0
Tuesday 10 Feb 2015 12:53
چودھری محمد سرور جلد جاوید ہاشمی کی جگہ پر پی ٹی آئی میں ہونگے

حکومت اب بھی دہشتگردوں کیلئے نرم گوشہ رکھتی ہے، میاں محمودالرشید

وزیر داخلہ کچھ کہتے ہیں،وزیراعظم کچھ، لگتا ہے دونوں کو ہی علم نہیں ملک میں کیا ہو رہا ہے
حکومت اب بھی دہشتگردوں کیلئے نرم گوشہ رکھتی ہے، میاں محمودالرشید
میاں محمودالرشید پاکستان تحریک انصاف کے پنجاب اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر ہیں۔ پی ٹی آئی کے ارکان پنجاب اسمبلی نے اپنے استعفے اسپیکر کو جمع کروائے ہوئے ہیں لیکن وہ ابھی منظور نہیں ہوئے۔ میاں محمودالرشید 3 مرتبہ پنجاب اسمبلی کے رکن منتخب ہوچکے ہیں۔ ایک دہائی سے زائد عرصے سے تحریک انصاف میں شامل ہیں۔ انہوں نے اپنے سیاسی کیئریئر کا آغاز جماعت اسلامی سے کیا اور 1983ء اور 1987ء میں کونسلر منتخب ہوئے۔ 1988ء میں اسلامی جمہوری اتحاد کے پلیٹ فارم سے حصہ لیا لیکن انہیں شکست ہوئی، 1990ء میں میاں محمود الرشید نے دوبارہ اسلامی جمہوری اتحاد کے پلیٹ فارم سے ہی الیکشن میں حصہ لیا اور جیت گئے۔ 2000ء میں انہوں نے جماعت اسلامی چھوڑ کر تحریک انصاف جوائین کر لی اور تاحال اسی جماعت کا حصہ ہیں۔ موجودہ سیاسی صورت حال پر لاہور میں ان کے ساتھ ایک نشست ہوئی، جس کا احوال قارئین کے لئے پیش کیا جا رہا ہے۔ (ادارہ)

اسلام ٹائمز: نواز حکومت کو اقتدار میں آئے 2 برس ہونے کو ہیں، آپ حکومت کی کارکردگی کو کس نظر سے دیکھتے ہیں، مسائل حل ہوئے یا ان میں اضافہ ہوا۔؟

میاں محمودالرشید: حکمرانوں نے اپنی ناکامیوں پر نوٹس نہ لینے اور ایک دوسرے پر الزامات عائد کرنے کا ریکارڈ قائم کر لیا ہے۔ حکومت کے یہ وزراء اصل میں عوام کو بیوقوف بنانے کے لئے ایسی حرکات کر رہے ہیں مگر قوم انہیں کبھی معاف نہیں کرے گی۔ حکمرانوں نے پہلے ہی غریبوں کے منہ سے روٹی کا نوالہ چھین رکھا ہے، آٹا، چینی، گھی کی قیمتیں آسمان کو چھو رہی ہیں۔ اس پر گیس اور بجلی دونوں عوام کی پہنچ سے دور کر دیئے گئے ہیں، سردیوں گرمیوں تک لوڈشیڈنگ جان نہیں چھوڑ رہی، اس پر بجلی گیس اور پانی کے نرخوں میں روز بروز اضافہ کیا جا رہا ہے۔ لوڈشیڈنگ سے ترقی کا پہیہ رک چکا ہے، بے روز گاری بڑھ رہی ہے، لوگوں کی بے چینی میں اضافہ ہو رہا ہے، وہ حکومت کی ان پالیسیوں کیخلاف میدان میں آنے کے لئے بے چین ہیں۔ جس طرح وزیراعظم کی ناقص پالیسیوں نے ملک کا بیڑہ غرق کرکے رکھ دیا ہے، اسی طرح ان کی کابینہ کے ارکان کی بھی مسلسل ناقص کارکردگی سے وزیراعظم بھی شرمندہ شرمندہ سے ہیں۔ حکمرانوں نے ملک کو اقتصادی بحران سے نکالنے کے لئے کچھ نہیں کیا، جس کا نتیجہ برآمد ہو رہا ہے۔ یوں تو پورے ملک کے لوگ حکمرانوں کی ناقص کارکردگی سے پریشان ہیں بالخصوص پنجاب کے عوام تو کچھ زیادہ ہی بدحالی کا شکار ہیں۔ اس لئے پنجاب میں چوری، ڈکیتی، اغوا برائے تاوان سمیت دیگر جرائم کی وارداتوں میں اضافہ ہو رہا ہے۔ بجلی بحران سے نجات کے لئے جن لوگوں نے نون لیگ کو ووٹ دیئے تھے، وہ اب شرمندہ شرمندہ پھرتے ہیں کہ شیر تو بجلی بھی کھا گیا ہے۔ ملک کو بحرانوں سے نکالنے کے لئے ملک گیر تبدیلی ناگزیر ہوچکی ہے۔ اس لئے کہ جعلی مینڈیٹ سے قائم ہونے والی حکومت عوام کے مسائل حل نہیں کرسکتی۔ بحران ختم کرنے کے دعوے کرنے والے اب بحرانوں کے خاتمے کی مدد بتانے میں مصروف ہیں، حالانکہ یہ خود ان بحرانوں سے مالی فوائد حاصل کرنے والے لوگ ہیں۔ ان کے چہرے سے پردہ اٹھ گیا ہے، عوام ان کی چکنی چپڑی باتوں میں نہیں آئیں گے، انہیں پتہ چل گیا ہے کہ قومی ضروریات کے مطابق بجلی بنانا اور اسے سستے نرخوں عوام کو فراہم کرنا ان کے بس کی بات نہیں۔

اسلام ٹائمز: چودھری محمد سرور کے استعفے اور انکے بیان سے کیا مسلم لیگ نون کی گڈگورننس کی قلعی کھل نہیں جاتی کہ پنجاب میں سب اچھا نہیں۔؟

میاں محمودالرشید: مسلم لیگ نون میں ہمیشہ ہی خوشامدیوں کو پسند کیا جاتا ہے، اس لئے اس پارٹی میں چودھری سرور جیسے ایماندار اور مخلص لوگوں کی کوئی اہمیت نہیں، آپ دیکھ لیں چودھری محمد سرور نے کس طرح مستعفی ہوتے ہی حکمرانوں کی گڈ گورننس کا بھانڈا پھوڑ دیا اور واضح کہہ دیا کہ قبضہ مافیا گورنر سے زیادہ مضبوط ہے اور آپ کو پتہ ہی ہے قبضہ مافیا کون ہے، میاں حمزہ شہباز شریف اس مافیا کے سربراہ ہیں۔ تو جہاں حمزہ شہباز شریف ہو، وہاں گورنر کی کیا اوقات ہوگی۔ افسوس اس بات یہ ہے کہ نون لیگ کے حکمرانوں نے چودھری محمد سرور جیسے وطن دوست انسان کی صلاحتیوں سے استفادہ نہیں کیا، جبکہ ان کے تجربات اور مشاہدات سے پنجاب کے عوام کو بے شمار فوائد حاصل ہوسکتے تھے۔ چودھری محمد سرور نے اپنے طور پر لوگوں کے مسائل حل کرنے میں کوئی کسر نہیں اٹھا رکھی، مگر انہیں ان کا آئینی حق ادا ہی نہیں کرنے دیا گیا۔ اس طرح ایک اچھا انسان حکمران کی تنگ نظری کا شکار ہوگیا، جس سے انہیں اندازہ ہوگیا ہوگا کہ شریف برادران نے کس طرح یہاں پر خاندانی حاکمیت قائم کر رکھی ہے۔ چودھری محمد سرور نے حکمرانوں کی لوٹ مار، بری گورننس اور مایوس کن کارکردگی کو بے نقاب کرکے رکھ دیا ہے۔ حکومت کو آج نہیں تو کل اپنی ناکامی کو تسلیم کرنا ہی ہوگا۔ حکمرانوں کی گڈگورننس کا بھید کھل چکا ہے، اس لئے مسلم لیگ نون عوام کو ان کے بنیاد حقوق دینا ہی نہیں چاہتی اور بلدیاتی الیکشن اسی وجہ نہیں نہیں کرائے جا رہے۔

اسلام ٹائمز: حلقہ این اے 122 میں آپکی درخواست پر لوکل کمیشن نے واضح طور پر کہا کہ دھاندلی تو نہیں ہوئی البتہ بے ضابطگیوں کی شکایات ملی ہیں، اس سے آپکا موقف کمزور نہیں ہو جاتا۔؟
میاں محمودالرشید: ہم نے حلقہ این اے 122 کے انتخابی دھاندلی کیس میں تحقیقات کرنے والے لوکل کمیشن کے خلاف الیکشن ٹربیونل میں درخواست دائر کر دی ہے، ہم نے درخواست میں موقف اختیار کیا ہے کہ لوکل کمیشن نے مذکورہ حلقے میں ہونے والی دھاندلی کے ثبوتوں کو نظر انداز کیا ہے۔ ووٹوں کی صحیح طریقے سے جانچ پڑتال نہیں کی جبکہ دھاندلی کے ثبوت کو رپورٹ کا حصہ ہی نہیں بنایا، ایسا کرکے لوکل کمیشن نے ٹربیونل کے حکم کی تعمیل نہیں کی۔ پھر کمیشن نے میڈیا میں بیان بازی کرکے حلقہ میں ہونے والی دھاندلی کو متنازعہ بنانے کی کوشش کی۔ کمیشن کے سربراہ غلام حسین اعوان کے بیان سے کیس پر منفی اثرات مرتب ہوئے، اس لئے ہم نے الیکشن ٹربیونل سے درخواست کی ہے کہ وہ مسئلے پر غور کرے، تاکہ ہماری درخواست کا ازسر نو جائزہ لیا جاسکے۔ ہم آئین اور قانون کی بالادستی چاہتے ہیں، اور چاہتے کہ ملک میں آئندہ کوئی الیکشن متنازع نہ ہوں، اس لئے ہماری دھاندلی سے متعلق درخواستوں کو سنجیدگی سے لیا جائے۔

اسلام ٹائمز: پی ٹی آئی نے جلسے کئے، دھرنے دیئے لیکن ملکی سیاست میں کوئی خاطر خواہ تبدیلی نہ لاسکی، کیا یہ آپکی ناکامی ہے یا عوام ہی تبدیلی دیکھنا ہی نہیں چاہتے۔؟
میاں محمودالرشید: حکومت کو قائم ہوئے ڈیڑھ سال سے زائد کا عرصہ ہوگیا ہے، حکوم ہر جگہ گڈگورننس قائم کرنے میں ناکام رہی، پھر ہم نے حکومت کی توجہ انتخابی دھاندلیوں پر مبذول کرانا چاہی، ہم نے کہا کہ دھاندلی تو پورے ملک میں ہوئی ہے لیکن آپ صرف 4 حلقے کھول دیں، چونکہ حکومت جانتی ہے کہ ان 4 حلقوں میں ووٹوں کی تصدیق سے حالیہ انتخابات میں ہونے والی دھاندلیاں بے نقاب ہوجائیں گی اور سارا الیکشن ہی مشکوک ہوجائے گا، اس لئے وہ مختلف حیلوں بہانوں سے اس معاملہ کو ٹالٹی آ رہی ہے۔ کبھی عدالتوں سے حکم امتناعی حاصل کر لیا جاتا ہے تو کبھی معاملہ الیکشن ٹربیونل میں لٹکا دیا جاتا ہے، ہم سمجھتے ہیں کہ ان چار حلقوں میں ووٹوں کی دوبارہ گنتی نہایت اہمیت کی حامل ہے، مسلم لیگ نون کو علم ہے کہ 2013ء کے انتخابات میں ان کے امیدوار کے لئے ایک حلقے سے ایک کروڑ چالیس لاکھ ووٹ حاصل کرنا ناممکن تھا جبکہ اسی حلقے میں 2008ء کے انتخابات میں اڑسٹھ لاکھ ووٹ پڑے تھے، اسی لئے چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان نے اس حوالے سے اپنا 7 نکاتی چارٹرڈ آف ڈیمانڈ پیش کیا ہے، جس میں انتخابی اصلاحات لانے کا مطالبہ کیا گیا ہے، اور یہ بھی کہا کہ الیکشن کمیشن فوری طور پر مستعفی ہوجائے، الیکشن میں دھاندلی کرنے والوں کو سزائیں دی جائیں انتخابی عمل میں اصلاحات لا کر بائیو میٹرک نظام کے لئے اے وی ایم مشینیں لائی جائیں، آج ہم سے بھی پسماندہ ممالک میں یہ مشینیں لائی جا چکی ہیں، مگر ہم کیوں نہ لاسکے۔

سمندر پار پاکستانیوں کو ووٹ کا حق دیا جائے، غیر جانبدار نگران حکومت کا قیام یقینی بنایا جائے، ایسے نگران مقرر نہ کئے جائیں جو 35 پنکچر لگا کر اپنے لئے اگلی حکومت میں نوکری پکی کرا سکیں، نئے پاکستان کے لئے الیکشن کمیشن ایسا بنایا جائے جو آزاد اور خودمختار ہو، جس پر کسی کا دباؤ نہ ہو، الیکشن کمیشن ایسا بنایا جائے الیکشن کمیشن آر اوز کے ماتحت نہ ہو، حامد خان کے حلقے سے 90 ہزار خالی پرچیاں نکلیں، ریٹرننگ آفیسر کہاں تھے؟ انہں شرم نہیں آتی اس لئے ہم انتخابی دھاندلیوں کو بے نقاب کر رہے ہیں تاکہ آئندہ قبلہ درست کر لیا جائے۔ بعض عناصر کہتے ہیں کہ ہم حکومت گرانا چاہتے ہیں، مگر ہم سجھتے ہیں کہ ہم حکومت کو مضبوط کرنا چاہتے ہیں، اگر اسی طرح کے انتخابات ہوتے رہے تو حکومتی کمزور ہی ہوں گی۔ جمہوریت اور حکومت کی مضبوطی کے لئے صاف اور شفاف انتخابات ہی اہم ضرورت ہے، ہم انتخابات میں ہونے والی دھاندلیوں کیخلاف الیکشن کمیشن میں بھی گئے اور سپریم کورٹ بھی، مگر ہماری شنوائی نہیں ہوئی، مسلم لیگ نون کی حکومت بھانڈا پھوٹنے کے خوف سے چار حلقوں میں گنتی دوبارہ نہیں کرا رہی، دوسری طرف سے تحریک انصاف چیلنج کرتی ہے کہ خیبر پختونخوا میں جہاں کہتے ہیں، ہم دوبارہ گنتی کرانے کے لئے تیار ہیں۔ یہ کیوں دوبارہ گنتی کرانے سے گھبراتے ہیں۔؟

اسلام ٹائمز: موجودہ حکومت کو ڈیڑھ برس مکمل ہوگیا ہے، کیا آپ سمجھتے ہیں کہ شریف برادران نے غریب عوام کیلئے کچھ کیا ہے، جس سے انہیں ریلیف مل سکے۔؟
میاں محمودالرشید: مہنگائی نے غریب کا جینا محال کر دیا ہے، اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے، مہنگائی کنٹرول کرنے کے حوالے سے تو ایسا لگتا ہے کہ حکومت نام کی کوئی چیز نہیں، یہ کیسی گڈ گورننس ہے، کوئی بھی چیز حکومت کے کنٹرول میں نہیں۔ حکومت لوگوں کو روزگار دینے کی بجائے ان سے روزگار چھین رہی ہے، غربت اور فاقوں سے تنگ والدین اپنے جگر گوشوں کی جانیں لینے پر مجبور ہو رہے ہیں، ایسے میں نجکاری کے عمل کو بڑھایا جا رہا ہے، ہم کسی بھی منافع بخش سرکاری ادارے کی نجکاری کی جازت نہیں دے سکتے۔ افسوس کہ حکمرانوں کو غریب عوام کے مسائل کا علم ہی نہیں، مسلم لیگ نون کا ڈیڑھ برس عوام کے لئے عذاب میں گزرا ہے، اس عرصے میں ذرائع آمدن پیدا ہوئے اور نہ بجلی کی پیداوار بڑھا کر عوام کے اندھیروں کو دور کیا گیا۔

اسلام ٹائمز: حکومت نے پٹرول کی قیمتوں میں اتنا زیادہ ریلیف تو دیا ہے۔؟

میاں محمودالرشید: عالمی منڈی میں تیل کی قیمتیں کم ہونے سے ملک میں بھی کم ہوئی ہیں، اگر یہ پٹرول کم نہ کرتے تو عوام نے ان کے گریبان پکڑ لینے تھے، یہ تو انہوں نے مجبوری میں کیا ہے، پھر آپ دیکھیں کہ پٹرول سستا ہونے سے عام استعمال کی چیزیں کہاں سستی ہوئی ہیں، گھی، چینی، آٹا، دالیں، صابن سبزیاں، پھل اور دیگر اشیائے خورد و نوش کی قیمتوں میں کہاں کمی ہوئی ہے، پوری حکومتی مشینری بسوں کے کرائے کم کرانے کے پیچھے لگی ہوئی ہے اور وہ بھی کم نہیں کروا پا رہے، روز درجنوں بسیں پکڑ کر بند کی جا رہی ہیں، لیکن کرائے کم نہیں ہو رہے تو یہ حکومت کی واضح ناکامی ہے، اس لئے ہم کہتے ہیں کہ اقتدار میں ایسی جماعت ہونی چاہیئے، جس کی جڑیں عوام میں ہوں اور جو عوام کی منتخب کردہ ہو، یہ حکومت تو جعلی مینڈیٹ لے کر اقتدار میں آئی ہے، یہ مافیاز کے سہارے اقتدار تک پہنچی ہے اور اب وہی مافیا حکومت کے لئے درد سر بنے ہوئے ہیں۔ ٹرانسپورٹ مافیا کرائے کم نہیں کر رہا، پٹرول مافیا نے آپ کے سامنے جو مصنوعی شارٹیج کی اور اربوں روپے بٹور لئے، وہ بھی آپ کے سامنے ہے، کسی کو کچھ نہیں کہا گیا، کسی ذمہ دار کو کٹہرے میں نہیں لایا گیا، اور اب انتظار کر رہے ہیں، عوام یہ سب بھول جائیں۔ اس سے قبل بجلی کے بلوں میں جو اربوں روپے لوٹے گئے کوئی اس کا ذمہ دار سامنے آیا، نہیں، یہ سب حکومت کی ملی بھگت سے ہوتا ہے اور اس میں سے باقاعدہ حصہ رائے ونڈ جاتا ہے۔ ورنہ یہ کیسے ممکن ہے کہ کوئی ملک میں اربوں روپیہ لوٹ لے اور حکومت کچھ بھی نہ کرسکے۔ اس کے دو ہی مطلب ہیں، ایک یہ کہ یہ حکومت نااہل ہے، جو مافیاز کے خلاف کچھ کرنے کی اہلیت ہی نہیں رکھتی اور دوم یہ کہ یہ حکومت مافیاز کے ساتھ ملی ہوئی ہے۔ جیسا کہ گورنر پنجاب چودھری محمد سرور نے کہا کہ یہاں مافیاز گورنر سے زیادہ طاقتور ہیں، تو یہ حکومت خود ایک مافیا ہے، جو دھاندلی سے اقتدار کے ایوانوں میں گھس بیٹھی ہے۔ اسے نکال باہر کرنے کے لئے عوام کو متحد ہو کر باہر نکلنا ہوگا۔

اسلام ٹائمز: سنا ہے چودھری محمد سرور تحریک انصاف میں شامل ہو رہے ہیں، انہوں نے عمران خان سے ملاقات بھی کر لی ہے۔؟
میاں محمودالرشید: جی ملاقات ہوئی ہے، اس میں عمران خان صاحب نے انہیں جاوید ہاشمی کی جگہ مرکزی صدر بنانے کی پیش کش کی ہے۔ اس حوالے سے گورنر کے کچھ تحفظات تھے، جو انہوں نے عمران خان سے بیان کئے اور اپنے مقاصد بھی بتائے۔ چودھری محمد سرور اور عمران خان کی سوچ کافی ملتی ہے۔ دونوں عوام کی فلاح اور ترقی چاہتے ہیں، اس لئے امید ہے کہ وہ جلد پی ٹی آئی جوائن کر لیں گے۔ عمران خان نے انہیں کھل کر کہا ہے کہ وہ پارٹی میں فیصلے کرنے میں آزاد ہوں گے، اور ہماری جماعت کی یہ خوبی ہے کہ ہر عہدیدار اپنی بات بلا جھجھک کرسکتا ہے، ہم تو اپنے قائد کا بھی احتساب کرتے ہیں، اس کے برعکس نون لیگ ایک خاندان کی جماعت ہے، جس میں شریف برادران ہیں اور ان کے ساتھ ان کے رشتہ دار اور عزیز و اقارب ہیں، میاں نواز شریف کو اپنے کسی ایم این اے یا ایم پی اے سے ہاتھ تک ملانا گورا نہیں کرتے، نہ ہی ان سے کوئی ملاقات کرتے ہیں، یہ دھرنے کے دنوں میں ان کی گردن سے سریا کچھ نکلا تھا اور وہ پارلیمنٹ کے اجلاسوں میں بھی شریک ہوئے تھے اور اپنے پارٹی رہنماؤں سے بھی مل لیا کرتے ہیں، لیکن اب پھر اپنی پرانی روش پر آگئے ہیں اور اس کا اندازہ چودھری محمد سرور کو بھی اچھی طرح ہوگیا ہے۔ تو ہم نے اپنی پارٹی میں جمہوری روایات کو زندہ رکھا ہوا ہے، ہم ملک میں بھی حقیقی جمہوریت چاہتے ہیں۔ جبکہ نون لیگ آمریت کی پیداوار ہے اور اس کی قیادت کی سوچ بھی آمرانہ ہے۔

اسلام ٹائمز: کچھ حلقوں کا کہنا ہے کہ پی ٹی آئی کو پنجاب میں جماعت اسلامی نے ہائی جیک کر رکھا ہے، اور اب تو پاسبان کو بھی پی ٹی آئی کے پلیٹ فارم سے متحرک کیا جا رہا ہے، جو جماعت اسلامی کا ہی ایک ذیلی ونگ تھا۔؟
میاں محمودالرشید: یہ بے بنیاد پروپیگنڈہ ہے، میں اور اعجاز چودھری صاحب جماعت اسلامی سے ہی آئے ہیں لیکن ہم اپنی پارٹی تبدیل کرچکے ہیں، یہ بات درست ہے کہ ہماری وابستگی جماعت اسلامی کے ساتھ رہی ہے، لیکن یہ ماضی کا قصہ ہے، اب ہم تحریک انصاف کے کاز کے مطابق کام کر رہے ہیں، ہم عمران خان کی قیادت میں اپنا سیاسی سفر جاری رکھے ہوئے ہیں، سیاست میں ایسا چلتا ہے، تاریخ تو یہ بھی بتاتی ہے کہ میاں نواز شریف ذوالفقار علی بھٹو کے لئے نعرے لگاتے رہے ہیں، جب وہ گورنمنٹ کالج میں زیر تعلیم تھے، تو اب ہم ان پر یہ الزام تو نہیں لگا سکتے کہ وہ پیپلز پارٹی میں تھے، اس لئے انہوں نے مسلم لیگ کو ہائی جیک کیا ہوا ہے، وہ تو اب بھی زرداری صاحب کو اپنا بھائی کہتے ہیں اور مشکل میں ان کے ساتھ ہی مشاورت کرتے ہیں، تو کیا وہ پیپلز پارٹی میں ہیں؟ ایسا نہیں ہوتا، ہم تحریک انصاف میں ہیں اور تحریک انصاف میں ہی رہیں گے، جماعت اسلامی کا اپنا کاز اور قد کاٹھ ہے، جس کے مطابق وہ کام کر رہی ہے، ہم وہاں اپنے آپ کو ان فٹ محسوس کرتے تھے، اس لئے ہم نے اسے خیر باد کہہ دیا، اب ہم تحریک انصاف میں ہیں اور تحریک انصاف میں ہی رہیں گے۔ جہاں تک پاسبان کا تعلق ہے تو میں نے بھی سنا ہے کہ پی ٹی آئی کے مصطفٰی رشید صاحب اسے فعال کر رہے ہیں۔ سنا ہے اس میں تحریک انصاف، پاکستان عوامی تحریک، جماعت اسلامی اور دیگر جماعتوں کے نمائندگان بھی شامل ہوں گے، اگر کوئی اچھا پلیٹ فارم بنتا ہے تو یہ اچھی بات ہے، سیاسی جدوجہد کے لئے پلیٹ فازمز جتنے زیادہ ہوں گے، حکومت پر اتنا زیادہ دباؤ پڑے گا۔

اسلام ٹائمز: الطاف حسین کیساتھ تحریک انصاف نے اب محاذ کھول لیا ہے، اسکے کوئی خاص مقاصد ہیں۔؟
میاں محمودالرشید: پی ٹی آئی عوام کی جماعت ہے، ہم ہمیشہ عوام کے حقوق کی بات کرتے ہیں، جہاں عوام پر ظلم ہو رہا ہو، وہاں ہم خاموش نہیں رہ سکتے، ایم کیو ایم نے کراچی میں عوام کا جینا محال کر رکھا ہے، وہ خود اپنے ہی بندوں کو مار کر پھر ان کی لاشوں پر سیاست شروع کر دیتے ہیں، کراچی میں 257 افراد کو بھتہ نہ دینے پر جلا دیا گیا۔ عوام اب دہشت گردی سے تنگ آچکے ہیں۔ الطاف حسین ذہنی مریض ہے، آپ ان کی تقریریں سنیں واضح پتہ چلتا ہے کہ اس وقت کس حالت میں ہیں۔ کراچی کے امن کو تباہ کرنے میں ان کا بڑا ہاتھ ہے، کراچی میں ٹارگٹ کلنگ میں بھی متحدہ کا مسلح ونگ ملوث ہے، اسے ختم کئے بغیر کراچی میں امن ہوسکتا ہے نہ ٹارگٹ کلنگ ختم ہوسکتی ہے۔ الطاف حسین نے ہماری خواتین کے خلاف جو زبان استعمال کی، ان کے خلاف برطانیہ میں ہتک عزت کا دعویٰ دائر کر رہے ہیں۔ طارق عظیم کے بیٹے نے تو کہا ہے کہ میرے والد کا جنازہ اس کے قاتلوں نے ہی اٹھا رکھا تھا۔ عمران فاروق کے 2 قاتل حکومت کی تحویل میں ہیں، حکومت انہیں فوری طور پر برطانیہ کے حوالے کرے، تاکہ الطاف حسین کے خلاف کیس چل سکے، حکومت خود مصلحت پسندی سے کام لے رہی ہے۔ اس لئے ہم کہیں گے کہ حکومت اپنی پوزیشن واضح کرے۔ الطاف حسین بزدل آدمی ہے، جو موت کے ڈر سے پاکستان آتا نہیں لیکن یہاں قتل وغارت کروا رہا ہے۔ 23 سال سے برطانیہ میں بیٹھا ہے اور مولانا فضل الرحمان کی طرح ہر آنے والی حکومت میں شامل ہوجاتا ہے، اس سے وہ خود کو بچا لیتا ہے۔ صحافی ولی خان بابر کو بھی ایم کیو ایم والوں نے ہی قتل کیا۔ کراچی بزنس حب ہے، یہاں امن ہوگا تو ملک خوشحال ہوگا۔ ہماری قیادت نے ایم کیو ایم کا مکمل بائیکاٹ کر دیا ہے، جس فورم پر ایم کیو ایم ہوگی، ہم وہاں نہیں بیٹھیں گے۔

اسلام ٹائمز:سانحہ شکار پور فرقہ واریت ہے یا دہشتگردی کے واقعات کا تسلسل ہے، آپ کیا کہیں گے۔؟
میاں محمودالرشید: شکار پور سانحہ میں وہی دہشتگرد ملوث ہیں جو سانحہ پشاور میں ملوث تھے، لیکن وفاقی حکومت اتنے بڑے نقصان کے باوجود دہشت گردوں کے خلاف کارروائی سے گریزاں ہے۔ وزیر داخلہ کی اور زبان ہے، وزیراعظم کی اور، یوں لگتا ہے دونوں میں شدید اختلافات ہیں، کیونکہ یہاں لاہور میں ہونے والی انسداد دہشت گردی فورس کی پاسنگ آؤٹ میں تمام اہم شخصیات شریک ہوئیں، آرمی چیف تک آئے تھے لیکن اس تقریب میں وفاقی وزیر داخلہ چودھری نثار شریک نہیں ہوئے، وہ اچھی پریس کانفرنس کر لیتے ہیں لیکن عمل کے معاملے میں ان کی کارکردگی صفر ہے، انہوں نے بڑے دھڑلے سے کہہ دیا کہ دہشت گردی میں 10 فیصد مدارس ملوث ہیں، اب جب کہا جا رہا ہے کہ وہ 10 فیصد مدارس کون سے ہیں، انہیں بے نقاب کریں تو وہ آئیں بائیں شائیں کر رہے ہیں، انہیں کسی بات کا علم ہی نہیں ہوتا، سانحہ شکار پور کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ ہمیں پتہ تھا شکار پور دہشت گردوں کی گزر گاہ بن چکا ہے، یہاں کوئی واقعہ ہوسکتا ہے، تو پتہ تھا تو کارروائی کیوں نہیں کی گئی، سندھ کی صوبائی حکومت وفاق کو اور وفاق سندھ کو ذمہ دار ٹھہرا رہا ہے، جبکہ میرے خیال میں سانحہ شکار کے ذمہ دار دونوں ہیں۔ حکومت اب بھی دہشتگردوں کے حوالے سے نرم گوشہ رکھتی ہے، اور یہ رویہ کسی اور بڑے سانحے کو جنم دے سکتا ہے۔ حکومت اب بھی ہوش کے ناخن لے، اور دہشتگردوں کے خلاف بلاامتیاز کارروائی کی جائے۔
خبر کا کوڈ : 439001
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش