0
Sunday 25 Jan 2015 19:00
ملک دشمن این جی اوز اور مدارس کی بیرونی فنڈنگ روک کر ان کیخلاف سخت ترین کارروائی کیجائے

دہشتگردی کے خاتمے کیلئے مذہبی و سیاسی طالبان کیخلاف فی الفور بلاتفریق کارروائی کی جائے، صارم برنی

فوجی عدالتوں کی مخالفت ہر اس شخص یا جماعت کیجانب سے ہوگی، جو خود دہشتگردیوں میں ملوث ہوگا
دہشتگردی کے خاتمے کیلئے مذہبی و سیاسی طالبان کیخلاف فی الفور بلاتفریق کارروائی کی جائے، صارم برنی
معروف پاکستانی سماجی رہنما سید صارم برنی کا نام کسی تعارف کا محتاج نہیں ہے، آپ مشہور و معروف انٹرنیشنل ہیومن رائٹس آرگنائزیشن صارم برنی ویلفیئر ٹرسٹ انٹرنیشنل کے سربراہ ہیں، سید صارم برنی پاکستان میں انسانی و سماجی حقوق کے حوالے سے فعال کردار ادا کر رہے ہیں۔ ”اسلام ٹائمز“ نے سید صارم برنی کیساتھ سانحہ پشاور، پاکستان میں جاری دہشتگردی و انتہاپسندی اور انکے خاتمہ کیلئے کارروائی، ملک دشمن این جی اوز اور نام نہاد مدارس، مذہبی و سیاسی طالبان میں تفریق، سزائے موت کی حمایت و مخالفت سمیت دیگر موضوعات کے حوالے سے صارم برنی ویلفیئر ٹرسٹ انٹرنیشنل کے مرکزی آفس میں ایک خصوصی نشست کی، اس موقع پر آپ کیساتھ کیا گیا خصوصی انٹرویو قارئین کیلئے پیش ہے۔ ادارہ

اسلام ٹائمز: سانحہ پشاور کے بعد سیاسی و عسکری حوالے سے ہونے والی پیشرفت کو کس نگاہ سے دیکھتے ہیں؟
صارم برنی:
ہمیں اپنے ریاستی اداروں پر یقین رکھنا چاہیئے، مثلاً ہمیں پاک فوج پر پورا یقین ہے، اگر ہم پاک فوج پر سے یقین ہٹا لیں تو ہمیں پھر ملک و قوم کی بات نہیں کرنی چاہیئے، تو پھر ہمیں پاکستانیت کی اور حب الوطنی کی بات چھوڑ دینی چاہیئے، جیسا کہ آرمی چیف جنرل راحیل شریف صاحب نے یہ بات کی ہے کہ سانحہ پشاور ہمارے دلوں پر وار ہے، ہماری اپنی جان پر وار ہے، تو اب جب پاک فوج دہشتگردوں کیخلاف کارروائی کریگی تو یہ دل سے کارروائی ہوگی، جذبہ حب الوطنی سے بھرپور کارروائی ہوگی اور ملک سے دہشتگردی کا خاتمہ ہوگا۔ اگر ہم نے اب بھی دہشتگردوں کیخلاف کارروائی نہیں کی تو کب کرینگے، اور دنیا میں ہم اور کتنا ذلیل ور رسوا ہونگے، میں سمجھتا ہوں کہ ٹھوس بنیادوں پر دہشتگردوں کیخلاف فوری اقدامات کرنے ہونگے، جس میں اب مزید دیر کرنے کی گنجائش نہیں ہے۔ دنیا میں کہیں بھی دہشتگردی کا واقعہ ہوتا ہے، کہیں نہ کہیں پاکستانی کا نام آتا ہے، لہذٰا اب باتوں کا، لفّاظی کا وقت بالکل نہیں ہے، اب ملک سے دہشتگردی کا خاتمہ ہونا چاہیئے، چاہے اس کیلئے حکومتی سطح پر کارروائی کی جائے یا فوجی سطح پر۔ میں جمہوریت کو مانتا تو ہوں، لیکن مجھے پاکستان کے اندر جمہوریت سمجھ میں نہیں آتی، کیونکہ جس ملک میں اسقدر دہشتگردی ہو، وہاں آپ دہشتگردوں کیلئے معافی کی بات کریں، تو یہ دہشتگرد ملک کو اور تباہی کی طرف لے جائیں گے، اگر معافی ہی اچھی چیز ہے تو ایمل کانسی کو دوسرے ملک کے حوالے کیوں کیا گیا، اسامہ بن لادن کو کیوں مارا گیا، ان کو بھی معافیاں دیتے، اچھا انسان بناتے، کیوں عافیہ صدیقی کو حوالے کیا، میں قطعی طور پر ان لوگوں کی حمایت میں نہیں ہوں، میں صرف یہ کہنا چاہتا ہوں کہ ہر مجرم، قاتل، دہشتگرد، گناہ گار کو سزا ملی چاہیئے، جب تک مجرموں کو سزا نہیں ہوگی، دہشتگردی فروغ پاتی رہے گی۔

اسلام ٹائمز: دہشتگردوں کیخلاف فوجی عدالتوں کے قیام کے حوالے سے آئینی ترامیم کی گئیں، جس کی بعض سیاسی و مذہبی جماعتوں کی جانب سے مخالفت بھی کی گئی، کیا کہیں گے فوجی عدالتوں کی مخالفت کے حوالے سے؟
صارم برنی:
فوجی عدالتوں کی مخالفت ہر اس شخص یا جماعت کی جانب سے ہوگی، جو خود کسی نہ کس طرح سے دہشتگردوں میں ملوث ہوگا، ایک نہیں ایک ہزار فوجی عدالتوں کا قیام عمل میں لایا جائے، ہمیں کیوں اعتراض ہوگا، بلکہ ہم تو شکر گزار ہیں کہ فوجی عدالتوں کا قیام ہوا ہے، دہشتگردوں کو جلد کیفر کردار پر پہنچایا جائے گا، تمام عدالتوں کو، تمام ججز کو، اسٹاف کو پاک فوج کی جانب سے سکیورٹی فراہم کرنا ظاہر سی بات ہے کہ مشکل کام ہے، تو اس سے آسان کام فوجی عدالتیں لگا کر دہشتگردوں کو سزائیں دینا ہے تو اس میں کیا مسئلہ ہے، اس میں کونسی اختلاف کی بات ہے، اگر کوئی شخص خود دہشتگردی میں ملوث نہیں ہے، یا کوئی جماعت یا اسکا کوئی کارکن دہشتگردی میں ملوث نہیں ہے، تو اس شخص یا جماعت کو کیوں اعتراض ہے فوجی عدالتوں کے قیام پر۔ درحقیقت فوجی عدالتوں سے سخت ترین سزائیں ان ہی دہشت گردوں کو ملیں گی، جو دہشتگردانہ سرگرمیوں میں ملوث ہوگا، اب اگر اسے سزائیں سول عدالتوں سے ملیں یا فوجی عدالتوں سے، اس میں کسی کو بھی کوئی اعتراض نہیں ہونا چاہیئے۔

اسلام ٹائمز: اسلام کے نام پر دہشتگردی کرنے والوں کی ابھی بھی حمایت جاری ہے، کیوں؟
صارم برنی:
ہمارے ملک میں دوغلے لوگ بھرے پڑے ہیں، چاہے وہ سیاسی ہوں یا سماجی، چاہے وہ انسانی حقوق کے چمپیئن ہوں، چند دنوں پہلے پھانسی کی سزا کی مخالفت میں ان لوگوں کے بیانات سے اخبارات بھرے پڑے تھے، آج جب ان عناصر نے رخ پلٹتے دیکھا حکومت کا، افواج کا، تو ان دوغلے لوگوں نے بھی بیانات بدل لئے، اب پھر یہ لوگ پھانسی کے حوالے سے دوغلے بیانات دینے لگے ہیں، فوجی عدالتوں کے حوالے سے دوغلے بیانات دے رہے ہیں، ایسے لوگ جب تک انسانی حقوق، سماجی خدمت کے اداروں میں رہ کر یا حکومت میں اور سیاسی جماعتوں میں رہ کر اپنا گندا کردار ادا کرتے رہیں گے، اس ملک و قوم کا حال یہی رہے گا۔ اب قوم کو سوچنے کی ضرورت ہے کہ انکا دوست و دشمن کون ہے۔ کیا پاکستانی ہوتے ہوئے، مسلمان ہوتے ہوئے یا داڑھی ہوتے ہوئے کوئی دہشتگردی نہیں کرتا، قتل نہیں کرتا، سب کچھ کرتا ہے، تو ہمیں یہ دیکھنا ہے کہ اچھا انسان کون ہے، جو اچھا انسان ہوگا، وہی اچھا مسلمان ہوگا، وہی اچھا پاکستانی ہوگا، اگر وہ غیر مسلم بھی ہوگا تو اس کی ذات سے کسی کو کوئی نقصان نہیں ہوگا، یہ جو مسلمان ہیں جو دہشتگردانہ کارروائیاں کر رہے ہیں، بم دھماکے کر رہے ہیں، بچوں، عورتوں کو مار رہے ہیں، اگر یہ مسلمان ہیں تو پھر ایسا مسلمان تو کوئی بھی نہیں ہونا چاہے گا، یہ صرف دہشتگرد ہیں، جو اسلام و مسلمان کے نام پر دہشتگردی کر رہے ہیں، مسلمان تو صرف وہی ہوتا ہے جس کی ذات سے کسی کو کوئی بھی نقصان نہ پہنچے۔

اسلام ٹائمز: دہشتگردی اور انتہاپسندی کے خاتمے کیلئے علماء کرام سے کس کردار کی ادائیگی کی توقع ہے؟
صارم برنی:
بالکل، علماء کرام دہشتگردی اور انتہا پسندی کے خاتمے کیلئے سب زیادہ مؤثر کردار ادا کر سکتے ہیں، لیکن ہمیں علماء کرام کا مؤثر کردار نظر نہیں آتا، میرا علماء کرام سے اسی لئے اختلاف ہوتا ہے کہ یہ آپ کا کام ہے، آپ سب سے زیادہ مؤثر کردار ادا کر سکتے ہیں جو کہ نہیں کرتے، آپ غلط کو غلط کہیں، دہشتگرد کو دہشتگرد کہیں، دہشتگردی کو اسلام کا نام دیکر ملک و قوم کو تباہی و برباد نہیں کریں، مثال کے طور پر توہین رسالتؐ پر کسی کو اختیار ہے کہ وہ خود کسی کو قتل کر دے، اس کیلئے بھی تو قانونی راستہ اختیار کرنے کی ضرورت ہے، نہ کہ قانون کو ہاتھ میں لینے کی۔ ہمارے ملّا حضرات، مولوی حضرات، مفتی حضرات کو خود آگے بڑھ کر اس قسم کی چیزوں کو روکنے کی ضرورت ہے۔ پاکستان میں صورتحال افسوسناک ہے، ہر جگہ ایک نیا تماشہ لگا ہوا ہے، ہر آدمی اپنے رنگ کی مسجدیں ڈھونڈ رہا ہوتا ہے کہ یہاں میری نماز ہو جائے گی اور یہاں نہیں ہوگی، یہی صورتحال ہمیں آج تباہی کے دہانے پر پہنچا چکی ہے۔

اسلام ٹائمز: مدارس کیخلاف کارروائی کی تو بات کی جاتی ہے مگر ملک دشمن این جی اوز کیخلاف کارروائی کی بات نہیں کی جاتی، آپ خود بھی ایک بڑی این جی او چلا رہے ہیں، این جی اوز کے منفی کردار کے حوالے سے کیا کہنا چاہیں گے؟
صارم برنی:
سب سے پہلے میں صارم برنی ہی تھا آواز اٹھانے والا کہ جس نے کہا کہ یہ ڈالرز این جی اوز پاکستان کو تباہ کر دیں گی، پاکستان میں ایسی ایسی این جی اوز فعال ہیں کہ جن کے تعلقات غیر ملکی خفیہ اداروں کے ساتھ ہوتے ہیں، ان کے بیرون ملک سے فنڈز آسانی کے ساتھ پاکستان ٹرانسفر ہو جاتے ہیں، ملک دشمن ایجنڈے پر کاربند این جی اوز کے کروڑوں اربوں روپے پاکستان میں آسانی سے آجاتے ہیں لیکن مخیر حضرات کی جانب سے ہمارے لئے ایک لاکھ روپے بھی باہر سے آنے میں دس رکاوٹیں کھڑی کی جاتی ہیں، اس سے باآسانی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ملک دشمن این جی اوز کیلئے آنے والا پیسہ کون لا رہا ہے، کیوں لا رہا ہے اور کیا مقاصد ہیں۔ لہٰذا ہم تمام ملک دشمن این جی اوز کے خلاف بھی آواز بلند کرتے ہیں، لیکن این جی اوز کے خلاف تو ہر جگہ بات ہوتی ہے لیکن ان نام نہاد دینی مدارس، مولویوں، مفتیوں کیخلاف بات کیوں نہیں ہوتی، جو پاکستان میں مختلف فرقوں کے نام پر پاکستان کے اندر اور دوسرے ممالک سے فنڈز لیتے ہیں اور مخالف فرقوں کیخلاف قتل کے فتوے دیتے ہیں، قتل کرواتے ہیں، قتل کرتے ہیں، برا کام برا ہوتا ہے، دہشتگردی دہشتگردی ہوتی ہے، چاہے وہ این جی اوز کریں یا کوئی مولوی، مفتی یا مدارس کریں۔ بدقسمتی سے این جی اوز، مداریس، مساجد، مذہب جس پر لوگ اعتبار کرتے ہیں، آج ان کو ہی دہشتگردی پھیلانے کیلئے استعمال کیا جا رہا ہے، اس لئے ہم تو شروع سے کہتے آ رہے ہیں کہ اسلام و پاکستان دشمن این جی اوز اور مدارس کیخلاف سخت ترین کارروائی کی جائے۔ چیک اینڈ بیلنس ہونا چاہیئے کہ جو ممالک پاکستان میں این جی اوز اور مدارس کو فنڈنگ کر رہے ہیں، ان کے مقاصد کیا ہیں، کن مقاصد کیلئے فنڈنگ کی جا رہی ہے، کیوں ہم سے اتنی ہمدردی جتائی جا رہی ہے۔ ہمارا سوال تو یہ ہے کہ جو ممالک فنڈنگ کر رہے ہیں، کیا خود ان ممالک کے اندر غربت ختم ہو گئی ہے، کیا ان ممالک میں عوام کے مسائل حل ہو چکے ہیں، اگر نہیں تو کیا وجہ ہے کہ یہ ممالک اپنے ہاں کے مسائل حل کرنے کے بجائے ہم پر مہربان ہوتے ہیں، وجہ صاف ظاہر ہے، پاکستان میں فرقوں کے نام پر، مذہب کے نام پر، لسانی بنیادوں پر قتل و غارتگری سے آپ باآسانی اندازہ لگا سکتے ہیں۔ کون شیعہ سنی کو مارتا ہے، میں نے تو کسی شیعہ کو نہیں دیکھا، کون سنی شیعہ کو مارتا ہے، میں نے تو کسی سنی کو نہیں دیکھا، پاکستان میں فرقہ واریت نہیں ہے، ہاں مگر اختلافات ہیں، جو کہ ایسے نہیں ہیں کہ بات قتل و غارتگری تک پہنچے، اختلافات دنیا میں ہر جگہ ہوتے ہیں، ہر مذہب میں آپس میں اختلافات پایا جاتا ہے، لیکن ہم پاکستان میں یہ دیکھتے ہیں کہ جس اسلحہ اور گاڑی سے کسی مسجد کو نشانہ بنایا جاتا ہے، پتہ چلتا ہے کہ وہی اسلحہ اور گاڑی کسی امام بارگاہ پر بھی حملہ میں استعمال ہوتا ہے، اس کا مطلب ہے کہ ایک ہی گروہ ہے جو ملک میں فتنہ و فساد پھیلانا چاہتا ہے، اور ا نکے پیچھے وہی ہاتھ ہیں جو بیرونی فنڈنگ کر رہے ہیں۔

اسلام ٹائمز: پاکستان میں دہشتگردوں گروہوں کو امریکا، اسرائیل، بھارت کی جانب سے فنڈنگ کی بات ہوتی ہے، کیا حقیقت ہے؟
صارم برنی:
یہ بالکل حقیقت پر مبنی ہے، میں کسی ملک خاص ملک کا نام نہیں لینا چاہتا، لیکن ملک میں دہشتگرد گروہوں کو بیرون ملک سے فنڈنگ ہو رہی ہے، لیکن میں ان ممالک کو قصوروار نہیں ٹہراتا، کیوں کہ جب کسی گھر میں ڈکیتی ہو، اور گھر کا بچہ ہی ڈکیتوں کے ساتھ ملا ہو، انہیں اطلاعات و رہنمائی فراہم کر رہا ہو، ہم اس بچے کو بچاتے ہیں، چھپاتے ہیں، پہلے تو ہمیں اس بچے کو پکڑ کر جوتے مارنے چاہیئے اور پوچھنا چاہیئے، باہر تو بعد میں شکایت کرینگے، بات یہ ہے کہ جب ہم اپنے گھر کو محفوظ کر لینگے، تو باہر والا ہمارے گھر میں داخل نہیں ہو سکتا، ڈکیتی نہیں کر سکتا، کسی قسم کا نقصان نہیں پہنچا سکتا، مگر بدقسمتی سے ہم نے اپنے گھر کے اندر ایسے لوگوں کو پالا ہوا ہے، اب میں آپ کو کیا کیا بتاوں کہ وہ این جی اوز ہوں، ملا، مولوی، مفتی ہوں، وہ بظاہر کیا نعرے لگا رہے ہوتے ہیں اور اندر سے وہ لوگ کیا کام کر رہے ہوتے ہیں، لہٰذا باہر کے لوگوں کی شکایت کرنے سے پہلے ہمیں اپنے اندر موجود غدارانِ ملک و ملت کو پکڑ کر پھانسیاں دینی چاہیے، جب اِن اندر کے لوگوں کو کیفرِ کردار تک پہنچا دیا جائے گا تو باہر والوں کو نہ تو اندر آنے کا موقع ملے گا اور نہ ہی نقصان پہنچانے کا۔

اسلام ٹائمز: مذہبی عناصر اور مذہبی طالبان کیخلاف تو ہر جگہ بات ہو رہی ہوتی ہے لیکن سیاسی طالبان کے خلاف کوئی آواز بلند ہوتی نظر نہیں آتی، سپریم کورٹ بھی کہہ چکی ہے کہ تقریباً تمام سیاسی جماعتیں عسکری ونگز رکھتی ہیں، جب سیاسی جماعتیں ہی عسکری ونگز رکھ کر اپنے مخالفین کو نشانہ بنائیں گی تو پاکستان میں امن و امان کے قیام کا خواب کیسے شرمندہ تعبیر ہوگا؟
صارم برنی:
یہ انتہائی تلخ حقیقت ہے کہ سیاسی طالبان مذہبی طالبان کیخلاف تو بولتے ہیں لیکن اپنے گریبانوں میں نہیں جھانکتے، پاکستان میں یہی تو المیہ ہے کہ مذہبی طالبان بم دھماکے کرکے قتل کر رہا ہے جبکہ سیاسی طالبان گولیوں سے عوام کو چھلنی کر رہا ہے، عوام کو تو دونوں جانب سے مارا جا رہا ہے، مذہبی طالبان ہوں یا سیاسی طالبان، دونوں ہی عوام کے گھروں کو اجاڑ رہے ہیں، مذہبی طالبان ہوں یا سیاسی طالبان، ہمیں دونوں میں کسی قسم کی تفریق نہیں کرنی چاہیئے، دونوں قسم کے طالبان کے خلاف فی الفور کارروائی کرنی چاہیئے۔ دنیا میں ایسی مثالیں نہیں ملتیں، جیسا کہ ہمارے یہاں ہو رہا ہے، ہمیں شرم آتی ہے، بیرون ممالک میں لوگ جب ہم سے سوالات کرتے ہیں تو ہمارے پسینے چھوٹ جاتے ہیں کہ ہم کیا جواب دیں، تو ہمیں اب اپنے آپ کو بدلنے کی ضرورت ہے، ہمیں اب منافقت ختم کرنے کی ضرورت ہے، ہمیں اب دہشتگردوں میں تفریق ختم کرنے کی ضرورت ہے، عوامی اور سرکاری دونوں سطح پر۔ عام ہو یا سیاستدان و حکمران طبقہ سب دوسرے کو صحیح کرنے کی فکر میں لگے ہوئے ہیں، لیکن اپنے اندر موجود برائیوں پر توجہ نہیں ہے، اپنی برائیوں کا خاتمہ نہیں کر رہے ہیں، اپنے آپ صحیح کرنے کو تیار نہیں ہیں، اسی لئے ہم تباہی کی طرف جا رہے ہیں۔

اسلام ٹائمز: دہشتگردوں کے خلاف تو کارروائی کا نعرہ بلند ہوتا دکھائی دیتا ہے مگر دہشتگردوں کے مذہبی و سیاسی سرپرستوں کیخلاف کوئی ایکشن نظر نہیں آتا، کیا وجہ ہے؟
صارم برنی:
آج ہی صبح کا ایک واقعہ بتاؤں کہ جب میں ایک جگہ سے گزر رہا تھا، غصہ تو بہت آیا تھا کہ رک جاؤں، بس نکل جاتے ہیں، اتنی چیزوں میں الجھے ہوئے ہوتے ہیں، وہاں ایک چودہ پندرہ سال کا بچہ ٹھیلے پر پرانے موزے، دستانے وغیرہ لے کر جا رہا تھا، ایک پولیس والے نے بغیر پیسے دیئے سامان اٹھانے کی کوشش کی تو بچہ اس سے لڑنے لگا، تو اس پولیس والے نے ہاتھ پیر مار کر اس کے ٹھیلے سے چیزیں نیچے گرا دیں، اب جس ملک کی پولیس کا اور انتظامیہ کا یہ عالم ہوگا، اس ملک کی پولیس اور انتظامیہ میں کیا اتنی طاقت ہوگی کہ وہ کسی بڑے آدمی کیخلاف کارروائی کریگی، گالیاں عدالتوں کر پڑتی ہیں، جبکہ مجرم تفتیشی افسر ہوتا ہے، وہ پولیس کا ہو، آرمی کا ہو، وہ ایف آئی اے کا ہو، اصل ذمہ داری تفتیشی افسروں کی ہوتی ہے ہے سارے کیس کے اندر، جب تفتیشی افسر ہی صحیح تفتیش نہیں کریگا، صحیح طور پر تحقیقات نہیں کریگا، اپنے آپ کو بیچ دیگا، سودا کر لے گا، تو عدالت کیا کریگی، آپ درزی کو کپڑا لا کر دیتے ہیں، اسے تفصیلات بتاتے ہیں تو وہ لباس سیتا ہے، آپ باورچی کو سامان وغیرہ لا کر دیتے ہیں تو وہ کھانا پکاتا ہے، بات صرف اتنی سی ہے کہ ہمارے یہاں جہاں سے نظام خراب ہے، وہاں سے نظام صحیح کرنے کی ضرورت ہے، جب وہاں سے نظام صحیح ہوگا تو جرائم اور دہشتگردی پر قابو پایا سکے گا، دہشتگرد اور جرام پیشہ عناصر جب قانون کی گرفت میں آئیں گے تو خودبخود انکی مذہبی و سیاسی سرپرستی ختم ہو جائے گی۔ کل تک جو این جی اوز کہہ رہی تھی ہیں پھانسی کی سز نہیں ہونی چاہیئے، آج وہ کہہ رہی ہیں کہ پھانسی کی سزا ہونی چاہیئے، ان دہشتگردوں کو پھانسی ہونی چاہیئے، ایسی تبدیلی کیوں آئی، وجہ یہ ہے کہ جب تھوڑا سا نظام صحیح ہوا، تھوڑے سے حالات بدلے، تھوڑی سی سختی ہوئی، تو یہ بھی صحیح ہو گئے۔

اسلام ٹائمز: آخری سوال یہ کرنا چاہوں گا کہ یورپی یونین نے بھی انسانی حقوق کے نام پر پاکستان میں دہشتگردوں کو بچانے کیلئے انہیں سزائے موت دینے کی مخالفت کی، آپ بحیثیت رہنما انسانی حقوق کیا کہنا چاہیں گے کہ یورپی یونین کی اس روش کے حوالے سے؟
صارم برنی:
صرف اتنا کہنا چاہوں گا کہ صرف مغربی ممالک ہی نہیں، جس ملک کو بھی پاکستان میں موجود سزائے موت پانے والے یا دیگر دہشتگردوں سے ہمدردی ہے، ہمیں بھی بہت ہمدردی ہے کہ انسانی جان ضائع نہیں ہونی چاہیئے، لیکن پاکستان میں دہشتگردوں کو معاف نہیں کیا جا سکتا، جن مغربی ممالک کو پاکستان میں موجود دہشتگردوں سے ہمدردی ہے، انہیں آپ اپنے ممالک کی شہریت دے دیں، ان دہشتگردوں کو اپنے ملک لے جا کر اچھا انسان بنا دیں، ہمیں بھی انتہائی خوشی ہوگی کہ کسی کی جان بھی بچ گئی اور وہ دہشتگرد اچھا انسان بھی بن گیا، یہ ہمارے لئے خوشی کا باعث ہوگا۔
خبر کا کوڈ : 434972
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش