0
Thursday 19 Feb 2015 18:53
گوادر سمیت تمام پراجیکٹ کی مال غنیمت کی طرح تقسیم جاری ہے

بلوچستان میں شیعہ ہزارہ قوم کو 15 سالوں سے ٹارگٹ کیا جاتا رہا، لیکن کبھی ملٹری کورٹس نہیں بنے، سردار اختر مینگل

پہلے 100 افراد مرتے تھے اب 50 مرتے ہے، حالات میں‌ کوئی خاص تبدیلی نہیں‌ آئی
بلوچستان میں شیعہ ہزارہ قوم کو 15 سالوں سے ٹارگٹ کیا جاتا رہا، لیکن کبھی ملٹری کورٹس نہیں بنے، سردار اختر مینگل
سردار اختر جان مینگل بلوچستان کے معروف سیاستدان اور سابق وزیراعلٰی کے طور پر خدمات سرانجام دینے والے ایک ممتاز بلوچ قوم پرست رہنما اور مینگل قبیلے کے نواب زادہ ہیں۔ وہ عطاءاللہ مینگل کے صاحب زادے اور بلوچستان نیشنل پارٹی (مینگل) کے چیئرمین ہیں۔ 1997ء تا اکتوبر 1999ء تک رہنے والی بلوچستان اسمبلی کے پہلے قائد ایوان سردار اختر مینگل تھے۔ تقریباً اٹھارہ ماہ تک قائد ایوان رہنے کے بعد سردار اختر مینگل اکثریت کا اعتماد کھو دینے کی بناء پر مستعفی ہوئے۔ سردار اختر جان مینگل اس طویل مدت میں خود ساختہ جلاوطنی کاٹنے کے بعد 2012ء میں پاکستان آئے اور سپریم کورٹ میں مسئلہ بلوچستان کے حل کیلئے چھ نکات پیش کئے۔ 2013ء کے انتخابات میں ایک بار پھر آپ بلوچستان صوبائی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے۔ سردار اختر جان مینگل سے لاپتہ افراد سمیت صوبہ بلوچستان کی مجموعی صورتحال کے بارے میں ’’اسلام ٹائمز‘‘ نے ایک مختصر انٹرویو کیا، جو قارئین کے لئے پیش خدمت ہے۔ (ادارہ) 
 
اسلام ٹائمز: کیا آپ موجودہ حکومت کے اس دعوے کی تائید کرینگے کہ صوبے میں امن و امان کی صورتحال میں بہتری آئی ہے۔؟ 
سردار اختر مینگل:
میں اگر کچھ کہو تو وہ ماننے سے انکار کر دینگے، لیکن آپ خود صحافی ہیں، اگر حالات میں بہتری آتی تو کوئٹہ سمیت پورے بلوچستان میں آج بھی لوگ اس طرح سہمے ہوئے نہیں ہوتے۔ اگر یہاں قبرستان میں‌ قبروں کی تعداد میں‌ اضافے کو بہتری کہا جاتا ہے تو بالکل بہتری آئی ہے۔ کسی ماں کی گود اُجڑنے یا باپ کے بڑھاپے کا سہارا چھن جانے کو بہتری کہتے ہے، تو بالکل بہتری آئی ہے۔ جب مشرف اقتدار میں تھا تو اس وقت بھی بہتری کی باتیں‌ ہوتی تھی۔ 
 
اسلام ٹائمز: حکومت کا کہنا ہے کہ مکمل طور پر تو بہتری نہیں‌ آئی لیکن ماضی کی بہ نسبت بہتری ضرور لائی گئی ہے۔؟ 
سردار اختر مینگل:
مارنے والے کون ہیں۔؟ چاہے سو افراد مریں یا ایک شخص مارا جائے۔ انکے مارنے والوں کو آج تک پکڑا گیا ہے۔؟ اگر سو افراد کی تعداد کو کم کرکے پچاس کردی گئی ہے تو کیا وہ پچاس انسان نہیں۔ 
 
اسلام ٹائمز: اس سے قبل آپکے آبائی علاقے خضدار میں روزانہ قتل و غارت گری کی اطلاعات آتی تھی، لیکن اب اس میں کافی کمی واقع ہوئی ہے۔؟ 
سردار اختر مینگل:
بالکل اس میں کوئی شک نہیں، کیونکہ وہاں پر ڈیتھ اسکواڈز سرگرم تھے۔ انکو ختم نہیں کیا گیا ہے، انکو او ایس ڈی کرا دیا گیا ہے۔ اسی ضلع میں دیگر علاقوں کو اگر آپ دیکھیں تو اس دوران کتنے لوگ لاپتہ ہوئے ہیں۔؟ کسی ایک بھی لاپتہ بلوچ کی بازیابی کا مجھے علم نہیں۔ 
 
اسلام ٹائمز: پشتونخوامیپ کے چیئرمین محمود خان اچکزئی صاحب کیساتھ ماضی میں آپکے بڑے اچھے تعلقات رہے ہیں، پونم کا مشترکہ پلیٹ فارم بھی کافی توجہ کا مرکز رہا۔ کیا وجہ ہے کہ اب دونوں جانب سے کافی خاموشی ہے۔؟ 
سردار اختر مینگل:
محمود خان اچکزئی صاحب میرے لئے قابل احترام ہیں۔ پونم کا پلیٹ فارم بھی انہوں نے بنایا تھا اور اسکی قیادت انکے ہاتھ میں تھی۔ لیکن 98ء کے بعد وہ صرف بیانات کی حد تک رہی اور آخر کار 11 مئی کو اسکی تدفین بھی خود انہوں نے کر دی۔ جسکا صلہ آج انہیں اقتدار کی شکل میں ملا ہے۔ 
 
اسلام ٹائمز: ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ صاحب نے کئی مرتبہ یہ اعلانات کئے ہیں کہ مسئلہ بلوچستان کے حل کیلئے اے پی سی بلائی جائے گی۔ تو کیا انہوں نے اس ضمن میں آپ سے رابطہ کیا۔؟ 
سردار اختر مینگل:
اب تک تو انہوں‌ نے اس سلسلے میں مجھ سے کوئی رابطہ نہیں کیا۔ جب آخری مرتبہ 2014ء میں اسلام آباد میں اے پی سی ہوئی تھی، تو اس میں مجھے بھی بلایا گیا تھا اور میرے احتجاج پر بلوچستان کا ایشو اجلاس کے ایجنڈے میں شامل کیا گیا۔ یہ وعدہ بھی کیا گیا تھا کہ اس سلسلے میں اے پی سی بلائی جائے گی۔ جسے میں سمجھتا ہوں کہ میرے احتجاج کو ڈفیوز کرنے کیلئے انہوں نے یہ بات کی، کیونکہ اے پی سی بلانے میں اتنی تاخیر کیوں ہو رہی ہے۔؟ باقی معاملات میں ایک دن میں اے پی سی اور ایک ہی دن میں آئین سازی بھی کی جاتی ہے۔ لیکن بلوچستان کے معاملے میں انہیں مشکلات پیش آتی ہیں۔  دیکھیئے اے پی سی بلانا آسان ہے، لیکن اسکے فیصلوں پر عملدرآمد کرانا ایک الگ مسئلہ ہے۔ کیا وزیراعلٰی ڈاکٹر مالک کے پاس یہ اختیار ہے کہ جنکو وہ ناراض بلوچ کہتے ہیں، ان سے مذاکرات کرسکیں۔ صرف چائے کا کپ پینے سے مذاکرات کامیاب نہیں‌ ہونگے۔ جب تک آپ عملی اقدامات نہیں کرتے۔ کیا وزیراعلٰی بلوچستان نے لاپتہ افراد کا معاملہ حل کیا۔؟ 
 
اسلام ٹائمز: آپکی جماعت مرکزی اہمیت رکھتی ہے، اگر اے پی سی میں آپکو دعوت دی جائے تو کیا آپ شرکت کرینگے۔؟ 
سردار اختر مینگل:
اگر پہلے بلاتے تو میں شاید شرکت کرلیتا، لیکن اب جن کے پاس اختیار نہیں صرف ایک فوٹو سیشن کیلئے اس اے پی سی میں شرکت کرنے کا فائدہ کیا۔ انہیں چاہئے تھا کہ پہلے یہ سلسلہ ختم کرواتے تو صرف میں نہیں دوسرے ناراض افراد بھی آتے۔ 
 
اسلام ٹائمز: بلوچستان اسمبلی کے آپ ممبر بھی منتخب ہوئے، لیکن اسمبلی میں آپ آتے ہی نہیں، اسکی کیا وجہ ہے۔؟ 
سردار اختر مینگل:
بالکل میں نے پارٹی فیصلے کے مطابق حلف اٹھایا۔ اس دوران بیماری کی وجہ سے میں بیرون ملک بھی چلا گیا، لیکن میں 88ء سے اسمبلی میں رہا ہوں۔ ہم نے باتیں بھی کئیں اور قراردادیں بھی پیش کی، لیکن بلوچستان کو خود مرکز میں کوئی اہمیت نہیں تو جب اسمبلی میں، میں باتیں‌ کرونگا تو کس پر اثر انداز ہوگا۔؟ 
 
اسلام ٹائمز: کیا اٹھارویں ترمیم کے بعد صوبائی خود مختاری کا مسئلہ حل نہیں ہوا۔؟ 
سردار اختر مینگل:
ہاں خیرات میں اضافہ ہوا ہے، لیکن خیرات اور حق میں فرق ہے۔ خیرات انہیں چاہیئے تھی جنہوں نے اٹھارویں ترمیم پر دستخط کئے۔ اسی وجہ سے انہیں اقتدار بھی ملا۔ مجھے بتائیں کہ کیا اس میں یہ درج ہے کہ آئندہ بلوچستان اپنے مستقبل کا فیصلہ خود حل کرے گا۔؟ یا بلوچستان کے لوگوں کو یہ اختیار حاصل ہے کہ ایف سی کو کہاں پر تعینات کیا جائے۔ یا ایف سی کو کیسے کنٹرول کیا جائے۔ پولیس آئی جی کا اختیار بھی ہمارے صوبے کو نہیں۔ اسکے علاوہ چیف سیکرٹری کا عہدہ بھی اسی طرح ہے۔ 
 
اسلام ٹائمز: میاں محمد نواز شریف کیساتھ آپکے تعلقات کیسے ہیں آج کل۔؟ 
سردار اختر مینگل:
ایک محاورہ ہے کہ "کیجئے اشارہ دور دور سے" اب وہ بھی نہیں ہے۔ میاں‌ صاحب سے میں آخری مرتبہ اے پی سی میں ملا تھا۔ جس میں میں شرکت ہی نہیں کرنا چاہتا تھا، کیونکہ اس سے دوسرے صاحب اختیار افراد کو ناراضگی ہوتی تھی۔ ان کی ناراضگی کی وجہ سے میاں صاحب نے مجھ سے آنکھیں چرا لیں۔ 
 
اسلام ٹائمز: سانحہ پشاور کے بعد فوجی عدالتوں کے قیام پر آپکا کیا موقف ہے۔؟ 
سردر اختر مینگل:
آپ سے پہلے بھی میری گفتگو ہوئی کہ ہمارے لئے یہ کوئی نئی بات نہیں۔ ملٹری کا کوئی ملزم ہوگا، اسے گرفتار کرینگے، تفتیش کرکے ملٹری کورٹس میں بھیجیں گے، پھر اسکو سزا ہوگی۔ کیا بلوچستان میں شیعہ ہزارہ قوم کا خون دس پندرہ سالوں سے نہیں بہایا گیا۔؟ ہمارا صوبہ اس مذہبی انتہا پسندی کو پچھلے پندرہ سالوں‌ سے بھگت رہا ہے، لیکن اس پر کسی نے کورٹس بنانے کی بات نہیں کی۔ 
 
اسلام ٹائمز: کیا گوادر پراجیکٹ کو چین کے حوالے کرنے سے آپ مطمئن ہیں۔؟ 
سردار اختر مینگل:
گوادر کو چھوڑیں، یہاں کی ہر چیز دوسروں کے حوالے کی جا رہی ہے۔ مال غنیمت کی طرح تقسیم کا عمل سالوں سے جاری ہے۔ چین کو دیدیں اور روس سمیت سب کو دیدو لیکن بلوچ شہداء کے وارثین کو نہیں‌ دینا۔
خبر کا کوڈ : 441617
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش