0
Thursday 8 Jan 2015 15:54

وطن و ملت دشمن طاقتوں کو پروان چڑھانے میں ہمارے حکمرانوں اور سیاسی قیادتوں کا بہت بڑا کردار رہا ہے، علامہ ارشد مصطفوی

وطن و ملت دشمن طاقتوں کو پروان چڑھانے میں ہمارے حکمرانوں اور سیاسی قیادتوں کا بہت بڑا کردار رہا ہے، علامہ ارشد مصطفوی
علامہ ارشد مصطفوی تحریک منہاج القرآن پاکستان کے نائب ناظم دعوت کے طور پر ذمہ داریاں انجام دے رہے ہیں، علاوہ ازیں آپ صدر منہاج القرآن علماء کونسل راولپنڈی کے طور پر بھی فعالیت دکھا چکے ہیں، مسلمانوں کے مختلف مسالک کے مابین اتحاد و وحدت کے لئے کوشاں ہیں۔ اسلام ٹائمز نے میلاد مسعود پیغمبر گرامی (ص) اور ہفتہ وحدت کے حوالہ سے علامہ ارشد مصطفوی کا انٹرویو کیا جو پیش خدمت ہے۔

اسلام ٹائمز: میلاد مسعود پیغمبر گرامی (ص) کی تقریبات جہاں تمام مسلمانوں کو آپس میں مل بیٹھنے کا موقع فراہم کرتی ہیں وہاں پیغمبر گرامی (ص) کی ذات بھی تمام مسلمانوں کے لئے مرکز وحدت ہے، آپ اس حوالہ سے کیا کہیں گے۔؟

علامہ ارشد مصطفوی: میں سمجھتا ہوں کہ مسلمان کا وجود ہی وحدت سے ہے، توحید ہمارے عقیدے کی اساس ہے، کوئی مسلک کوئی عقیدہ ہو، اس کی بنیاد توحید ہے، توحید ہی سے وحدت کا پیغام نکلتا ہے، جو شخص کلمہ پڑھتا ہے، وہ کلمہ میں وحدت کا اقرار پہلے کرتا ہے، اور بعد میں اس دائرہ ایمان کے اندر آتا ہے، میں سمجھتا ہوں کہ امن ہو یا نہ ہو ، ہر دو صورتوں میں مو برابر بھی وحدت سے انحراف کرنا، تعلیمات خدا و تعلیمات مصطفی( ص) کے خلاف ہے، اس وقت اسلام کے بڑے دشمن نے جنہوں نے مسلمانوں کو تفریق میں ڈال رکھا ہے، اب بھی ان کے دل ٹھنڈے نہیں ہوئے، تفریق و تقسیم کے بعد مارو مارو والی پالیسی شروع کر دی گئی ہے، اس وقت ضرورت اس امر کی ہے کہ اہل حق، بندگان خدا، اہل ایمان ہر ذاتی تعصب، عناد، فروعی اختلاف کو مطلقاً سائیڈ پر رکھتے ہوئے، خالصتاً اسلام کے وجود اور بقا اور امت مسلمہ کی بقاء کے لئے ملکر آگے بڑھیں اور ہاتھوں میں ہاتھ ملائیں، اور اس انداز میں یگانگت کا اظہار کریں کہ دشمن کو یہ احساس تک نہ ہو کہ ہمارا مسلک کونسا ہے اور ہمارا عقیدہ کونسا ہے، مسلک اور عقیدے کوگھر کے اندر رکھیں، اس وقت دین اسلام کو ہماری اشد ضرورت ہے، دشمن کا وار نہ عقیدے پر ہوتا ہے اور نہ نظریئے پر، نہ آپ کے مسلک پر ہوتا ہے، دشمن کا وار صرف اور صرف آپ کے دین پر ہوتا ہے، اس کی نظر خالصتاً آپ کے دین پر ہوتی ہے، تو دشمن جس محاذ پر ہم سے لڑ رہا ہے ہمیں اسی محاذ پر اس کے ساتھ لڑنا ہے، ہمارے ملک میں موجود دہشت گردی بھی دین دشمن طاقتوں کو ایجنڈا ہے، یہ الگ بات کہ دشمن نے دہشت گردی کا نیا طریقہ ایجاد کر لیا ہے، اور وہ یہ ہے کہ
لباس خصر میں یہاں سینکڑوں رہزن بھی پھرتے ہیں
جینے کی تمنا  ہے تو پہلے پہچان پیدا کر

دشمن نے ہمیں مارنے کے لئے نیا روپ دھار لیا ہے، یہ روپ زیادہ خطرناک ہے، اس روپ میں کوئی آپ کے اندر بھی ہو سکتا ہے، آپ کے خاندان میں بھی ہو سکتا ہے، آپ کی گلی میں بھی ہو سکتا ہے، ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم قطعی فیصلہ کر لیں کہ کون ہمارا ہے اور کون ہمارا نہیں ہے۔

اسلام ٹائمز: لشکر جھنگوی کے سرغنہ کو پھانسی کی سزا سنائی گئی، اس پر عمل درآمد میں اتنی تاخیر کیوں کی گئی۔؟

علامہ ارشد مصطفوی: ہمارے ملک میں موجود وطن دشمن اور ملت دشمن طاقتوں کو پروموٹ کرنے میں ہمارے حکمران اور سیاسی قیادتوں کا بہت بڑا کردار رہا ہے، کسی ریاست کو کھوکھلا کرنے کے اس وقت تک منصوبہ بندی آسان نہیں ہوتی جب تک ریاست کو چلانے والے منتظم اس میں شامل نہیں ہوتے، اسلام کی تاریخ پڑھ لیں، سلطان حیدر علی کو دیکھ لیں، آپ کو دشمن گھر کے اندر ملیں گے، دشمن ہماری صفوں میں گھسا اور اس نے ہمارے اتحاد کو پارہ پارہ کیا، ہمارے ملک میں بدقسمتی سے چھ عشروں سے حکمران ایسے ہی آئے ہیں جن کے تانے بانے دشمن کے ساتھ ملتے ہیں، چونکہ ہمارے ہاں جمہوری عوامی انتقامی جموریت ہے، عوامی انتقامی جمہوریت کی کامیابی صرف دہشت گردی کے راستے سے ہوتی ہے، افسوس یہ ہے کہ آج ہمارا واسطہ عوامی انتقامی جمہوریت سے پڑا ہوا ہے، اس جمہوریت کو مضبوط کرنا دہشت گردی کو مضبوط کرنا ہے، ہمیں دہشت گردی کا راستہ روکنے کے لئے اس عوامی انتقامی جمہوریت کا تحتہ الٹنا ہوگا، انتقامی کے لفظ کو ابھی یوں سمجھیں کہ ملک میں تعلیمی ادارے بند پڑے ہیں، اور حکومت نے فیصلہ کیا ہے کہ تعلیمی ادارے چھ فٹ کی بجائے آٹھ فٹ اونچی کر لیں، حکومتی نقطہ نظر یہ ہے کہ آٹھ فٹ اونچی دیواروں سے دہشت گردی ختم ہو جائے گی، یہ بتائیں کہ جو دشمن چھ فٹ کی دیوار پھلانگ سکتا ہے کیا وہ آٹھ فٹ کی دیوار نہیں پھلانگ سکتا، دہشت گردی ختم کرنے کی طرف نہیں جارہے دیوار اونچی کرنے کی طرف جارہے ہیں، مزا تو تب ہے کہ حکومت کہے کہ آپ اپنے گھر کی دیواریں گرا دیں، ہم ایسے اقدامات کررہے ہیں کہ دشمن آپ کے گھر کے اندر نہیں آسکے گا۔

اسلام ٹائمز: دہشت گردی کے خاتمہ کے لئے فوجی عدالتوں کا قیام عمل میں لایا جا رہا ہے، کیا یہ اقدام کارگر ثابت ہوگا۔؟

علامہ پروفیسر ارشد مصطفوی: عدالتیں فوجی ہوں یا عوامی سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ قانون کی عملداری کہاں تک قائم کی جا رہی ہے۔ جب تک لاء اینڈ آرڈر کی صورتحال بہتر نہیں کی جاتی، آپ عدالتوں کے لئے آسمان سے فرشتوں کو بلا لیں، بات اس وقت تک کارگر ثابت نہیں ہو گی جب تک قانون کی عمل داری کو یقینی نہیں بنایا جائے گا۔ یہ کیسی عدالتیں ہیں جن کے سربراہ کہہ رہے ہیں کہ انصاف تو رنجیت سنگھ صحیح کیا کرتا تھا، یعنی ان کی نظر میں محمد مصطفی (ص) کے انصاف کی کوئی اہمیت نہیں ہے، ان کو چودہ سو سال کی تاریخ میں کوئی مسلمان نام نظر نہیں آیا، ان کو نظر آیا تو صرف رنجیت سنگھ نظر آیا، تو رنجیت سنگھ کی اولاد سے پیار کرنے والے اس ملک میں کیا قانون نافذ کریں گے، تو عدالتیں کوئی بھی ہوں فوجی ہوں یا عوامی، ایک شخص اگر چوری کرتا ہے تو اس کو سزا دی جائے اسے جیل میں بند کئے رکھنا، اس کے لئے رحم کی اپیل کر دینا یہ کیا چیز ہے، دہشت گرد تو پارلیمنٹ ہاوس سے دو کلومیٹر کی حدود میں بیٹھ کر کہتے ہیں کہ پشاور واقعہ درست ہوا، اور ہم اس کی مذمت نہیں کرتے، تو ان کے خلاف آپ نے کیا کیا، تو اس سے پتہ چلتا ہے کہ حکومت اور دہشت گرد آپس میں لازم اور ملزوم ہو چکے ہیں۔

اسلام ٹائمز: اسلام کے بطل جلیل، فقیہ، مرجع اور بانی انقلاب اسلامی ایران امام خمینی (رہ) نے 12 سے 17 ربیع الاول کو ہفتہ وحدت کے طور پر منانے کا اعلان کیا، آپ اس اقدام کو کیسے دیکھتے ہیں۔؟

علامہ ارشد مصطفوی: میں خراج عقیدت اور خراج محبت پیش کرتا ہوں، عالم اسلام کی عظیم شخصیت امام خمینی (رہ) کو، میں سمجھتا ہوں کہ اگر ایسی شخصیات اللہ تعالیٰ اگر آج بھی ہمیں عطا کرے، اور ان کی تعلیمات کی روشنی اگر آج یہ امت اپنا لے تو میں سمجھتا ہوں کہ ہمارا ہر مسئلہ حل ہو سکتا ہے۔
خبر کا کوڈ : 431326
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

مربوطہ لنکس
ہماری پیشکش