0
Saturday 7 Feb 2015 23:18

ہم نے تو ابھی صرف 2 حملے کئے ہیں، سلطان محمود غزنوی کو 17 حملوں کے بعد فتح ملی تھی، سلطان محمود قادری

ہم نے تو ابھی صرف 2 حملے کئے ہیں، سلطان محمود غزنوی کو 17 حملوں کے بعد فتح ملی تھی، سلطان محمود قادری
پاکستان عوامی تحریک سرگودہا کے رہنما سلطان محمود قادری، منہاج القرآن ایجوکیشن کے مسئول ہیں۔ فعال کارکن ہونے کی وجہ سے قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرچکے ہیں، پاکستان میں تبدیلی کیلئے ہونے والی جدوجہد کیلئے پرعزم اور پرامید ہیں، اسلام ٹائمز کیساتھ انکی گفتگو قارئین کی خدمت میں پیش ہے۔ ادارہ

اسلام ٹائمز: انقلاب مارچ کے بعد جو تسلسل اور ولولہ نظر آنا چاہیے تھا، وہ نظر نہیں آیا، کیا عوامی تحریک اور منہاج القرآن کے کارکن مایوس ہوچکے ہیں۔؟
سلطان محمود قادری:
مایوسی وہاں ہوتی ہے، جہاں ذاتی مفادات ہوں اور نظریہ و شعور نہ ہو، یا مخلص قیادت کی بجائے آپ صرف شخصیت پرستی کی بنیاد پہ کسی کے پیچھے چل رہے ہوں۔ لوگوں نے دو ہزار تیرہ میں یہی سمجھا تھا کہ انہوں نے ایک دھرنا دیا ہے، اور اسکے بعد غائب ہوگئے ہیں، بس یہی کچھ تھا، لیکن سانحہ ماڈل ٹاون کے بعد انقلاب مارچ پہلے کی نسبت کہیں زیادہ منظم اور موثر تھا۔ ہم حالات کو دیکھ رہے ہیں۔ ہمارے جذبے اور جنوں میں کوئی فرق نہیں آیا۔ تنظیم سازی پہ کام کر رہے ہیں، جن علاقوں میں تنظیم نہیں ہے وہاں منظم ہو رہے ہیں، جہاں تنظیم فعال نہیں ہے وہاں مزید بہتری لا رہے ہیں، جو کارکن فعال نہیں ہیں ان پر توجہ دے رہے ہیں۔ جب ہماری تنظیم مقامی سطح پر مضبوط ہوگی، ضلع، صوبہ اور مرکز کی سطح پر اتنی کامیابی سے آگے بڑھیں گے۔ پہلے سے بھی ہمارا تنظیمی نیٹ ورک یونین کونسل کی سطح تک موجود ہے۔ کوئی نہ کوئی سرگرمی جاری ہے، انہی دنوں میں ہمارے قائد محترم کا یوم پیدائش آرہا ہے، اس موقع پر کسی ہوٹل میں تقریب ہوگی، کیک کاٹا جائے گا اور سرگرمی جاری رہے گی۔

اسلام ٹائمز: پھر کیا وجہ ہے کہ جوش و خروش اور سرگرمی نظر نہیں آرہی، نہ ہی عوامی رابطہ کی کوئی مہم اور ماحول ہے۔؟
سلطان محمود قادری:
اصل طاقت تحریک کی قیادت اور نظریاتی کارکن ہیں، ان کے جوش و جذبے میں کوئی فرق نہیں آیا۔ جہاں تک عوام کی بات ہے، دھرنے اور میڈیا کے ذریعے ہماری قیادت کا پیغام ایک ایک فرد تک پہنچا ہے، لیکن ہمیں افسوس ہے کہ جن لوگوں کی خاطر ہم اٹھے ہیں، قربانی دے رہے ہیں، اس طرح پاکستانی عوام آگے نہیں بڑھے، البتہ ہم رکے نہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ اس ظالمانہ اور جابرانہ نظام کی تبدیلی اکیلے منہاج القرآن کا کام نہیں اور نہ ہی یہ ممکن ہے کہ کوئی بھی جماعت یا گروہ تنہا یہ کام انجام دے سکے، حتیٰ کہ صرف ہمارے اتحادی اور ہم بھی مل کر اس نظام کو تبدیل نہیں کرسکتے، جب تک کہ پاکستانی عوام نہ اٹھ کھڑے ہوں۔ لوگوں کے اذہان پہ دستک ہوئی، وہ سوچ رہے ہیں، لیکن بیس سے پچیس فیصد کام ہے، جب تک موجود نظام سے متعلق صد در صد مایوس ہو کر شعور کیساتھ اٹھ نہیں کھڑے ہوں گے، حرکت نہیں کریں گے، مسئلہ حل نہیں ہوگا۔ ہم دیکھ رہے ہیں کہ حالات اور مشکلات بھی اپنا کام دیکھا رہے ہیں، لوگوں کو سمجھ آرہی ہے، ایک راستہ مل رہا ہے، ہماری قیادت نے جو جو بات کی تھی، لوگ مان رہے ہیں کہ وہ سچ تھا اور ثابت ہو رہا ہے کہ ہماری سمت درست ہے اور ہماری قیادت کے موقف میں تبدیلی نہیں آئی، بلکہ سب اس کی گواہی دے رہے ہیں کہ جیسا قائد محترم ڈاکٹر طاہر القادری نے کہا تھا، ویسا ہی ہے۔ حالات پہ ہماری گہری نظر ہے، ہر چیز کا باریک بینی سے جائزہ لیتے رہتے ہیں۔

اسلام ٹائمز: عملی طور پر کن مشکلات کا سامنا کر رہے ہیں، حالات کی سختی نے کس حد تک تنظیم کو متاثر کیا ہے۔؟
سلطان محمود قادری:
حالات کٹھن ہیں، گرفتاریاں، جیلیں، نظر بندیاں اور طرح طرح کے ہتھکنڈے ہمارے خلاف آزمائے گئے ہیں اور آزمائے جا رہے ہیں، لیکن ہماری قیادت اور کارکن ان حالات میں سرخرو ہو کر نکلے ہیں، اور میدان میں موجود ہیں، ہمارے درجنوں کارکن اب بھی جیلوں میں موجود ہیں۔ راولپنڈی میں قید ہیں، سرگودہا، شاہ پور کی جیلوں میں ہیں۔ لاہور شہداء کے چہلم میں جاتے ہوئے، بلکہ اس پہلے ہی ہمارے تمام ذمہ داروں کے گھروں میں سیڑھیاں لگا کر، رات دو بجے، دیواریں پھلانگ کر، پولیس نے گرفتار کر لیا تھا، جو پکڑے گئے وہ جیل میں ڈال دیئے گئے، جو نہیں ملے ان کے گھروں پر مسلسل چھاپے مارے جاتے رہے، ہر حربہ آزمایا گیا۔ صرف ضلع سرگودہا سے ایک سو سے زیادہ بسیں جانا تھیں، دسمبر دو ہزار بارہ میں ساڑھے چار سو بس گئی تھی، ضلع سرگودہا سے، لیکن سب کو پکڑ لیا گیا، جو بچ گئے وہ بڑی مشکل سے مختلف طریقوں سے چھپتے چھپاتے پہنچے تھے۔ اب بھی وہ بے بنیاد مقدمات جھیل رہے ہیں، ہمارے ساتھی جیل میں ہیں، کچھ وہ تھے جنہیں نظر بند کیا گیا تھا، نقص امن کے تحت، لیکن ایک بڑی تعداد پر اقدام قتل، کار سرکار میں مداخلت، نجی و سرکاری املاک کو نقصان پہنچانے اور انہیں ڈیمج کرنے کی دفعات سمیت کئی دفعات لگائی گئی ہیں۔ ایک ایک آدمی پر آٹھ آٹھ الگ الگ مقدمات ہیں، ایک آدمی کی رہائی کے لیے اور ضمانت کروانے کے لیے آٹھ آٹھ مچلکے درکار ہوتے ہیں۔ ڈرانا دھمکانا اور طرح طرح سے تنگ کرنا وہ الگ ہے، لیکن ہم اپنے نظریئے اور جدوجہد سے پیچھے نہیں ہٹے۔

اسلام ٹائمز: مسلم لیگ قاف، ایم ڈبلیو ایم اور سنی اتحاد کونسل نے دھرنے میں شریک ہو کر، اہم اتحادی ہونے کا ثبوت دیا، علاقائی سطح پہ اتحادی جماعتوں کیساتھ رابطے کیسے ہیں، تعلقات مضبوط ہیں۔؟
سلطان محمود قادری:
سولہ جون کے واقعے کے بعد ایم ڈبلیو ایم، سنی اتحاد کونسل اور مسلم لیگ قاف سمیت مختلف جماعتوں اور تنظیموں نے آکر تعزیت کی تھی۔ اسکے بعد بھی مسلسل رابطے میں رہے ہیں، وہ ہمارے پروگراموں میں شرکت کرتے ہیں، ہم انکے ہاں جاتے ہیں، ہمیں یہ کلیئر ہے کہ یہ جدوجہد اکیلے کامیابی سے ہمکنار نہیں ہوسکتی۔ عوامی تائید کے بغیر تو کچھ نہیں کرسکتے، یہ ضروری ہے، مزید رابطوں کو بہتر بنا رہے ہیں۔ جس طرح ہم اپنی تنظیم کو مضبوط بنا رہے ہیں، وہ بھی اپنی اپنی جگہ پہ محنت کر رہے ہیں۔

اسلام ٹائمز: کیا دوبارہ منظم حملہ کرینگے، موجودہ نظام پہ؟ کب تک اور کیسے کریں گے۔؟
سلطان محمود قادری:
سب مل کر، پلٹ کے وار تو کریں گے، اور ضرور کریں گے۔ رات قائد محترم نے اپنی گفتگو میں فرمایا ہے کہ سلطان محمود غزنوی نے سترہ حملے کئے ہیں، آپ لوگوں نے تو ابھی صرف دو حملے کئے ہیں، اور دو حملوں کے بعد ہی تھک گئے ہیں۔ سلطان محمود غزنوی کی فوج میں ابوالحسن خرقانی ایک سپاہی تھے، وہ بہت بڑے صوفی اور بزرگ تھے۔ ایسے لوگوں کی فوج تھی اور اس نے سترہ حملے کئے تھے اور سلطان محمود کو فتح اس بزرگ کی قمیض کے صدقے ملی تھی۔ یاد رکھیں کہ سترہ حملوں کے بعد بھی رب اور اسکے رسول (ص) کی مدد شامل نہیں ہوگی تو فتح نہیں ملے گی، تمہارا کام ہے کوشش، کوشش کو جاری رکھو، چاہے آپ کو پندرہ حملے اور کرنا پڑیں۔

اسلام ٹائمز: آپ جیل میں رہے ہیں؟ وہاں کیا صورتحال تھی۔؟
سلطان محمود قادری:
میں جیل میں رہا ہوں، انہوں نے ہمیں زیادہ تنگ نہیں کیا، ہم کل ساٹھ لوگ تھے، ایک ہی گروپ سے تھے، وہاں انہوں نے دو الگ بیرکیں دی ہوئی تھیں، وہاں صبح اٹھتے تھے، نماز پہ، اسکے بعد مختلف سلسلے چلاتے تھے۔ بحث مباحثہ، درس و تدریس، نمازیں پڑھتے اور تلاوت کرتے تھے۔ بس یہی مشکل تھی، کہ باہر کے حالات کا پتہ نہیں چلتا تھا، جب کوئی ملنے والا آتا تو وہ بتاتا کہ کیا حالات ہیں، لیکن یہ احساس ہے کہ جیل تو جیل ہوتی ہے۔

اسلام ٹائمز: آپکا کیا خیال ہے کہ پاکستانی قوم میں کب تک یہ احساس بیدار ہوجائے گا کہ اس حکومت کیخلاف اٹھ کھڑے ہوں، اس حکومت کے کتنے دن رہ گئے ہیں۔؟
سلطان محمود قادری:
میرے اپنے خیال کے مطابق، تنظیم یا قائد محترم کا نہیں، میرا اپنا تجزیہ ہے کہ جون جولائی میں، یہ گرداب میں آجائیں گے۔ ایک اندازہ ہے۔ میرے اندر کی آواز کہہ سکتے ہیں۔ جون میں بجٹ آئے گا اور اسکے بعد حالات بدل سکتے ہیں، صحیصح اندازہ اس وقت ہوگا۔ جہاں تک پبلک کی بات ہے، انہیں تو جہاں بھی کوئی لے جائے، وہ اس راہ پہ لگ جاتے ہیں۔ حکومت کے پاس تو اب بھی کچھ نہیں ہے، فارن افئیرز انکے پاس نہیں ہیں، انٹرنل افئیرز انکے پاس نہیں ہیں۔ اب آخری چیز ہے اور وہ خزانہ، جب وہ یہ بھی حکومت سے لے لیں گے، صورتحال بالکل واضح ہو جائے گی۔ دوسری بات یہ ہے کہ جو کوئی قوم اور ملک کے لئے سوچتا ہے، اسے کوئی مشکل نہیں ہوتی، جو صرف اپنے لئے سوچتا ہے اور کرتا ہے، وہ کہاں تک چل سکتا ہے۔ ہوس انسان کو کہیں کا نہیں چھوڑتی۔
ہماری قیادت اس لحاظ سے آئیڈیل ہے۔ میں خود نقشبندی سلسلے میں بیعت ہوں، لیکن سیاسی اور فکری طور پر قیادت کا کارکن ہوں، قائد محترم کی جتنی کتابیں ہیں، انکے درجنوں ایڈیشنز چھپ چکے ہیں، اسکی تمام آمدنی ادارے کو جاتی ہے، قائد محترم نے وقف کی ہوئی ہے۔ جب آپ کو ایسی قیادت ملے تو آپ کیوں اعتماد نہیں کریں گے، کیوں نہیں ساتھ دیں گے، کسی اور سیاسی جماعت میں یہ کلچر نہیں ہے، کوئی کٹ مرنے کے لئے تیار نہیں ہے۔ دہشت گردی کیخلاف قائد محترم کا فتویٰ دنیا کی کئی زبانوں میں چھپا ہے، لیکن انہوں نے اسکی آمدنی وقف کی ہے ادارے کے لئے۔ فکری، عملی لحاظ سے قیادت میں کشش ہے جو انکے کردار کی وجہ سے ہے، ہر کارکن کو اس کا شعور ہے۔ چھ سو سے زیادہ اسکولز ہیں، کالجز ہیں، اسّی نوّے ممالک میں سیٹ اپ ہے، سب لوگ محنت کر رہے ہیں، کسی اثاثے یا عہدے کا کوئی وراثتی وارث نہیں، بلکہ تحریکی ضابطہ ہے۔

اسلام ٹائمز: سانحہ پشاور کے بعد، دہشتگردی کے حوالے سے قومی ایکشن پلان کے متعلق آپ کیا سوچتے ہیں، مطمئن ہیں کہ درست اقدامات ہو رہے ہیں، اچھے نتائج برآمد ہونگے۔؟
سلطان محمود قادری:
یہ جتنے بھی اقدامات ہیں، یہ کوئی بھی حکومت نہیں کر رہی، بلکہ حکومت تو معاملات کو لٹکا رہی ہے۔ زیادہ خرابی پیدا کر رہی ہے۔ جو کچھ بھی ہو رہا ہے وہ تو آرمی کر رہی ہے۔ ماڈل ٹاون کا سانحہ دیکھ لیں، پوری دنیا کے سامنے، لوگوں کو شہید کیا گیا، لیکن کچھ بھی نہیں ہوا۔ اس سے بڑی دہشت گردی کیا ہوگی۔ ہماری دانست میں تو راںا ثناءاللہ دہشت گرد ہے، توقیر شاہ دہشت گرد ہے، شہباز شریف خود دہشت گرد ہے۔ پہلے تو انہیں گرفتار ہونا چاہیے، باقی تو بعد کی بات ہے۔ دہشت گردوں کے ساتھ باہر جتنے رابطے ہیں وہ رانا ثناءاللہ کے ذریعے ہیں۔ دہشت گرد تو بہت ظلم کر رہے ہیں، حکومت کچھ نہیں کر رہی۔
خبر کا کوڈ : 438366
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش