0
Friday 13 Feb 2015 08:27

آیت اللہ خامنہ ای کے خط کا لہجہ پدرانہ تھا جس میں مسلمانوں کا حقیقی انسانی چہرہ نمایاں کیا گیا، فادر ڈیوڈ اسمتھ

آیت اللہ خامنہ ای کے خط کا لہجہ پدرانہ تھا جس میں مسلمانوں کا حقیقی انسانی چہرہ نمایاں کیا گیا، فادر ڈیوڈ اسمتھ
ڈیوڈ اسمتھ 1962ء میں آسٹریلیا کے دارالحکومت سڈنی کے علاقے نیوٹاون میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد بروس اسمتھ ایک جانے پہچانے اور معروف پادری تھے۔ ڈیوڈ اسمتھ نے 1984ء میں فلسفہ میں بی اے آنرز کی ڈگری حاصل کی اور 1985ء میں ایک دینی مدرسے میں داخلہ لے لیا۔ انہیں 1989ء میں پادری کا درجہ عطا کیا گیا۔ وہ عالمی سطح پر انسانی حقوق کے بڑے حامی جانے جاتے ہیں۔ انہوں نے مسئلہ فلسطین میں اسرائیل کے قبضے کی کھل کر مخالفت کی اور شام میں بھی مغربی حمایت یافتہ دہشت گردوں کی شدید مخالفت کی ہے۔ اسی وجہ سے ان کا چرچ اب تک کئی بار شدت پسند صہیونی عناصر کی طرف سے دہشت گردانہ حملوں کا نشانہ بن چکا ہے۔ پادری ڈیوڈ اسمتھ فادر ڈیو کے نام سے مشہور ہیں۔ فارس نیوز ایجنسی نے امام خامنہ ای کی جانب سے یورپ اور شمالی امریکہ کے جوانوں کے نام فکرانگیز خط لکھے جانے کے بعد فارد ڈیوڈ اسمتھ سے انٹرویو لیا، جس کا اردو ترجمہ اسلام ٹائمز اردو کے قارئین کی خدمت میں پیش کیا جا رہا ہے۔ ادارہ
 

سوال: پہلی نظر میں آپ آیت اللہ خامنہ ای کے خط کے بارے میں کیا سوچتے ہیں۔؟
فادر ڈیو: میری نظر میں یہ خط بہت اعلٰی تھا اور انتہائی مناسب موقع پر لکھا گیا۔ خط کا لہجہ پدرانہ تھا اور اس میں کسی قسم کی مقابلہ بازی دکھائی نہیں دیتی تھی۔ یہ خط مغربی جوانوں کو مسلمانوں کا انسانی چہرہ دکھانے میں بہت مددگار ثابت ہوسکتا ہے۔ آیت اللہ خامنہ ای نے خط لکھ کر جو راستہ اختیار کیا، وہ بالکل درست اور انتہائی عاقلانہ تھا۔ 
 
سوال: آیت اللہ سید علی خامنہ ای نے یورپ اور شمالی امریکہ کے جوانوں کے نام لکھے گئے اپنے خط میں انہیں مخاطب قرار دیتے ہوئے کہا: "مجھے آپکے قلوب میں حقیقت کی تلاش کا احساس زندہ اور زیادہ شدید نظر آتا ہے۔" آپ اس بارے میں کیا کہتے ہیں۔؟
فادر ڈیو: میری نظر میں ان کی یہ بات انتہائی درست اور عاقلانہ ہے۔ یہ ایک بنیادی مسئلہ ہے کہ ہم حاکم نظام کی جانب سے اپنے جوانوں کی عقل پر اثرانداز ہو کر ان کے ذہن میں غلط تصورات ڈالنے سے پہلے انہیں اپنا مخاطب قرار دیں۔ شدت پسندی اور من مانی پر مبنی سوچ ہمیشہ یونیورسٹیز سے جنم لیتی ہے۔ یہ ایسی جگہ ہے جہاں سے تبدیلی کا آغاز ہونا چاہئے۔ لہذا آیت اللہ خامنہ ای نے انتہائی مناسب قدم اٹھاتے ہوئے اسلام کے بارے میں اپنے افکار پر نظرثانی کی درخواست کو جوانوں کے سامنے پیش کیا ہے۔ 
 
سوال: آج مغربی دنیا میں اسلام فوبیا پھیلانے کی کوششیں اپنے عروج پر ہیں۔ آپکی نظر میں آیت اللہ سید علی خامنہ ای کیجانب سے لکھا گیا خط اس ضمن میں کن اثرات کا حامل ہوسکتا ہے۔؟
فادر ڈیو: میں آپ کی بات سے اتفاق کروں گا، بعض عناصر کے مفادات اسلام فوبیا پھیلانے اور قوم و مذہب کے نام پر عوام میں اختلاف ڈالنے سے وابستہ ہیں، لہذا وہ ایسے منصوبے بناتے رہتے ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ آیت اللہ خامنہ ای کے خط میں ذکر شدہ اعلٰی نکات اور مطالب، خط کے پدرانہ لہجے اور مقابلہ بازی سے پرہیز پر توجہ دے کر مسلمانوں کے حقیقی انسانی چہرے کی شناخت حاصل کی جاسکتی ہے اور یہ امر مغربی جوانوں کے اذہان پر بہت اچھے اور مثبت اثرات مرتب کرے گا۔ 
 
سوال: آیت اللہ سید علی خامنہ ای نے اپنے خط میں مغربی محققین اور مورخین سے یہ سوال پوچھا ہے کہ کیا وجہ ہے کہ مغربی دنیا کا ضمیر کئی عشروں یا صدیوں کی تاخیر سے بیدار ہوتا ہے؟ آپ خط کے اس حصے کے بارے میں کیا کہتے ہیں۔؟
فادر ڈیو: مجھے افسوس سے کہنا پڑ رہا ہے کہ آیت اللہ خامنہ ای کی یہ بات بالکل درست ہے۔ جب منفی پروپیگنڈہ اپنے عروج پر ہوتا ہے اور عوام حقیقت کو نہیں دیکھ پاتے تو ایسے حالات میں بعض اوقات اس منفی پروپیگنڈے کے اثرات ختم ہوتے ہوتے ایک نسل گزر جاتی ہے اور اس کی جگہ نئی نسل آجاتی ہے۔ 
 
سوال: ہم اچھی طرح جانتے ہیں کہ آپکی بہت سے مسلمان علماء دین کیساتھ دوستی اور خط و کتابت ہے۔ آپکی نظر میں اسلام کا چہرہ بگاڑ کر پیش کرنے میں مغربی میڈیا کا کیا کردار رہا ہے۔؟
فادر ڈیو: میرا عقیدہ ہے کہ بعض قوتیں صرف اپنے مفادات کی خاطر عیسائیوں اور مسلمانوں، مسلمانوں اور یہودیوں، مختلف یورپی اقوام، ایرانی اقوام اور عرب اقوام میں اختلافات کی آگ بھڑکا رہی ہیں۔ البتہ آخرکار حقیقت ظاہر ہو کر رہے گی، لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس وقت تک کس قدر نقصان ہوچکا ہوگا اور کس قدر قیمتی اور بیگناہ جانیں ضائع ہوچکی ہوں گی۔
 
سوال: کیا آپکی نظر میں مغربی معاشرے میں اسلام کا غیر حقیقی چہرہ اجاگر کئے جانے میں خود مسلمان بھی قصوروار ہیں۔؟
فادر ڈیو: میں اس مسئلے میں مسلمان معاشروں کو ہرگز قصوروار نہیں ٹھہراوں گا۔ مجھے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ درحقیقت اس ملک (آسٹریلیا) میں مسلمان جوانوں کی ایسی بڑی تعداد موجود ہے جو شدید غصے کا شکار ہیں اور بعض مشکلات کا باعث بن رہے ہیں، لیکن اس کے باوجود میں سمجھتا ہوں کہ ان کا یہ غصہ بلاوجہ نہیں بلکہ اس کی معقول وجہ موجود ہے۔ 
 
سوال: آپکی نظر میں مغربی جوانوں کی دین کیطرف واپسی میں آیت اللہ خامنہ ای کا خط کس حد تک موثر ثابت ہوسکتا ہے۔؟
فادر ڈیو: یہ وہ چیز ہے جس کی ہم امید لگائے بیٹھے ہیں اور اس کیلئے دعاگو بھی ہیں۔ 
 
سوال: فرانس کے حالیہ دہشتگردانہ اقدامات کے بعد مسلمان اور عیسائی مذہبی رہنماوں نے دینی مقدسات کی توہین کیلئے آزادی اظہار کے غلط استعمال کی پرزور مذمت کی، جیسا کہ پاپ نے بھی اس کا اظہار کیا۔ آپکی نظر میں مذاہب کیخلاف توہین آمیز رویے کے خاتمے میں مذاہب کا کردار کس حد تک ہے۔؟
فادر ڈیو: میں سمجھتا ہوں کہ پاپ نے اپنے بیان سے یہ ثابت کر دیا کہ انہوں نے اس ایشو پر بہت اچھا موقف اختیار کیا۔ جیسا کی پاپ کا منصب سنبھالنے کے بعد انہوں نے کئی دوسرے ایشوز پر بھی بہت اچھے انداز میں عمل کیا ہے۔ میرا عقیدہ ہے کہ ہم صرف دینی رہنماوں سے ہی یہ توقع رکھ سکتے ہیں کہ وہ اس مسئلے میں (دینی مقدسات کی توہین کی روک تھام) موثر اقدامات انجام دے سکتے ہیں۔ ہمارے سیاستدان نہ چاہتے ہوئے بھی طاقت کے کھیل میں کھو چکے ہیں اور اگر وہ چاہیں بھی تو حقیقت کے مطابق اظہار خیال نہیں کرسکتے۔ اسی طرح ہمارے دینی ادارے بھی حاکم نظام سے بندھ چکے ہیں، لیکن ابھی ان میں کچھ حد تک خود مختاری باقی ہے، ابھی ان میں بعض اقدار زندہ ہیں اور ان کا ضمیر ایک حد تک بیدار ہے۔ لیکن میری امید مجھ سے جھوٹ بول سکتی ہے اور میں دینی اداروں پر زیادہ اعتماد نہیں کرسکتا۔ 
 
سوال: کیا آپ آیت اللہ سید علی خامنہ ای کے خط کے بارے میں کچھ اور کہنا چاہتے ہیں۔؟
فادر ڈیو: میں صرف یہ کہنا چاہوں گا کہ میری نظر میں یہ اقدام ایک تخلیقی انیشی ایٹو تھا اور اظہار خیال میں شجاعت پر مبنی تھا، جو آیت اللہ خامنہ ای کی جانب سے انجام پایا۔ میری دعائیں ہمیشہ ان کے ساتھ ہیں اور مجھے امید ہے کہ وہ، پاپ اور دنیا بھر کے دوسرے عالمی رہنما ایک ایسی نئی دنیا کے تحقق کا زمینہ فراہم کریں، جہاں حقیقت اور صداقت کی قدر و قیمت پیسے اور طاقت سے زیادہ ہو۔ 
خبر کا کوڈ : 439808
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش