتگردی کا باعث بن رہے ہیں، اس ملک کے اندر کن لوگوں کی وجہ سے دہشتگردی بڑھی ہے۔ جن مذہبی اداروں کی وجہ سے دہشتگردی آئی ہے، ان اداروں کو ہمیں بالکل صاف کرنا ہوگا۔ جن سیاسی اور مذہبی افراد کی وجہ سے یعنی اگر کسی مدرسے کی وجہ سے دہشتگردی پنپ رہی ہے تو اس مدرسے کو ختم کیا جانا چاہیے۔ الطاف حسین صاحب نے مسجد ضرار کی بات کی ہے تو میں اس نظریئے کا بالکل حمایتی ہوں۔ میں یہ کہتا ہوں کہ جن مساجد سے دہشتگردانہ خیالات پر مبنی خطبے دیئے جا رہے ہیں، ان مسجدوں کو بین کیا جانا چاہیے۔ ان مسجدوں کو ختم کیا جانا چاہیے، جب تک وہاں پر کوئی صالح فکر شخص بطور خطیب نہیں آتا اس مسجد کو تالے لگا دیں۔

جب آپ دہشتگردی کو ختم کرنے کی بات کرتے ہیں تو پھر وہ منابع جہان سے دہشتگردی پھوٹ رہی ہے، ان جگہوں کو ہمیں بند کرنا ہوگا۔ دیکھیں ہمارا یہ دعویٰ نہیں ہے کہ ہر دیوبندی دہشتگرد ہے لیکن ہم یہ کہتے ہیں کہ ہر پکڑا جانے والا دہشتگرد دیوبندی کیوں ہے۔؟ یہ ایک حقیقت ہے کہ ہر دیوبندی دہشتگرد نہیں ہے لیکن ہر پکڑا جانیولا دہشتگرد دیوبندی ہوتا ہے۔ ایک اور اہم بات جو کہ ہمارے وزیر داخلہ صاحب نے کہی ہے کہ کہ دس فیصد مدارس دہشتگردی میں ملوث ہیں، وہ بتائیں کہ کن کے مدارس ہیں اور پوائنٹ آوٹ کریں کہ کونسے مدارس ملوث ہیں۔ میں یہ دعویٰ کرتا ہوں کہ بریلوی مسلک کا کوئی مدرسہ اس میں ملوث نہیں ہے۔ اگر ملوث ہے تو ہم اس سے برائت کا اظہار کرتے ہیں اور حکومت پاکستان سے مطالبہ کرتے ہیں کہ اس مدرسے کو فی الفور ختم کیا جائے اور تاحیات اس مدرسے پر پابندی لگنی چاہیے۔

اسلام ٹائمز: موجودہ صورتحال یہ ہے کہ مولانا فضل الرحمان صاحب، سمیع الحق صاحب اور جالندھری صاحب منظر عام پر آچکے ہیں اور مدارس کے حوالے پریس کانفرنسز کی جا رہی ہیں۔ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ اس معاملے پر اہلسنت اور اہل تشیع کیوں باہر نہیں آئے۔ کیا کہتے ہیں۔؟

مفتی گلزار نعیمی: دیکھیں یہ سارا ڈھونگ ہے۔ کیا ان لوگوں کو نہیں پتہ کہ ہمارے مدارس ملوث ہیں اور آج تک محترم حنیف جالندھری صاحب نے جو وفاق المدارس العربیہ کے سیکرٹری جنرل ہیں، کیا انہوں نے کسی ایک بھی مدرسے کی نشاندہی کی ہے۔ ان کیخلاف جب بھی بات ہوتی ہے، سب سے پہلے یہ آگے کھڑے ہوتے ہیں۔ آپ دیکھیں کہ سانحہ پشاور جو ہوا ہے اس پر جتنی بھی مذہبی اور غیر مذہبی جماعتیں ہیں، انہوں نے ریلیاں نکالیں، احتجاج کیا اور اس فعل کی مذمت کی ہے۔ لیکن دوسری جانب یہ نام نہاد اہلسنت والجماعت نے مدارس کے حق میں ریلیاں نکالی ہیں، انہوں نے سانحہ پشاور پر تو کوئی ریلی نہیں نکالی۔ مدارس کے معاملے پر اہل سنت اور اہل تشیع نے تو کوئی ریلی نہیں نکالی، اسکا مطلب ہے کہ دال میں کچھ ضرور کالا ہے۔ ہم حکومت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ ہمارا کوئی مدرسہ ملوث ہے تو فی الفور اسے بند کیا جائے اور دیگر کسی مکتب فکر کا مدرسہ بھی اگر اس میں ملوث ہے تو اس کو بھی بند کیا جائے۔ نام بدل کر کام کرنے والی تنظیموں پر پابندی عائد کی جائے۔

اسلام ٹائمز: ایران کے شہر قم میں تکفیریت کیخلاف ہونیوالی کانفرنس پر کیا کہیں گے۔ اسکے کیا اثرات دیکھتے ہیں۔؟
مفتی گلزار نعیمی: یہ کانفرنس بہت شاندار کانفرنس تھی اور پہلی دفعہ میں نے دیکھا ہے کہ شیعہ مراجع اس حوالے سے کھل کر سامنے آئے ہیں اور یہ بڑی خوش آئند بات ہے۔ آیت اللہ مکارم شیرازی اور آیت اللہ جعفر سبحانی نے مل کر اس کانفرنس کو منعقد کیا ہے اور بہت کامیاب کانفرنس ہوئی ہے۔ یہ بہت خوش آئند ہے کہ اہل تشیع کیطرف سے تکفیریت کی کھل کر مخالفت کی گئی ہے۔ اس کی مذمت کی گئی اور بڑے بڑے مقالہ جات پڑھے گئے، بڑے بڑے لوگوں نے اس پر گفتگو کی ہے۔ یہ کانفرنس بہت اثرات چھوڑے گی۔ اسکے لٹریچر کو اگر مختلف زبانوں میں بھیجا جائے اور مراجع کے جو فتاویٰ ہیں، اسکو انگلش اور عربی میں ترجمہ کرکے دنیا میں پھیلایا جائے تو ایک بہت مثبت پیغام اہل تشیع کیطرف سے جائے گا۔ دوسرا جو ایران اتحاد امت کی بات کرتا ہے وہ حقیقی ہے، ہم دیکھتے ہیں کہ دنیائے اسلام میں ایران ہی ایک وہ ملک ہے جو اتحاد امت کی بات کرتا ہے۔ یہ بڑی ہی اہم بات ہے کہ وہاں جا کر جو دیوبندی مکتب فکر کے لوگ جیسا کہ مولانا محمد خان شیرانی نے شرکت کی اور انھوں نے اسٹیج پر جا کر شیعہ نظریات کی مخالفت کی ہے مگر شیعہ مراجع عظام نے بالکل بھی اسے محسوس نہیں کیا، یہ بہت جگرے کی بات ہے۔

میں یہ سمجھتا ہوں کہ یہ وسعت ظرفی کی بات ہے۔ یہ شاید ہم سعودی عرب میں نہ کرسکیں۔ تکفیریت کے خلاف اس کانفرنس میں آیت اللہ مکارم شیرازی صاحب نے تمام مکاتب فکر کے لوگوں کو بلایا ہوا تھا۔ پوری دنیا سے لوگ آئے ہوئے تھے، لیکن آپ دیکھیں کہ امام ابوحنیفہ کانفرنس جدہ میں ہوتی ہے، سعودی عرب نے صرف حنیف جالندھری صاحب کو بلایا ہے۔ تو ہم کیا یہ سوال کرنے میں حق بجانب نہیں ہیں کہ کیا ہم حنفی نہیں ہیں؟، کیا پاکستان میں رہنے والے 70 فیصد اہلسنت بریلوی حنفی نہیں ہیں؟، ان میں سے کسی ایک کو بھی انھوں نے نہیں بلایا۔ دل دکھتا ہے ایسی باتوں پر، جب آپ خادم حرمین شریفین کہلائیں اور اپنے آپ کو خادم سمجھیں۔ یہ لوگ صرف ان لوگوں کو بلاتے ہیں جو انتہا پسندی اور شدت پسندی میں ملوث ہیں اور جو امن کا اور محبت کا پیغام دیتے ہیں یہ ان کو نظرانداز کرتے ہیں۔

اسلام ٹائمز: عید میلاد النبیﷺ کے حوالے سے کوئی پیغام دینا چاہیں۔؟

مفتی گلزار نعیمی: عید میلاد النبی کا مہینہ جب بھی آتا ہے تو ہمارے دل باغ باغ ہوجاتے ہیں اور ہم نبی پاک ﷺ کی آمد کی خوشی ایسے مناتے ہیں کہ جیسے آج ہی نبی پاک ہمیں ملے ہیں اور اس انداز سے میلاد کرتے ہیں کہ شاید یہ مہنہ اگلے سال ہمیں نصیب نہ ہوسکے۔ پوری دنیا میں نبی (ص) سے محبت و عقیدت رکھنے والے گھر گھر خوشیاں مناتے ہیں، تمام امت سے کہتا ہوں کہ نبی پاک کی حقیقی تعلیمات کی طرف آئیں، ایسے لوگوں کا ساتھ دیں جو امن کی بات کرتے ہوں، جو جوڑنے کی بات کرتے ہیں، جو توڑنا چاہتے اور توڑنے کی بات کرتے ہیں انہیں رد کریں۔ انہیں تنہا کریں۔
خبر کا کوڈ : 429542
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش