3
0
Friday 9 Jan 2015 00:09
عمامہ باندھ کر اپنے آپکو خمینی سمجھنے کی سوچ نے شیعہ قوم کو تباہ کیا

پاکستان میں پراکسی وار نہیں بلکہ سعودی دہشتگردی ہو رہی ہے، ڈاکٹر علی واصف

پاکستان میں پراکسی وار نہیں بلکہ سعودی دہشتگردی ہو رہی ہے، ڈاکٹر علی واصف
کراچی سے تعلق رکھنے والے بین الاقوامی قانون و بین الاقوامی سیاسیات کے ماہر پروفیسر ڈاکٹر سید علی واصف کا نام پاکستان کے اہل تشیع تنظیمی حلقوں میں کسی تعارف کا محتاج نہیں ہے، آپ کا شمار امامیہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن پاکستان اور تحریک جعفریہ کے سینیئر ترین شخصیات میں ہوتا ہے۔ آئی ایس او کے بعد آپ نے شہید قائد علامہ سید عارف حسین الحسینی (رہ) کی قیادت میں تحریک نفاذ فقہ جعفریہ میں فعالیت دکھائی، آپ شہر کراچی میں آئی ایس او اور تحریک جعفریہ کو پروان چڑھانے والی شخصیات میں سے ایک ہیں۔ آجکل آپ واشنگٹن، امریکا میں مقیم ہیں اور وہاں ”سوسائٹی فار انٹرنیشنل ریفارمز اینڈ ریسرچ“ کے نام سے ایک تھنک ٹینک چلا رہے ہیں، جس کے آپ صدر بھی ہیں، تھنک ٹینک میں مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے امریکی ماہرین بھی شامل ہیں۔ ”اسلام ٹائمز“ نے پروفیسر ڈاکٹر سید علی واصف کے ساتھ پاکستانی و عالمی تشیع، شیعہ سیاسی صورتحال، پاکستان میں ایران سعودی پراکسی وار کی حقیقت، اچھے طالبان و برے طالبان، افواجِ پاکستان کا کردار سمیت مختلف موضوعات کے حوالے سے نشست کی، اس موقع پر لیا گیا خصوصی انٹرویو قارئین کیلئے پیش ہے۔ ادارہ

اسلام ٹائمز: آپ بین الاقوامی سیاسیات و قانون کے ماہر ہیں، عالمی حالات پر گہری نگاہ رکھتے ہیں، کہا جاتا ہے کہ موجودہ صدی تشیع کی صدی ہے، کیا کہیں گے اس حوالے سے۔؟
ڈاکٹر سید علی واصف:
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم ۔۔۔۔۔ میرے بھی سننے میں کافی آیا ہے لیکن مجھے نہیں پتہ کہ کس نے کیوں یہ کہا ہے کہ موجودہ صدی تشیع کی صدی ہے، لیکن بات یہ ہے کہ میں عقیدے سے زیادہ حقیقت کو دیکھتا ہوں، عقیدہ اپنی جگہ ہے اور حقیقت اپنی جگہ ہے، بعض اوقات عقیدہ اور حقیقت ایک ساتھ ہوتے ہیں اور بعض اوقات یہ بالکل جدا ہوتے ہیں، بعض اوقات حقیقت عقیدے سے 180 ڈگری مختلف ہوتی ہے، کیونکہ ہمارے یہاں اکثریت افراد نہ تو پڑھے لکھے ہیں اور نہ ہی باشعور، اس وجہ سے وہ سنی سنائی باتوں پر زیادہ عمل کرتے ہیں، مثال کہ طور پر میں نے بہت سے عادل لوگوں سے سنا ہے کہ آیت اللہ بہجت کے حوالے سے بہت مشہور تھا کہ وہ کہتے تھے کہ امام زمانہ (عج) کا ظہور ہوگا اور میں بھی دیکھوں گا، مگر انہوں نے تو نہیں دیکھا، انکا انتقال ہوچکا ہے، اب عقیدہ کہاں جائے گا، یہ بات تو جھوٹ ثابت ہوئی، اس کا مطلب ہے کہ عقیدہ کہیں اور ہے اور حقیقت کچھ اور ہے، بالکل اسی طرح یہ بات بھی ہے کہ موجودہ صدی تشیع کی صدی ہے، اگر یہ بات اس پس منظر میں کی گئی ہے کہ امام زمانہ (عج) کا ظہور ہوجائے گا تو اس میں کوئی شک نہیں ہے، لیکن اگر یہ بات اس وجہ سے کہی جا رہی ہے کہ اب عراق میں شیعہ حکومت قائم ہوگئی ہے، بحرین میں شیعہ اٹھ کھڑے ہوئے ہیں، پاکستان میں شہادتوں کی وجہ سے تھوڑا شعور بڑھ گیا ہے، لبنان میں حزب اللہ کی وجہ سے، شام کے حالات کی وجہ سے، تو میں نہیں سمجھتا کہ اس بنیاد کی وجہ سے یہ کہنا صحیح ہے کہ موجودہ صدی تشیع کی صدی ہے، کیونکہ حالات ابھی کسی کروٹ بیٹھے نہیں ہیں۔
 
ابھی یہ کہہ دینا کہ شام میں آپ کی فتح ہوجائے گی یہ کوئی حتمی بات نہیں ہے، شام میں صورتحال اتنی اچھی نہیں ہے کہ جتنی آپ سمجھ رہے ہیں، وہاں حزب اللہ بھی برسرپیکار ہے، جس کے پاس کوئی لاکھوں کی فوج تھوڑی ہے، اگر امریکہ اسرائیل وغیرہ کل کو لبنان میں کوئی مسئلہ پیدا کر دیتے ہیں تو حزب اللہ کی ساری توجہ لبنان میں لگ جائے گی جہاں اسکا مرکز ہے، پھر شام خالی ہوجائے گا، بشار الاسد کی اتنی فوج نہیں ہے کہ وہ شام کی صورتحال سنبھال سکے اور نہ ہی بین الاقوامی شیعہ عسکری طاقت ہے جو شام کے مسئلے کو دیکھے، جس طرح آپ کے مخالفین کے پاس عالمی عسکری طاقت ہے، اب چاہے آپ اسے دہشتگرد کہیں یا کچھ اور، وہ آپ کے مقابلے میں لڑنے آجاتے ہیں، جبکہ آپ کے پاس ماتم ہے عزاداری ہے اور رونا ہے، یہ آپ کا فلسفہ ہے، یعنی آپ کو مرنا ہے اور رونا ہے، جبکہ مارنا اور رلانا آپ کے فلسفے میں آتا ہی نہیں ہے، یہ تو اسلام کی بالکل ضد ہے، اسلام میں تو دونوں چیزیں موجود ہیں، لہٰذا کہاں سے موجودہ صدی شیعہ صدی ہوگئی، اگر امام زمانہ (عج) کا ظہور ہوگیا تو شیعہ صدی ہے، لیکن اس بات کی تو کوئی ضمانت نہیں لے سکتا کہ کوئی کہے کہ موجودہ صدی میں ظہور ہوجائے گا، کیونکہ روایات میں آیا ہے کہ جو یہ بولے وہ جھوٹا ہے۔ یہ بات میں عقیدے پر نہیں رکھتا، کوئی ضروری نہیں کہ موجودہ صدی تشیع کی صدی ہو، ہمیں حالات کو دیکھنا چاہیئے۔

اسلام ٹائمز: عالمی حالات کے تناظر میں کیا آپ سمجھتے ہیں کہ عالمی تشیع کا سفر عروج کی جانب گامزن ہے۔؟
ڈاکٹر سید علی واصف:
اس حوالے سے دو باتیں ہیں، آپ ٹیلیویژن کے سامنے بیٹھیں گے تو عالمی طور پر تشیع آپکو اوپر جاتے ہوئے نظر آ رہی ہے، ہر طرف شیعہ نام آنے لگا ہے، پہلے کوئی نہیں جانتا تھا شیعہ نام، اب دنیا بھر میں بچہ بچہ جانتا ہے کہ شیعہ نام کو، میڈیا کی حیثیت میں تو تشیع اوپر جا رہا ہے، لیکن کیا حقیقت میں تشیع اوپر جا رہا ہے، دیکھیں کوئی بھی ملک و قوم، کوئی بھی نسل، کوئی بھی فرقہ اوپر جاتا ہے تو اس کو دیکھنے کے تین چار معیار ہوتے ہیں، ایک معاشی معیار ہوتا ہے، ایک سیاسی معیار ہوتا ہے، ایک سماجی معیار ہوتا ہے، ایک عسکری معیار ہوتا ہے، آپ چاروں میں سے گنوا دیں، آپ کے پاس پوری دنیا میں کوئی عسکری قوت ہے، نہیں ہے، آپ کے پاس کوئی عالمی سطح پر شیعہ پلیٹ فارم ہے، ان کے پاس القاعدہ ہے، طالبان ہے، اور بنتے ہی رہتے ہیں، انکے پاس ہزاروں لاکھوں سپاہی ہیں، وہ ہر جگہ لڑنے پہنچ جاتے ہیں، آپ کے پاس کوئی سلسلہ ہی نہیں ہے، آپ کے پاس تو سوچ ہی یہی ہے کہ مرنا ہے، جینا ہے تو حسین (ع) پر رونا ہے، جبکہ حسین (ع) نے مارا بھی تو ہے، علی (ع) نے مارا بھی تو ہے، وہ تو آپ کے پاس ہے ہی نہیں، آپ کے پاس مارنے کی کیفیت ہے تو ہے ہی نہیں، آپ کے پاس آدھا اسلام ہے، آپ کو تو بس آدھی بات بتائی گئی ہے کہ صرف مرنا ہے مارنا نہیں ہے، صرف رونا ہے، رلانا نہیں ہے، لہٰذا ابھی آپ کی ساری صورتحال خوش فہمی پر مبنی ہے، اگرچہ صورتحال پہلے سے بہتر ہے، ظاہر ہے انقلاب اسلامی ایران نے اس پر اثر ڈالا ہے، حزب اللہ کی کامیابیوں کا اپنا اثر ہے، لیکن ہر جگہ صورتحال اچھی نہیں ہے۔ 

میں وہ واحد شخص ہوں، شاید میں وہ واحد شیعہ ہوں، یہ بات ریکارڈ پر موجود ہے، واشنگٹن سمیت اور بھی جگہوں پر ٹی وی چینلز پر میں نے کہا ہے کہ جب عراق اور افغانستان سے امریکی فوج کا انخلاء کا ہو رہا تھا، میں نے منع کر دیا تھا، میں نے کہا تھا کہ امریکی فوج کو نہیں جانا چاہئیے، حالانکہ خود امریکی جو تھے، گورے، وہ کہتے تھے کہ امریکی فوج کو وہاں سے نکالو، جبکہ وہ مجھ سے تو توقع کر رہے تھے کہ یہ مسلمان ہے، یہ تو اچھلے گا کہ ہمارے مسلم ممالک سے امریکی فوج کو باہر نکالو، مگر میں کہتا تھا کہ مت نکالو، کیوں، اس لئے کہ مجھے پتہ تھا کہ عراقی قوم کی کیفیت، نفسیات کیا ہے، عراقی قوم میں لڑنے کا تھپڑ ہے یا نہیں ہے، وہ آپ نے دیکھ لیا کہ میری بات صحیح ثابت ہوئی، میں نے یہ 2011ء میں ہی کہہ دیا تھا کہ امریکی فوج باہر نہیں آنی چاہیئے، کچھ فوج وہاں رہنی چاہیئے کیونکہ اس وقت عراقی حکومت کمزور ہے، ثابت ہوگیا کہ عراقی حکومت کمزور ہے۔ پانچ ہزار لچے لفنگوں نے آپکی عراقی فوج کو بھگا دیا، آپ کے بقول وہاں پچیس ہزار وہاں موجود تھی، جبکہ وہ تو تھی ہی نہیں، سب گھوسٹ تھے، جس ملک میں حکومت کا، تشیع کا یہ عالم ہو کہ آپ کو بڑی مشکل سے ایک حکومت ہاتھ آئی ہو، وہاں کرپشن کا یہ عالم ہو کہ جیسے ہمارے یہاں پاکستان میں تھانے بکتے ہیں، وہاں فوجی بکتے ہیں، کمانڈرز کی پوسٹیں، عہدے بکتے ہیں وہاں عراق میں۔
 
بہرحال اس حقیقت سے انکار نہیں کرنا چاہیئے کہ عالمی تناظر میں تشیع اتنی مضبوط نہیں ہوئی ہے، میڈیا پر ضرور مضبوط ہوئی ہے، لیکن ہمیں حقیقت کو مدنظر رکھنا چاہیئے، میڈیا کے باعث جوش و ولولے میں اضافہ ہوا ہے، لیکن صرف جوش و و لولے سے کچھ نہیں ہوتا جب تک شعور نہیں آئے، جب تک سیاسی شعور نہ آئے، سیاسی بصیرت نہ آئے، لوگ معاملات سمجھیں نہیں، ایک لیڈرشپ نہ ہو۔ اگر آپ ایران کو سائیڈ پر کر دیں تو آپ کے پاس کیا ہے، آپ شیعہ معاملات کی ساری باتیں ایران سے کہلواتے ہیں، ایران ایک ملک ہے، ایک حکومت ہے، اس کی اپنی مجبوریاں ہیں، ہر بات جو شیعہ سے منسلک ہے وہ ایران نہیں کرسکتا، یہ ایران کی حقیقت میں مجبوری ہے، جو وہ بیچارہ ایران کرسکتا ہے وہ کرتا ہے، مگر سب کچھ نہیں کرسکتا، تشیع کو چاہیے تھا کہ عالمی سطح پر کوئی پلیٹ فارم تشکیل دیتے، ابھی یہ کہنا قبل از وقت ہے کہ عالمی سطح پر تشیع مستحکم ہو رہا ہے، اس راہ پر شاید ہم چل تو نکلے ہیں، لیکن منزل ابھی بہت دور ہے۔

اسلام ٹائمز: پاکستانی تشیع کے بارے میں خصوصاً سیاسی حوالے سے آپکی نگاہ کیا کہتی ہے۔؟
ڈاکٹر سید علی واصف:
پاکستانی تشیع کی صورتحال بھی عالمی تشیع کے تناظر میں دیکھیں، میڈیا کے طور پر تو ہم پاکستان میں بڑے پہچانے گئے ہیں، میڈیا میں تشیع بڑی اوپر گئی ہے، میڈیا میں، اخبارات و ٹی وی چینلز پر بڑا نام آیا ہے، ایک زمانے میں تحریک نفاذ فقہ جعفریہ تھی، شہید عارف حسین الحسینی صاحب اس کی قیادت کرتے تھے، پاکستان میں تشیع کا ایک پلیٹ فارم تھا، لیکن ان کی شہادت کے بعد سے اب وہ ختم ہوگیا ہے، اب تشیع میں سب کچھ گروہ بندیوں کا شکار ہوگیا ہے، لسانی حوالے سے بھی، سوچ کے تناظر میں بھی گروہ بندیاں ہوگئی ہیں، میں نہیں سمجھتا کہ پاکستان میں تشیع کا اتنا کوئی مستحکم پلیٹ فارم موجود ہے، اس کی وجوہات یہ ہیں کہ جب آپ تشیع کی بات کرتے ہیں تو پہلے آپ کو سمجھنا پڑے گا کہ پاکستان کیا ہے، اسکی نفسیات کیا ہے، اسکی سیاسیات کیا ہے، اس کے خدوخال کیا ہیں، ہمیں یہی نہیں پتہ کہ یہاں پاکستان میں ہمارے جو مخالفین ہیں، انہوں نے ملک بننے کے ساتھ ہی کام کرنا شروع کر دیا تھا جبکہ ہمارے یہاں تو اس وقت سیاست کو حرام گردانا جاتا تھا جبکہ مخالفین سیاست کو واجب سمجھتے تھے، کہاں حرام اور کہاں واجب۔ 

تو ایک ایسی قوم جو سیاست کو حرام جانے، ایک ایسی قوم جو جمعہ کی نماز کو امام وقت (عج) کے آنے پر موقوف کر دے، ایک ایسی قوم جو صرف دو مہینے کیلئے اپنے آپ کو مسلمان اور شیعہ ہونے تک محدود کرلے، ایک ایسی قوم جس کا کوئی منظم پلیٹ فارم نہ ہو، جس کا علمی معیار نہ بڑھ سکے، گھٹتا نظر آئے، ماضی کے مقابلے میں اب تعلیمی اداروں میں جانے والوں کی تعداد انتہائی گھٹ چکی ہو، وہ شعور نہیں رہا، معاشی استحکام برقرار نہیں رہ سکا، ماضی گواہ ہے کہ اس پاکستان میں شیعہ ملکی معیشت پر چھائے ہوئے تھے، چاہے وہ حبیب ٹرسٹ کی صورت میں ہو، چاہے بی سی سی آئی بینک کی صورت میں ہو یا گوکل شپنگ کی صورت میں ہو، یا دیگر چھوٹے بڑے بزنس کی صورت میں شیعہ مسلمان چھائے ہوئے تھے ملکی معیشت پر، اسی طرح قیام پاکستان کے بعد ملکی سیاسیات پر بلواسطہ شیعہ مسلمان چھائے ہوئے تھے، شیعہ بیوروکریٹس اور افسران نے اپنے شیعہ ہونے کا حق ادا کیا ہے، اگرچہ وہ نظریاتی طور پر راسخ شیعہ نہیں تھے، ان میں جواری شیعہ بھی تھے، راشی، شرابی شیعہ بھی تھے، بدکردار شیعہ بھی تھے لیکن انہیں ایک بات پتہ تھی کہ ہم شیعہ ہیں اور ہمیں ملک میں تشیع کیلئے کچھ کرنا ہے اور انہوں نے کیا بھی، 1977ء، 1979ء تک انہوں نے حق ادا کیا، لیکن 1980ء کے بعد انقلاب اسلامی ایران کے اثر کے باعث شیعہ معاملات آگئے مولویوں کے ہاتھ میں، دیکھیں علماء اور مولویوں میں فرق ہے، ہر مولوی عالم نہیں ہوتا ہے، پھر ہر مولوی یہ سمجھنے لگا کہ میں خمینی ہوں اور میری سیاسی بصیرت وہی ہے جو خمینی کی ہے، بس اسی وجہ سے ہم نے پاکستان میں بہت نقصان اٹھایا۔
 
دیکھیں 1980ء تک پاکستان میں جو تشیع اوپر نظر آئی ہے آپ شکر ادا کریں ان راشی، جواری، بدکردار شیعہ بیوروکریٹس اور افسران کا جو نظریاتی، نمازی نہیں ہوتے تھے لیکن ان میں ایک خوبی یہ ہوتی تھی کہ پاکستان تشیع اوپر نظر آئے اور اس حوالے سے انہوں نے اپنا بھرپور کردار ادا کیا، لیکن ضیاءالحق کے زمانے میں ان شیعہ بیوروکریٹس افسران کو آہستہ آہستہ ہٹایا گیا، پھر ایک بڑا خلاء پیدا ہوگیا اور پھر ہم نے دیکھا کہ وہ شیعوں کی بلواسطہ قیادت جو شیعہ بیوروکریٹس کے پاس تھی، اب وہ شیعہ قیادت بلاواسطہ آگئی مولویوں کے ہاتھ میں اور مولویوں نے تباہ کر دیا، اس کی وجہ یہ نہیں تھی کہ مولویوں کی نیت خراب تھی بلکہ وجہ یہ تھی کہ مولوی ناتجربہ کار تھے، کم علم تھے، سیاسی بصیرت نہیں تھی، خوش فہمی میں مبتلا تھے، اسی بنیاد پر انہوں نے قوم کو ڈبو دیا، اسی وجہ سے شیعہ قوم گروہ بندی، لسانیت کا شکار ہوگئی، آج پنجابی شیعہ اپنے آپ کو ویسے ہی اعلٰی سمجھتا ہے جیسے سنی پنجابی، آج ہماری سیاسی حوالے سے کوئی انفرادی حیثیت نہیں ہے، بہرحال 1980ء میں جب شیعہ بیورو کریٹس کو فارغ کیا گیا تو چونکہ مولویوں میں شعور تھا ہی نہیں، وہ اسٹریٹ پاور کو ہی سب کچھ سمجھتے تھے، جبکہ مولویوں نے سیاسی، معاشی، تعلیمی حوالے سے نہ تو کوئی منصوبہ بندی کی اور نہ ہی کوئی کام کیا۔
 
شیعہ بیوروکریٹس آپ کو پہلے سے ہی بتا دیا کرتے تھے کہ ملک میں یہ ہونے جا رہا ہے، لہٰذا پالیسی ایسے ترتیب دے دو، قوم کو فائدہ پہنچتا تھا، جب سے مولویوں کے پاس قیادت آئی ہے، تو نہ تو آپ کی کوئی پہنچ ہے، نہ رسائی ہے ان پاور سرکلز میں جو اسلام آباد میں بیٹھے ہیں، جو افواج پاکستان میں بیٹھے ہیں، جو انٹیلی جنس ایجنسیز میں موجود ہیں، کیونکہ آپ کے پاس افراد ہی نہیں ہیں، لیکن مولوی یہ سمجھتے نہیں تھے، وہ سمجھتے تھے کہ چونکہ انہوں نے عمامہ باندھ لیا ہے اب وہ خمینی ہوگئے ہیں، بس اسی فکر نے شیعہ قوم کو انتہائی نقصان پہنچایا ہے، مولویوں نے موجودہ حالات کی مناسبت سے آگے بڑھنے کی، تیاری کرنے کی کوشش ہی نہیں کی، مثال کے طور پر جس طرح ایک تعلیم یافتہ شخص جنازہ، نکاح، فقہی مسائل یا دیگر شرعی احکام کے حوالے سے علماء کے پاس آتا ہے جبکہ وہ اکثر باتوں سے آگاہ بھی ہوتا ہے لیکن پھر بھی وہ علماء سے مشورہ کرتا ہے کہ عالم دین ہیں، قم، نجف سے پڑھ کر آئے ہیں، ان سے پوچھ لیں۔
 
لیکن یہ چیز آپ مولوی میں نہیں دیکھیں گے، مولوی کبھی مختلف شعبہ ہائے زندگی کے ماہرین، جیسے سیاسی ماہر، جیسے قانونی ماہر وغیرہ سے کبھی مشورہ نہیں کریگا، مولوی اس میں اپنی توہین سمجھے گا، وہ سمجھتا ہے کہ اسے یہ سب چیزیں بھی آتی ہیں، جبکہ یہ اسلام کی روح کے سراسر خلاف ہے، قرآن تو کہتا ہے کہ باہم مشور کرو، اسی وجہ سے شیعہ قوم پیچھے ہے، یہی اس کی بنیادی وجہ ہے۔ قوم میں اپنی خرابیاں ہیں لیکن اگر آپ موازنہ کریں کہ قوم زیادہ خراب ہے یا اسکی مولوی لیڈرشپ زیادہ خراب ہے تو میں سمجھتا ہوں کہ مولوی لیڈرشپ زیادہ خراب ہے، اگر قوم کو صحیح لیڈر شپ مل جائے تو قوم ترقی کرسکتی ہے، واضح کر دوں کہ لیڈرشپ میں مولوی اور غیر مولوی کی قید نہیں ہے، کوئی بھی باشرع انسان، جو کہ اسلام کو سمجھتا ہو، تشیع کو سمجھتا ہو، انکے مسائل کو سمجھتا ہو، فداکار ہو، اصل پیغام سے آشنا ہو، اگر ایسا شخص مولوی نہیں بھی تو اسے قیادت کا حق حاصل ہے، مولویوں کو اس اہل شخص کے پیچھے چلنا چاہیئے۔

ہمارے مولوی فکری جمود کا شکار ہیں، مولوی نکاح پڑھانے جائے یا کسی جلسے میں جائے اور اگر وہاں کوئی بے پردہ خاتون آجائے، کوئی خاتون جینز اور ٹی شرٹ میں آجائے تو ہمارا مولوی اسے مائیک پر گالیاں دے کر بھگا دے گا، لیکن کیا میں آپ کو انٹرنیٹ پر موجود وہ ویڈیوز دکھا دوں کہ بیروت میں حزب اللہ کے پروگرامات کی کہ سید حسن نصراللہ صاحب خطاب کر رہے ہیں اور وہاں خواتین منی اسکرٹ میں بھی بیٹھی ہیں، بال انکے کھلے ہوئے ہیں، ان کے برابر میں چادر میں باحجاب خواتین بھی بیٹھی ہیں، ان میں حزب اللہ کے شیعہ سپورٹرز بھی ہیں، سنی بھی، عیسائی بھی ہیں، سب ایک ساتھ بیٹھے ہیں، تو وہاں تو یہ صورتحال قبول ہوسکتی ہے لیکن پاکستان میں قبول نہیں، کیا لبنانی تشیع پاکستانی تشیع سے الگ ہے، وہاں کا عالم تو اتنا دوراندیش اور بابصیرت ہے کہ عیسائی بھی ساتھ بیٹھا ہے، بے پردہ خواتین بھی وہاں موجود ہیں، لیکن پاکستان کا مولوی اتنا بیوقوف اور نکمہ کہ اسے پاکستان کی صورتحال پتہ ہی نہیں کہ ہم یہاں اکثریت میں نہیں ہیں، لیکن چونکہ ہمارے یہاں مولوی کو شعور ہی نہیں ہے، وہ یہ سمجھتا ہے کہ چونکہ خمینی نے بھی عمامہ لگایا تھا، میرے بھی عمامہ لگا ہے، بس میں خمینی ہوگیا ہوں، یہ بہت بڑا مسئلہ ہے۔ جب تک مولوی حضرات اپنے کردار، اپنی سوچ و فکر کو اصل اسلام کے تابع نہیں لائیں گے، اپنی انا پرستی سے نجات حاصل نہیں کرینگے، پاکستان میں شیعہ قوم مسائل کا شکار رہے گی۔

اسلام ٹائمز: آپ نے مولوی حضرات کی بات تو کی لیکن پاکستان میں امامیہ اسٹوڈنٹس آرگنائزشن ہو یا تحریک نفاذ فقہ جعفریہ، اسکے بعد تحریک جعفریہ ہو یا مجلس وحدت مسلمین ان کی قیادت علماء کرام کے ساتھ ساتھ غیر علماء افراد پر بھی مشتمل ہے، جنکا قومی معاملات میں تیس تیس، چالیس چالیس سال کا تجربہ ہے، انکی فعالیت کے حوالے سے کیا کہنا چاہیں گے۔؟
ڈاکٹر سید علی واصف:
موجودہ صورتحال پر گفتگو میں بعد میں کروں گا، پہلے گفتگو کروں گا ماضی کی کہ جب ایک ملک گیر تنظیم بنی تھی، تحریک نفاذ فقہ جعفریہ مفتی جعفر صاحب اسکے سربراہ تھے، انکے بعد شہید عارف حسینی نے اسے مضبوط اور منظم کیا، انکے ساتھ جو ٹیم تھی، اس میں علماء مولوی حضرات بھی شامل تھے، ایک مولانا شہید عارف حسینی کے زمانے میں تحریک نفاذ فقہ جعفریہ کے صوبائی صدر تھے، ہمارے اچھے دوست ہیں، آپ ان سے سیاسیات پر بات کر لیں، اگر ان کو الف ب بھی آتی ہو، آگے تو چھوڑ دیں، ان کو سیاسیات الف ب بھی نہیں آتی، وہ اس زمانے میں صوبائی صدر ہوتے تھے، اس لئے کہ ہم ولایت فقیہ مانتے ہیں اور اس کے تابع ہیں تو اب ہر چیز میں مولوی آجائے گا، ولایت فقیہ ایران کا ایک سلسلہ ہے اور ہم اس کے تابع ہیں اور وہ صحیح ہے، ولایت فقیہ ایران میں ہے صحیح ہے، لیکن وہ ولایت فقیہ لبنان میں تو نہیں ہے، عراق میں تو نہیں ہے، بحرین میں بھی نہیں ہے، ہمیں اس بات کو مدنظر رکھنا چاہیئے کہ پوری دنیا کے مسلمان ممالک میں سیاسی صورتحال ایک جیسی نہیں ہے، جدا جدا ہے، ہر جگہ ایک طرز عمل اختیار نہیں کیا جاسکتا، اگر ایسا ہوتا تو حزب اللہ لبنان میں ولایت فقیہ قائم کر لیتی، کہہ دیتی کہ ہمیں عیسائی صدر نہیں چاہیئے، حزب اللہ عیسائی صدر کے تحت کام کیوں کام کرتی ہے، عیسائی انکے اتحادی ہوتے ہیں۔
 
ہم نے شہید عارف الحسینی سے مذکورہ بالا مولانا اور دوسرے مولوی حضرات کی بہت شکایات کیں، چونکہ یہ ایک ٹیم تھی تو شہید عارف حسینی ان کو بھی نالاں نہیں کرنا چاہتے تھے، نوجوانوں کو بھی نالاں نہیں کرنا چاہتے تھے، تو اس وقت دو ٹیمیں متوازاً چلتی تھیں، ایک نوجوانوں کی وہ قیادت جن میں سے آج بھی کچھ تجربہ کار لوگ موجود ہیں، جس میں سے دو (ڈاکٹر علی واصف اور جناب علی اوسط) آپ یہاں دیکھ رہے ہیں، اگر کوئی یہ کہتا ہے کہ وہ ہم سے زیادہ سینیئر ہے تو اس کو لے آیئے گا، پورے پاکستان کی بات کر رہا ہوں، سینیئر ہم سے کوئی بھی نہیں ہے، اس وقت بھی مولوی اور غیر مولوی لیڈرشپ کی سوچ الگ الگ ہوا کرتی تھیں، آج صورتحال یہ ہے کہ ہمارے پاس کوئی سیاسی پلیٹ فارم نہیں ہے، سیاسی حلقوں میں، سیاسی جماعتوں میں ہم کوئی اثر و رسوخ نہیں رکھتے تو اس صورتحال کے ذمہ دار اس طرح کے مولانا ہیں۔ ہمارے کاموں کو جو ہم پچیس سال پہلے کر رہے تھے، اسے یہ لوگ کہتے تھے یہ معاویہ کی سیاست ہے، حرام ہے، پیپلز پارٹی سے تعلقات رکھنا، ایم کیو ایم سے تعلقات رکھنا، سندھی جماعتوں سے تعلقات رکھنا، وہ ہمیں کہتے تھے یہ کام حرام ہے، یہ معاویہ کی سیاست ہے، اب آپ ان کو سمجھایئے کہ یہ معاویہ کی سیاست ہے، اب آپ آیئے علی کی سیاست لے کے۔ اب آپ مدرسوں میں نہ بیٹھیں، جب ایسی قیادتیں آپ کو ملیں، ایسے مولوی آپ کو ملیں تو آپ کو دشمنوں کی ضرورت نہیں پڑتی، یہی کافی ہیں تباہی و بربادی کیلئے، آپ کو ڈبونے کیلئے، جیسا کہ انہوں نے ڈبویا، تو آج بھی یہ صورتحال ہے۔
 
آپ فتویٰ دیکھئے گا، جب آپ میری یہ باتیں چھاپیں گے، تو ایک فتویٰ آئے گا کہ یہ علماء کے مخالف ہیں، علماء کا مخالف ہوں اور میں ولایت فقیہ تسلیم کرتا ہوں، میں علماء کا مخالف ہوں اور خمینی کو امام مانتا ہوں، امام جیسا کہ رہبر ہوتا ہے، میں علماء کا مخالف ہوں اور میں خمینی کی تقلید آج تک کرتا ہوں، خامنہ ای کو رہبر سمجھتا ہوں اور ان سے میں رجوع کرتا ہوں اور میں علماء کا مخالف ہوں، فتویٰ لگے گا کہ یہ علماء کا مخالف ہے۔ ہر عمامہ باندھنے والا عالم نہیں ہوتا، پاکستان میں اکثر مولوی وہ ہیں جو لمعہ پڑھ کر واپس آگئے، لمعہ اور شرح لمعہ جس میں چیدہ چیدہ کچھ مسائل ہوتے ہیں، اس کے بعد بھی بہت ساری کتابیں ہوتی ہیں جو یہ پڑھ کر نہیں آتے، میں اور آپ یہ سمجھتے ہیں کہ یہ بہت کچھ پڑھ کر آیا ہے، اور جو لمعہ کے بعد کفایہ یا اس کے بعد بھی کچھ پڑھ کر آئے ہیں، وہ بھی صرف کتابی علم لے کر آئے ہیں، انہیں یہ پتہ نہیں ہوتا کہ اس کتابی علم کو نافذ کیسے کیا جائے، جیسے ایک صاحب ہیں، وہ کہتے ہیں پاکستان میں نظام ولایت فقیہ قائم کرینگے، تو ان سے کہیئے کہ پھر بسم اللہ کریں، مگر کیسے قائم کر دیں گے آپ۔
 
لبنان میں حزب اللہ جیسی بہترین عسکری قوت ہے، وہاں نہیں کر پائے، حزب اللہ کا بجٹ جو ایران دیتا ہے وہ ہے چالیس کروڑ ڈالرز سالانہ، لبنان دنیا کے نقشہ میں کتنا سا ملک ہے، پھر اس میں حزب اللہ کی تعداد تنکے کے برابر ہے، ان کا چالیس کروڑ ڈالرز سالانہ بجٹ ہے، اسلحہ الگ آتا ہے، ٹریننگ کا سلسلہ الگ ہے، حزب اللہ کے لوگوں کا کاروبار پوری دنیا میں پھیلا ہوا ہے، انکے زخمیوں کا علاج تہران کے اسپتالوں میں ہوتا ہے، تو وہ حزب اللہ کہاں اور آپ کہاں، وہاں لبنان میں سید حسن نصر اللہ نے ولایت فقیہ قائم نہیں کی، تو کیا انہوں نے خیانت کی ہے، اتنی مستحکم شخصیت، اتنی مستحکم حزب اللہ، اتنا بجٹ، اتنے لوگ، اتنی قوت، وہاں قائم نہیں کرتے اور آپ پاکستان میں ولایت فقیہ قائم کرینگے، تو ایسے افراد جو کتابی علم لے کر پاکستان آئے ہیں، یہ بھی ایک بہت بڑے نقصان کا باعث ہیں، یعنی نیم ملا خطرہ ایمان، جیسے نیم حکیم خطرہ جان۔ یہ افراد اتنا پڑھ کر تو آئے ہیں لیکن خوابوں خیالوں میں رہتے ہیں۔ 

میں اکثر قرآن کی اس آیت کو دھراتا ہوں: ھل یستوی الذین یعلمون والذین لایعلمون۔۔۔۔ (ترجمہ: ۔۔کہہ دیجئے کہ کیا وہ لوگ جو جانتے ہیں ان کے برابر ہوجائیں گے جو نہیں جانتے ہیں۔۔۔) کیا میں جو پروفیسر ہوں، ماہر ہوں بین الاقوامی قانون و سیاسیات کا، پاکستان کے معاملات کا، الحمد اللہ، کیا میرے سامنے کوئی مولوی ٹہر سکتا ہے، تو اس حوالے سے کون کس سے مشورہ لے گا، وہ مجھ سے لیں گے، میں ان سے نہیں لوں گا، لیکن جب فقہی معاملات آئیں گے تو کون مشورہ لے گا کس سے، میں ان سے مشورہ لوں گا، اگر یہ فارمولا طے ہوجائے تو مسائل حل ہوجائیں گے، لیکن مولوی حضرات یہ فارمولا طے کرنے نہیں دینا چاہتے، اس لئے کہ انکی دکان بند ہوجائے گی، اس لئے آج شیعہ قوم مسائل کا شکار ہے، اسی لئے گروہ بندی، لسانیت ہے۔

اسلام ٹائمز: ان مسائل کا حل کیا پیش کرینگے۔؟
ڈاکٹر سید علی واصف:
اگر آپ ارادہ رکھتے ہیں اور نیت صاف ہے تو اتنا آسان حل ہے کہ آپ حیران ہونگے، اسپتالوں میں ڈاکٹروں کی ضرورت ہوتی ہے وکلاء کی نہیں، اسی طرح عدالتوں میں وکلاء کی ضرورت ہوتی ہے ڈاکٹروں کی نہیں، معاشی نظام چلانے کیلئے معاشی ماہرین کی ضرورت ہوتی ہے جرنیلوں نہیں، فوج میں جنرل کی ضرورت ہوتی ہے کاروبار کرنے والوں اور دکانداروں کی نہیں، لہٰذا اگر آپ فوج میں جنرل، اسپتال میں ڈاکٹر لائیں، عدالت میں وکیل کو بٹھائیں، دکان پر تاجر کو بٹھائیں، مولانا کو مسجد میں بٹھائیں یا جو انکی جگہ ہے وہاں بٹھائیں، مسئلہ حل ہوجائے گا، لیکن کیونکہ اس کا الٹ ہو رہا ہے تو لہٰذا معاملات خراب ہو رہے ہیں، آپ پوچھتے ہیں کہ شیعہ کلنگ کیوں ہو رہی ہے، تو دیکھیں فقہ کے مطابق اگر آپ پتھر کو اس کی جگہ سے ہٹا دیں تو یہ بھی ظلم ہے، آپ اس طرح کے ظلم بند کر دیں، سب کو ان کے حقیقی مقام پر بٹھائیں، آپ کا معاشرہ صحیح ہوجائے گا، شیعہ کلنگ بھی بند ہو جائے گی انشاءاللہ، میں اس کی ضمانت دیتا ہوں۔

اسلام ٹائمز: آپ شیعہ سیاسی جماعتوں کے کردار سے مطمئن نظر نہیں آتے، تو آپکی نظر میں شیعہ سیاسی جماعتوں کی روش کیا ہونی چاہیئے۔؟
ڈاکٹر سید علی واصف:
پہلی بات تو یہ کہ پاکستان میں کوئی شیعہ سیاسی جماعت نہیں ہے، شیعہ کا پاکستان میں کوئی سیاسی کردار نظر نہیں آتا، جب ہم لفظ سیاست استعمال کرتے ہیں تو اس میں بنیادی طور پر آپ کہہ رہے ہوتے ہیں، جمہوری بنیاد پر آپ کا مقصد ہوتا ہے ووٹنگ، شیعہ مسلمانوں کو پاکستان میں کوئی ووٹ بینک نہیں ہے، کیونکہ آپ کے پاکٹس نہیں ہیں، آپ پھیلے ہوئے ہیں، آپ کا ووٹ بینک تھا گلگت بلتستان، اس پر آپ نے کام نہیں کیا، گلگت میں پہلے آپ اسی فیصد تھے اب آپ 49 فیصد، 51 فیصد ہوگئے ہیں، پچیس تیس سال پہلے میں نے اور ہمارے ساتھیوں نے کہا کہ گلگت بلتستان کو دیکھو، کسی نے اہمیت نہیں دی، ہم نے پاراچنار کی بات کی، وہاں میں بہت جاتا تھا، وہاں ایک روڈ تھی ٹل صدہ ہائی وے جو پاراچنار جاتی تھی، میں نے ایک بار وہاں پوچھا کہ پاراچنار جانے کیلئے یہی ایک ہائی وے ہے، انہوں نے کہا ہاں، پھر میں نے پوچھا کہ کھانے پینے کی ساری رسد یہاں سے ہی آتی ہے، انہوں نے کہا کہ جی ہاں، پشاور سے اسی راستے سے ہی آتی ہے، میں نے کہا کہ فرض کرو کہ یہاں جھگڑا ہوجاتا ہے اور یہ ہائی راستہ کٹ جاتا ہے، تو آﺅ جاؤ گے کیسے، انہوں نے جواب دیا کہ یار کیا بات کرتے ہیں آپ، ایسا ہو نہیں سکتا، میں نے کہا کہ اگر فرض کریں کہ ایسا ہوجائے، تو انہوں نے کہا کہ حکومت ہے، ایسا نہیں ہوگا، میں نے کہا کہ فرض کریں کہ حکومت مخالفین کا ساتھ دے تو پھر کیا ہوگا۔ بہرحال سب نے دیکھا کہ کیا ہوا، ٹل صدہ ہائی وے کٹ گئی، آپ افغانستان سے گھوم کر آتے تھے، کیا کر لیا آپ نے، اس وقت آپ مجھے پاگل سمجھ رہے تھے، لہٰذا جب تک آپ ڈاکٹر کو اسپتال، وکیل کو عدالت، مولوی کو مسجد، سیاسی لوگوں کو سیاست میں، فوجی کو میدان میں نہیں لائیں گے، ان کی جگہ تبدیل کرینگے، مسائل حل نہیں ہونگے۔

اسلام ٹائمز: کہا جاتا ہے کہ پاکستان میں ایران سعودی عرب پراکسی وار لڑی جا رہی ہے، پاکستان ان دونوں ممالک کی پراکسی وار کا میدان بن چکا ہے، کیا حقیقت ہے اس حوالے سے۔؟
ڈاکٹر سید علی واصف:
مولویوں کو تو چھوڑ دیں، ہمارے ہاں جتنے بڑے بڑے سیاسی لیڈران ہیں، انہیں پتہ ہی نہیں ہے کہ پراکسی وار کسے کہتے ہیں، پراکسی وار اسے کہتے ہیں جو ویت نام میں ہوئی، جو افغانستان میں ہوئی، جو اب شام میں ہو رہی ہے، پاکستان میں پراکسی وار نہیں ہو رہی ہے، یہ ہوگئی ایک بات، اب آیئے معنی پر، پراکسی وار کے معنی یہ ہوتے ہیں کہ آپ دور رہیں مگر فوج بھیجیں، اسلحہ بھیجیں، لوگ ٹرینڈ کرائیں اور پیسہ بھیجیں، یعنی کسی ملک کی سیاست کسی دوسرے ملک میں چل رہی ہو بغیر اسکی فوج کے، وہاں کے مقامی لوگ آپ کا کام کر رہے ہوں ایجنٹ کے طور پر، اس کو کہتے ہیں پراکسی وار۔ اب آیئے پاکستان میں، مجھے بتایئے کہ پاکستان میں کس بات کی پراکسی وار چل رہی ہے، کیسے چل رہی ہے، یہاں تو سعودی کام کر رہا ہے، یہاں تو سعودی دہشتگردی ہے، پراکسی وار ہے ہی نہیں۔ پراکسی وار جب ہوتی، جب ہم دیکھتے کہ سعودی مدرسے چل رہے ہیں سعودی فنڈز سے، سعودی ٹریننگ ہو رہی ہے، لشکر طیبہ ہے، طالبان ہے، القاعدہ ہے، جماعت اسلامی ہے، سپاہ صحابہ ہے، لشکر جھنگوی ہے، یہ سب دہشتگرد ہیں، یہ سعودی فنڈڈ ہیں، سعودی تربیت یافتہ ہیں، سعودی نظریات پر مبنی ہیں، مدرسے چل رہے ہیں سعودی ایما پر۔
 
اب مجھے بتایئے وہ شیعہ جنہیں ایران نے تربیت دی ہے، کتنے دہشتگرد پکڑے ہیں آپ نے جو ایران میں ٹرینڈ ہوئے ہیں، کتنے پکڑے گئے ہیں جنہیں آئی ایس آئی نے ٹرینڈ کیا ہے، کتنے پکڑے گئے ہیں جن کے پاس ہے، مگر جتنے بھی وہابی مولوی ہیں سب کے پاس سعودی پیسہ آ رہا ہے، شیعہ کے پاس تو پیسہ نہیں آ رہا ہے، شیعہ تو کنگلا ہے، کتنا آپ نے اسلحہ پکڑا ہے جو میڈ ان ایران ہو، کتنا آپ نے پیسہ پکڑا ہے جس کی منی لانڈرنگ ہوئی ہو، ایران سے آیا ہو، لیکن پوری دنیا جانتی ہے، نیوز ویک نے چھاپا ہے، سی این این دیتا ہے، پاکستانی اخبارات اور ٹی وی چینلز، خصوصاً اے آر وائی، ڈان اور دوسرے چینلز دیتے ہیں کہ پاکستان میں دہشتگردوں کیلئے سعودی پیسہ آ رہا ہے، کیا وہ ریکارڈنگ آپ کے پاس نہیں ہے، کہاں ہیں وہ ثبوت کہ جس سے معلوم ہو کہ ایران سے بھی پیسہ آ رہا ہے۔ اگر ایران کا پیسہ آ رہا ہوتا تو وہ اگر عباس ٹاؤن میں بم دھماکہ کرتے تو ہم بنارس میں بم دھماکہ کرتے، وہ ہمارے دو ڈاکٹر مارتے تو ہم انکے چار ڈاکٹر مارتے، اگر ان کے پاس ایک لشکر ہوتا تو ہمارے پاس دو لشکر ہوتے، اگر انکے پاس ہتھیار، ساز و سامان اور مدرسے ہوتے تو ہمارے پاس بھی ہتھیار، ساز و سامان اور مدرسے ہوتے، یہ ہوتی ہے پراکسی وار، اسے پراکسی وار کہتے ہیں، جو کہ پاکستان میں نہیں ہو رہی ہے، یہ سب پاکستان میں نہیں ہو رہا ہے، تو پاکستان میں پراکسی وار کدھر ہو رہی ہے، پاکستان میں تو سعودی دہشتگردی ہو رہی ہے۔

اسلام ٹائمز: ایک بڑے حلقے کی رائے ہے کہ پاکستان میں ابھی بھی اچھے اور برے طالبان کی اصطلاح جاری ہے، کیا کہیں گے اس حوالے سے۔؟
ڈاکٹر سید علی واصف:
گڈ اور بیڈ طالبان یا اچھے اور برے طالبان، یہ پاکستان کی اصطلاح نہیں ہے، یہ امریکی اصطلاح ہے گڈ اور بیڈ طالبان کی، پاکستان میں لوگ ملکی سیاست نہیں سمجھتے، تو آپ امریکا کی سیاست کیسے سمجھیں گے، اگر سمجھنا اتنا ہی آسان ہوتا تو کیا ہی بات تھی، اگرچہ آپ کے ہاں دعویٰ بڑے لوگ کرتے ہیں کہ امریکا ختم ہوگیا، امریکا تباہ ہو رہا ہے، اسرائیل پر قبضہ ہونے جا رہا ہے حزب اللہ کا، فلاں فلاں کا، اسرائیل کا خاتمہ ہو رہا ہے، مگر آپ لوگ ہمیشہ خوش فہمی میں رہتے ہیں کہ امریکا تباہ ہوگیا، امریکا یوں ہوگیا، ایسے ہوگیا، کچھ بھی نہیں ہوا امریکا کو، امریکا دس سال افغانستان میں رہا، آپ نے کیا بگاڑ لیا امریکا کا، کچھ نہیں بگاڑ پائے، امریکا جا اس وجہ سے رہا ہے کہ اس نے کام ختم کر دیا اور اس کو اب وہاں خاص ضرورت نہیں ہے، اگر آپ جیت جاتے تو آپ امریکا کو وہاں سے پہلے ہی ہٹا دیتے، اس کے فوجی مارتے تو وہ وہاں سے ڈر کے مارے بھاگتا وہاں سے، انہوں نے تو اپنی مرضی کی حکومت قائم کی، انتخابات کرائے، کابل میں زندگی جاری ہے، تو امریکا کو آپ نہیں ہرا پائے، اسی طرح عراق میں بھی ایسے ہی ہے۔ بہرحال گڈ اور بیڈ طالبان کا لفظ امریکا سے آیا ہے، دیکھئے امریکا کے اپنے مفادات ہیں، جب مفادات ہوتے ہیں تو امریکا گدھے کو بھی باپ بنا لیتا ہے، اس لئے یہ اصطلاح انہوں نے نکالی، کیونکہ ان کو اپنے فوجی کم کروانے تھے، ان کا بجٹ کم ہو رہا تھا، تو وہ عزت کے ساتھ کسی طرح یہاں سے باہر آنا چاہ رہے تھے کہ ہماری قائم کردہ حکومت اور سیاست بھی چلتی رہے۔
 
آپ کو معلوم ہے کہ طالبان انتخابات کو نہیں مانتے، ان کے ہاں خلافت کا نظام ہے، تو امریکا چاہ رہا تھا کہ یہ تسلسل جاری رہے، جہاں ہم فوجی طور پر طالبان کو دبا رہے ہیں، وہاں سیاسی طور پر بھی کچھ لو اور کچھ دو کی بنیاد پر ان کو راضی کریں کہ تم آؤ، انتخابات لڑو، جیت جاؤ، یہ سلسلہ جاری رہنے دو، تاکہ ہم کل کہہ سکیں کہ ہم نے وہاں جمہوریت کا بیج بویا، وہاں جمہوریت چل رہی ہے، طابان وہاں انتخابات میں حصہ لے رہے ہیں، پہلے وہ نہیں مانتے تھے لیکن اب مانتے ہیں، امریکا نے طالبان کو لبھانے کیلئے کہا کہ دو قسم کے طالبان ہیں، ایک گڈ اور دوسرا بیڈ، جو گڈ طالبان ہیں وہ کہتے ہیں بھئی ٹھیک ہے ہم طالبان ہیں لیکن ہم اس بات پر سوچنے کیلئے تیار ہیں کہ انتخابات میں حصہ لیا جائے، آخر اخوان المسلمین نے بھی تو انتخابات میں حصہ لیا۔ اگرچہ وہ بھی ایک زمانے میں طالبان کی طرح نظریات تھے، اب بات نکلی ہے اخوان المسلمین کی تو تذکرہ کرتا چلوں کہ حزب اللہ کا جو المنار ٹی وی چینل ہے، اخوان المسلمین کا 1934ء میں ایک رسالہ نکلتا تھا، اس کا نام تھا المنار، حزب اللہ نے اپنے ٹی وی چینل کا نام المنار اس لئے رکھا کہ اظہار یکجہتی ہو فلسطینیوں سے اور اخوان المسلمین کو بتایا جائے کہ ہم تمہیں بھائی سمجھتے ہیں، تمہارا وہ رسالہ جو 1934ء میں نکلتا تھا، آج ہم نے اس کی تجدید کر دی، ہم نے المنار نام کا ٹی وی چینل قائم کر دیا، ہم تمہیں اپنا بھائی سمجھتے ہیں۔

اسلام ٹائمز: دہشتگردی کے خاتمے سمیت مختلف حوالوں سے افواج پاکستان کے کردار کو کس نگاہ سے دیکھتے ہیں۔؟
ڈاکٹر سید علی واصف:
بات یہ ہے کہ پاکستان کی فوج ہے مافیا، بالکل سیدھی سے بات ہے، مافیا وہ ہوتا ہے جو جگا ٹیکس لیتا ہے، جو علاقے کا بدمعاش ہوتا ہے، جو بغیر وردی کے غنڈہ گردی پر مبنی ایک فوج ہوتی ہے، جسکا نہ تو کوئی اصول ہوتا ہے، نہ ڈسپلن، بس ان کا ایک باس ہوتا ہے، وہ جس کو چاہے مروا دے، ان کے اپنے مفادات ہوتے ہیں، باقی کچھ نہیں ہوتا، نہ وہ بھائی دیکھتے ہیں نہ باپ، اگر آپ کی ان سے ہمدردی ہے، تعلقات ہیں، تو آپ ان کے ہیں، اگر آپ نے چوں چرا کی تو آپ کو مار دیں گے، اس کو مافیا کہتے ہیں۔ پاکستانی فوج بالکل مافیا ہے، یہی کام کرتی چلی آرہی ہے، پہلے تھوڑا بہت پیچھے رہ کر کرتی تھی، اب تو کھل کر سامنے آگئی ہے، یہ طالبان، القاعدہ وغیرہ سب فوج نے بنائے، اسامہ بن لادن کہاں سے ملا، ایبٹ آباد فوج کے گڑھ سے ملا، وہاں کون رکھے گا، آپ کے ہاں اتنا ہائی پروفائل آدمی بغیر فوج کے، آئی ایس آئی کی اجازت کے رہ سکتا ہے، نہیں۔ تو آپ کے ہاں فوج ہی ہے جو یہ سب کر رہی ہے، لہٰذا فوج اس کا خمیازہ بھگتے گی اور بھگت رہی ہے۔ جن سپولوں کو فوج نے دودھ پلایا تھا، آج وہ سپولے خود فوج کو ڈس رہے ہیں، اب فوج کو ان سپولوں سے جان چھڑانا مشکل ہو رہی ہے، تو یہ فوج کا کردار ہے، جب تک فوج اپنے آپ کو صحیح نہیں کرے گی، یہ معاملہ ایسا ہی چلتا رہے گا۔
خبر کا کوڈ : 431240
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

Mujahid Hussain syed
United Kingdom
Excellent knowledge super information remind our old days which we spent with great shoda Allah bless you
syed aijaz hussain shah
Pakistan
this interview based on reality I am 100 present agree with the views of dr ali wasif
MOHAMMAD tAHA
Pakistan
Excellent views and perfectly true.
ہماری پیشکش