0
Monday 9 Feb 2015 20:01
مسئلہ بلوچستان کے حل کیلئے وسیع پیمانے پر اصلاحات کی ضرورت ہے

سعودی عرب نے اپنے وہابی نظریئے کو بندوق کے ذریعے ایکسپورٹ کرنے کی کوشش کی، میر حاصل خان بزنجو

لاپتہ افراد اور مسخ شدہ لاشوں کا مسئلہ ابھی بھی برقرار ہے
سعودی عرب نے اپنے وہابی نظریئے کو بندوق کے ذریعے ایکسپورٹ کرنے کی کوشش کی، میر حاصل خان بزنجو
میر حاصل خان بزنجو بلوچستان نیشنل پارٹی (مالک) کے مرکزی رہنماء‌ و سینیٹر بھی ہیں۔ آپ 1958ء میں ضلع خضدار کی تحصیل نال میں بلوچستان کے سابق گورنر میر غوث بخش بزنجو کے گھر میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم مڈل ہائی سکول نال سے حاصل کی۔ جب آپکے والد کو بلوچستان کا گورنر مقرر کیا گیا، اس وقت آپ ساتویں جماعت میں تھے۔ ان کا خاندان کوئٹہ آگیا، جہاں انہوں نے اسلامیہ ہائی سکول میں داخلہ لے لیا۔ 1977ء میں میٹرک کرنے کے بعد 1979ء میں گورنمنٹ کالج کوئٹہ سے انٹر کیا۔ 80ء کی دہائی میں کراچی چلے گئے جہاں جامعہ کراچی سے آنرز کرنے کے بعد فلسفے میں ماسٹرز کی سند حاصل کی۔ حاصل بزنجو نے 70ء کی دہائی میں بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کے پلیٹ فارم سے سیاست کا آغاز کیا۔ 1972ء میں بی ایس او نال زون کے صدر اور بعد میں تنظیم کے مرکزی جوائنٹ سیکرٹری منتخب ہوئے۔ جنرل پرویز مشرف کے دور میں حکومت کے خلاف تقریر کرنے کی پاداش میں انہیں کچھ عرصہ قید بھی کاٹنی پڑی۔ 2002ء میں ان کی پارٹی اور بلوچ نیشنل موومنٹ کا الحاق ہوا اور نیشنل پارٹی کی بنیاد رکھی گئی۔ جس کے چیف آرگنائزر ڈاکٹر عبدالحئی بلوچ اور ڈپٹی آرگنائزر حاصل بزنجو منتخب ہوئے۔ بلوچستان کی موجودہ صورتحال کے حوالے سے "اسلام ٹائمز" نے آپ سے مختصر نشست کی، جو قارئین کے لئے پیش خدمت ہے۔ ادارہ

اسلام ٹائمز: بنیادی طور پر مسئلہ بلوچستان کی اصل وجوہات کیا ہیں۔؟
میر حاصل خان بزنجو: ہمارے جوانوں کو جو تاریخ پڑھائی گئی، وہ سرے سے ہماری تھی ہی نہیں۔ آپ اسکو بلوچستان لے لیں یا اسے برصغیر لے لیں، یہاں پر ہر وقت انگریزوں سے پہلے، انکے بعد اور آج تک ہمارا خطہ بین الاقوامی قوتوں کی آماجگاہ رہا ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ دوسری جنگ عظیم کے بعد ایک نئی صفحہ بندی دنیا میں شروع ہوئی۔ نوآبادیاتی نظام کو برقرار رکھنے کی کوششیں شروع ہوئی۔ لہذٰا میرا خیال ہے کہ دوسری جنگ عظیم 1940ء کے بعد دنیا کے مختلف ممالک کیلئے آزادی کا دور شروع ہوا۔ اسی دور میں جب انگریز بادشاہوں کو احساس ہوا کہ اب یہاں وہ مزید باقی نہیں رہ سکتے، تو اسکے بعد سامراجیت کا ایک نیا سلسلہ شروع ہوا۔ جس میں امریکہ سب سے آگے تھا اور طاقت کے اس حصول میں امریکہ کی اپنی کچھ ضرورتیں تھی، جسکا شکار پوری دنیا ہوئی۔ وہ عرب دنیا سے لیکر لاطینی امریکہ تک نئے سامراجی نظام کے شکار رہیں جبکہ میں دوسروں کی طرح یہی سمجھتا ہوں کہ ہندوستان کی تقسیم ہم نے نہیں کی، یا یہ کہ ہندوستان کی تقسیم مذہب کی بنیاد پر ہوئی۔ ہندوستان کی تقسیم ایک نقشے کے تحت کی گئی اور وہ نقشہ انہی سامراجی قوتوں کیجانب سے تھا۔ اسکے بعد ہندوستان سے لیکر عرب دنیا تک مختلف ممالک کو سامراج نے تقسیم کردیا۔ انہوں نے ہندوستان کو توڑ کر پاکستان بنایا، کیونکہ وہ اپنے مقاصد کو آگے پورا کرنا چاہتے تھے۔ یہ مسئلہ ایسی چیز ہے جنکے ساتھ آج بھی ہم جڑے ہوئے ہیں۔

مثال کے طور پر پاکستان کا آئین اور دوسری سب سے بڑی چیز جو اس تقسیم میں استعمال کی گئی، وہ دو قومی نظریئے کا نعرہ تھا۔ اب دو قوموں کی اس انداز میں بات کی گئی کہ انہیں مذہب کا رنگ دیا گیا۔ آپ کسی قوم کو مذہب کے دائرے میں لا ہی نہیں سکتے۔ اگر ہندوستان کے ہندو ایک قوم تھے، تو دوسرے ممالک میں رہنے والوں کو بھی اس قوم کا حصہ ہونا چاہیئے تھا۔ بنیادی طور پر اگر ہندو مسلم تنازعہ کو آپ دیکھیں تو یہ انگریزوں کیجانب سے بنایا گیا تھا۔ انکا مقصد تھا کہ یہاں‌ پر ہندو مسلمان مسائل پیدا کئے جائیں۔ تو یہیں سے ساری تاریخ شروع ہوتی ہے اور چالیس کی دہائی میں جبکہ عرب دنیا بھی آپکے سامنے ہے، کہ کتنے اسٹیٹس بنائے گئے۔ مثلاً بحرین، عرب امارات، یمن اور دیگر عرب ممالک کو بناکر انکے درمیان اسرائیل کو بٹھایا گیا، یہ انکا نقشہ تھا۔ انگریزوں نے بنگال کو اپنی ضرورتوں کی وجہ سے الگ کیا۔ ان کو اس بنگال کی ضرورت نہیں‌ تھی، انکو اس حصے کی ضرورت تھی جہاں آج بھی ہم آگ و خون کے کھیل کا شکار ہیں۔ جب پاکستان کو بنایا گیا تو انہوں نے کہا کہ یہ ملک بلوچستان کے بغیر مکمل نہیں ہو سکتا۔ بلوچستان کے بغیر اسکا ملک کو بنانا انکے لئے ممکن ہی نہیں‌ تھا۔ اب میں آگے نہیں جانا چاہونگا کہ قائداعظم صاحب کا کردار کس طرح‌ تھا۔

اب ظاہر ہے کہ بلوچستان اس وقت ایک ریاست تھی، یہاں کے رہنے والوں کیساتھ ویسے ہی برتاؤ کیا جاتا جیسے پورے ہندوستان میں رہنے والوں‌ کیساتھ۔ تو اس وقت انگریزوں کیساتھ ایک معاہدہ ہوا کہ ریاست قلات خاص طور پر اپنے داخلی اور خارجی معاملات میں آزاد رہے گی بشرطیکہ وہ انگریزوں کے مفادات کیخلاف کوئی کام نہ کریں۔ جب قلات کی شمولیت کا مسئلہ آیا، تو اس وقت قائداعظم خان آف قلات کے انتہائی قریب تھے۔ اس دوران جب بھی وہ بلوچستان گئے انکے ساتھ دو شخصیات تھی۔ ایک قاضی عیسٰی اور دوسرے خان آف قلات تھے۔ لہذٰا آزادی کے وقت بھی قلات کا یہی مطالبہ تھا کہ اسے علیحدہ حیثیت دی جائے۔ خان آف قلات محمد یار خان کراچی میں قائداعظم سے ملے اور دونوں اس بات پر متفق تھے کہ قلات ایک علیحدہ ریاست ہوگی جبکہ دوسری جانب انگریزوں نے یہ نقشہ بنالیا تھا کہ بلوچستان کو آزاد نہیں رہنے دینگے۔ بعدازاں مسلم لیگ کے دیگر رہنماؤں کو اس بات پر آمادہ کیا گیا کہ وہ بلوچستان کو بھی پاکستان میں ملانے کیلئے مطالبہ کریں۔ اس میں بھی لمبی چھوڑی سازشیں تھی اور یہاں میں‌ اس سوچ کی بھی شدید مخالفت کرونگا کہ ان سازشوں کے پیچھے قائداعظم نہیں بلکہ اس وقت کے امیر افراد تھے۔

سب سے پہلے مکران کے نواب نے پاکستان میں شمولیت کا اعلان کیا۔ اسکے بعد والی جسے بیلاء کہا جاتا ہے، انہوں‌ نے پاکستان میں شمولیت کی۔ لہذٰا اب اس کمزور حالت میں خان آف قلات کے پاس کوئی اور راستہ نہیں‌ رہا علاوہ اسکے کہ وہ پاکستان کیساتھ شامل ہوں۔ اب یہاں‌ سے سارے مسائل شروع ہوتے ہیں۔ خان آف قلات اور قائداعظم کے درمیان کچھ معاہدے ہوئے۔ جس میں کرنسی اور ڈفینس کے علاوہ باقی تمام حقوق قلات کے ریاست کی اپنی تھی۔ جب پاکستان بنا تو مسلم لیگ کے رہنماؤں سمیت چند دیگر نے قائداعظم پر دباؤ ڈالنا شروع کیا۔ ریاست کے اوپر انکی گرفت کمزور ہوتی چلی گئی۔ سب نے خان آف قلات کیساتھ کئے گئے معاہدوں کی خلاف ورزی شروع کی۔ قائداعظم کے مخالفین میں سرفہرست لیاقت علی خان تھے۔ خان آف قلات نے گزارش کی کہ انکے ساتھ کئے گئے معاہدوں پر عملدرآمد کیا جائے۔ اسکے بعد خان آف قلات کو کہا گیا کہ آپ بلوچستان میں اپنے سرداروں کا جرگہ بلائیں اور اپنے معاہدوں کی منظوری کا مطالبہ کریں۔ بعدازاں خان آف قلات کو گرفتار کیا گیا۔ یہی وہ چیزیں تھی جسکی وجہ سے بلوچستان میں مسائل پیدا ہونا شروع ہوئے۔ لہذٰا جب آپکی تاریخ اسی طرح آگے بڑھتی جائے اور زیادتیوں کا تسلسل یونہی رہے تو نتائج یہی برآمد ہونگے۔

اسلام ٹائمز: کیا آج بھی ریاست بلوچستان کی موجودہ حکومت کیساتھ اپنی پرانی روش کو اختیار کئے ہوئی ہے۔؟
میر حاصل خان بزنجو: بلوچستان میں ریاست صرف زبانی یقین دہانیاں کرواتی رہی ہے۔ اگر آپ سیاسی مسائل کو علیحدہ رکھیں تو آج بھی صوبے میں وہی سامراجیت کا دور ہے۔ آج بھی صوبے کا ستر فیصد علاقہ اکیسوی صدی کی دنیا سے بہت پیچھے ہے۔ آج بھی لوگ اٹھارویں صدی کی طرح زندگی گزار رہے ہیں۔ جب تک لوگوں کے سیاسی و معاشی مسائل کو حل نہیں کیا جاتا۔ اس وقت تک کسی بھی قوم کو آن بورڈ نہیں کیا جاسکتا۔ آج بلوچستان کا سب سے بڑا مسئلہ مسخ شدہ لاشیں، لاپتہ افراد اور سکیورٹی فورسز کا برتاؤ ہے۔ انکا رویہ دیکھا جائے تو اس میں کوئی بڑا فرق نہیں۔ اسکے لئے بڑے پیمانے پر اصلاحات کی ضرورت ہے۔

اسلام ٹائمز: بلوچ معاشرے میں مذہبی انتہاء پسندی کو کس نے پروان چڑھایا۔؟
میر حاصل خان بزنجو: بلوچ قوم بنیادی طور پر بہت شریف ہے۔ شروع سے ہماری عوام غریبی اور سادگی میں اپنی زندگی گزارتے تھے۔ میں ذاتی طور پر اپنی مثال آپکو دونگا کہ 1980ء میں جب میرا تعلق کراچی یونیورسٹی سے تھا تو میری پہلی کلاس اسلامی نظریات تھی۔ پہلے دن ٹیچر نے پوچھا کہ آپکے والد کا نام کیا ہے۔؟ نام بتانے کے بعد انہوں نے کہا کہ آپ کلاس کے بعد میرے آفس میں آئیں۔ دفتر میں انہوں نے مجھ سے پوچھا کہ آپکے والد ہاتھ چھوڑ کر نماز پڑھتے ہیں یا ہاتھ باندھ کر نماز پڑھتے ہیں۔؟ مجھے انکے سوال کا مطلب سمجھ میں ہی نہیں آیا۔ کیونکہ ہمارے علاقے میں ہاتھ باندھنے یا چھوڑنے کا تصور ہی نہیں تھا۔ بعد میں انہوں نے مجھ سے سوال کیا کہ آپکے والد شیعہ ہیں۔؟ مجھے اس جوانی میں یہ بھی پتہ نہیں‌ تھا کہ شیعہ کیا ہوتا ہے۔ پھر اس نے کہا کہ تم کافر ہو۔؟ تو میں نے کہا کہ نہیں‌ سر مسلمان ہوں۔ بعد میں انہوں نے کہا کہ آپ میری کلاس میں نہ آئیں۔ میں نے صرف ان سے یہ کہا کہ برائے مہربانی مجھے فیل نہ کریں۔ چھ مہینے کے بعد جب رزلٹ آیا تو انہوں نے مجھے تینتیس نمبر دیئے ہوئے تھے۔

ہمارے ہاں صوفیزم کا بہت احترام تھا۔ مگر 80ء کی دہائی میں جس طرح بلوچ سوسائٹی کو وہابیت کی طرح دھکیلا گیا اور وہاں‌ اربوں روپے خرچ کئے گئے۔ ہمارے پورے معاشرے کو انتہاء پسندی کیجانب مائل کیا گیا۔ وہ ملاء جسکا کام ہمارے ہاں‌ صرف آذان دینا تھا، اسکے ہاتھ میں بندوق دے دی گئی۔ ہماری سادہ سوسائٹی کو تباہ کیا گیا۔ جہاں‌ لوگوں کو یہ معلوم نہیں تھا کہ شیعہ سنی کیا ہے۔ وہاں وہابیت، شیعہ کافر، بریلوی آدھا مسلمان کے نعرے لگنے لگے۔ وہابی نظریئے کی جانب سے اربوں روپے خرچ کرکے ہمارے معاشرے کو مذہبی طور پر اتنا تقسیم کیا گیا کہ جتنا سارے پاکستان کو بنایا ہوا ہے۔ ایک ریاست اس وقت تقسیم ہوتی ہے، جب وہ خود اپنے تقسیم ہونے کا فیصلہ کرے۔ شیعہ 80ء کی دہائی سے پہلے بھی موجود تھا۔ ہم نے نہیں‌ سنا کہ مذہب کے نام پر کسی کو تنگ کیا گیا ہو۔ برصغیر میں اسلام کے پھیلانے میں سب سے زیادہ کردار صوفیوں کا ہے مگر جب ریاست خود فیصلہ کرے کہ ملک کو تقسیم ہونا ہے تو اس سے بڑھ کر کوئی بدقسمت ریاست نہیں ہوتی۔ ایرانی انقلاب کے بعد سعودی عرب نے اپنے نظریئے کو بندوق کے ذریعے ایکسپورٹ کرنے کی کوشش کی۔ آج اس پورے خطے میں جو جنگ جاری ہے، اس سے ہمارا دور دور تک کوئی تعلق نہیں۔ یہ آگ افغانستان میں طالبان کے نام پر امریکہ کی لگائی ہوئی ہے یا سعودی عرب کی جانب سے ہے۔
خبر کا کوڈ : 438810
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش