1
0
Tuesday 17 Feb 2015 01:23
طالبان بھی دہشتگرد ہیں اور الطاف بھی، دونوں کی سوچ اور رویہ ایک جیسا ہے

دہشتگردی میں ملوث خفیہ ایجنسیوں کی بے بی متحدہ قومی موومنٹ پر پابندی لگائی جائے، آفاق احمد

امریکا اور بھارت کراچی کو عدم استحکام سے دوچار کرکے ایٹمی پروگرام متاثر کرنا چاہتے ہیں
دہشتگردی میں ملوث خفیہ ایجنسیوں کی بے بی متحدہ قومی موومنٹ پر پابندی لگائی جائے، آفاق احمد
کراچی سے تعلق رکھنے والے آفاق احمد مہاجر قومی موومنٹ (MQM) پاکستان کے چیئرمین ہیں۔ آپ کسی تعارف کے محتاج نہیں ہیں۔ آپ نے الطاف حسین کی سربراہی میں بننے والی آل پاکستان مہاجر اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن میں شمولیت اختیار کی، مہاجر قومی موومنٹ کے قیام کے بعد آپ اسکے مرکزی عہدوں پر فائز رہے، کچھ عرصہ بعد نظریاتی اختلافات کے باعث آفاق احمد نے الطاف حسین سے علیحدگی اختیار کرلی اور ایم کیو ایم (حقیقی) کے نام سے ایک تنظیم بنائی، آپ 2004ء سے 2011ء تک اسیر بھی رہے، بعد ازاں سندھ ہائی کورٹ کے احکامات پر آپ کو رہا کر دیا گیا۔ ”اسلام ٹائمز“ نے آفاق احمد کے ساتھ انکی رہائش گاہ پر ان کی حالیہ پریس کانفرنس کے حوالے سے ایک مختصر نشست کی، اس موقع پر آپ سے کیا گیا خصوصی انٹرویو قارئین کیلئے پیش ہے۔ ادارہ

اسلام ٹائمز: گذشتہ دنوں آپ نے اپنی پریس کانفرنس میں کہا کہ متحدہ قومی موومنٹ ایجنسیوں کی بے بی ہے، جسے اداروں نے پرورش کرکے شہر پر مسلط کیا ہے۔ ادارے صرف اپنی بے بی یعنی اپنی انویسٹمنٹ بچانے کیلئے شہر کی تباہی کے باوجود خاموشی اختیار کئے ہوئے ہیں، آپ نے کہا کہ قومی سلامتی کے اداروں کی بے بی تنظیم متحدہ قومی موومنٹ اگر "سی آئی اے" اور "را" کی گود میں چلے گئی ہے تو خفیہ ادارے اپنی جمع پونجی بچانے کے بجائے ملک کو بچانے کی کوشش کریں، کیا آپکا یہ بیان قومی سلامتی کے اداروں کیخلاف سنگین الزامات نہیں ہیں؟ اور اگر اس میں صداقت ہے تو کیا ملکی سلامتی کے ادارے ہی ملک کیخلاف ہیں؟ کیا کہیں گے ان سب کے حوالے سے۔؟
آفاق احمد:
ملکی سلامتی یا قومی سلامتی کے اداروں کے خلاف ہونے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، یہ جو تاثر آپ نے لیا ہے وہ غلط ہے، میں نے جو بات اپنی پریس کانفرنس میں کہی تھی، وہ یہ ہے کہ متحدہ قومی موومنٹ پاکستانی خفیہ ایجنسی کی بے بی ہے، اور یہ بات کہیں بھی ڈھکی چھپی نہیں ہے، اور صرف متحدہ قومی موومنٹ ہی نہیں بلکہ بہت سی دیگر سیاسی جماعتیں بھی ایسی ہیں جنہیں خفیہ ایجنسیوں کی مدد سے بنایا گیا۔ ایک زمانے میں قومی اتحاد بنا تھا نو ستاروں کا، جس پر باقاعدہ سپریم کورٹ میں کیس بھی چلا، ریٹائرڈ ایئر مارشل اصغر خان صاحب اس میں پیش بھی ہوئے، پیسے دیئے گئے، بنائی گئی، تو ادارے اس قسم کے کام کرتے ہیں، کیونکہ انہیں اس میں کہیں قومی مفاد نظر آتا ہے تو کرتے ہیں، اب یہ اچھا عمل ہے یا برا عمل ہے، یہ ایک الگ اور طویل بحث ہے، لیکن اس حوالے سے میں اپنے مؤقف پر قائم ہوں، اس میں کوئی ایسا نہیں ہے کہ یہ کوئی چھپی ہوئی چیز ہے کہ متحدہ قومی موومنٹ ملکی سلامتی کے اداروں کی بے بی ہے، اور جس زمانے میں ذوالفقار بھٹو کو پھانسی دی گئی تھی، اس زمانے میں شہری علاقوں سے نئی لیڈرشپ نکالنے کیلئے یہ کام رئیس امروہوی صاحب کو ضیاء کے دور میں سونپا گیا تھا، اور ضیاء صاحب کی ذاتی خواہش پر سونپا گیا تھا، متحدہ قومی موومنٹ جو کہ اس وقت مہاجر قومی موومنٹ تھی، اسے اداروں نے سپورٹ کرکے بنایا تھا۔ اس وقت مہاجر عوام میں لسانی تفریق کے باعث ایک بہت بڑا خلاء تھا، جسے رئیس امروہوی صاحب نے لسانی فسادات کے وقت پورا کیا، ان کے بعد اس کام کو مہاجر قومی موومنٹ نے جاری رکھا۔ میرا کہنا صرف یہ ہے کہ متحدہ قومی موومنٹ جو ماضی میں مہاجر قومی موومنٹ تھی، بعد میں الطاف حسین کی قیادت میں متحدہ قومی موومنٹ میں تبدیل کر دی گئی، اس پر اداروں کی انویسٹمنٹ ہے، لیکن اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ الطاف حسین اور متحدہ قومی موومنٹ جو اداروں کی بے بی تھی اور ہے، اگر وہ جنگ کرکے یا اپنے گھر سے فرار ہوکر بیرونی ہاتھوں میں کھیل رہی ہے، بھارتی خفیہ ایجنسی را اور امریکی خفیہ ایجنسی سی آئی اے کی گود میں جا کر بیٹھ گئی ہے، اور ملکی مفادات کے خلاف کام کر رہی ہے، تو اس وقت اداروں کو فیصلہ کرنا ہے کہ وہ اپنی انویسٹمنٹ کو بچانا چاہتے ہیں یا ملکی سلامتی بچانا چاہتے ہیں، ملک و قوم کا تحفظ چاہتے ہیں، اور میرا خیال ہے کہ قومی سلامتی کے اداروں اور خفیہ ایجنسیوں کی ترجیح ملکی سلامتی کا تحفظ ہوگی، کہ اگر ان کی سپورٹ سے بنائی گئی جماعت ملکی سلامتی کے خلاف چلی جائے تو ظاہر ہے کہ ان کو اپنی انویسٹمنٹ سے زیادہ ملکی سلامتی عزیز ہوگی اور ایسا ہونے والا ہے۔

اسلام ٹائمز: اداروں کیجانب سے ملکی سلامتی عزیز رکھی جائے گی تو آپ کیا چاہتے ہیں کہ متحدہ قومی موومنٹ پر پابندی عائد کر دینی چاہیئے، اسے ختم کر دینا چاہیئے۔؟
آفاق احمد:
متحدہ قومی موومنٹ پر پابندی لگنی چاہیئے، دیکھیں تنظیموں پر پابندی دہشتگردی اور ملکی سلامتی کے خلاف کام کرنے کی وجہ سے ماضی میں بھی لگتی رہی ہے، جیسا کہ ماضی میں ولی خان صاحب کے والد خان عبدالغفار خان عرف باچا خان پاکستان کو تسلیم کرنے سے انکار کرتے رہے، اور انہوں نے بار بار بھارت سے اپنی دوستی کا اظہار کیا، ان کے خلاف جو شواہد اداروں نے جمع کئے تھے، اس بنیاد پر ان پر بھی پابندی لگی تھی، لہٰذا صرف متحدہ قومی موومنٹ ہی نہیں بلکہ کوئی بھی جماعت یا تنظیم ملک میں دہشتگردی میں ملوث ہے، ملکی سلامتی کے خلاف فعال ہے تو اس پر پابندی لگنی ہی چاہیئے۔

اسلام ٹائمز: 2013ء کے عام انتخابات کے نتائج کی روشنی میں متحدہ قومی موومنٹ کراچی کی سب سے بڑی اور ملک کی چوتھی بڑی سیاسی جماعت ہے، 88 میں بینظیر بھٹو کی حکومت ہو یا 90 کی نواز حکومت، 93 کی بینظیر کی حکومت ہو یا 97 کی نواز حکومت، پھر اسکے بعد مشرف، قاف لیگ، زرداری اور حالیہ نواز حکومت، تمام فوجی و سول حکمرانوں اور جماعتوں نے ایم کیو ایم کو اپنا اتحادی بنایا، ان فوجی اور سول حکمرانوں اور جماعتوں کے حوالے سے کیا کہیں گے؟ جنہوں نے ایم کیو ایم کو اپنا اتحادی بنایا۔؟
آفاق احمد:
پیپلز پارٹی سانحہ بلدیہ ٹاؤن فیکٹری کی جے آئی ٹی رپورٹ کے سامنے آنے کے بعد متحدہ قومی موومنٹ کو اپنی حکومت میں شامل کر رہی ہے، جو پیپلز پارٹی کا انتہائی غلط اقدام ہے، اس لئے کہ اسکا تاثر یہ جائے گا کہ پیپلز پارٹی سانحہ بلدیہ ٹاؤن فیکٹری میں زندہ جلائے گئے بے گناہ افراد کے لواحقین کو انصاف فراہم کرنے کے بجائے قاتلوں کو حکومت میں حصہ دار بنا کر انہیں تحفظ فراہم کر رہی ہے، تو یہ موقع غیر مناسب ہے، آپ کے سوال میں مینڈیٹ کی بات کی گئی، تو ایک بات آپ اپنے ذہن میں رکھیں کہ جس دن، جیسا کہ ہم بار بار مطالبہ کرتے ہیں کہ کراچی کو ڈی ویپانائز کرو، ڈی ویپانائز کرو، جس دن کراچی کو ڈی ویپانائز کر دیا گیا، اسلحہ سے پاک بنا دیا گیا، اس دن الطاف حسین اپنی موت آپ مر جائے گا۔ اگر کونسلر کی نشست بھی جیت لے تو بہت بڑی بات ہے، دیکھیں جس زمانے میں وزیرستان کے اندر طالبان اپنی شرعی عدالتیں لگا رہے تھے اور اسلحے کی بنیاد کے اوپر انہوں نے پورا وزیرستان کنٹرول کیا ہوا تھا، اگر وہاں انتخابات کرائے جاتے تو نتائج کیا نکلتے، بالکل اسی طرح نکلتے جس طرح اسلحے کے زور پر الطاف کے حق میں یہاں کراچی میں نکلتے ہیں، لہٰذا اگر کراچی میں اسلحے کی بنیاد پر لوگوں کو یرغمال بنا کر ان کے بدلے خود ہی جا کر ووٹ ڈال دیا جائے تو اس کو مینڈیٹ نہیں کہنا چاہیئے اور نہ ہی یہ مینڈیٹ ہے، جس دن کراچی کے اندر سے اسلحہ ختم کر دیا جائے گا، اور میں اس وقت لائسنسز والے اسلحے کو بھی غیر قانونی کہتا ہوں کیونکہ کراچی میں لائسنسز بھی سیاسی بنیادوں پر کوٹے پر دیئے گئے ہیں، کسی کا بھی کرمنل ریکارڈ چیک نہیں کیا گیا ہے، ایک ایک ایم این اے کو بیس بیس ممنوعہ بور کے لائسنسز دیئے گئے ہیں، جیسا کہ ذوالفقار مرزا نے کہا کہ میں نے سندھ میں ساڑھے تین لاکھ اسلحہ لائسنسز جاری کئے ہیں، جس میں متحدہ قومی موومنٹ کو چالیس فیصد شیئر ملا ہے، اتنا اسلحہ تو لائسنسز والا ہے، اور جو غیر قانونی اسلحہ ہے، اس کا کوئی ریکارڈ ہی نہیں ہے، پھر کراچی میں نیٹو کا اسلحہ لاپتہ ہے، پھر کراچی میں بھارتی را نے اسلحہ پہنچایا، وہ اسلحہ الگ ہے، تو جب تک یہ اسلحہ ختم نہیں ہوگا، کراچی کی عوام یرغمال بنی رہے گی، اسلحے کے زور پر عوامی مینڈیٹ بھی یرغمال بنا رہے گا، آپ انتخابات کو مینڈیٹ کہتے رہیں مگر میں اسے مینڈیٹ نہیں مانتا۔

اسلام ٹائمز: آپ نے کہا کہ ایجنسیوں کی بے بی ایم کیو ایم سی آئی اے اور را کی گود میں چلی گئی ہے، تو کیا امریکا اور بھارت اسکے ذریعے پاکستان کو عدم استحکام سے دوچار کرنے کیلئے کراچی میں دہشتگردی کروا رہے ہیں؟ جیسا کہ 13 فروری 2014ء میں آپ نے اپنے جاری ایک بیان میں کہا کہ کراچی میں امریکا اور بھارت نواز مذہبی انتہا پسند گروہ اور متحدہ مشترکہ کارروائیوں کے ذریعے کراچی کا امن تباہ کر رہے ہیں، دونوں عناصر کے قائدین کی ملاقاتوں اور کراچی میں مشترکہ دہشتگردیوں کے شواہد ہمارے پاس موجود ہیں۔؟
آفاق احمد:
کراچی پاکستان کا اقتصادی حب ہے، کراچی کو عدم استحکام سے دوچار رکھنے کا مقصد یہ ہے کہ پاکستان معاشی طور پر اتنا کمزور رہے کہ اپنے نیوکلیئر پروگرام کو جاری نہ رکھ سکے، پاکستان نے اپنا نیوکلیئر پروگرام آزادانہ طور پر چلایا، بغیر کسی کی سپورٹ کے چلایا، اللہ کا لاکھ لاکھ شکر اور احسان ہے کہ ڈاکٹر قدیر اور انکے بعد انکی بہت بڑی ٹیم میسر آئی کہ بھارت کے پاس چھبیس ایٹمی ری ایکٹر ہونے کے باوجود پاکستان اپنے ڈیڑھ ایٹمی ری ایکٹر، پورے دو بھی مکمل نہیں ہیں، خوشاب کا زیر تعمیر ہے، اس کے باوجود آپ نے بھارت سے برابری کی بنیاد پر معاملات کئے اور بھارت کو دفاعی پوزیشن پر رکھا ہے، اگر آپ کمزور ہوتے تو بھارت کب کا آپ پر حملہ کر چکا ہوتا، دنیا بھر میں پاکستان کے ایٹمی پروگرام کی صلاحیت کو تسلیم کیا جاتا ہے، اگر پاکستان کی معاشی صورتحال بہتر ہوگی تو آپ بہت طاقتور ہوجائیں گے، آپ اپنے توانائی بحران کو ختم کرسکتے ہیں نیوکلیئر پروگرام کے ذریعے، اس کے ذریعے آپ اپنی دفاعی صلاحیتوں کو بڑھا سکتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ امریکا، بھارت اور دیگر پاکستان دشمن قوتیں یہ چاہتی ہیں کہ پاکستان معاشی طور پر اتنا کمزور ہوجائے کہ وہ اپنے نیوکلیئر پروگرام پر پیسہ خرچ نہ کرسکے، جس کی وجہ سے کراچی کو عدم استحکام سے دوچار رکھنے کی کوششیں کی جاتی ہیں، اس سازش میں امریکا بھی ملوث ہے، بھارت بھی ملوث ہے۔

دیکھیں ہم طالبان کی کسی بھی طور پر حمایت نہیں کرتے، دہشتگردی کسی بھی شکل میں ہو، چاہے وہ سیاسی ہو یا مذہبی، اس کی مذمت کرنی چاہیئے، یہ کہنا کہ طالبان ہشتگرد ہیں لیکن الطاف نہیں، یہ روش غلط ہے، طالبان بھی دہشتگرد ہیں، الطاف بھی دہشتگرد ہے، دونوں کی سوچ اور رویہ ایک جیسا ہی ہے، طالبان گن پوائنٹ پر اپنی سوچ زبردستی آپ پر مسلط کرنا چاہتے ہیں، الطاف کا بھی یہی رویہ ہے، یہی روش ہے۔ لہٰذا انتہاپسندی چاہے سیاسی جماعت کے اندر ہو، چاہے مذہبی جماعت کے اندر ہو، طاقت کے بل بوتے پر آپ اپنی چیز منوانا چاہتے ہیں، دونوں صورتوں سے، دونوں جانب سے دہشتگردی کا عمل ہو رہا ہے، دونوں کی مذمت کرنی چاہیئے۔ افغانستان میں روس اور امریکا کے تسلط کے دوران لاکھوں بے گناہ مارے گئے، ہزاروں، لاکھوں بچے یتیم ہوئے، جن میں بہت سارے بچوں کو بھارت، اسرائیل، امریکا وغیرہ لے جایا گیا، انکی تربیت کی گئی، اب بہت سارے طالبان آپ کو مل جائیں گے، فیس بک اور انٹرنیٹ پر دیگر جگہوں پر کہ جنہیں یہ نہیں پتہ کہ وہ کس کے امتی ہیں، نماز کا طریقہ نہیں پتہ، داڑھی رکھی ہوئی ہے، پٹھان ہیں، پشتو بول رہے ہیں، یہ وہ لوگ ہیں جو افغانستان میں حالت جنگ میں یتیم ہوئے، پھر افغانستان سے انہیں دیگر ممالک میں اسمگل کیا گیا، ان کی برین واشنگ کی گئی، انہیں طالبان کی شکل میں بھیجا جاتا ہے، اسی لئے را اور سی آئی اے کے رابطے کے جو لوگ ہیں، وہی الطاف کے بھی رابطے میں ہیں، جو طالبان پرو بھارت ہیں، پرو امریکا ہیں، انہیں طالبان نے بارودی مواد اور اس جیسی دیگر مہلک چیزیں متحدہ قومی موومنٹ کو دیں، انہیں طالبان اور متحدہ کے لوگوں کی ملاقاتیں ریکارڈ پر موجود ہیں، قومی سلامتی کے ادارے سب جانتے ہیں۔

اسلام ٹائمز: آپ نے مکتب دیوبند کی انتہائی معتبر شخصیت جامعہ بنوریہ کے سربراہ مفتی نعیم صاحب پر بھی سنگین نوعیت کے الزامات لگائے کہ فیکٹری مالکان سے دس کروڑ کی ڈیل مفتی نعیم صاحب نے کروائی، اور وہ ایک دینی ادارے کا سربراہ ہونے کے باوجود سائٹ ایریا میں متحدہ اور امن کمیٹی کے بیٹر بنے ہوئے ہیں، جو ناصرف بھتے کے معاملات طے کراتے ہیں بلکہ اپنا حصہ بھی وصول کرتے ہیں، ان الزامات میں کتنی صداقت ہے۔؟
آفاق احمد:
یہ جو آپ نے ابھی بیٹر اور حصہ وصول کرنے کی بات کی، یہ ہمارے رہنما شمشاد غوری صاحب کا ری ایکشن آیا تھا، میری پریس کانفرنس میں نہیں تھا۔ شمشاد غوری بھائی کا ری ایکشن اس پر آیا تھا کہ جب انہوں نے کہا کہ میں عدالت جاؤں گا، اس پر انہوں نے کہا کہ آپ عدالت جایئے، ہمارے پاس بہت سارے شواہد ہیں اور ہم انہیں عدالت میں پیش کرینگے، تو شمشاد غوری بھائی کے بیان میں یہ بات بالکل تھی۔ میں نے یہ کہا تھا کہ سانحہ بلدیہ ٹاؤن فیکٹری میں مفتی نعیم کو شامل تفتیش کیا جائے، اس لئے کہ فیکٹری مالکان یعنی علی انٹر پرائزز کے ساتھ جب بھتے کی وصولی کا معاملہ آیا تھا تو اس میں مفتی نعیم نے ثالث کا کردار ادا کیا تھا، اور مفتی نعیم نے ڈیل کرائی تھی، تو مفتی نعیم کو اس بھتے کی وصولی اور بھتے کے اوپر جو معاملات نہیں بن پائے، اس ساری حقیقت کا علم ہے، اگر مفتی نعیم کو شاملِ تفتیش کیا جائے تو اصل مجرمان یا ملزمان جو اس دہشتگردی میں سانحہ بلدیہ ٹاؤن فیکٹری میں براہ راست ملوث ہیں، ان کی نشاندہی کرنا آسان ہوگی، اور اس سارے معاملے میں مفتی نعیم کا کردار اس کے اندر نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ یہی وجہ ہے کہ میں نے مطالبہ کیا کہ کیونکہ سازش گورنر ہاؤس کراچی میں تیار کی گئی، رؤف صدیقی اس میں ملوث تھے، مفتی نعیم کو شام تفتیش ہونا چاہیئے، تو ان لوگوں کیلئے میں نے مطالبہ کیا کہ ان لوگوں کے نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ میں شامل کئے جائیں، جب تک عدالت اس مقدمے کا فیصلہ نہیں سنا دیتی۔

اسلام ٹائمز: آپکی پریس کانفرنس کے بعد ری ایکشن آیا کہ مکتب دیوبند پر ویسے ہی الزامات عائد کئے جاتے ہیں کہ پاکستان میں مذہبی انتہا پسند و دہشتگرد عناصر کا تعلق ان سے ہے، اور انہیں پاکستان میں اثر و رسوخ رکھنے والے ایک عرب ملک کی سپورٹ حاصل ہے، اربوں روپے کے مضاربہ اسکینڈل کے بعد اب آپکی جانب سے بھی مکتب دیوبند کی انتہائی معتبر شخصیت مفتی نعیم صاحب پر ایم کیو ایم کے ساتھ ملکر بھتہ خوری کا الزام لگا دیا گیا ہے، آپکا الزام بھی مکتب دیوبند کو بدنام کرنے کی سازشوں کا تسلسل ہے، کیا کہیں گے اس ری ایکشن کے حوالے سے۔؟
آفاق احمد:
کسی بھی شخصیت کے جرائم پر پردہ ڈالنے کیلئے مسلک کو استعمال نہیں کرنا چاہیئے، الطاف حسین اگر دہشتگردی کی بات کرتا ہے، قومی اداروں کیخلاف بات کرتا ہے تو ہم اس وقت بھی یہ کہتے ہیں کہ یہ الطاف کی نظر ہوتی ہے، الطاف کا اقدام ہوتا ہے، اسے مہاجر قوم سے نہ جوڑا جائے، اسی طرح مفتی نعیم کے غلط اقدامات کو یہ نہیں کہا جائے کہ ہم مکتب دیوبند کیخلاف پروپیگنڈا کر رہے ہیں، ہم یہ کہتے ہیں کہ شخصیت کے جرائم پر پردہ ڈالنے کیلئے مسلک کو استعمال نہیں کیا جانا چاہیئے، مسلک کو کوئی برا نہیں کہہ رہا، لیکن یہ لوگ مسلک کو اپنے جرائم پر پردہ ڈالنے کیلئے ڈھال کے طور پر استعمال کرتے ہیں، تمام مکاتب فکر خصوصاً مکتب دیوبند کے لوگوں کو یہ بات سوچنی چاہیئے کہ اگر کسی ایک شخص کے عمل سے وہ مسلک بدنام ہو رہا ہے تو اس شخص کو الگ کر دینا چاہیئے، کنارہ کشی اختیار کر لینی چاہیئے، بجائے یہ کہ اس شخص کیلئے مسلک کو قربان کر دیا جائے، اس شخص کیلئے مسلک کو بدنام کر دیا جائے، مفتی نعیم نے جو جرم کیا ہے، یہ اس کا ذاتی اقدام ہے، اسے خود جھیلنا چاہیئے، نہ کہ مسلک کو استعمال کرے کہ دیوبند کیخلاف پروپیگنڈا کیا جا رہا ہے۔ اگر یہی اقدام کوئی شیعہ کرتا تو میں یہی کام شیعہ کیلئے بھی کرتا کہ تم نے بے گناہ انسانوں کے مرنے پر گواہی کیوں نہیں، تم نے کیوں نہیں بتایا کہ تم لوث تھے، تمہاری موجودگی تھی، تمہاری رضا مندی تھی، تم نے ثالث کا کردار ادا کیا، تم نے بھتے کی ڈیل کروائی، جس پر فیکٹری مالکان دس کروڑ دینے پر راضی ہوگئے، اور جب وہ دس کروڑ دینے پر راضی ہوگئے تو انہیں منع کرکے منافع میں پچاس فیصد شیئرز مانگا گیا، یہ سب مفتی نعیم کے علم میں تھا، اگر یہی طالب جوہری صاحب کے علم میں ہوتا اور وہ اس کو چھپاتے، تو میں ان کیلئے بھی کہتا کہ طالب جوہری صاحب نے بے گناہوں کے خون کا سودا کیا ہے۔ اگر ایک مسلمان ہونے کے ناتے تم ظلم کے خلاف جہاد نہیں کرسکتے تو ظلم کے خلاف گواہی تو دے سکتے ہو، لیکن گواہی دینا تو دور کی بات، آپ تو خود دہشتگردوں کو تحفظ دے رہے ہیں، دہشتگردوں کو بے گناہ ثابت کرنے کی کوششیں کر رہے ہیں، ان کے اس دہشتگردی، ان جرائم کے بعد نائن زیرو کے دورے کر رہے ہیں، جس کا تاثر یہ جا رہا ہے کہ الطاف حسین بہت نیک آدمی ہیں۔ لہٰذا یہ عمل شخصیت کا عمل ہے، اس کو مسلک سے نہیں جوڑو۔

اسلام ٹائمز: ایم کیو ایم اور پیپلز پارٹی کے درمیان، ایم کیو ایم اور تحریک انصاف کے درمیان سیاسی محاذ آرائی میں اضافہ دیکھنے میں آیا، لیکن اچانک اس محاذ آرائی کا خاتمہ ہوگیا، لوگ اسے سانحہ بلدیہ ٹاؤن فیکٹری کی جے آئی ٹی رپورٹ کا نتیجہ قرار دے رہے ہیں، جسکو اس وقت منظر عام پر لانے کا مقصد سینیٹ الیکشن سے جوڑا جا رہا ہے، کیا کہیں گے اس حوالے سے۔؟
آفاق احمد:
وقت غیر مناسب تھا، لیکن یہ چیز ایک طویل عرصے سے التوا کا شکار تھی اور حکومتوں نے دباؤ ڈال کر اسے روکے رکھا تھا، لیکن اب تمام دہشتگردی کے خلاف مقدمات پر کارروائی ہو رہی ہے، اس حوالے سے پاک فوج کی عوام کے ساتھ کمٹمنٹ ہے، اس لئے یہ جے آئی ٹی بھی منظر عام پر آگئی ہے، جسے حکمرانوں نے روکا ہوا تھا، اس کا سینیٹ انتخابات سے کوئی تعلق نہیں ہے، لیکن چونکہ وقت غیر مناسب تھا، لہٰذا عوام میں کنفیوژن پیدا ہوئی کہ متحدہ کو دباؤ میں لا کر سینیٹ انتخابات کے حوالے سے پیپلز پارٹی کی طرف دھکیلنا تھا۔

اسلام ٹائمز: سانحہ شکارپور کیخلاف اہل تشیع مکتب فکر کیجانب سے سندھ حکومت کیخلاف لانگ مارچ کیا جا رہا ہے، کیا کہیں گے اس لانگ مارچ کے حوالے سے۔؟
آفاق احمد:
دہشتگردی کیخلاف کوئی بھی جدوجہد کریگا، ہم اس کی حمایت کرینگے، ان کے ساتھ کھڑے ہونگے، ان کے ساتھ شانہ بشانہ کھڑے ہونگے، انکے ساتھ بھرپور تعاون کرینگے، انکا ساتھ دینگے۔

اسلام ٹائمز: ملک بھر اور خصوصاً کراچی سے دہشتگردی کے خاتمے کیلئے کیا تجاویز دینا چاہیں گے۔؟
آفاق احمد:
کراچی سے دہشتگردی کا خاتمہ ہو یا ملک بھر سے دہشتگردی کا خاتمہ ہو، اگر اس میں تفریق ہوگی تو کوئی بھی عمل اپنے منطقی انجام تک نہیں پہنچ پائے گا، جب آئین میں ترمیم کی گئی اور اس میں مذہبی انتہا پسندی کا لفظ استعمال کیا گیا تو اس پر ہمیں دکھ ہوا، اسلئے کہ پوری قوم نے اپنی یکجہتی اور اتحاد کا مظاہرہ کیا تھا دہشتگردی کے خلاف، تو دہشتگردی کسی مذہبی جماعت کی طرف سے ہو ، چاہے کسی سیاسی جماعت کی طرف سے ہو، دہشتگردی دہشتگردی ہوتی ہے، جرم جرم ہوتا ہے، یہ نہیں ہوسکتا کہ آفاق کرے تو جرم، الطاف کرے جرم نہیں ہے، آئینی ترامیم میں امتیاز برتا گیا ہے، جس کی وجہ سے مجھے خوف و خطرہ ہے کہ جو نتائج حاصل ہونے چاہیئے تھے وہ حاصل نہ ہوسکیں، تجاویز یہی ہیں کہ دہشتگردوں اور مجرموں کے درمیان تفریق نہیں کرنی چاہیئے، کراچی کو مکمل طور پر ڈی ویپانائز کرنا چاہیئے، تاکہ خوف و دہشتگردی کا خاتمہ ہو، لوگوں میں تحفظ کا احساس ہو، تاکہ یہاں بیرونی سرمایہ کار آئیں، کراچی جو کہ جغرافیائی لحاظ سے انتہائی اہمیت کا حامل ہے، پورٹ سٹی ہونے کے باعث اور سستی لیبر ہونے کی وجہ سے بھی، اگر یہاں صرف امن و امان فراہم کر دیا جائے تو دنیا بھر سے سرمایہ کاری یہاں آئے اور پاکستان معاشی طور پر اتنا مضبوط بن جائے گا کہ نہ صرف یہ کہ اپنے قرضے اتار دے گا بلکہ دیگر ممالک کو قرضہ دینے کی پوزیشن میں آ جائے گا، بے روزگاری کا خاتمہ ہوگا، تعلیم کے بجٹ میں اضافے سے شرح خواندگی میں اضافہ ہوگا، تعلیمی معیار میں اضافے سے ملک خود بخود ترقی کریگا اور پھر ہم مضبوط معیشت کے بعد پاکستان کی دفاعی صلاحیت میں اضافہ کرسکتے ہیں۔
خبر کا کوڈ : 440714
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

Khalid Hameed
Pakistan
Very good interviw , Afaq Ahmed is a brave man and your news portal too.
ہماری پیشکش