0
Monday 9 Feb 2015 22:47
امریکہ اور سعودی عرب نے داعش کو کھڑا کیا ہے

داعش اور طالبان جیسی تنظیموں کو پیدا کرنیوالے فساد کی جڑ ہیں، زبیر احمد گوندل

طالبان جہاد کے نام پہ فساد پھیلا رہے ہیں
داعش اور طالبان جیسی تنظیموں کو پیدا کرنیوالے فساد کی جڑ ہیں، زبیر احمد گوندل
جماعت اسلامی ضلع سرگودہا کے امیر زبیر احمد گوندل، پنجاب یونیورسٹی کے ناظم اسلامی جمعیت طلبہ، جمعیت کے مرکزی ناظم اعلٰی رہے ہیں۔ تحریکی شخصیات میں سے مولانا مودودی اور امام خمینی کی کامیاب انقلابی جدوجہد سے بے حد متاثر ہیں۔ دہشت گردی کے خاتمے، پاکستان میں تکفیری فتنے کے مضمرات اور داعش کی ملک میں موجودگی سے متعلق اسلام ٹائمز کیساتھ ہونے والی انکی خصوصی گفتگو قارئین کی خدمت میں پیش کی جا رہی ہے۔ ادارہ

اسلام ٹائمز: جماعت اسلامی دہشتگردی کی مذمت تو کرتی ہے، لیکن قومی ایکشن پلان کی حمایت نہیں کرتی، اسکی کیا وجہ ہے۔؟

زبیر احمد گوندل: قومی ایکشن پلان تو سانحہ پشاور کے بعد بنایا گیا ہے، لیکن دہشت گردی کی اصل وجہ خطے میں امریکہ کی مداخلت اور موجودگی ہے۔ اسی طرح فقط مذہب کے نام پہ لوگ دہشت گردی نہیں کر رہے، بلکہ لسانی اور قومیت کی بنیاد پر بھی دہشت گردی ہو رہی ہے۔ جو آپریشن کراچی اور بلوچستان میں ہو رہا ہے، اسکی وجہ طالبان نہیں ہیں، لیکن جو کچھ طالبان کر رہے ہیں، جماعت اسلامی انہیں ظالمان کہتی ہے اور یہ جہاد کے نام پر فساد ہو رہا ہے۔ دہشت گردی کیخلاف ہونے والا آپریشن بھی بلاامتیاز تمام دہشت گردوں کیخلاف ہونا چاہیے، جماعت اسلامی اسکی حمایت کرتی ہے۔ ملٹری آپریشن ان مسائل کا حل نہیں ہے۔

اسلام ٹائمز: جماعت اسلامی طالبان کو ظالمان اور انکی کاروائیوں کو جہاد نہیں فساد سمجھتی ہے، لیکن انکے خلاف ملٹری آپریشن کو حل نہیں سمجھتی، دہشتگردی کا کیا حل ہے؟
زبیر احمد گوندل: جماعت اسلامی قومی ایکشن پلان کی حمایت کرتی ہے، لیکن سانحہ پشاور کے بعد قومی اتفاق رائے سے جو ایکشن پلان بنایا گیا تھا، اس میں دو چیزیں ایسی ہیں جن پہ قومی اتفاق نہیں تھا۔ آئینی ترمیم میں مذہب اور فرقے کا حوالہ اور فوجی عدالتوں کا معاملہ تھا جس پہ اتفاق نہیں تھا، لیکن اس اجلاس میں اور اسکے بعد بھی جتنے اجلاس ہوئے ہیں، جماعت اسلامی نے حکومت کی حمایت کی ہے کہ دہشت گردی کو جس طریقے سے بھی ختم کرسکتے ہیں، اسے ختم کریں۔ جماعت اسلامی کا موقف ہے کہ آئین میں باقاعدہ مذہب کا لفظ لکھ کر دہشت گردوں کیخلاف کارروائی کوئی زیادہ سخت نہیں ہو جائے گی، مذہب کا لفظ استعمال کئے بغیر بھی دہشت گردی کیخلاف سخت سے سخت کارروائی ہوسکتی ہے۔ جماعت اسلامی ہمیشہ سے یہ سمجھتی ہے کہ مذہب کے نام پہ ہونے والی دہشت گردی سے اسلام بدنام ہوتا ہے، ہم اسکی مذمت کرتے ہیں اور دہشت گردی کے خاتمے کے لئے ہر قسم کی کارروائی کی حمایت کرتے ہیں۔ ہمارے تحفظات یہ ہیں کہ جس خاص انداز میں قانون سازی کی جا رہی ہے، اس سے محسوس ہوتا ہے کہ یہ بدنیتی پر مبنی ہوسکتا ہے، اس میں نیت کی درستگی ضروری ہے۔

اسلام ٹائمز: آپ یہ سمجھتے ہیں کہ قومی ایکشن پلان کو تجویز کرنیوالے، دہشتگردی کیخلاف کارروائی کرنے میں مخلص نہیں ہیں۔؟
زبیر احمد گوندل: آئینی ترمیم پر تو اتفاق رائے نہیں ہوا، جن چیزوں پر اتفاق رائے ہوا تھا، انہیں آگے لیکر چلنا چاہیے تھا۔ مذہب اور مدارس کی بات کو شامل کرکے الٹا دہشت گردی کیخلاف آپریشن کو نقصان پہنچایا گیا ہے۔ جماعت اسلامی کا موقف یہ ہے کہ جب دہشت گردوں کیخلاف کارروائی پر اتفاق رائے موجود ہے تو لفظوں میں الجھنے کی بجائے کارروائی کریں، لفظوں میں نہ الجھیں۔

اسلام ٹائمز: یہ اہم نکتہ ہے، کیا امریکہ کی وار آن ٹیرر کی طرح قومی ایکشن پلان بھی کسی اور ایجنڈے کی تکمیل کیلئے بنایا گیا ہے۔؟
زبیر احمد گوندل: آئینی ترمیم میں مذہب کا لفظ استعمال کرکے دہشت گردوں کیخلاف ایکشن سے زیادہ امریکہ اور مغربی طاقتوں کو خوش کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ اس سے یہ تاثر ملتا ہے کہ ہم دہشت گردی کے نام پہ خود مذہب کیخلاف مہم جوئی کر رہے ہیں، اس میں دکھاوا زیادہ ہے، عمل کم ہے، دہشت گردی کے خلاف کارروائی کا عمل منفی طور پر متاثر ہو رہا ہے۔

اسلام ٹائمز: آپ سمجھتے ہیں کہ ایسے اقدامات دہشتگردی کیخلاف جنگ کے نام پر اپنے اقتدار کو مضبوط بنانے کی پرویز مشرف کی پالیسیوں کا تسلسل ہے۔؟
زبیر احمد گوندل: جس طرح کچھ لوگ مذہب کے نام پر دہشت گردی کرکے اسلام کو بدنام کر رہے ہیں، اسی طرح یہ لوگ بھی دہشت گردی کے خلاف کارروائی کے نام پہ مذہب کے پیروکاروں کا استحصال کرنا چاہتے ہیں۔ یہ لوگ یعنی حکمران، اپنے اوپر کی قوتوں کو یہ پیغام دینا چاہتے ہیں کہ ہم مذہب کے خلاف کارروائی کر رہے ہیں۔ اسکا نقصان ہو رہا ہے، جو لوگ جہاد کے نام پہ فساد پھیلا رہے ہیں، انکو تقویت مل رہی ہے۔ اسکی بجائے اگر یہ لفظ نکال کر صرف ایکشن پہ زور دیا جاتا تو بہتر تھا۔ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ سیکولر قوتوں کو آگے لانے کے لیے ایسی اصطلاحیں استعمال کی جاتی ہیں، تاکہ مذہب بدنام ہو اور سیکولرازم کی راہ ہموار ہوسکے۔ ایک طرف وہ ہیں جو جہاد کے نام پہ اسلام کو بدنام کر رہے ہیں، دوسری طرف یہ ہیں جو مذہب کو بنیاد بنا کر خود مذہب کیخلاف اتنا پروپیگنڈہ کر رہے ہیں، مسلمانوں کا اتحاد پارہ پارہ ہو رہا ہے۔ ہم کہتے ہیں کہ اعلانیہ نام نہ لیں بلکہ انکے خلاف کارروائی کریں، اس طرح تو فرقہ واریت میں بھی اضافہ ہوتا ہے۔

اسلام ٹائمز: سید علی گیلانی سمیت تمام کشمیری رہنماوں کا کہنا ہے کہ پاکستان میں فتنہ تکفیریت کیوجہ سے جدوجہد آزادی کو سخت نقصان پہنچا ہے، اسکا کیا حل ہے۔؟
زبیر احمد گوندل: کسی کو کافر کہنا تو دور کی بات ہے، جماعت اسلامی تو فرقوں کی بنیاد پہ تعصب رکھنے کی بھی سخت مخالف ہے۔ یہ خود اسلام کے ساتھ ظلم ہے، چاہے کوئی سنی کرے یا شیعہ۔ اس کے حل کے طور پر مرحوم قاضی حسین احمد نے ملی یکجہتی کونسل کے عنوان سے جو کام شروع کیا تھا، وہ اب بھی بہت موثر ہے، جماعت اسلامی کی شوریٰ اور پورا نظم اس بات پہ متفق ہے کہ ملی یکجہتی کونسل کے ذریعے بہت سے ناخوشگوار واقعات کو روکا جاسکتا ہے اور انکے برے اثرات کو زائل کی جاسکتا ہے۔ کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے اور اسلامی نقطہ نگاہ سے، معاشی حوالے سے بھی اور دفاعی طور پر بھی کشمیر پاکستان کے لیے ضروری ہے۔ پوری پاکستانی قوم کو کشمیریوں کی پشت پہ ہونا چاہیے اور اسکے لیے پاکستانی قوم کا اتحاد ضروری ہے۔ جو لوگ کسی کلمہ گو کو یا کسی مسلک کو کافر کہتے ہیں یا قانون ہاتھ میں لیتے ہیں، انکے خلاف کارروائی ہونی چاہیئے۔

اسلام ٹائمز: پاکستان کے ہر شہر، ہر قصبے میں داعش کی تشہیر ہو رہی ہے، داعش نے اردنی پائلٹ کو زندہ جلایا ہے، لوگ خوفزدہ ہیں، جماعت اسلامی کا رابطہ ہے داعش کیساتھ یا آپکو پتہ ہے یہ کون لوگ ہیں پاکستان میں۔؟
زبیر احمد گوندل: داعش اور طالبان کی ایک ہی مثال ہے، جس طرح آئی ایس آئی اور پی پی کے وزیر داخلہ نصیر اللہ بابر نے طالبان کو کھڑا کیا تھا، آج خود یہی لوگ طالبان کیخلاف کارروائی کر رہے ہیں، اسی طرح داعش کو بھی امریکہ اور سعودی عرب نے کھڑا کیا ہے، اور جب وہ انکے مقاصد کے مطابق نہیں چل رہے تو یہ انکے خلاف کارروائی کر رہے ہیں۔ اب تو سعودیہ اور امریکہ کے ساتھ ایران بھی شامل ہوگیا ہے، حالانکہ یہ تینوں ملک کسی اور معاملے پہ اکٹھے نہیں ہوتے۔ اسی مثال کو سامنے رکھتے ہوئے دیکھیں تو سمجھ سکتے ہیں کہ پاکستان میں بھی اپنے خاص مقاصد حاصل کرنے کے لیے داعش کے نام کی تشہیر کروائی جا رہی ہے۔ جماعت اسلامی کا موقف یہ ہے کہ داعش اور طالبان جیسی تنظیموں کو پیدا کرنے والے فساد کی جڑ ہیں، جب تک ان کی پالیسیاں تبدیل نہیں ہوں گی، اسی طرح کی تنظیمیں کھڑی ہوتی رہیں گی۔ پاکستان میں عملی طور پر داعش کا وجود نہیں، لیکن امریکہ اور انڈیا جیسی پاکستان دشمن طاقتیں، اپنے خاص مقاصد حاصل کرنے کے لیے، خاص قسم کا ماحول تیار کرنے کے لیے داعش کا نام استعمال کر رہے ہیں۔

امریکہ، پاکستان میں سیکولرازم کو فروغ دینے اور پاکستان کے ایٹمی اثاثوں تک پہنچنے کے لیے جہاد کے نام پر فساد اور فرقہ وارانہ تشدد کی پشت پناہی کر رہا ہے۔ ہماری فوج اس بات کو سمجھ رہی ہے، لیکن اسکے باوجود پرانی غلطیاں دہرا رہی ہے۔ سانحہ پشاور میں جو لوگ استعمال ہوئے انہوں نے بھارت میں ٹریننگ لی تھی، جلال آباد میں بھارتی قونصلیٹ سے انہیں ہینڈل کیا گیا، وہ ایسے لوگوں کو پاکستان میں بھی خرید لیتے ہیں، انٹیلی جنس اداروں سے لیکر این جی اوز تک ہر جگہ انہیں لوگ مل جاتے ہیں، وہ جس قسم کی معلومات چاہیں حاصل کر لیتے ہیں اور جس قسم کا کام چاہیں کروا سکتے ہیں۔ اچھی منصوبہ بندی اور پیسہ لگا کر ہر سازش کو مکمل کرتے ہیں۔ امریکہ اور بھارت سے پیسہ لیکر دہشت گردی کرنیوالے امریکہ سے نہیں آتے پاکستانی ہی ہوتے ہیں، داعش کے نام کی تشہیر کا معاملہ بھی ایسا ہی ہے، پاکستان میں داعش کی تشہیر میں عالمی طاقتیں ملوث ہیں۔ جب پاکستان کی دال، روٹی اور تیل کی قیمتیں امریکہ میں طے ہوتی ہیں تو کیا مشکل ہے کہ پیسے کے بل بوتے پہ طالبان اور داعش جیسے ناموں پہ لوگوں کو کھڑا نہ کیا جا رہا ہو۔

اسلام ٹائمز: کیا جماعت اسلامی میں شامل ہونے کیلئے اپنا مسلک ترک کرنا پڑتا ہے۔؟
زبیر احمد گوندل: جماعت اسلامی تو مسلمانوں میں فرقوں کے نام پہ تفریق پیدا کرنے کے خلاف ہے۔ جماعت اسلامی میں شامل ہونے کے لئے اسلامی عقیدہ اور زندگی ضروری ہے، جماعت اسلامی میں شیعہ مسلک سے تعلق رکھنے والے افراد بھی ہیں، جو جماعت اسلامی کے رکن ہیں، میں آپ کو ان سے ملوا سکتا ہوں۔ اسلام کو دو چیزوں کی وجہ سے سخت نقصان ہوا ہے، ایک خلافت کو ملوکیت میں بدل دیئے جانے کی وجہ سے اور دوسرا فرقوں کے نام پہ مسلمانوں کے تقسیم ہو جانے کی وجہ سے۔
خبر کا کوڈ : 438873
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش